جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو ہم اس حکومت کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہیں مگر ہم نے کسی بھی امکان کے لیے اپنے کان کھلے رکھے ہیں۔ ماضی کی امریکی حکومتوں سے برعکس ہم ایسے نتائج کے منتظر ہیں جن سے صرف خطے کو ہی نہیں بلکہ ایرانی عوام کو بھی فائدہ پہنچے۔
اگر کسی کو، خصوصاً ایرانی رہنماؤں کو صدر کے اخلاص یا ان کی سوچ پر شبہ ہے تو وہ شمالی کوریا کے ساتھ ہماری سفارت کاری کا جائزہ لیں۔ کم جانگ ان سے ملاقات پر ہماری رضامندی سے ٹرمپ انتظامیہ کا یہ عزم نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے کہ وہ بڑے مسائل حتیٰ کہ ہمارے پکے دشمنوں سے بھی سفارت کاری کے ذریعے نمٹنا چاہتی ہے۔ تاہم اس رضامندی کے ساتھ دباؤ کی ایک تکلیف دہ مہم بھی شامل ہے جو اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی بابت ہمارے ارادے کا اظہار ہے۔
میں آیت اللہ، صدر روحانی اور دوسرے ایرانی رہنماؤں سے کہتا ہوں یہ بات سمجھ لیں کہ آپ کی موجودہ سرگرمیوں سے آہنی عزم کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
آج میرا آخری پیغام دراصل ایرانی عوام کے لیے ہے۔ میں صدر ٹرمپ کے اکتوبر میں کہے گئے الفاظ دہرانا چاہتا ہوں۔ صدر ترمپ نے کہا تھا کہ ‘ہم ایرانی حکومت کے دیرینہ متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو کہ ایرانی عوام ہیں۔ ایران کے عوام نے اپنے رہنماؤں کی جانب سے تشدد اور انتہاپسندی کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایرانی عوام اپنے ملک کی فخریہ تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی واپسی نیز ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعاون کی بحالی کے متمنی ہیں۔
امریکہ کو امید ہے کہ امن اور سلامتی کے لیے ہماری کوششیں طویل عرصہ سے مصائب کا شکار ایرانی عوام کے لیے ثمرآور ثابت ہوں گی۔ ہم انہیں ماضی کی طرح خوشحال اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی حالت پہلے سے بہتر ہو۔
آج امریکہ کو اس مقصد کے حصول کی خاطرہ نئی راہ اختیار کرنے پر فخر ہے۔ شکریہ (تالیاں)
مس جیمز: بے حد شکریہ۔ آپ نے بے باکانہ، جامع اور واضح باتیں کیں۔ یہ پیغام دینے کے لیے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا انتخاب کرنے پر ہم آپ کے قدردان ہیں۔ آپ نے اپنی تقریر میں ہمارے بہت سے اتحادیوں، دوستوں اور شراکت داروں کا تذکرہ کیا جن میں بہت سے ناراض اور کچھ مایوس ہیں۔ آپ انہیں اپنے ساتھ کیسے ملائیں گے؟ آپ انہیں ہمارے ساتھ لانے کے لیے اپنی بہترین سفارتی صلاحیتوں کا کیسا استعمال کریں گے؟
وزیرخارجہ پومپئو: جب دنیا کے ممالک کسی مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ تزویراتی تبدیلیاں بھی ایک ساتھ رونما ہوتی ہیں جبکہ یہ سب کچھ مشترکہ مفاد اور اقدار سے شروع ہوتا ہے۔ میں نے وزیرخارجہ کی حیثیت سے اپنے ابتدائی چند ہفتے یہ دیکھنے میں گزارے کہ اس معاہدے کو کیونکر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے یورپی ہم منصبوں سے بات کی۔ میں وہاں گیا۔ میں وزیرخارجہ کی حیثیت سے اپنے 13ویں گھنٹے میں برسلز میں اپنے یورپی ہم منصبوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ مگر ہم ایسا نہ کر سکے۔ ہم میں اتفاق نہ ہو سکا۔
امریکہ اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ سفارتی اقدامات پر کڑی محنت کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہماری توجہ یورپیوں پر ہے مگر دنیا بھر میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جو ہمارے خدشات سے اتفاق کرتے ہیں اور جنہیں ایرانی حکومت سے اتنا ہی خطرہ ہے جتنا ہمیں لاحق ہے۔ یہ مشترکہ مفاد ہے، یہ اقدار کا وہ مجموعہ ہے جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ یہ کام کرے گا، دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے معاون کو عالمی سطح پر جواب دیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ممکن ہے۔ میری ٹیم اس مقصد کے لیے تندہی سے کام کر رہی ہے۔ ہم اپنے تمام شراکت داروں کے خدشات سے نمٹنے کے تناظر میں یہ کام کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ اس بارے میں وسیع احساس پایا جائے گا کہ صدر ٹرمپ کی بیان کردہ حکمت عملی ہی ایران کو اس جگہ لا سکتی ہے جہاں وہ ایک دن ہم سب کی خواہش کے مطابق دوبارہ تہذیب یافتہ دنیا کا حصہ بن جائے گا۔
مس جیمز: آج آپ کے بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کڑی پابندیاں چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے خدشہ باقی ہے کہ آپ جوہری خطرات سے کیسے نمٹیں گے۔ کیا آپ اس پر کچھ بات کر سکتے ہیں؟ یہاں مجھے اپنے سامعین سے کہنا ہے کہ میری خواہش تھی ہمیں وزیرخارجہ کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا موقع ملتا۔ انہیں سی آئی اے کی جانب اور حلف برداری کی تقریب میں جانا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ انہیں تاخیر ہو۔ چنانچہ ہمیں بتائیں کہ ۔۔۔
وزیر خارجہ پومپئو: مجھے ایک مرتبہ پھر واپس جانا ہے۔
مس جیمز: ایک مرتبہ پھر (قہقہہ)
وزیرخارجہ پومپئو: دیکھیے جوہری معاملہ تو لازمی ہے۔ یقینی طور پر یہ سب سے بڑا اور سب سے سنگین خطرہ ہے۔ جے سی پی او اے ناکام رہا۔ یہ محض تاخیر تھی۔ ہمارا مقصد اس معاملے کو مستقل طور سے حل کرنا ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں اپنے شراکت داروں کو کڑے اقدامات اٹھانے کو کہتے ہیں۔ ہم ان کے سامنے معاہدہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘آپ کو یہ کچھ کرنا ہے’ اور وہ کہتے ہیں ‘ایرانی افزودہ کر رہے ہیں’۔ یہ معقول بات ہے۔ مجھے یہ معقول نکتہ دکھائی دیتا ہے۔
ایران سے ہمارے مطالبات غیرمعقول نہیں ہیں۔ ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ اپنا پروگرام ترک کر دیں۔ اسے بند کر دیں۔ اگر وہ واپس جاتے ہیں، اگر وہ افزودگی شروع کر دیتے ہیں تو ہم دونوں صورتوں میں اپنا ردعمل دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں آج آپ سے اپنے ردعمل کی بابت تفصیلاً بات نہیں کروں گا۔ مگر ہم ان کی بات سن رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ مختلف فیصلہ کریں گے اور مختلف راستہ چنیں گے۔ ہم اس راہ پر ان کا خیرمقدم کرتے ہیں جسے خطے کے دوسرے ممالک بھی اختیار کر رہے ہیں۔
مس جیمز: کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ یہ پابندیاں کیسی ہوں گی اور آپ ہمارے یورپی دوستوں کو نقصان پہنچائے بغیر ایرانی حکومت کو کیسے ہدف بنائیں گے؟
وزیرخارجہ پومپئو: جب بھی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو دوسرے ممالک کو متاثرہ ملک سے کاروباری سرگرمیاں ترک کرنا پڑتی ہیں۔ چنانچہ امریکیوں نے خاصے طویل وقت کے لیے ایران کے ساتھ معاشی سرگرمی ترک کر دی ہیں اور میں یہ تسلیم کروں گا کہ امریکہ میں بھی ایسی کمپنیاں ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنا پسند کریں گی۔ ایران بہت بڑی منڈی ہے۔ وہاں بہت بڑی تعداد میں متحرک اور غیرمعمولی لوگ ہیں۔ مگر ہر ایک کو پابندیوں کے اس عمل میں شامل ہونا ہو گا۔ ہر ملک کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ہم قاسم سلیمانی کے دولت پیدا کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔
آخر میں رقم انہی کے پاس گئی تھی۔ معیشت ننے انہیں مشرق وسطیٰ میں سرگرمیوں کے قابل بنایا۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ان کی معاشی صلاحیت کا دم گھونٹا جائے جس کی بدولت وہ مشرق وسطیٰ اور دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ جوہری پروگرام سستے میں نہیں چلتے۔ ہم جوہری ہتھیاروں کا نظام بنانے کے لیے ان کی صلاحیت بھی محدود کر دیں گے۔
مس جیمز: آپ نے نہایت بے باکانہ انداز میں منصوبہ بیان کیا۔ کیا آپ نے کسی خاص وقت میں یہ سب کچھ انجام دینا ہے؟
وزیرخارجہ پومپئو: اب پابندیاں دوبارہ نافذ ہو چکی ہیں اور آئندہ 100 یوم میں بتدریج آگے بڑھیں گی۔ ابھی مزید بہت سا کام باقی ہے۔ یہ ہماری حکومت کے تمام شعبہ جات کا مشترکہ کام ہے۔ یقیناً ہم سفارتی محاذ پر آگے ہیں تاہم محکمہ تجارت اور محکمہ دفاع سمیت ہم سب صدر ٹرمپ کے دیے ایک ہی مقصد کے لیے مصروف عمل ہیں۔ میں اس حوالے سے کوئی وقت طے نہیں کر سکتا، تاہم آخر میں ایرانی عوام ہی وقت طے کریں گے۔ آخر میں ایرانی عوام کو ہی اپنی قیادت کے حوالے سے انتخاب کرنا ہو گا۔ اگر وہ فوری فیصلہ کرتے ہیں تو یہ بہت اچھا ہو گا۔ اگر انہوں نے کوئی قدم نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تو ہم ان نتائج کے حصول تک سختی کا مظاہرہ کریں جن کا میں نے آج تذکرہ کیا ہے۔
مس جیمز: ہیریٹیج فاؤنڈیشن اور ان مسائل پر طویل عرصہ سے کام کرنے والے سکالرز کی جانب سے ہم آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بے باکانہ، واضح، جامع اور کھلی سوچ تھی اور ہم آپ کو اور صدر کو مبارک باد پیش کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://www.instagram.com/doturdu/
https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/