پاکستان پپپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایم کیو ایم نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔
ایم کیو ایم نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پپپلز پارٹی کے غیر سنجیدہ رویے کو قرار دیا ہے اور کہا کہ ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین شراکت عمل اور مفاہمت کے لیے جتنا آگے جا سکتے تھے گئے۔
ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو پر ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے اتوار کی شام پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام صورتحال سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پپپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت میں سنجیدہ نہیں ہے لہذٰا ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے تمام صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ وفاق اور صوبہ سندھ میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔
اس اعلان کے ساتھ ہی وہاں موجود ایم کیو ایم کے کارکنان نے جئے الطاف اور جئے متحدہ کے نعرے لگائے۔
الطاف حسین نے تصدیق کر دی
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے مفاہمت کے لیے ہر مثبت قدم اٹھایا
فاروق ستار
فاروق ستار نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے اس فیصلے کی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے مفاہمت کے لیے ہر مثبت قدم اٹھایا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی جانب سے وزیرِاعظم کے انتخاب کی نامزدگی سے دستبرداری سے صوبائی اسمبلی میں وزیراعلٰی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی حمایت کے فیصلوں تک کو مفاہمت کی جانب مثبت اقدامات کا حصہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’پپپلز پارٹی کی جانب سے جو غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا وہ ہمارے لیے انتہائی مایوس کن ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات چیت کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پپپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن بھی جمہوریت کا حصہ ہوتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پپپلز پارٹی کی حکومت ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے کردار کا بھی احترام کرے گی لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ریاستی طاقت یا جبر کے ذریعے ہمیں دبا لیا جائے گا تو ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ سن انیس سو پچانوے نہیں ہے، دوہزار آٹھ ہے اور اب کسی بھی آواز کو طاقت کے ذریعے نہیں دبایا جا سکتا‘۔
فاروق ستار نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پپپلز پارٹی کی جانب سے بعض ایسے اقدامات بھی کیے گئے جو ہمارے لیے کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔
شعیب سڈل ہمارے ہیرو ہیں
ہم نے شعیب سڈل کی تعیناتی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو پپپلز پارٹی کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ شعیب سڈل ہمارے ہیرو ہیں
فاروق ستار
انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز شعیب سڈل کو آئی جی سندھ مقرر کیا گیا جو پپپلز پارٹی کے گذشتہ دور میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل میں شریک رہے ہیں، اس تعیناتی پر ہمارے شہداء کے لواحقین، کارکنوں اور حق پرست عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، گذشتہ روز پپپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں ہم نے شعیب سڈل کی تعیناتی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو پپپلز پارٹی کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ شعیب سڈل ہمارے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مزید افسران کو بھی تعینات کیا گیا ہے جو ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں اور یہی وہ تمام حالات ہیں جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پپپلز پارٹی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پپپلز پارٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم نے حد سے زیادہ وزارتوں کا مطالبہ کیا تھا جو مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنا جس پر فاروق ستار نے اس تاثر کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں اور یہ بات لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی مذاکرات اس نہج تک نہیں پہنچے تھے جہاں وزارتوں پر بات ہوتی، ابھی تو ہماری توجہ ورکنگ ریلیشن شپ پر رہی ہے۔
ایم کیو ایم نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پپپلز پارٹی کے غیر سنجیدہ رویے کو قرار دیا ہے اور کہا کہ ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین شراکت عمل اور مفاہمت کے لیے جتنا آگے جا سکتے تھے گئے۔
ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو پر ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے اتوار کی شام پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام صورتحال سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پپپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت میں سنجیدہ نہیں ہے لہذٰا ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے تمام صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ وفاق اور صوبہ سندھ میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔
اس اعلان کے ساتھ ہی وہاں موجود ایم کیو ایم کے کارکنان نے جئے الطاف اور جئے متحدہ کے نعرے لگائے۔
فاروق ستار
فاروق ستار نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے اس فیصلے کی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے مفاہمت کے لیے ہر مثبت قدم اٹھایا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی جانب سے وزیرِاعظم کے انتخاب کی نامزدگی سے دستبرداری سے صوبائی اسمبلی میں وزیراعلٰی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی حمایت کے فیصلوں تک کو مفاہمت کی جانب مثبت اقدامات کا حصہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’پپپلز پارٹی کی جانب سے جو غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا وہ ہمارے لیے انتہائی مایوس کن ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات چیت کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پپپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن بھی جمہوریت کا حصہ ہوتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پپپلز پارٹی کی حکومت ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے کردار کا بھی احترام کرے گی لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ریاستی طاقت یا جبر کے ذریعے ہمیں دبا لیا جائے گا تو ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ سن انیس سو پچانوے نہیں ہے، دوہزار آٹھ ہے اور اب کسی بھی آواز کو طاقت کے ذریعے نہیں دبایا جا سکتا‘۔
فاروق ستار نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پپپلز پارٹی کی جانب سے بعض ایسے اقدامات بھی کیے گئے جو ہمارے لیے کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔
فاروق ستار
انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز شعیب سڈل کو آئی جی سندھ مقرر کیا گیا جو پپپلز پارٹی کے گذشتہ دور میں ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل میں شریک رہے ہیں، اس تعیناتی پر ہمارے شہداء کے لواحقین، کارکنوں اور حق پرست عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، گذشتہ روز پپپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں ہم نے شعیب سڈل کی تعیناتی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو پپپلز پارٹی کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ شعیب سڈل ہمارے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مزید افسران کو بھی تعینات کیا گیا ہے جو ایم کیو ایم کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں اور یہی وہ تمام حالات ہیں جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پپپلز پارٹی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پپپلز پارٹی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم نے حد سے زیادہ وزارتوں کا مطالبہ کیا تھا جو مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنا جس پر فاروق ستار نے اس تاثر کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں اور یہ بات لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی مذاکرات اس نہج تک نہیں پہنچے تھے جہاں وزارتوں پر بات ہوتی، ابھی تو ہماری توجہ ورکنگ ریلیشن شپ پر رہی ہے۔