زلزلے اسلام کی نظر میں

  • Work-from-home

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
زلزلے اسلام کی نظر میں

آج کل زلزلے اور طوفان بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے اور طوفان کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت ،تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے ۔ پچھلے دنوں پاکستان اور کشمیر میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا جس سے بے شمار جان و مال کی تباہی ہوئی تھی۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں "الٹی میٹم" کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
كُنَّا عندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فانكسفَتْ الشمسُ ، فقام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجُرُّ رداءَهُ حتى دخل المسجدَ ، فدخلنا ، فصلَّى بنا ركعتانِ حتى انجلَتْ الشمسُ ، فقال صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنَّ الشمسَ والقمرَ لا ينكسفانِ لموتِ أَحَدٍ ، فإذا رأيتموهما فصلُّواْ وادْعُواْ ، حتى يُكْشَفَ ما بِكُمْ .
(صحیح البخاری: 1040)

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو داغ لگ گیا، (معمولی سورج گہن ہوتا ہے تو دیکھیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ اپنی بالائی چادر زمین پر کھینچتے ہوئے جارہے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے،ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے، ہمیں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج بالکل صاف ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا، جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، یہاں تک کہ گہن دور ہوجائے۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ جلدی میں ایک دوپٹہ اٹھا لی یہاں تک کہ آپ کو اندازہ ہوا تو آپ نے اسے رکھ کر چادر اٹھائی، حدیث کے الفاظ ہیں : فأخذ درعًا حتى أدرك بردائِه . فقام للناس قيامًا طويلاً یعنی پریشانی میں آپ نے اپنی کسی بیوی کی بڑی چادر اٹھا لی اور آپ چلے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔ پھر مسجد میں جاکر آپ نے نماز شروع کی، اور نہایت لمبی نماز ادا فرمائی، اس قدر لمبا قیام اور رکوع اور سجود کیا کہ راوی کہتے ہیں: اس سے لمبا قیام اور رکوع اور سجود میں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا ہوگا۔
(صحیح مسلم : 906)

جب کبھی ہوا چلتی، یا آسمان میں بادل چھاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دگر گوں ہونے لگتی تھی، آگے آتے پیچھے جاتے گھر میں داخل ہوتے، گھر سے باہر نکلتے، آپ کے چہرے کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی، جب بارش ہونے لگتی تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان میں بدلی یا ہوا دیکھتےتو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا، عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ ممکن ہے بارش ہوگی لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب آپ بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائشةُ ، ما يُؤَمَّنِّني أن يكونَ فيهِ عذابٌ ؟ عُذِّبَ قومٌ بالريحِ ، وقد رأَى قومٌ العذابَ ، فقالوا : هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔
(صحیح البخاری، ( 4828

اے عائشہ ! آخر مجھے کونسی چیزمامون کرسکتی ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہے جبکہ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا ،انہوں نے جب عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے : “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا”

یہ وہی بادل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ :

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورہ احقاف 24)

پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا” نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے”۔

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو،پس اس کو راضی کرلو۔

مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زناکوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 )

بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔
(صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 )

جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا اذن دے دیا کرتا ہے”۔

اور زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی علامت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ .
(صحیح البخاری: 1036)

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔

آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم
(الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلم کهلا اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمرا ں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
@Don @Pari @Hoorain @RedRose64 @Mahen @STAR24 @Syeda-Hilya @*Sarlaa* @Seap @Prince-Farry
@Abidi @Qu33na @Iceage-TM @Toobi @i love sahabah @Babar-Azam @NamaL @Fa!th @MSC @yoursks
@Armaghankhan @SaaD_KhaN @thefire1 @Azeyy @junaid_ak47 @Guriya_Rani @MIS_MaHa @shzd @p3arl @Fantasy
@soul_of_silence @Gul-e-lala @maryamtaqdeesmo @Atif-adi @Lost Passenger @marzish @Pakhtoon @Rubi
@Fahad_Awan_Huh @~Ambitiou$ Girl~ @S_ChiragH @Binte_Hawwa @sweet_c_kuri @sabha_khan40 @Masoom_girl @hariya @Huree
@Umm-e-ahmad @Tariq Saeed @Mas00m-DeVil @Wafa_Khan @amazingcreator @marib @Prince_Dastan
@Aayat @italianVirus @Ziddi_anGel @Shiraz-Khan @sabeha @attiya @Princess_E @Asheer @bilal_ishaq_786
@Rashk-E-Hina @shailina @Haider_Mk @maanu115 @h@!der @Dua001 @Ezabela @mishahaider @Syeda-Hilya
@Rahath @Shireen @zonii @Noor_Afridi @sweet bhoot @Lightman @FaRiShtay BaHaRay @Noorjee @hafaz @Miss_Tittli
@Bela @LuViSh @aribak @BabyDoll @Silent_tear_hurt @gulfishan @Manxil @Raat ki Rani @candy @Asma_tufail
@errorsss @diya. @isma33 @hashmi_jan @smarty_dollie @Era_Emaan @AshirFrhan @aira_roy @HangOver @HWJ
@saimaaaaaaa @Nighaat @crystal_eyez @Mantasha_Zawaar @reality @illusionist @DesiGirl @huny @Arzoomehak
@Hudx @Flower_Flora @Zia_Hayderi @maryamtaqdeesmo @Fadiii @minaahil @Fanii @naazii @Sabeen_27 @Panchii
@Ichigo [USERGROUP=86]@TM_STAFF[/USERGROUP] @Zakwan @ullo @raaz the secret @Unsaid Words @Charming_Deep @whiteros @Ishq-Zadah
@sonyki @*Sonu* @Nikka_Raja @Piyare Afzal @Blue_Sky @Menaz @RaPuNzLe @Mehar_G786 @phys_samar @nisarhamad
@Gul-e-Pakiza @Poetry_Lover @Ahmad-Hasan @Pari_Qrakh @Mano_Doll @Twinkle Queen @Haaan_meiN_Pagal_Hon
@dur-e-shawar @ShyPrincess @chai-mein-biscuit @Shoaib_Nasir @Bul_Bul @innocent_jannat @sweet_lily @Aaylaaaaa
@p3arl @onemanarmy @Parisa_ @X_w @Sweeta @Dove @Just_Like_Roze @shining_galaxy @Umeed_Ki_Kiran @Ahmad-Hasan
@RaPuNzLe @Arz0o @Muhammad_Rehman_Sabir @Ocean_Eyes @CuTe_HiNa @Nadaan_Shazie @ShOna* @Angel_A @Iceage-TM
@Jahanger @Missing_Person @Raza-G @umeedz @jimmyz @silent_heart @shayan99 @zeeshe @Arosa @Twinkle Queen
@nighatnaseem21 @unpredictable2 @Angel_A @lovely_eyes @Ocean-of-love @ShehrYaar @babarnadeem996 @REHAN_UK @LaDDan
@Blue-Black @Duffer @phys_samar @Sameer_Khan @Dreamy Boy @Akaaaash @sona_monda @wajahat_ahmad @H0mer
@DevilJin @Dard-e-Dil @jal_pari_ @Shahzii_1 @Faiz4lyf @Prince_Ashir @SharieMalik @genuine @sameer_jan
@Zaryaab @gullubat @Danee @wajahat_ahmad @Naila_Rubab @colgatepak @amerzish_malik @Charming_Deep @Flower_Flora
@mishahaider @Afsaan @shineday11 @UHPF @Marah @farhat-siddiqa @nizamuddin @shailina @Mano_Doll @mrX
@Fizaali @Amaanali @seemab_khan @Tanha_Dil @ujalaa @Island_Jewel @Chief @raji35 @MukarramRana @Ramiz
@Dua001 @Daredevil @somy_khan @Yuxra @Cheeky
 

Bird-Of-Paradise

TM ki Birdie
VIP
Aug 31, 2013
23,935
11,040
1,313
ώόήȡέŕĻάήȡ
زلزلے اسلام کی نظر میں

آج کل زلزلے اور طوفان بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے اور طوفان کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت ،تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے ۔ پچھلے دنوں پاکستان اور کشمیر میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا جس سے بے شمار جان و مال کی تباہی ہوئی تھی۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں "الٹی میٹم" کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
كُنَّا عندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فانكسفَتْ الشمسُ ، فقام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجُرُّ رداءَهُ حتى دخل المسجدَ ، فدخلنا ، فصلَّى بنا ركعتانِ حتى انجلَتْ الشمسُ ، فقال صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنَّ الشمسَ والقمرَ لا ينكسفانِ لموتِ أَحَدٍ ، فإذا رأيتموهما فصلُّواْ وادْعُواْ ، حتى يُكْشَفَ ما بِكُمْ .
(صحیح البخاری: 1040)

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو داغ لگ گیا، (معمولی سورج گہن ہوتا ہے تو دیکھیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ اپنی بالائی چادر زمین پر کھینچتے ہوئے جارہے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے،ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے، ہمیں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج بالکل صاف ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا، جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، یہاں تک کہ گہن دور ہوجائے۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ جلدی میں ایک دوپٹہ اٹھا لی یہاں تک کہ آپ کو اندازہ ہوا تو آپ نے اسے رکھ کر چادر اٹھائی، حدیث کے الفاظ ہیں : فأخذ درعًا حتى أدرك بردائِه . فقام للناس قيامًا طويلاً یعنی پریشانی میں آپ نے اپنی کسی بیوی کی بڑی چادر اٹھا لی اور آپ چلے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔ پھر مسجد میں جاکر آپ نے نماز شروع کی، اور نہایت لمبی نماز ادا فرمائی، اس قدر لمبا قیام اور رکوع اور سجود کیا کہ راوی کہتے ہیں: اس سے لمبا قیام اور رکوع اور سجود میں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا ہوگا۔
(صحیح مسلم : 906)

جب کبھی ہوا چلتی، یا آسمان میں بادل چھاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دگر گوں ہونے لگتی تھی، آگے آتے پیچھے جاتے گھر میں داخل ہوتے، گھر سے باہر نکلتے، آپ کے چہرے کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی، جب بارش ہونے لگتی تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان میں بدلی یا ہوا دیکھتےتو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا، عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ ممکن ہے بارش ہوگی لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب آپ بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائشةُ ، ما يُؤَمَّنِّني أن يكونَ فيهِ عذابٌ ؟ عُذِّبَ قومٌ بالريحِ ، وقد رأَى قومٌ العذابَ ، فقالوا : هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔
(صحیح البخاری، ( 4828

اے عائشہ ! آخر مجھے کونسی چیزمامون کرسکتی ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہے جبکہ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا ،انہوں نے جب عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے : “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا”

یہ وہی بادل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ :

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورہ احقاف 24)

پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا” نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے”۔

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو،پس اس کو راضی کرلو۔

مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زناکوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 )

بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔
(صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 )

جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا اذن دے دیا کرتا ہے”۔

اور زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی علامت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ .
(صحیح البخاری: 1036)

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔

آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم
(الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلم کهلا اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمرا ں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔
JazakAllah :)
 

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
زلزلے اسلام کی نظر میں

آج کل زلزلے اور طوفان بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے اور طوفان کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت ،تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے ۔ پچھلے دنوں پاکستان اور کشمیر میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا جس سے بے شمار جان و مال کی تباہی ہوئی تھی۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں "الٹی میٹم" کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
كُنَّا عندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فانكسفَتْ الشمسُ ، فقام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجُرُّ رداءَهُ حتى دخل المسجدَ ، فدخلنا ، فصلَّى بنا ركعتانِ حتى انجلَتْ الشمسُ ، فقال صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنَّ الشمسَ والقمرَ لا ينكسفانِ لموتِ أَحَدٍ ، فإذا رأيتموهما فصلُّواْ وادْعُواْ ، حتى يُكْشَفَ ما بِكُمْ .
(صحیح البخاری: 1040)

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو داغ لگ گیا، (معمولی سورج گہن ہوتا ہے تو دیکھیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ اپنی بالائی چادر زمین پر کھینچتے ہوئے جارہے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے،ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے، ہمیں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج بالکل صاف ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا، جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، یہاں تک کہ گہن دور ہوجائے۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ جلدی میں ایک دوپٹہ اٹھا لی یہاں تک کہ آپ کو اندازہ ہوا تو آپ نے اسے رکھ کر چادر اٹھائی، حدیث کے الفاظ ہیں : فأخذ درعًا حتى أدرك بردائِه . فقام للناس قيامًا طويلاً یعنی پریشانی میں آپ نے اپنی کسی بیوی کی بڑی چادر اٹھا لی اور آپ چلے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔ پھر مسجد میں جاکر آپ نے نماز شروع کی، اور نہایت لمبی نماز ادا فرمائی، اس قدر لمبا قیام اور رکوع اور سجود کیا کہ راوی کہتے ہیں: اس سے لمبا قیام اور رکوع اور سجود میں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا ہوگا۔
(صحیح مسلم : 906)

جب کبھی ہوا چلتی، یا آسمان میں بادل چھاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دگر گوں ہونے لگتی تھی، آگے آتے پیچھے جاتے گھر میں داخل ہوتے، گھر سے باہر نکلتے، آپ کے چہرے کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی، جب بارش ہونے لگتی تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان میں بدلی یا ہوا دیکھتےتو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا، عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ ممکن ہے بارش ہوگی لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب آپ بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائشةُ ، ما يُؤَمَّنِّني أن يكونَ فيهِ عذابٌ ؟ عُذِّبَ قومٌ بالريحِ ، وقد رأَى قومٌ العذابَ ، فقالوا : هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔
(صحیح البخاری، ( 4828

اے عائشہ ! آخر مجھے کونسی چیزمامون کرسکتی ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہے جبکہ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا ،انہوں نے جب عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے : “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا”

یہ وہی بادل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ :

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورہ احقاف 24)

پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا” نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے”۔

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو،پس اس کو راضی کرلو۔

مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زناکوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 )

بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔
(صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 )

جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا اذن دے دیا کرتا ہے”۔

اور زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی علامت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ .
(صحیح البخاری: 1036)

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔

آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم
(الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلم کهلا اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمرا ں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔
JAzakAllah khair Jazakallah khair
ALlah tala hum sabko hidayat ata frmayain aur humain maaf frmayain aur hum par reham frmayain aameen!!
 

Banjara_

ıllıllı Aℓιғσяσυs ıllıllı
TM Star
Mar 20, 2015
2,303
1,509
263
Sky
زلزلے اسلام کی نظر میں

آج کل زلزلے اور طوفان بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے اور طوفان کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت ،تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے ۔ پچھلے دنوں پاکستان اور کشمیر میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا جس سے بے شمار جان و مال کی تباہی ہوئی تھی۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں "الٹی میٹم" کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
كُنَّا عندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فانكسفَتْ الشمسُ ، فقام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجُرُّ رداءَهُ حتى دخل المسجدَ ، فدخلنا ، فصلَّى بنا ركعتانِ حتى انجلَتْ الشمسُ ، فقال صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنَّ الشمسَ والقمرَ لا ينكسفانِ لموتِ أَحَدٍ ، فإذا رأيتموهما فصلُّواْ وادْعُواْ ، حتى يُكْشَفَ ما بِكُمْ .
(صحیح البخاری: 1040)

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو داغ لگ گیا، (معمولی سورج گہن ہوتا ہے تو دیکھیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ اپنی بالائی چادر زمین پر کھینچتے ہوئے جارہے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے،ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے، ہمیں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج بالکل صاف ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا، جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، یہاں تک کہ گہن دور ہوجائے۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ جلدی میں ایک دوپٹہ اٹھا لی یہاں تک کہ آپ کو اندازہ ہوا تو آپ نے اسے رکھ کر چادر اٹھائی، حدیث کے الفاظ ہیں : فأخذ درعًا حتى أدرك بردائِه . فقام للناس قيامًا طويلاً یعنی پریشانی میں آپ نے اپنی کسی بیوی کی بڑی چادر اٹھا لی اور آپ چلے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔ پھر مسجد میں جاکر آپ نے نماز شروع کی، اور نہایت لمبی نماز ادا فرمائی، اس قدر لمبا قیام اور رکوع اور سجود کیا کہ راوی کہتے ہیں: اس سے لمبا قیام اور رکوع اور سجود میں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا ہوگا۔
(صحیح مسلم : 906)

جب کبھی ہوا چلتی، یا آسمان میں بادل چھاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دگر گوں ہونے لگتی تھی، آگے آتے پیچھے جاتے گھر میں داخل ہوتے، گھر سے باہر نکلتے، آپ کے چہرے کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی، جب بارش ہونے لگتی تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان میں بدلی یا ہوا دیکھتےتو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا، عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ ممکن ہے بارش ہوگی لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب آپ بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائشةُ ، ما يُؤَمَّنِّني أن يكونَ فيهِ عذابٌ ؟ عُذِّبَ قومٌ بالريحِ ، وقد رأَى قومٌ العذابَ ، فقالوا : هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔
(صحیح البخاری، ( 4828

اے عائشہ ! آخر مجھے کونسی چیزمامون کرسکتی ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہے جبکہ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا ،انہوں نے جب عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے : “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا”

یہ وہی بادل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ :

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورہ احقاف 24)

پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا” نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے”۔

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو،پس اس کو راضی کرلو۔

مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زناکوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 )

بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔
(صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 )

جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا اذن دے دیا کرتا ہے”۔

اور زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی علامت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ .
(صحیح البخاری: 1036)

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔

آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم
(الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلم کهلا اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمرا ں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔
JazakALLAH
 

Seemab_khan

ღ ƮɨƮŁɨɨɨ ღ
Moderator
Dec 7, 2012
6,424
4,483
1,313
✮hმΓἶρυΓ, ρმκἶჰནმῆ✮
زلزلے اسلام کی نظر میں

آج کل زلزلے اور طوفان بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے اور طوفان کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت ،تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے ۔ پچھلے دنوں پاکستان اور کشمیر میں زبردست سیلاب اور طوفان آیا جس سے بے شمار جان و مال کی تباہی ہوئی تھی۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں "الٹی میٹم" کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
كُنَّا عندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فانكسفَتْ الشمسُ ، فقام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجُرُّ رداءَهُ حتى دخل المسجدَ ، فدخلنا ، فصلَّى بنا ركعتانِ حتى انجلَتْ الشمسُ ، فقال صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : إنَّ الشمسَ والقمرَ لا ينكسفانِ لموتِ أَحَدٍ ، فإذا رأيتموهما فصلُّواْ وادْعُواْ ، حتى يُكْشَفَ ما بِكُمْ .
(صحیح البخاری: 1040)

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ سورج کو داغ لگ گیا، (معمولی سورج گہن ہوتا ہے تو دیکھیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ اپنی بالائی چادر زمین پر کھینچتے ہوئے جارہے تھے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے،ہم بھی مسجد میں داخل ہوئے، ہمیں آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں یہاں تک کہ سورج بالکل صاف ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: بیشک سورج اور چاند کو گہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا، جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، یہاں تک کہ گہن دور ہوجائے۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ جلدی میں ایک دوپٹہ اٹھا لی یہاں تک کہ آپ کو اندازہ ہوا تو آپ نے اسے رکھ کر چادر اٹھائی، حدیث کے الفاظ ہیں : فأخذ درعًا حتى أدرك بردائِه . فقام للناس قيامًا طويلاً یعنی پریشانی میں آپ نے اپنی کسی بیوی کی بڑی چادر اٹھا لی اور آپ چلے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کو لاکر دی گئی۔ پھر مسجد میں جاکر آپ نے نماز شروع کی، اور نہایت لمبی نماز ادا فرمائی، اس قدر لمبا قیام اور رکوع اور سجود کیا کہ راوی کہتے ہیں: اس سے لمبا قیام اور رکوع اور سجود میں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا ہوگا۔
(صحیح مسلم : 906)

جب کبھی ہوا چلتی، یا آسمان میں بادل چھاجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دگر گوں ہونے لگتی تھی، آگے آتے پیچھے جاتے گھر میں داخل ہوتے، گھر سے باہر نکلتے، آپ کے چہرے کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی، جب بارش ہونے لگتی تو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان میں بدلی یا ہوا دیکھتےتو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا، عائشہ صدیقہ ضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ ممکن ہے بارش ہوگی لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب آپ بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يا عائشةُ ، ما يُؤَمَّنِّني أن يكونَ فيهِ عذابٌ ؟ عُذِّبَ قومٌ بالريحِ ، وقد رأَى قومٌ العذابَ ، فقالوا : هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔
(صحیح البخاری، ( 4828

اے عائشہ ! آخر مجھے کونسی چیزمامون کرسکتی ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہے جبکہ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا ،انہوں نے جب عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے : “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا”

یہ وہی بادل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ :

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
(سورہ احقاف 24)

پھر جب انہوں نے اُس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا” نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے”۔

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو،پس اس کو راضی کرلو۔

مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زناکوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔
(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 )

بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔
(صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 )

جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کا اذن دے دیا کرتا ہے”۔

اور زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی علامت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ .
(صحیح البخاری: 1036)

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔

آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم
(الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلم کهلا اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمرا ں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔
JazakALLAH
 

Umm-e-ahmad

Super Star
Feb 22, 2010
11,352
5,314
1,313
home
جزاک اللہ
اللہ پاک هم سب کو هدایت دیں همارے گناهوں کو بخش دیں آمین
 
Top