::: امامِ اعظم

  • Work-from-home

طارق راحیل

Active Member
Apr 9, 2008
247
189
1,143
38
Karachi
::: امامِ اعظم
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ :::
ابتدائی زندگی
آپ کا نام نعمان بن ثابت اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ نسلاَ َ عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا۔ لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔ ادب، علم انساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سےوہ وقتاَ َ فوقتاَ َ اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل ہے۔ شعور سنبھالنے کے بعد ایران و عراق اور دیگر ممالک کے سفر کے علاوہ آپ حجاز مقدس کا سفر اکثر اختیار کرتے اور وہاں کئی کئی ماہ قیام پذیر ہو کر اس دور کے جید علما کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتے۔
درس و تدریس
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ (میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاَ َ فارس سے ہیں) امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ (ہم کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی) تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے ۔
فقہہ حنفی
آپ فقہہ اسلامی کا درجہ رکھتے ہیں۔ فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضا بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
حق گوئی
جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کردیا۔ اور کہا کہ (اگریزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں) امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔
وفات
150ہجری میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔ اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کااظہار کیا۔ ابن جریح مکہ میں تھے۔ سن کر فرمایا (بہت بڑا عالم جاتا رہا) شعبہ بن المجاج نے کہا (کوفہ میں اندھیرا ہوگیا ) عبداللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہا (افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا) سلطان الپ ارسلان نے459ء میں ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔ امام صاحب میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہء امتیاز تھا۔
__________________
ہمیشہ خوش رہیں
اللہ حافظ​
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top