ایک دل دہلا دینے والی داستان

  • Work-from-home

sonofaziz

TM Star
Dec 28, 2015
1,044
679
1,213
Karachi


میں فرنٹ آفس میں داخل ہوا۔

“ سر، یہ اسٹوڈینٹ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ میں نے بتایا کہ کلاس ختم ہونےمیں دو گھنٹے ہیں اور فوری آپ کی دوسری کلاس ہے۔ مگر وہ دوگھنٹے سے بیٹھی ہے“۔ میری سیکرٹری نے کہا۔ “ ٹھیک ہے پانچ منٹ کے بعد اندر بھیج دو۔“ میں نے سیکرٹری کی بات کو نظر انداز کر کے کہا۔ کیونکہ میرے اسٹوڈینٹ ہمیشہ مشورہوں کے لیے بے وقت آتے جاتے ہیں ۔

آفس میں داخل ہوکر میں نے اپنےاسکیجول پرنگاہ ڈالی۔ اگلی کلاس آدھا گھنٹے بعد اسی فلور پر پڑھانا تھی۔ میں نےاندازہ لگایا، دس منٹ کلاس روم تک پہنچنے کے، دس منٹ نوٹس اور لیکچر کے کاغذات کو اکٹھے کرنے کے۔ میرے پاس اس لڑکی کے لیےصرف دس منٹ بچتے تھے۔

دروزاہ کھلا اور وہ خاموشی سے آ کر ڈیسک کے قریب کھڑی ہوگی۔ وہ چھوٹے قد کی ایک قبول صورت لڑکی تھی ۔جس کے کمر تک کالے لمبے بال ایک ربر بینڈ کی مدد سے پونی ٹیل بنے ہوئے تھے۔

“ بولو“۔

اس نے ایک پرچہ میرے سامنے رکھ دیا۔

“ یہ کیا؟۔ تمہارا اسائنمنٹ! تمہیں پتہ ہے کہ میں اسائنمنٹ نہیں دیکھتا۔ اسے اپنے مقررہ ٹیچر اسسیٹنٹ کو دے دو “۔

“ نہیں۔ یہ اسائنمنٹ نہیں ہے۔ مجھے آپ سے میرے سوال کا جواب چاہیے۔ مجھے بتائے کہ میں کیا کروں؟“ اُسکی آواز میں اضطراب تھا مگر مضبوطی اور سختگی بھی۔

“ ٹھیک ہے ۔ باہر انتظار کرو“۔ میں نے کہا۔

اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ خاموشی سے مڑی اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

میں نےاپنے پڑھانے کے کاغذات جمع کر کے بریف کیس میں رکھے اور آنکھ بند کرکے آرام کرنے لگا۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو گھڑی کے مطابق اب میرے پاس دس منٹ رہ گئےتھے۔ میں ڈسیک پر رکھے ہوئے پرچے کو بھول چکا تھا۔

دروازہ کی طرف بڑھتے ہوے مجھےخیال آیا کہ وہ لڑکی باہر بیٹھی ہوگی۔ ایک سیکنڈ کے لیےمیں نےسوچا کہ بازو کےدروازے سے نکل جاؤں وہ دیکھ نہ پائے گی۔ مگر شرم محسوس ہوئی ۔ میں نے پرچے کو اُٹھایا اورصوفے پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔

“ میرا نام سدرہ ہے ۔ کچھ عرصہ پہلےمیری ملاقات شبنم سے ہوئی۔ ہم دونوں فوراً دوست بن گے۔ شبنم بہت بےباک ہے اور لڑکے اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ لڑکوں کےساتھ اکیلی بھی جاتی ہے۔ میں شروع سے ہی اس کے دوستوں سے دور رہی۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ پارٹیوں میں لے جانا چاہتی تھی۔ میں منع کردیتی تھی۔ ایک دن اس نے مجھےاپنے ایک دوست سے ملایا۔ جاوید اسکا نام ہے ۔وہ کالج کے آخری سال میں ہے۔ جاوید سندر ہے۔ اور میں اُسے پسند کرنے لگی۔ تھوڑا عرصہ بعد شبنم کے کہنے پر ہم تینوں باہر ملنے لگے۔ شبنم کے ساتھ ہمیشہ ایک نیا دوست ہوتا تھا اور میں نےسننا تھا کہ ان لوگوں سے شبنم کا ملاپ دوستی سے کچھ ذیادہ تھا جس کا مجھے بالکل یقین نہیں آیا۔ جاوید مجھ سے ہمیشہ اچھی طرح پیش آتا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جاوید اور میں نے ا کیلا ملنا شروع کردیا۔ ہم نےایک دوسرے کے بوسے لینے سے ذیادہ کچھ نہیں کیا۔ میں جاوید کی محبت میں گرفتار ہوگی۔

کچھ عرصہ گزرا اور ایک میچ ملانے والی ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نےماں کو بتایا کہ ایک عزت دار اور مالدار گھرانا اپنے لڑکے کے لیے ایک قبول صورت ،گھریلو، کم پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش میں ہے ۔ تمہاری لڑکی ایسی ہی ہے۔ لڑکا ماشا اللہ خوبصورت ہے اور جلد ہی تعلیم ختم کر کے باپ کے ساتھ بزنس میں شرکت کرے گا۔ ماں نےمجھ سے پوچھا۔ میں نے ماں سے کہا میں ابھی شادی نہیں کروں گی۔ میں کالج کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔

کچھ دنوں بعد لڑکے کی فیملی مجھے دیکھنے آٰئی اور مجھے پسند کیا۔ اس کے بعد ایک دن وہ لڑکے کو لائے تاکہ میں بھی پردے سےاس کو دیکھ سکوں۔ میں تو جاوید کی محبت میں گرفتار تھی اور اس سے مل بھی رہی تھی۔ میں نےلڑکے کو دیکھنےسے انکار کردیا۔ اور ماں سے کہا میں شادی نہیں کروں گی۔ ماں باپ کو لڑکا اور گھرانا پسند آیا اور شادی طے ہوگی۔ میں بہت روئی مگر کوئی چاراء نہ تھا۔ میرا گھر سے باہر نکلنا بند ہوگیا۔ میں جاوید سے مل بھی نہ سکی۔ شادی کا دن آیا اور میں دولہن بنی بیٹھی تھی۔ دروازہ کھلا اور میرا شوہر کمرے میں داخل ہوا ۔میں نے گھونگٹ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ کون! یہ تو جاوید ہے۔ میرا دل خوشی میں زور زور سےدھک دھک کرنے لگا۔ یا اللہ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ تیری مہربانی ہے۔ میں نےقدموں کے قریب آنے کی آواز سننی ۔ اب میرا دل زور و شور سے ڈھڑک رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جاوید بھی اس ملاپ پر خوش ہوگا۔ جاوید نےمیرا گھونگٹ اُٹھایا۔ مجھے دیکھ کر جاوید کےچہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ مجھے ایسا لگا جیسے اُسے سانپ نے کاٹ لیا ہو اور وہ غصہ میں چلایا۔“ آوارہ ، طوائف “۔ پھر وہ بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ میں سارا رات روئی ۔ میں نے کیا غلطی کی ؟۔ میں خراب لڑکی نہیں ہوں۔

دوسرے دن جاوید کے گھر والوں نے مجھے میرے باپ کے گھر بھیج دیا اور طلاق مانگی۔ تمام کوششوں کے باوجود ہماری طلاق ہو رہی ہے۔ میرے اور جاوید کے خاندان کو میرے آوارہ ہونے پر یقین آگیا ہے۔ میرا اب کوئی نہیں ہے۔ میں کیا کروں؟ پروفیسر میں کیا کروں؟ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اس کا جواب ہے۔ اگر آپ کے پاس اسکا جواب نہیں تو میں خود کشی کرلوں گی“۔

میں اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔

وہ فرنٹ آفس میں نہیں تھی ۔

“ وہ لڑکی کہاں ہیں؟ میں سیکرٹری پرچلایا۔

“ سر وہ ابھی باہر نکلی ہے۔ آپ اس کو لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے پکڑ لیں گے“۔ سکریٹری نے بوکھلا کر کہا۔

“ میری کلاس کنسیل کردو“۔ میں دروازے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا۔

لفٹ کےقریب کوئی نہیں تھا۔ سیدھے ہاتھ پر دوسری منزل کا بیس فٹ چوڑا کھلا برآمدہ تھا۔ میں اس طرف دوڑا۔ وہ برآمدہ کی تین فٹ دیوار پر کھڑی تھی۔

“ ٹھہرو ، میرے پاس حل ہے“ ۔ میں نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت استعمال کی اور دیوار کی طرف دوڑا۔ مگر وہ جاچکی تھی۔۔۔

دیوار کے پاس پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا۔ وہ منہ کے بل زمیں پر تھی اس کی بانہیں دونوں طرف اُڑتے پرندے کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کے لمبے بال بکھر گئے اور بالوں نے اُسکے اوپری جسم کو ڈھانپ لیا ۔

سامنے کے درخت پر ایک چیل نے چیغ ماری اور محو پرواز ہوئی ۔

“ دیکھو میں تمھارے بغیر بھی اُڑتی ہوں“۔ چیل پھر چلائی۔

میرا دل چیخا ۔ مگر میری زبان نے ساتھ نہ دیا۔

میرا دل رویا۔ مگر میری آنکھوں نے انکار کردیا۔

صرف ہاتھوں نے ساتھ دیا وہ فضا میں بلند ہوئے اور میں اپنا سر پکڑ کرفرش پر بیٹھ گیا۔

@shehr-e-tanhayi @muttalib @Mazyona @Aaylaaaaa @Bird-Of-Paradise @Parisa_ @Princess_Nisa @Princess_E @Shiraz-Khan @AishLyn @Umm-e-ahmad @imama @iammehakali @Aliean @Dil-Wale @chai-mein-biscuit @Ahmad-Hasan @fahadhassan @Don @RedRose64 @saviou @Abidi @Aayat @Aina_ @Armaghankhan @Angel_A @Ajnabhi @-Anna- @*Arshia* @Aks_ @Aaidah @Aizaa @Arzoomehak @Ayesha-Ali @Hoorain @Zombiie
 
Top