قائد کا تصور ِ جمہوریت
بانی¿ِ پاکستان ، قائداعظم ،محمد علی جناح کے سیاسی اور تہذیبی معیار و اقدار کی بحث میں لادینیت (سیکولرزم) کاسوال اُٹھانابدمذاقی ہے۔خود قائداعظم سے جب پہلی بار، ۴جولائی۷۴۹۱ءکی ایک پریس کانفرنس میں، یہ سوال کیا گیا تھا تو اُنہوں نے اسے ایک بیہودہ سوال قرار دیا تھا۔ جب ایک اخبار نویس نے یہ سوال کیا تھا کہ :
Will Pakistan be a secular or theocratic State?
تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ :
You are asking me a question that is absurd. I do not know what a theocratic state means. When you talk of democracy, I am afraid, you have not studied Islam. We learnt democracy thirteen centuries ago.
جہاں تک تھیاکریسی کا تعلق ہے علامہ اقبال اور قائداعظم ، ہر دو بانیانِ پاکستان نے بار بار ، اِس حقیقت کا برملااظہار کر رکھا ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی کی کوئی گنجائش نہیں۔تھیاکریسی، یورپ میں پادریوں کے خدائی حقِ حکمرانی کے تصور سے پھوٹی تھی۔ اسلام نے علمائے کرام کوحکمرانی کاخدائی حق ہر گز نہیں دیا۔ہاں وہ عام انتخابات میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آ سکتے ہیں۔ درج بالا مکالمے میں قائداعظم نے مغربی جمہوریت کی بجائے اسلامی جمہوریت کو پاکستان کا سیاسی نظام قرار دیتے وقت مدینہ منورہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں قائم ہونے والے جمہوری نظام کو اپنا سرچشمہ¿ فیضان قرار دیا ہے۔ جب ۶۴۹۱ءکے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کامیابی نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنا دیا تو یہ سوال نِت نئے انداز میں اُٹھایا جانے لگا کہ پاکستان کا آئین سیکولر اصولوں پر مبنی ہو گا یا دینی اصولوں پر۔بار بار اُٹھائے جانے والے اِس سوال کے جواب میں قائداعظم نے ہمیشہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کو اپنا سرچشمہ¿ فیضان بتایا ہے۔
قائداعظم نے جہاں علماءکے خدائی حقِ حکمرانی (تھیاکریسی) کواسلامی تعلیمات کے منافی ٹھہرایاتھااُسی طرح لادین سیاست (سیکولرزم)کو بھی اسلامی طرزِ حکومت اور طرزِ حیات سے متصادم قراردیا تھا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیکولرزم پر کاربند شخص لامذہب نہیں ہوتا۔ اُس کا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے مگراپنے مذہبی عقیدہ و عمل کو وہ اپنی ذاتی زندگی تک محدود سمجھتا ہے۔اُس کی اجتماعی زندگی مذہب کی حدود و قیود سے باہر اورآزاد رہتی ہے۔ وہ اپنے مذہب کو اجتماعی ضابطہ¿ حیات نہیں سمجھتا بلکہ ایک اندرونی ذاتی عقیدہ سمجھتا ہے۔اِس کے برعکس اسلام ایک مکمل ضابطہ¿ حیات ہے۔ ایک سچا مسلمان اپنے گرد و پیش اور دُور و نزدیک کی زندگی کے مادی مظاہر کو اللہ کے نُور سے دیکھتا ہے تو اُنہیں روحانی حقائق سے معمور پاتا ہے اور اُس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ بقول اقبال:
All that is secular is sacred in the roots of its being.
اسلام میں روشن خیالی ،وسیع النظری اورانسان دوستی کے تصورات لَآ اِک±رَاہَ فِی الدِّی±نِ(دین میں کوئی جبر نہیں) اور لَکُم± دِی±نُکُم± وَلِیَ دِی±نِ (تمہیں تمہارا دین مبارک ہو اور ہمیں ہمارا دین)کے سے احکاماتِ ربّانی سے پھوٹے ہیں۔مذہبی رواداری اسلامی تعلیمات کا لازمی جزو ہے۔جو لوگ اِن تعلیمات سے ناآشنا ہیں یا جو لوگ جانے بوجھے شرارت پر آمادہ رہتے ہیں وہ قائداعظم کی ۱۱۔اگست ۷۴ءکی تقریر سے پاکستان میںلادین سیاست کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔
یہ لوگ قائداعظم کے سیاسی عقیدہ و عمل کی بجائے اپنے سیاسی نظریات کی روشنی میں اِس تقریر کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔اِس تقریر میں قائداعظم نے پاکستان کو مذہبی رواداری اور انسانی اخوت کی اسلامی اقدار کا گہوارہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب شدید مذہبی منافرت کے زیرِ اثرفسادات اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔چنانچہ قائداعظم نے مذاہب کے باہمی احترام کا درس دیتے ہوئے اقلیتوں کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب اور تمام فرقوں کے پیروکاروں کو اپنے اپنے مذہبی عقائد پر قائم رہتے ہوئے سچا اور پکّا پاکستانی بننے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔پاکستان میں انسانی اخوت و مساوات سکہ¿ِ رائج الوقت ہوگا اور قرآنِ حکیم کی تعلیمات کے مطابق وحدتِ انسانی (خَلَقَکُم± مِّن± نَّف±سٍ وَّاحِدَة) کا بول بالا ہوگا۔
۱۱۔اگست کی تقریر کے صرف تین دِن بعد جب لارڈ ماﺅنٹ بیٹن انتقالِ اقتدار کی تقریب میں شرکت کرنے آئے تو اُنہوں نے اپنی تقریر میں اِس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہندوﺅں کے ساتھ اُسی رواداری کا برتاﺅ کیا جائے گا جو شہنشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں روا رکھا جاتا تھا۔ اِس کے جواب میں قائداعظم نے اپنی تقریر میں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو یہ بتانا ضروری سمجھا تھا کہ غیرمسلموں کے ساتھ رواداری کا سلوک ہماری حالیہ تاریخ کی کوئی صداقت نہیں ہے بلکہ یہ ہماری تاریخ کی تیرہ سو سال پرانی روایت ہے، جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف کی ریاست میں یہودیوں ، عیسائیوں اور لامذہب لوگوں کو برابر کے انسانی حقوق عطا فرمائے تھے۔ گیارہ اگست کے فرمودات کو اگر چودہ اگست کے خطاب کے تناظر میں پڑھا جائے تو ہر دو تقاریرکا موضوع لادین (سیکولر) سیاست کی بجائے اسلامی جمہوریت نظر آئے گا۔
اسلامی جمہوریت میں انسان دوستی ، وسیع النظری اور روشن خیالی کے اوصاف کے ساتھ ساتھ معاشی انصاف کے اصولوں کی سربلندی کا اہتمام ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ قائداعظم نے یکم جولائی ۸۴۹۱ءکو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے وقت خبردار کیا تھا کہ مغرب کے سرمایہ داری نظام نے انسانیت کے لیے لاتعداد مصائب پیدا کر رکھے ہیں۔ اِس نظام نے جہاں انسان اور انسان کے درمیان ظلم و ستم برپا کر رکھا ہے وہاں قوموں کے درمیان جنگ و جدل کا سامان بھی کر دیا ہے۔ چنانچہ دو عالمی جنگیں اسی سرمایہ داری نظام کی کوکھ سے پھوٹی ہیں۔اِس لیے مغرب کے اقتصادی نظریہ و عمل کی پیروی سے ہم اپنے عوام کی معاشی مشکلات حل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مقدر کو اپنے ہاتھ میں لے کر انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کی روشنی میں نیا معاشی نظام تشکیل دیں۔ یوں ہم بطور مسلمان اپنے مشن کی تکمیل بھی کر سکیں گے اور دُنیائے انسانیت کو امن و سلامتی کا پیغام بھی دے پائیں گے۔ یہاں اِس امر کا اظہار کرنا لازم ہے کہ قائداعظم کے ارشادات کی پیروی میں سٹیٹ بنک آف پاکستان میں ایک ایسا تحقیقی ادارہ قائم کر دیا گیا تھا جسے اقتصادیات کے جدید اور جدید تر نظریات کے تناظر میں اسلام کے اقتصادی نظام کے خدوخال اُجاگر کرنے کا فریضہ سونپ دیا گیا تھا۔ افسوس کہ اِس تحقیقی ادارے کو قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد بند کر دیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک ہم سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی مغربی گرفت میں پڑے سسکتے ہیں۔علامہ اقبال نے قائداعظم ہی سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ:
نومید نہ ہو اِن سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی!
آج کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ ہم کم کوش بھی ہیں اور بے ذوق بھی۔ زوال کی اِس کیفیت سے نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ہم صدقِ دل کے ساتھ اور تخلیقی انداز میںبابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے فکر و عمل کو مشعلِ راہ بنائیں۔