عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
عائشہ (رض) اور سماع الموتی پر موقف



کیا مردے سنتے ہیں ؟ اس طرح کے رسالے بعض علماء چھاپتے ہیں اور عوام کو باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مردے نہیں سنتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علماء اس انبوہ میں شامل ہیں جن کے نزدیک نہ صرف مردے سنتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک مردے اتنے پاور فل ہیں کہ قبر پر کھڑے لوگوں سے مانوس بھی ہو سکتے ہیں
اس قبیل کے علماء قبر پرستوں کو ان کے عقائد پر سند جواز دیتے ہیں –قبروں پر جانے کا ایک مقصد صاحب قبر کو سنانا ہوتا ہے کہ وہ عرضداشت رب العالمین تک پہنچا دیں گے
اب قرآن میں اگر ہو کہ
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ سوره النمل ٨٠ آیت

اے نبی آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پلٹ کر جائیں
اسی طرح قرآن میں اگر ہو
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [فاطر: 22

اور زندہ مردہ برابر نہیں بے شک الله جس کو چاہے سنا دےاور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو سنانے والے نہیں
ان آیات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار کو ایمان کی طرف نہیں لا سکتے یہ سب الله کے اختیار میں ہے
تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے اس کا مطلب مجازی لینا ہو گا کہ آپ کفار کو نہیں سنا سکتے لیکن قبر میں پڑے مردوں کو سنا سکتے ہیں- جبکہ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جب مثال بھی دیتا ہے تو حقیقت بر مبنی ہوتی ہے
ابن الجوزي كتاب السر المصون (بحوالہ الفروع از ابن مفلح ) میں کہتے ہیں
الذي يوجبه القرآن والنظر أن الميت لا يسمع ولا يحس قال تعالى وما أنت بمسمع من في القبور سورة فاطر 22 ومعلوم أن آلات الحس قد فقدت

جو چیز قرآن و (نقد و) نظر سے واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک میت نہ سنتی ہے نہ محسوس کرتی ہے – الله تعالی کہتے ہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں ان کو نہیں سنا سکتے سوره فاطر ٢٢ اور یہ معلوم ہے کہ سننے کے آلات (یعنی کان) ضائع ہو چکے ہوتے ہیں
سماع الموتی کی سب سے اہم دلیل، قلیب بدر کے مردوں کا سماع ہے- جنگ بدر میں فتح کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار کی لاشیں ایک کنواں میں پھینک دی جائیں تین دن بعد آپ اس مقام پر گئے اور کنواں کے اوپر آپ نے ٢٤ سرداران قریش کو پکارآ اس وقت عمر رضی الله عنہ نے کہ
يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَكَلَّمَ مِنْ أَجْسَادٍ، لَا أَرْوَاحَ لَهَا

یا رسول الله آپ ایسے اجسام سے مخاطب ہیں جن میں ارواح نہیں؟
رسول الله نے فرمایا
إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ

بے شک یہ سن رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں
عائشہ رضی الله عنہآ سماع الموتی کی انکاری تھیں اور کہتیں تھیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ یہ سنتے ہیں اصل میں علم ہونا ہے
اور ایسا وہ کیوں نہ کہتیں جبکہ قرآن میں ہے
ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے کلام کیا اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟
حدیث میں ہے عمر رضی الله عنہ نے حجر الاسود سے کلام کیا
ابن عمر رضی الله عنہ نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی سولی پر لٹکتی لاش سے کلام کیا اور اسماء رضی الله عنہا سے کہا صبر کریں بے شک ارواح الله کے پاس ہیں
فرط جذبات میں مردوں سے زندہ مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اس میں اس کا مقصد مردے کو سنانا نہیں ہوتا – امام ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں کسی سے کلام نہ کروں گا اور مرنے کے بعد اس کے لاشے سے کلام کر بیٹھا تو اس کی قسم نہ ٹوٹے کی
ابن رجب کتاب أهوال القبور میں قبول کرتے ہیں
قال الحافظ ابن رجب: وقد وافق عائشة على نفي سماع الموتى كلام الأحياء طائفة من العلماء

اور عائشہ (رضی الله عنہا) سے موافقت کی ہے بہت سے علماء نے مردوں کے سننے کی نفی میں
البانی کتاب آیات البینات از نعمان الوسی کی تعلیق میں کہتے ہیں
قلت : ولذلك أورده الخطيب التبريزي في ” باب المعجزات ” من ” المشكاة “ج 3 رقم 5938

میں کہتا ہوں اسی لئے خطیب التبریزی نے مشکاہ میں اس (قلیب بدر والے واقعہ) کو المعجزات کے باب میں ذکر کیا ہے
الشِّنقيطي ایک عالم تھے ١٩٧٤ میں وفات ہوئی – ان کی آراء کو الجموع البهية للعقيدة السلفية الَّتِي ذكرهَا الْعَلامَة الشِّنقيطي مُحَمَّد الْأمين بن مُحَمَّد الْمُخْتَار الجَكَنِي فِي تَفْسِيره أضواء الْبَيَان میں جمع کیا گیا جس کو أبو المنذر محمود بن محمد بن مصطفى بن عبد اللطيف المنياوي نے جمع کیا ہے اور مكتبة ابن عباس، مصر نے چھاپہ ہے
اپنی ایک تقریر میں مسئلہ سماع الموتی پر جرات دکھائی اور ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے حوالے سے انہوں نے کہا
الشِّنقيطي هَل يسمع الْمَوْتَى؟ کیا مردے سنتے ہیں کے سلسلے میں کہتے ہیں
وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے
الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں
إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

 
Top