جب کبھی جی میں آئے تو آزما لینا مجھ کو
لہو بھی دیں گے چراغوں میں جلانے کے لیے
وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے
اب وہ قربتیں بھی گئیں
دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز
محبتیں تو گئی تھیں
عداوتیں بھی گئیں
لُبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے
ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں
غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا
وہ جراتیں بھی گئیں
وہ جسارتیں بھی گئیں
نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل
ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں
دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیارسو
اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں
ہوئے ہیں جب سے برہنہ ضرورتوں کے بدن
خیال و خواب کی پنہاں نزاکتیں بھی گئیں
ہجوم سرو و سمن ہے نہ سیل نکہت و رنگ
وہ قامتیں بھی گئیں
وہ قیامتیں بھی گئیں