حجاب کے احکام

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


حجاب کے احکام

نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں لونڈیاں پردہ نہیں کرتی تھیں صرف آزاد عورتیں چادر پہنتی تھیں تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہ محترم ہیں – اس کی دلیل بخاری کی حدیث ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو صفیہ رضی الله عنہا خیبر میں ملیں – لوگوں میں بات ہوئی کہ اب نبی ان کو بیوی بنائیں گے یا لونڈی- لہذا جب اپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو چادر کا حکم دیا تو لوگوں نے جان لیا کہ وہ لونڈی نہیں بیوی ہیں

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَقَامَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِطَرِيقِ خَيْبَرَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، حَتَّى أَعْرَسَ بِهَا، وَكَانَتْ فِيمَنْ ضُرِبَ عَلَيْهَا الحِجَابُ


عینی عمدہ القاری ج ١٧ ص ٢٤٥ میں لکھتے ہیں

(وَكَانَت) أَي: صَفِيَّة (فِيمَن ضرب عَلَيْهَا الْحجاب) أَي: كَانَت من أُمَّهَات الْمُؤمنِينَ، لِأَن ضرب الْحجاب إِنَّمَا هُوَ على الْحَرَائِر لَا على ملك الْيَمين.


کہ ان صفیہ پر پردہ تھا کہ وہ امہات المومنین میں سے تھیں کیونکہ پردہ لینا الْحَرَائِر پر تھا لونڈیوں پر نہ تھا


اس سے ظاہر ہے کہ لونڈیوں کے لئے پردہ نہیں – آزاد عورتوں کے لئے تھا- پردہ کرنے کا تعلق بے حیائی سے نہیں کیونکہ مسلم عورتیں اس وقت بھی حیا دار تھیں جب پردہ کا حکم نہ تھا

صحیح بخاری کی روایت ہے

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر ادا كرتے تو آپ كے ساتھ مومن عورتيں بھى اپنى چادريں لپيٹ كر نماز ميں شامل ہوتيں، اور پھر وہ اپنے گھروں كو واپس ہوتى تو اندھيرا ہونے كى بنا پر انہيں كوئى بھى نہيں پہچانتا تھا


اس کا مطلب ہے کہ عام عورتوں کا چہرے کا پردہ نہیں کیا جاتا تھا ورنہ روشنی ہونے پر لوگ ان کو دیکھ کر پہچان جاتے

چہرے کے پردے کی دور رکاز قیاسی دلیلیں دی جاتی ہیں کہ

عورت فتنہ ہے

چہرہ کھلا رکھنا بے حیائی ہے

مرد مائل ہوتے ہیں

لیکن یہ سب دلائل بودے ہیں کیا پردے کی آیات سے پہلے عورتیں فتنہ نہ تھیں

کہا جاتا ہے کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے اور أبو داود كي روايت پیش کی جاتی ہے اسماء رضی الله عنہا ایک باریک لباس پہن کر آئیں

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: يَعْقُوبُ ابْنُ دُرَيْكٍ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «هَذَا مُرْسَلٌ، خَالِدُ بْنُ دُرَيْكٍ لَمْ يُدْرِكْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا»


ابو داود نے خود اس روایت کو ضعیف کر دیا کیونکہ راوی خَالِدُ بْنُ دُرَيْك کا عائشہ رضی الله عنہ سے سماع ثابت نہیں

کیا ستر کے اصول بدل سکتے ہیں ؟ نہیں دین میں جو چیز پہلے دن سے حیا میں نہیں وہ بعد میں اس میں کیسے شامل ہو سکتی ہے شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان میں نسخ و منسوخ نہیں ہوتا

بخاری کی حدیث ہے انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ احد کی جنگ میں ، میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا، ان دونوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا ہوا تھا اور مجھے ان کی پازیب نظر آرہی تھی۔ وہ اپنی پیٹھوں پر پانی کے مشکیزے اٹھا کر تیزی سے لوگوں کے منہ میں انڈیل رہی تھیں، پھر وہ واپس جا کر مشکیزوں کو بھرتیں اور آکر ان کو لوگوں کے منہ میں انڈیلتیں


ام المومنین اور ام سلیم میدان جنگ میں تھیں اور دونوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا ہوا تھا

اصل میں پردہ کا حکم تو ایک مسلمان عورت کے ساتھ یہودیوں دکان داروں کے غیر مناسب رویہ پر دیا گیا تھا – مسلمانوں کے لئے عورتیں نہ اس وقت بے حیا ہو رہی تھیں نہ وہ فتنہ بن رہی تھیں بلکہ فتنہ تو مدینہ کے بعض شر پسند اہل کتاب پھیلا رہے تھے جو جھوٹی افواہیں پھیلا رہے تھے

الله نے حکم دیا

اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بیویوں اورصاحبزادیوں سے اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ، اس سے ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر وہ ستائي نہ جائيں گی ، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے
الاحزاب ( 59 ) ۔

سوره نور میں حکم دیا گیا

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَبِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَايُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْنِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَبِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَايُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ


اور مومنات سے کہیں کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے اور اوڑھنی لیں اور اپنی زینت سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، ایاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں النور ( 31 )۔


معلوم ہوا کہ نوکر چاکر یا غلام سے بھی پردہ نہیں- اس کے علاوہ اوڑھنی لینے کے بعد کچھ ظاہر ہو جائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن برقعہ پہنے کی صورت میں یہ گنجائش بھی ختم ہو جائے گی- لہٰذا جو سہولت دین میں ہو اس پر شدت اختیار کرنا الله کے حکم میں اضافہ کے مترادف ہے ایسی ہی قسم کی پابندیاں یہودیوں نے اپنے اوپر لگا رکھی تھیں جن سے اسلام میں آزادی دی گئی اور قرآن میں ان کو اغلال کہا گیا

یہاں تک کہ سوره نور میں سسر سے پردہ بھی نہیں کہا گیا ہے لیکن صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تصرف کر کے الفاظ کا مفہوم تبدیل کر دیا جاتا ہے حدیث ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ؟ قَالَ: «الحَمْوُ المَوْتُ»


عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے پاس داخل ہونے میں احتیاط کرو پس انصار میں سے کسی نے پوچھا اور اگر حمو ہو تو کہا حمو موت ہے


رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ خلوت میں کوئی عورتوں کے ساتھ نہ رہے اگر یہ عورتیں ان کی نا محرم ہوں

شرح صحيح البخارى لابن بطال کے مطابق طبری کہتے ہیں

أن خلوة الحمو بامرأة أخيه أو امرأة ابن أخيه بمنزلة الموت فى مكروه خلوته بها


عورت کی حمو کے ساتھ خلوت دیور یا بھتیجے کے ساتھ تو وہ موت کی طرح مکروہ ہے


لیکن الحمو میں سسر کو بھی داخل کر دیا جایا ہے جبکہ قرآن کے مطابق اس سے پردہ نہیں ہے

یہ بھی دین میں اضافہ ہے اور اغلال ہے

چہرے کے پردے کی دلیل میں روایت پیش کی جاتی ہے

جب تم ميں سے كوئى شخص بھى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجے اور اس سے منگنى كرنا چاہے تو اس كے ليے اسے ديكھنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھنا چاہتا ہو، چاہے وہ عورت كى لاعلمى ميں ہى اسے ديكھ لے “


اس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس سے مراد عورت کی زینت دیکھنا ہے اور نبی نے اس کا حکم دیا ہے- کہا جاتا ہے

ہر كوئى جانتا ہے كہ شادى كا پيغام دينے والے شخص كا مقصد خوبصورتى حاصل كرنا ہے

حالانکہ صحیح حدیث میں ہے کہ عورت کا دین دیکھ کر اس سے نکاح کرو نہ کہ حسن – لہذا یہ اس حدیث کی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد عورت کی دین میں سمجھ ہے

چہرے کے پردے کی دلیل میں کہا جاتا ہے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب عورتوں كو عيد كے ليے عيد گاہ جانے كا حكم ديا تو عورتوں نے عرض كيا
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كے پاس ہو سكتا ہے پردہ كرنے كے ليے چادر اور اوڑھنى نہ ہو ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اس كى ( مسلمان ) بہن كو چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنى اوڑھا دے ”

صحيح بخارى اور صحيح مسلم

یہ بات قرآن کے حکم کے مطابق ہے کہ مومن عورتیں چادر لیں اس کا نفس مسئلہ سے کیا تعلق؟

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ»، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَاءُ بِذُيُولِهِنَّ؟ قَالَ: «يُرْخِينَ شِبْرًا»، فَقَالَتْ: إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ، قَالَ: «فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا، لَا يَزِدْنَ عَلَيْهِ»، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


ابن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں – تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ ايك بالشت تك نيچے لٹكا كر ركھيں – كہنے لگيں پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نہيں”

جامع ترمذى

اس روایت کو بھی چہرہ کے پردہ کی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس میں اس کا ذکر تک نہیں – مسلمان عورتیں قرآن کے حکم کے مطابق چادر اوڑھتی تھیں لیکن چہرہ کے پردے کی کوئی دلیل نہیں – یہ حکم تھا تو اس کی کوئی صریح دلیل کیوں نہیں ؟

صحیح مسلم کی حدیث ہے جابر بن عبداللہ (رضی اﷲ عنہما)سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ پھر آپ بلال کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا اور اللہ کی اطاعت کی رغبت دلائی۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر چل کر عورتوں کے پاس آئے، ان کو وعظ و نصیحت کی اور فرمایا: صدقہ و خیرات کرو، کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔ پھر عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی عورت، جس کے رخساروں کا رنگ سرخی مائل سیاہ (سفعاء الخدین) تھا، نے کہا: اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیونکہ تم شکویٰ شکایت بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ راوی کا قول ہے کہ عورتیں اپنے زیورات کو صدقہ و خیرات میں دینے لگیں اور وہ بلال (رضی اللہ عنہ) کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔


کہا جاتا ہے کہ اتفاقا پردہ سرک گیا ہو گا یا ہو سکتا ہے بوڑھی عورت ہو لیکن یہ دور رکاز تاویلات ہیں اگر پردہ سرک گیا تھا تو رسول الله نے پردے کی تاکید کیوں نہیں کی

کہا جاتا ہے ہو سکتا ہے یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو – لیکن

صحیح بخاری کی روایت ہے جس کو فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے عبد الله بن عباس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں

عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں موجود تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اگر میں چھوٹا نہ ہوتا تو عید میں موجود نہ ہوتا (آپ عید کے لیے نکلے) یہاں تک کہ کثیر بن الصلت کے گھر کے پاس اس جگہ پہنچے جہاں عید گاہ کا نشان تھا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی (راوی کا قول ہے کہ پھر آپ نیچے اترے۔ گویا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے نیچے بٹھا رہے ہیں پھروہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے عورتوں تک آئے اور آپ کے ساتھ بلال تھے۔ (پھر کہا: ’’اے نبی، جب تمھارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی‘‘ (الممتحنہ ۶۰: ۱۲)) پھر آپ یہ آیت پڑھنے کے بعد فارغ ہوئے تو پوچھا: کیا تم اس بات پر ہو؟ (یعنی اس بات پر بیعت کرتی ہو)۔ ایک عورت کے سوا کسی نے آپ کو جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ہاں، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، (راوی کا قول ہے کہ آپ نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا) (راوی کا قول ہے: پھر بلال نے کپڑا پھیلا دیا اور کہا: آؤ۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں)، پھر میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ بڑھا بڑھا کر صدقہ کو (ایک روایت میں ہے کہ وہ چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں) بلال کے کپڑے میں ڈال رہی ہیں۔ پھر آپ بلال کے ہمراہ اپنے گھر چلے گئے)۔


یہاں بھی عورتوں کے ہاتھ صحابی کو نظر آ رہے ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم منع نہیں کرتے

امہات المومنین اور چہرے کا پردہ

چہرے کے پردے کا ذکر ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے لئے ملتا ہے

مسلم کی حدیث ہے

عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ سودہ رضی الله عنہا جب حجاب لینا شروع کیا اس کے بعد حآجت کے لئے نکلیں اور وہ جسیم تھیں کہ کسی سے ان کا تعارف چھپا نہ رہتا پس عمر بن خطاب نے ان کو دیکھا اور کہا اے سودہ اللہ کی قسم آپ ہم سے چھپ نہیں سکتیں


قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ


اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو


یعنی بے دھڑک گھر میں داخل نہ ہو یہ وہ اداب ہیں جن پر بعض لوگوں کا عمل نہ تھا

بخاری کی حدیث ہے

حَدثنَا مُسَدّد، عَن يحيى، عَن حميد، عَن أنس قَالَ: قَالَ عمر: ” قلت: يَا رَسُول الله، يدْخل عَلَيْك الْبر والفاجر، فَلَو أمرت أُمَّهَات الْمُؤمنِينَ بالحجاب، فَأنْزل الله – عز وَجل – آيَة الْحجاب


عمر رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہا اے رسول الله آپ کے پاس نیک و فاجرسب اتے ہیں تو اپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں پس الله نے حجاب کی آیات نازل کی


حالت احرام اور امہات المومنین کے چہرے کا پردہ


حالت احرام میں امہات المومنین کے چہرے کا پردہ بھی نہ رہا

أبو داود مين حديث ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْجُنَيْدِ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهَا، قَالَتْ: «كُنَّا نَخْرُجُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ فَنُضَمِّدُ جِبَاهَنَا بِالسُّكِّ الْمُطَيَّبِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، فَإِذَا عَرِقَتْ إِحْدَانَا سَالَ عَلَى وَجْهِهَا فَيَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَنْهَاهَا


ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں مکہ کے لئے اور ہم نے ماتھے پر خوشبو دار پٹی باندھی ہوئی تھیں احرام کی حالت میں پس جب کسی کو پسینہ آتا تو وہ نبی سے اپنے چہرے سے سوال کرتی اور ان کو منع نہیں کیا گیا


احرام کی حالت میں چہرہ پر کپڑا لگ جائے تو کوئی حرج نہیں اور پٹی باندھنا ظاہر کرتا ہے کہ چہرہ پر کوئی کپڑا نہ تھا ورنہ ماتھے سے بہنے والا پسینہ روکنے کے لئے پٹی باندھنا ضروری نہ ہوتا – چادر سے پوچھ لیا جاتا

پردے کے حق میں روایت پیش کی جاتی ہے سنن ابو داود میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ


ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں ، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں


البانی اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں


پلو لٹکانا بمقابلہ ڈھاٹا باندھنا

قرآن کا حکم ہے

اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادر کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ “


( الاحزاب : 59 )

پلو یا گھونگٹ کو ڈھاٹے سے بدلنا صحیح نہیں

سوره احزاب 5 ہجری میں نازل ہوئی ، واقعہ افک 6 ہجری میں پیش آیا ، عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح بخاری کتاب المغازی کی حدیث میں ہے کہ میں انتظار میں اسی جگہ بیٹھی رہی جہاں پہلے پڑاؤ تھا ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ، صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں آئے ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور اونچی آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ، جس سے میں میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔


یعنی ام المومننیں نے پلو سے چہرہ چھپا لیا باقاعدہ کوئی سلا ہوا ڈھاٹا نما حجاب انہوں نے نہیں پہنا ہوا تھا جیسا کہ آجکل عورتیں کرتی ہیں – نہ امہات المومنین دستانے پہنتیں تھیں جیسا کہ آج کل بعض دین دار خواتین نیکی سمجھ کر کرتی ہیں – ہر وہ عمل جو امہات المومنین کے عمل سے بڑھ جائے تو دین میں غلو ہے

الغرض نتائج یہ ہیں

اول آزاد مسلم عورتوں کا چہرے کا پردہ دور نبوی میں نہ تھا – آزاد مسلم عورتیں چادر لیتیں اور پلو لٹکاتیں لیکن ایسا نہیں کہ چہرہ ڈھاٹے میں ہو

دوم لونڈی غلام مسلم عورتوں کا کسی بھی قسم کا پردہ دور نبوی میں نہ تھا

سوم امہات المومنین چہرہ کا پردہ عام حالات میں کرتیں

چہارم حالت احرام میں نہ لونڈیاں نہ آزاد مسلم عورتیں نہ امہات المومنین – کوئی بھی چہرے کا پردہ نہ کرتی تھیں

البانی نے کتاب الرد المفحم على من خالف العلماء وتشدد وتعصب وألزم المرأة أن تستر وجهها وكفيها وأوجب ولم يقنع بقولهم: إنه سنة ومستحبة میں علماء پر خوب جرح کی ہے جو چہرے کے پردے کو سنت و مستحب کہتے ہیں بلکہ ان علماء کو علم حدیث سے عاری قرار دیا ہے جو عام عورتوں کے چہرے کے پردے کے حق میں ہیں


 
Top