شیعہ کے اعتراضات کا رد --حضرت ابوذر غفاری رض کے ساتھ کیا سلوگ کیا گیا؟

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


ایک شیعہ کی ویب سائٹ یہ ہے اس پر انھوں نے کئی اعترض کیے ہیں – انشاء الله مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر ان کا رد کریں گے


لنک

http://shiatiger.com/article/670
شیعہ کا اعترض
حضرت ابوذر غفاری رض کے ساتھ کیا سلوگ کیا گیا؟

حضرت ابوذر غفاری رض شام گئے تو ان کو معاویہ کی کرتوتیں معلوم ہوئیں تو انہوں نے معاویہ کے خلاف آواز اٹھائی تو معاویہ نے جھوٹا الزام لگاکر ایک خط عثمان کو لکھا عثمان نے معاویہ کا ساتھ دیا عثمان نے حضرت ابوذر غفاری رض کی سرزنش کی اور ان کو جلا وطن کر دیا ویرانے میں آپ کا انتقال ہوا ۔


زاد المعاد جلد 3 صفحہ 76 ، 77 اردو کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے اصل الفاظ کتاب کے اصل سکین پیج میں پڑھ سکتے ہیں

( نوٹ: حجر بن عدی کا قاتل بھی معاویہ ہے )

التماسِ دعا: عاصم جاوید عاصم

شیعہ کے اعترض کا جواب


طبقات ابن سعد میں واقدی کہتا ہے کہ ہشام بن حسان نے ابن سیرین سے خبر دی

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ [أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قَالَ لأَبِي ذَرٍّ: إِذَا بَلَغَ النَّبَأُ سِلَعًا فَاخْرُجْ مِنْهَا. وَنَحَا بِيَدِهِ نَحْوَ الشَّامِ. وَلا أَرَى أُمَرَاءَكَ يَدَعُونَكَ. قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلا أُقَاتِلُ مَنْ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ أَمْرِكَ؟ قَالَ: لا. قَالَ: فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِعَبْدٍ حَبَشِيٍّ.] قَالَ: فَلَمَّا كَانَ ذَلِكَ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عُثْمَانَ: إِنَّ أَبَا ذَرٍّ قَدْ أَفْسَدَ النَّاسَ بِالشَّامِ. فَبَعَثَ إِلَيْهِ عُثْمَانُ فَقَدِمَ عَلَيْهِ. ثُمَّ بَعَثُوا أَهْلَهُ مِنْ بَعْدِهِ فَوَجَدُوا عِنْدَهُ كَيْسًا أو شيئا فظنوا أنها دَرَاهِمَ. فَقَالُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ! فَإِذَا هِيَ فُلُوسٌ. فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ قَالَ لَهُ عُثْمَانُ: كُنَّ عِنْدِي تَغْدُو عَلَيْكَ وَتَرُوحُ اللِّقَاحُ. قَالَ: لا حَاجَةَ لِي فِي دُنْيَاكُمْ.


رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ابو ذر کو کہا کہ جب تفرقہ کی خبر سنو تو اس طرف جانا اور شام کی طرف اشارہ کیا اور میں نہیں دیکھتا کہ امراء تم کو بلائیں ابو ذر نے کہا اے رسول الله کیا میں ان سے قتال نہ کروں جو میرے اور آپ کے حکم کے درمیان حائل ہوں ؟ کہا نہیں ابو ذر نے کہا پس آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ کہا سمع و اطاعت کرنا چاہے کوئی حبشی ہو پس جب ابو ذر شام گئے تو معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ یہ شخص بہت برا ہے لہذا ابو ذر کو عثمان نے مدینہ طلب کیا – اس کے بعد ان کے گھر والے ان کے پاس گئے ابو ذر نے گھر والوں کے پاس ایک تھیلا پایا اور انہوں نے گمان کیا اس میں درہم ہیں پس کہا جو الله کی مرضی یہ قیمت ہے ! پس جب مدینہ پہنچے تو عثمان نے کہا میرے ساتھ ہو جاؤ ابو ذر نے کہا کہ مجھے تمہاری دنیا کی حاجت نہیں

یعنی عثمان رضی الله عنہ نے رشوت دی جس کو ابو ذر رضی الله عنہ نے ٹھکرا دیا


اس کی سند میں ہشام بن حسان ہے

کتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس از ابن حجر کے مطابق

هشام بن حسان البصري وصفه بذلك علي بن المديني وأبو حاتم قال جرير بن حازم قاعدت الحسن سبع سنين ما رأيت هشاما عنده قيل له قد حدث عن الحسن بأشياء فمن تراه أخذها قال من حوشب


هشام بن حسان البصري کو تدلیس سے متصف ابن المدینی اور ابو حاتم نے کیا کہا جریر نے کہا حسن بصری کے ساتھ سات سال رہا لیکن ایک دفعہ بھی ہشام کو ان کے ساتھ دیکھا کہا کہ یہ تو حسن سے بہت چیزیں روایت کرتا ہے تو یہ سب اس کو کہاں سے ملیں کہا حوشب سے


حوشب جن سے ہشام نے روایت لی وہ ابن مسلم ہے

الذہبی میزان میں کہتے ہیں

حوشب بن مسلم
لا يدري من هو


حوشب بن مسلم میں نہیں جانتا کون ہے


معلوم ہوا کہ ہشام بن حسان تدلیس کرتا تھا

مخلد بن حسین کہتے ہیں

أَرْسَلَ فِيْهِ فِي حَدِيْثِ ابْنِ سِيْرِيْنَ خَاصَّةً


هشام بن حسان البصري خاص ابن سیرین کی روایت میں ارسال کرتا ہے


المیمونی کہتے ہیں امام احمد کہتے ہیں

قال: حدثنا عفان. قال: حدثنا معاذ. قال: قال الأشعث: ما رأيت هشامًا، يعنى ابن حسان، عند الحسن قط


عثمان نے ہم سے روایت کیا ہے کہا معاذ نے بیان کیا کہا الأشعث نے کہا میں نے ہشام یعنی ابن حسان کو کبھی ہی حسن کے پاس نہ دیکھا


تاریخ مدینہ از ابن شبہ کے مطابق عثمان نے ابو ذر سے کچھ کہا ابو ذر بھڑک گئے اور بولے

ثُمَّ رَفَعَ أَبُو ذَرٍّ بِصَوْتِهِ الْأَشَدِّ فَقَالَ: ” {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [التوبة: 34] ، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ “، فَأَمَرَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الرَّبَذَةِ


اس پر عثمان نے الرَّبَذَةِ بھیج دیا


سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرُو، عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ خِمَاشٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ بِأَبِي ذَرٍّ، فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَرَاهُ أَوْ أَلْقَاهُ مِنْهُ، فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عُثْمَانَ


اس میں أَبِي عَمْرِو بْنِ خِمَاشٍ مجھول ہے

تاریخ مدینہ ابن شبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ هُشَيْمٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: مَرَرْتُ بِالرَّبَذَةِ فَإِذَا أَنَا بِأَبِي ذَرٍّ فَقُلْتُ: مَا أَنْزَلَكَ مَنْزِلَكَ هَذَا؟ قَالَ: ” كُنْتُ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفْتُ أَنَا وَمُعَاوِيَةُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ} [التوبة: 34] ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ، وَقُلْتُ أَنَا: نَزَلَتْ فِينَا وَفِيهِمْ، فَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ كَلَامٌ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَشْكُونِي، فَكَتَبَ إِلَيَّ عُثْمَانُ أَنْ أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، فَقَدِمْتُهَا، فَكَثُرَ النَّاسُ عَلَيَّ حَتَّى كَأَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْنِي قَبْلَ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ تَنَحَّيْتَ وَكُنْتَ قَرِيبًا، لِذَلِكَ أَنْزَلَنِي هَذَا الْمَنْزِلَ، وَلَوْ أَمَّرُوا عَلَيَّ حَبَشِيًّا لَسَمِعْتُ، وَأَطَعْتُ “


زید بن وہب کہتا ہے میں ربذہ ابو ذر کے پاس پہنچا ان سے پوچھا یہاں کیسے ؟ کہنے لگے میں شام میں تھا وہاں معاویہ اور میرا اختلاف ہوا سوره توبہ کی آیت ٣٤ پر معاویہ نے کہا یہ اہل کتاب کے لئے ہے میں نے کہا ہمارے لئے ہے اور ان کے کے لئے بھی پس اس میں کلام ہوا انہوں نے عثمان کو لکھ بھیجا اور شکوہ کیا عثمان نے مجھے لکھا اور مدینہ بلایا پس اس قدر لوگ جمع ہوئے جتنا اس سے قبل نہ دیکھے پس عثمان سے ذکر کیا انہوں نے کہا اگر آپ کو پسند کریں تو یہ منزل پاس بھی ہے یہاں سکونت کر لیں اور اگر آپ پر حکم کر دوں تو ایک لشکر میری بات سنتا اور اطاعت کرتا ہے


یعنی عثمان رضی الله عنہ نے دھمکی آمیز انداز میں ان کی خبر لی سندا اس میں حُصَيْن بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَن ہے جو مقبول ہے

الکامل از ابن عدی کے مطابق سند کے دوسرے راوی ھشیم کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شيبة البغدادي، حَدَّثَنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ هُشَيْمًا يقول كان حصين كبير السن


حُصَيْن بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَن عمر رسیده تھے


اس عمر میں یہ بھولتے بھی تھے یہاں تک کہ يزيد بن هارون کہتے تھے کہ اختلاط کا شکار تھےکتاب بَهْجَة المحَافِل وأجمل الوَسائل بالتعريف برواة الشَّمَائل از إبراهيم بن إبراهيم بن حسن اللقاني کے مطابق وصلى عليه ابن مسعود

ابو ذر کی نماز جنازہ ابن مسعود نے پڑھائی

لیکن واقدی کی طبقات کی ہشام بن حسان کی روایت کے مطابق ابو ذر تو مدینہ سے دور بے یار و مدد گار انتقال کر گئے

حاكم مستدرك مين روايت لکھتے ہیں کہ ابن مسعود نے کہا

فَقِيلَ: جِنَازَةُ أَبِي ذَرٍّ فَاسْتَهَلَّ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَبْكِي، فَقَالَ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا ذَرٍّ يَمْشِي وَحْدَهُ، وَيَمُوتُ وَحْدَهُ، وَيُبْعَثُ وَحْدَهُ»


رسول الله نے سچ کہا تھا الله ابو ذر پر رحم کرے وہ اکیلے چلے اکیلے مرے اور اکیلے جی اٹھیں گے


الذھبی تلخیص مستدرک میں کہتے ہیں اس روایت میں ارسال ہے

سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ


سند میں یزید بن سفیان کو سب نے ضعیف کہا ہے

الغرض مختلف روایات ہیں جو اکثر مبہم ہیں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کی بدولت ان کا رہن سہن بدل رہا تھا اور صحابہ فارغ البال ہو گئے اس کا ابو ذر رضی الله عنہ پر اثر ہوا اور وہ زہد کی طرف مائل ہوئے اور باقی اصحاب رسول سے اس سلسلے میں اختلاف کرنے لگے یہاں تک کہ شاید وہ کسی بھی قسم کا سونا چاندی رکھنے کے خلاف ہو گئے- ان کی تائید میں کسی اور نے ان کے جیسا عمل نہ کیا – علی رضی الله عنہ نے بھی خاموشی اختیار کی – لہذا یہ ابو ذر رضی الله عنہ کا خاص زہد پر منبی موقف تھا جس کی تائید نہ اہل بیت نے کی نہ اصحاب رسول







 
Top