اہل سنت میں رافضیت کے بیج

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

اہل سنت میں رافضیت کے بیج

آج کل بہت سے اہل سنت کے علماء صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین پر سب و شتم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ان کے پس پردہ شیعہ حضرات نہیں بلکہ یہ ایک قدرتی ارتقائی عمل ہے جو چلا آ رہا ہے اور اب گل و گلزار پر اتر آیا ہے لہذا ان چہروں پر سے نقاب الٹنا ضروری ہے جو اس شجر خبیثہ کو اپنے قلم کی سیاہی سے سینچتے رہے اور اپنے نامہ اعمال سیاہ کر گئے

اہل سنت کے رافضی علماء کے پیچھے کون سے ہاتھ مخفی ہیں اس بلاگ کو پڑھ کر واضح ہو جائے گا

معاویہ رضی الله عنہ نے حجر بن عدی کا قتل کیا

مستدرک حاکم کی روایت ہے مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہیں معاویہ نے حجر کا قتل کروایا

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ الْحَرْبِيُّ، ثنا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: ” حُجْرُ بْنُ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ يُكَنَّى أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَانَ قَدْ وَفَدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَهِدَ الْقَادِسِيَّةَ، وَشَهِدَ الْجَمَلَ، وَصِفِّينَ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبَى سُفْيَانَ بِمَرْجِ عَذْرَاءَ، وَكَانَ لَهُ ابْنَانِ: عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ قَتَلَهُمَا مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ صَبْرًا، وَقُتِلَ حُجْرٌ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَخَمْسِينَ “


[التعليق – من تلخيص الذهبي]

5974 – سكت عنه الذهبي في التلخيص

اس کی سند میں مصعب بن عبد الله ہیں انہوں نے هِشَامِ بنِ عُرْوَةَ اور عبد الله بن معاوية وغیرہ سے سنا ہے جو ظاہر ہے بہت بعد کے ہیں لیکن معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرنے کے لئے امام حاکم اس روایت کے اس عیب کو نہیں دیکھتے اور بیان کر دیتے ہیں ایسا کیوں؟ یہ صحیحین پر کیسا استدراک ہے ؟

صحابی رسول حجر بن عدی کا قتل معاویہ رضی الله عنہ نے کروایا کیا اہل سنت اس کو تسلیم کرتے ہیں؟

امام حاکم کو اوہام نہیں تغیر ہوا اس کی کیا نوعیت تھی یہ بھی دیکھیں

امام حاکم مستدرک میں حدیث لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ الصَّفَّارُ وَحُمَيْدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ الزَّيَّاتُ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيَاضِ بْنِ أَبِي طَيْبَةَ، ثنا أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُدِّمَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْخٌ مَشْوِيٌّ، فَقَالَ: «اللَّهُمُ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي مِنْ هَذَا الطَّيْرِ» قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُمُ اجْعَلْهُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ» فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَبَسَكَ عَلَيَّ» فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ آخِرَ ثَلَاثِ كَرَّاتٍ يَرُدَّنِي أَنَسٌ يَزْعُمُ إِنَّكَ عَلَى حَاجَةٍ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ دُعَاءَكَ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَكُونَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ:
«إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ»


انس کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا پس ان کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ لایا گیا آپ نے دعا کی کہ اے الله اپنی خلقت میں سے سب سے محبوب بندے کو یہاں بھیج
جو اس کو میرے ساتھ کھائے …. پس علی آ گئے


یہاں تک کہ الذھبی کو تذکرہ الحفاظ میں کہنا پڑا


قال الحسن بن أحمد السمرقندي الحافظ, سمعت أبا عبد الرحمن الشاذياخي الحاكم يقول: كنا في مجلس السيد أبي الحسن, فسئل أبو عبد الله الحاكم عن حديث الطير فقال: لا يصح، ولو صح لما كان أحد أفضل من علي -رضي الله عنه- بعد النبي, صلى الله عليه وآله وسلم.
قلت: ثم تغير رأي الحاكم وأخرج حديث الطير في مستدركه؛ ولا ريب أن في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة, بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه. وأما حديث الطير فله طرق كثيرة جدًّا قد أفردتها بمصنف ومجموعها هو يوجب أن يكون الحديث له أصل. وأما حديث: “من كنت مولاه … ” فله طرق جيدة وقد أفردت ذلك أيضًا.


الشاذياخي کہتے ہیں ہم سید ابی الحسن کی مجلس میں تھے پس امام حاکم سے حدیث طیر کے سسلے میں سوال کیا انہوں نے کہا صحیح نہیں ہے اور اگر صحیح ہو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد علی سے بڑھ کر کوئی افضل نہ ہو گا
الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کے بعد امام حاکم کی رائے میں تغیر آیا
اور انہوں نے مستدرک میں حدیث طیر کو لکھا اور اس میں شک نہیں کہ مستدرک میں کتنی ہی حدیثیں ہیں جو صحت کی شرط پر نہیں بلکہ اس میں موضوع ہیں جن سے مستدرک کی شان کم ہوئی اور جہاں تک حدیث طیر کا تعلق ہے تو اس کے طرق بہت ہیں …. اور اس کا اصل نہیں


امام حاکم نے حدیث طیر کو مستدرک میں لکھا اس کی تصحیح کی اور اس طرح علی کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل قرار دیا

اسی قسم کی ان کی تصحیح پر ان کے قریب کے دور کے لوگوں نے ان کو رافضی کہا

یہ تغیر امام حاکم میں ایک ذہنی تبدیلی لایا ان کا موقف اہل سنت سے ہٹ کر رافضیوں والا ہوا –صاف لکھا ہوا ہے لیکن افسوس حقیقت چھپانے سے نہیں چھپ سکتی

اب اہل سنت کے ایک امام، امام احمد رحم الله – یہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے مخالف رہے- ان کے بقول خلافت تیس سال رہے گی لہذا اس امت میں بادشاہت کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ سے ہوا

مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن أبي الفضل صالح المتوفی ٢٦٦ ھ میں ہے کہ امام احمد کے بیٹے پوچھتے ہیں

قلت وَتذهب إِلَى حَدِيث سفينة قَالَ نعم نستعمل الْخَبَرَيْنِ جَمِيعًا حَدِيث سفينة الْخلَافَة ثَلَاثُونَ سنة فَملك أَبُو بكر سنتَيْن وشيئا وَعمر عشرا وَعُثْمَان اثْنَتَيْ عشر وَعلي سِتا رضوَان الله عَلَيْهِم

میں کہتا ہوں اور (کیا) آپ حدیث سفینہ پر مذھب لیتے ہیں امام احمد نے کہا ہاں

خلافت معاویہ رضی الله عنہ سے پہلے ہی ختم ہوئی یہ امام احمد کا قول ہے – بہت خوب یہ تعریف ہے؟

ایک صحابی رسول کو کس طرح خلفاء کی لسٹ سے نکال دیا گیا- یہ لوگ امیر المومنین معاویہ نہیں لکھ سکتے ان کو ملک معاویہ لکھنا چاہیے – لیکن دوغلی پالیسی پر عمل کرتے رہیں معاویہ اس امت کے بادشاہ تھے جو امیر المومنین تھے خلیفہ تھے اس حدیث کا ضعیف ہونا ظاہر ہے لیکن اس پر مذھب ہونے کے باوجود معاویہ رضی الله عنہ کو بادشاہ نہیں کہتے کیوں؟

یزید بن معاویہ کے لئے ابن حجر کتاب لسان المیزان میں لکھتے ہیں

“يزيد” بن معاوية بن أبي سفيان الأموي روى عن أبيه وعنه ابنه خالد وعبد الملك بن مروان مقدوح في عدالته وليس بأهل ان يروي عنه وقال أحمد بن حنبل لا ينبغي أن يروي عنه انتهى وقد وجدت له رواية في مراسيل أبي داود ونبهت عليها في النكت على الأطراف وأخباره


یزید بن معاویہ بن ابی سفیان اموی اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اس سے اس کا بیٹا خالد اور عبد الملک بن مروان – عدالت میں مقدوح ہے اور اس قابل نہیں کہ اس سے روایت کیا جائے اور احمد بن حنبل کہتے ہیں اس سے روایت نہیں لینی چاہیے انتھی اور میں نے مراسیل ابو داود میں اس کی روایت پائی اور اس پر النکت علی میں خبردار کیا ہے


خبردار کر رہے ہیں کہ غلطی ہو چکی ہے کسی احمق نے مراسیل میں یزید بن معاویہ سے روایت لے لی ہے بہت خوب جس کی صحابہ نے بیعت کی محدثین نے امیر المومنین لکھا امام احمد کے نزدیک مقدوح عدالت ہوا

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله
از السيد أبو المعاطي النوري – أحمد عبد الرزاق عيد – محمود محمد خليل کے مطابق

وقال مهنى بن يحيى: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية؟ قال: هو هو الذي فعل بالمدينة ما فعل، قلت: وما فعل؟ قال: نهبها. قلت: فيذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث، ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثًا. قلت: ومن كان معه حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام، قلت: وأهل مصر؟ قال: لا، إنما كان أهل مصر في أمر عثمان رضي الله عنه. «بحر الدم»
(1180) .


مهنى بن يحيى: کہتے ہیں میں نے امام احمد سے یزید بن معاویہ کے بارے میں پوچھا کہا یہ وہی ہے جس نے مدینہ میں جو چاہا کیا میں نے کہا اس نے ایسا کیا کیا ؟ بولے اس کو پامال کیا میں نے کہا کیا اس سے حدیث ذکر کی جائے؟ بولے نہیں اس کی حدیث ذکر نہیں کی جائے گی میں نے کہا اور وہ جو اس کے ساتھ اس افعال میں تھے کہا اہل شام میں نے پوچھا اور اہل مصر ؟ بولے نہیں مصر والے تو عثمان کے امر میں تھے

اسی کتاب میں امام احمد کا قول ہے

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو بكر. قال: لم يبايع ابن


الزبير، ولا حسين، ولا ابن عمر، يزيد بن معاوية في حياة معاوية. قال: فتركهم معاوية. «العلل» (4748)

عبد الله کہتے ہیں میرے باپ امام احمد نے کہا کہ ابو بکر نے کہا کہ نہ ابن زبیر اور نہ حسین اور نہ ابن عمر نے یزید بن معاویہ کی معاویہ کی زندگی میں بیت کی بولے پس معاویہ نے ان کو ترک کر دیا


بخاری اس کے برعکس بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر نے الله کے لئے یزید بن معاویہ کی بیعت کی اور کہا میں کوئی عذر نہیں جانتا جس پر اس شخص کی بیعت توڑ دوں


دوسری طرف امام احمد کا یہ قول کہ سب معاویہ سے دور رہے بھی صحیحین کی روایت کو مسخ کر رہا ہے

امام نسائی نے باقاعدہ علی رضی الله عنہ کے فضائل پر کتاب لکھی اور جب ان سے معاویہ کی فضیلت پر راویات پوچھ گئی تو انہوں نے کہا الله اس کا پیٹ نہ بھرے اس پر بلوا ہوا اور امام نسائی کا انتقال ہوا


اس افراط سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ صحابہ کی عدالت کو تسلیم کیا جائے لیکن بعض اہل سنت افراط کا شکار ہوئے اور اب روافض اور ان میں کوئی فرق نہیں

ان للہ و ان الیہ راجعون


محدثین کی اس گمراہی سے ہم برات کا اظہار کرتے ہیں ان کے تغیرات و اوہام یا غفلۃ یا کسی اور مذھب پر ہم اپنا عدل صحابہ کا نظریہ نہیں بدل سکتے




 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

علی تمام صحابہ سے افضل ہیں

امام حاکم کو اوہام نہیں تغیر ہوا اس کی کیا نوعیت تھی یہ بھی دیکھیں

امام حاکم مستدرک میں حدیث لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ الصَّفَّارُ وَحُمَيْدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ الزَّيَّاتُ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيَاضِ بْنِ أَبِي طَيْبَةَ، ثنا أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُدِّمَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْخٌ مَشْوِيٌّ، فَقَالَ: «اللَّهُمُ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي مِنْ هَذَا الطَّيْرِ» قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُمُ اجْعَلْهُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ» فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَبَسَكَ عَلَيَّ» فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ آخِرَ ثَلَاثِ كَرَّاتٍ يَرُدَّنِي أَنَسٌ يَزْعُمُ إِنَّكَ عَلَى حَاجَةٍ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ دُعَاءَكَ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَكُونَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ»


انس کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا پس ان کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ لایا گیا آپ نے دعا کی کہ اے الله اپنی خلقت میں سے سب سے محبوب بندے کو یہاں بھیج جو اس کو میرے ساتھ کھائے …. پس علی آ گئے


یہاں تک کہ الذھبی کو تذکرہ الحفاظ میں کہنا پڑا

قال الحسن بن أحمد السمرقندي الحافظ, سمعت أبا عبد الرحمن الشاذياخي الحاكم يقول: كنا في مجلس السيد أبي الحسن, فسئل أبو عبد الله الحاكم عن حديث الطير فقال: لا يصح، ولو صح لما كان أحد أفضل من علي -رضي الله عنه- بعد النبي, صلى الله عليه وآله وسلم.
قلت: ثم تغير رأي الحاكم وأخرج حديث الطير في مستدركه؛ ولا ريب أن في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة, بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه. وأما حديث الطير فله طرق كثيرة جدًّا قد أفردتها بمصنف ومجموعها هو يوجب أن يكون الحديث له أصل. وأما حديث: “من كنت مولاه … ” فله طرق جيدة وقد أفردت ذلك أيضًا.


الشاذياخي کہتے ہیں ہم سید ابی الحسن کی مجلس میں تھے پس امام حاکم سے حدیث طیر کے سسلے میں سوال کیا انہوں نے کہا صحیح نہیں ہے اور اگر صحیح ہو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد علی سے بڑھ کر کوئی افضل نہ ہو گا
الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کے بعد امام حاکم کی رائے میں تغیر آیا


اور انہوں نے مستدرک میں حدیث طیر کو لکھا اور اس میں شک نہیں کہ مستدرک میں کتنی ہی حدیثیں ہیں جو صحت کی شرط پر نہیں بلکہ اس میں موضوع ہیں جن سے مستدرک کی شان کم ہوئی اور جہاں تک حدیث طیر کا تعلق ہے تو اس کے طرق بہت ہیں …… اور اس روایت کی کوئی اصل ہے

امام حاکم نے حدیث طیر کو مستدرک میں لکھا اس کی تصحیح کی اور اس طرح علی کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل قرار دیا

اسی قسم کی ان کی تصحیح پر ان کے قریب کے دور کے لوگوں نے ان کو رافضی کہا

یہ تغیر امام حاکم میں ایک ذہنی تبدیلی لایا ان کا موقف اہل سنت سے ہٹ کر رافضیوں والا ہوا –صاف لکھا ہوا ہے لیکن افسوس حقیقت چھپانے سے نہیں چھپ سکتی

ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں کہ امام حاکم نے سند دے دی ہے لہذا ان پر جرح نہیں کی جا سکتی


کیاضعیف اور موضوع روایت کو امام حاکم نے صحیح نہیں کہا ؟ انہوں نے نہ صرف سند دی بلکہ کہا شیخین کی شرط پر صحیح ہے


امام الذھبی بھی حاکم کو بچانے کے لئے لکھتے ہیں کہ حدیث طیر کا اصل ہے خوب ہے- اگر اصل ہے تو یہ کہ علی سب سے افضل تھے تو اس کو ببانگ دھل مان کیوں نہیں لیتے؟


معاویہ اس امت کے پہلے بادشاہ ہیں؟

اب اہل سنت کے ایک امام، امام احمد – یہ بھی معاویہ رضی الله عنہ کے مخالف رہے- ان کے بقول خلافت تیس سال رہے گی لہذا اس امت میں بادشاہت کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ سے ہوا

مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن أبي الفضل صالح المتوفی ٢٦٦ ھ میں ہے کہ امام احمد کے بیٹے پوچھتے ہیں

قلت وَتذهب إِلَى حَدِيث سفينة قَالَ نعم نستعمل الْخَبَرَيْنِ جَمِيعًا حَدِيث سفينة الْخلَافَة ثَلَاثُونَ سنة فَملك أَبُو بكر سنتَيْن وشيئا وَعمر عشرا وَعُثْمَان اثْنَتَيْ عشر وَعلي سِتا رضوَان الله عَلَيْهِم

میں کہتا ہوں اور (کیا) آپ حدیث سفینہ پر مذھب لیتے ہیں امام احمد نے کہا ہاں

خلافت معاویہ رضی الله عنہ سے پہلے ہی ختم ہوئی یہ امام احمد کا قول ہے – بہت خوب یہ تعریف ہے؟

امام نسائی نے باقاعدہ علی رضی الله عنہ کے فضائل پر کتاب لکھی اور جب ان سے معاویہ کی فضیلت پر راویات پوچھ گئی تو انہوں نے کہا الله اس کا پیٹ نہ بھرے اس پر بلوا ہوا اور امام نسائی کا انتقال ہوا


ایک صحابی رسول کو کس طرح خلفاء کی لسٹ سے نکال دیا گیا- یہ لوگ امیر المومنین معاویہ نہیں لکھ سکتے ان کو ملک معاویہ لکھنا چاہیے – لیکن دوغلی پالیسی پر عمل کرتے رہیں معاویہ اس امت کے بادشاہ تھے جو امیر المومنین تھے خلیفہ تھے اس حدیث کا ضعیف ہونا ظاہر ہے لیکن اس پر مذھب ہونے کے باوجود معاویہ رضی الله عنہ کو بادشاہ نہیں کہتے کیوں؟


اس افراط سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ صحابہ کی عدالت کو تسلیم کیا جائے لیکن اہل سنت افراط کا شکار ہوئے اور اب روافض اور بعض غیر مقلدین میں کوئی فرق نہیں

انا للہ و انا الیہ راجعون

محدثین کی اس گمراہی سے ہم برات کا اظہار کرتے ہیں ان کے تغیرات و اوہام یا غفلۃ یا کسی اور مذھب پر ہم اپنا عدل صحابہ کا نظریہ نہیں بدل سکتے
یزید بن معاویہ کی روایت رد کرو

یزید بن معاویہ کے لئے ابن حجر کتاب لسان المیزان میں لکھتے ہیں

“يزيد” بن معاوية بن أبي سفيان الأموي روى عن أبيه وعنه ابنه خالد وعبد الملك بن مروان مقدوح في عدالته وليس بأهل ان يروي عنه وقال أحمد بن حنبل لا ينبغي أن يروي عنه انتهى وقد وجدت له رواية في مراسيل أبي داود ونبهت عليها في النكت على الأطراف وأخباره


یزید بن معاویہ بن ابی سفیان اموی اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اس سے اس کا بیٹا خالد اور عبد الملک بن مروان – عدالت میں مقدوح ہے اور اس قابل نہیں کہ اس سے روایت کیا جائے اور احمد بن حنبل کہتے ہیں اس سے روایت نہیں لینی چاہیے انتھی اور میں نے مراسیل ابو داود میں اس کی روایت پائی اور اس پر النکت علی میں خبردار کیا ہے


خبردار کر رہے ہیں کہ غلطی ہو چکی ہے کسی احمق نے مراسیل میں یزید بن معاویہ سے روایت لے لی ہے بہت خوب جس کی صحابہ نے بیعت کی محدثین نے امیر المومنین لکھا امام احمد کے نزدیک مقدوح عدالت ہوا

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله
از السيد أبو المعاطي النوري – أحمد عبد الرزاق عيد – محمود محمد خليل کے مطابق

وقال مهنى بن يحيى: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية؟ قال: هو هو الذي فعل بالمدينة ما فعل، قلت: وما فعل؟ قال: نهبها. قلت: فيذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث، ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثًا. قلت: ومن كان معه حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام، قلت: وأهل مصر؟ قال: لا، إنما كان أهل مصر في أمر عثمان رضي الله عنه. «بحر الدم» (1180) .

مهنى بن يحيى: کہتے ہیں میں نے امام احمد سے یزید بن معاویہ کے بارے میں پوچھا کہا یہ وہی ہے جس نے مدینہ میں جو چاہا کیا میں نے کہا اس نے ایسا کیا کیا ؟ بولے اس کو پامال کیا میں نے کہا کیا اس سے حدیث ذکر کی جائے؟ بولے نہیں اس کی حدیث ذکر نہیں کی جائے گی میں نے کہا اور وہ جو اس کے ساتھ اس افعال میں تھے کہا اہل شام میں نے پوچھا اور اہل مصر ؟ بولے نہیں مصر والے تو عثمان کے امر میں تھے

اسی کتاب میں امام احمد کا قول ہے

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو بكر. قال: لم يبايع ابن


الزبير، ولا حسين، ولا ابن عمر، يزيد بن معاوية في حياة معاوية. قال: فتركهم معاوية. «العلل» (4748)

عبد الله کہتے ہیں میرے باپ امام احمد نے کہا کہ ابو بکر نے کہا کہ نہ ابن زبیر اور نہ حسین اور نہ ابن عمر نے یزید بن معاویہ کی معاویہ کی زندگی میں بیت کی بولے پس معاویہ نے ان کو ترک کر دیا


بخاری اس کے برعکس بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر نے الله کے لئے یزید بن معاویہ کی بیعت کی اور کہا میں کوئی عذر نہیں جانتا جس پر اس شخص کی بیعت توڑ دوں

دوسری طرف امام احمد کا یہ قول کہ سب معاویہ سے دور رہے بھی صحیحین کی روایت کو مسخ کر رہا ہے

یزید بن معاویہ کے بارے میں قول طبقات الحنابلہ میں بھی موجود ہےاور کہا جاتا ہے کہ مہنا بن یحیی نے ٤٣ سال امام احمد کے ساتھ گزارے

أبو عبد الله مهنا بن يحيى الشامي السلمي، من كبار أصحاب الإمام أحمد، لزمه 43 سنة، وكان الإمام أحمد يكرمه، ويعرف له حق الصحبة، ورحل معه إلى عبد الرزاق، وصحبه إلى أن مات، ومسائله أكثر من أن تحد من كثرتها، وكتب عنه عبد الله بن أحمد مسائل كثيرة عن أبيه لم تكن عند عبد الله أبيه ولا عند غيره


طبقات الحنابلة (1/345)، ميزان الاعتدال (4/197)، المقصد الارشد (3/43).

امام احمد کے اس قول کی سند طبقات حنابلہ میں ہے

أَخْبَرَنِي بركة الدلال أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيم بْن عبد العزيز حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مهنا قَالَ: سألت أَحْمَد عَنْ معاوية بْن أبي سفيان فقال: له صحبة فقلت: ومن أين هو قَالَ: مكي قطن الشام. حَدَّثَنَا مهنا قَالَ: سألت أَحْمَد عَنْ يَزِيد بْن معاوية فقال: هو الذي فعل بالمدينة ما فعل قلت: وما فعل قَالَ: نهبها قلت: فيذكر عنه الحديث قَالَ: لا تذكر عنه الحديث ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثا قلت: ومن كان معه بالمدينة حين فعل ما فعل قَالَ: أهل الشام قلت: وأهل مصر قَالَ: لا إنما كان أهل مصر فِي أمر عثمان.


اس حوالے کو جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا جاتا ہے الذھبی نے لکھا ہے ابن حجر نے لکھا ہے اور حنابلہ تو بڑے شوق سے اس کو بیان کرتے ہیں

امیر یزید کے حوالے سے ان لوگوں کا بھی خبث باطن چھلکتا رہتا ہے مثلا

زبیر علی زئی رحم الله لکھتے ہیں کہ

یزیدکے بارے میں سکوت کرنا چاہیے،حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے۔

(ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 6 ، صفحہ8 )





مزید لکھتے ہیں کہ


جب صحابی رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ یزید شرابی ہےاور نمازیں بھی ترک کردیتا ہے تو صحابی کے مقابلے میں تابعی کی بات کون سنتا ہے؟

(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث،شمارہ نمبر107،صفحہ 15)





حدیث کی روایت میں امیر یزید کو مجروح کہتے والا پہلا شخص امام احمد ہے جس کی تقلید میں یہ کہا جا رہا ہے

روایت کو ایسے بیان کیا کہ صحیح ہو سب کہنے کے بعد اس کے رد میں کچھ نہ لکھا اور یہ کہہ کر باب بند کیا کہ روایت ثابت نہیں اگر ثابت نہیں تو اس کا رد کہاں ہے


مزید لکھتے ہیں کہ







یعنی یزید کی مخالفت میں ضعیف سے ضعیف روایت بھی حسن و صحیح ہے اور ان کی تضعیف کرنے والا ناصبی ہے

کیا خوب علمی بصیرت پائی ہے

ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ یزید کا تارک صلوہ ہونا ثابت نہیں اور دوسرے مقام پر کہتے ہیں کہ

ایسے لوگ آئیں گے جو نماز ضائع کر دیں گے اور ابن کثیر اس کو یزید کے لئے کہتے ہیں


زیادہ ضعیف حدیثیں پڑھنے سے یہی ہوتا ہے کہ انسان کو خود یاد نہیں رہتا کہ کیا ضعیف تھا اور کیا صحیح تھا


 
Top