کیا کشمیر اورافغان پالیسی کروٹ لینے کو ہے &#15

  • Work-from-home

imkanaat

Newbie
May 15, 2008
41
37
0
کیا کشمیر اورافغان پالیسی کروٹ لینے کو ہے ؟ کالم ۔ زبیر احمد ظہیر

کیا نئی حکومت امن قائم کرنے میں کا میاب ہوپائے گئی ؟کراچی ملک کی اقتصادی شہ رگ ہے یہ جب دکھتی ہے تو درد پورے ملک کے اقتصادی وجود کوہوتا ہے شہ رگ کو زخمی کرکے مہنگائی پر قابو نہیںپایا جاسکتا اس اصول کو آصف علی زرداری نے اپنی گرہ میں باندھا اور ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش شروع کردی، یہ کوشش اب ایم کیو ایم کے مرکز اور سندھ میں حکومت کا حصہ بننے کو ہے۔ آصف علی زرداری نے اس وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا اور ایم کیو ایم کے گلے شکوے کرنے کا باب بند کردیا ۔ ن لیگ اور اے این پی کے تحفظات بدستور موجود ہیں۔ پی پی کے جیالے بھی اچانک اس غیرمتوقع صورت حال پر حیران ہیں۔ آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کی خاطر رسک لیااوراپنی ساکھ داؤ پر لگادی لہذااب ایم کیو ایم نے مشکل وقت میں آصف علی زرداری کا ساتھ چھوڑنے کااخلاقی جواز کھودیا ہے۔ مرکز میں ایم کیو ایم کی حتمی شمولیت اتحادیوں کی صوابدید پر منحصر ہے، اس وسیع اتحاد سے اب مرکز اور صوبوں میں ایک ایسی مضبوط حکومت بننے جارہی ہے جسے طاقتوراپوزیشن کا سامنا نہیں، مخلوط حکومتیں عام طور پر کمزور ہوا کرتی ہیں مگرموجودہ مخلوط حکومت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ اس کے سامنے مرکز اور صوبوں میں اپوزیشن کہیںمضبوط نہیں۔ جمہوری معاشرے میں اپوزیشن کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، شوکت عزیز دور میں مضبوط اپوزیشن اکثریت کی آمریت کا شکار رہی اور کچھ نہ کرپائی، موجودہ اپوزیشن کا کردار بھی تماشائی سے کم نہیں،جب چیک اینڈ بیلنس کا خوف نہ ہو توحکومتیں طاقت کے زعم میں آکر ایسے اقدامات کا ارتکاب کرجاتی ہیں جو قوم اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔یہاں اس بات کا اتنا خوف نہیں جتنا اتحادیوں کے باہمی اختلافات کا خدشہ ہے۔ اب تک حکمران اتحادنے مشاورت سے معاملات بخوبی چلائے ۔ غلط فہمیاںاقتدار کی غلام گردشوں سے جنم لیتی ہیں ان کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ ان شکوک و شبہات کا کچھ آغاز ہوچکا ہے ۔عدلیہ کی بحالی کے دباو میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے وکلاء اور انتخابات کا بائیکا ٹ کرنے والی سیا سی جماعتیںتحریک کے لیے تیا ر بیٹھی ہیں اس صورت حال کا نئی حکومت نے بروقت ادراک کیا اور اس نے آتے ہی عدلیہ کی بحالی کے اقدامات شروع کردیے لہذا امید ہے کہ حکومت یہ مشکل مرحلہ بھی سرکرے گی ۔
مستقل اوردیرپا امن اس وقت ملک کاسب سے بڑا ایشو ہے۔ اس کی جڑیں ملک کی خارجہ پالیسی سے جڑی ہوئی ہیں، ہماری سب سے طویل 2 ہزار 5 سو کلو میٹر سرحد امریکی دباؤ افغانستان کی مداخلت اور بھارت کی سازشوں کا شکار ہے۔اس سرحدی تناو سے قبائلی علاقوںسمیت ہمارے دو صوبے براہ راست متاثر ہیں گویاآدھا پاکستان خطرات کی زد میں ہے۔ یہ طویل سرحد جب تک محفوظ نہیں ہوتی امن وامان کے قیام اور عوامی اضطراب کے خاتمے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انتہاپسندی کو انتہاپسندی سے ختم کرنے کافارمولہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے لہذایہ وقت مزید ہوش مندی کا ہے انتہا پسندی کا نہیں ۔ صدر مشرف نے انتہاپسندی کو انتہاپسندی سے کنٹرول کرنے کی لاکھ کوشش کر ڈالی مگر اس بے چینی میں اضافہ ہوا کمی نہ ہوئی، نئی حکومت کے آنے اور اس معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی جوں ہی بات شروع ہوئی امریکا نے بغیر پائلٹ طیاروں کے بمباری کا آغاز کردیا ۔ ان علاقوں میں امن وامان کی کنجی جن دو ہاتھوں میں ہے ان میںایک مزاحمت کار ہیں جن کے ہاتھ میں بندوق ہے اور دوسراامریکا ہے جس کے ہاتھ میں میزائل ہے ہم نے بندوق چھیننے کی لاکھ کوشش کرلی الٹا وہ ہمیں چھلنی کر گئی امریکا سے میزائل چھیننا ہمارے بس میں نہیںہم نے جب مزاحمت کاروں سے مزاکرات کے ذریعے بندوق لینے کی کوشش کی امریکی میزائلوں نے ہماری وہ کوشش ناکام بنا دی ۔ امریکا نے ہر موقع پر قبائل سے مذاکرات سبوتازکیے ۔ امن معاہدوں کے بعدبمباری کی اور جلتی پر پیٹرول چھڑک دیا، جس سے لگی آگ میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ قبائلیوں کی صدیوں پرانی روایت ہے جس نے ان کے معاملات میں مداخلت کی، اس نے مفت کی جنگ مول لی۔جب بھی قبائلیوںکے اس چھتے کو جس نے چھیڑا قبائیلوں نے شہد کی مکھیوں کی طرح ہلہ بول دیا اور حملہ آور کا چہرا نوچ کھایا ۔ جنگجوؤں کو کسی طرح امن پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے کئی کوششیں ہوئی جو کامیاب بھی ہوئیں مگر امریکا کو کس طرح سمجھا جائے یہ اہم سوال ہے۔ امریکا کے خطے میں طویل مفادات ہیں، اسے ہر حال میں چین کا پڑوس درکار ہے۔ہم امریکا کو چھوڑنے کی لاکھ کوشش کرلیں امریکا ہماری جان چھوڑنے کوتیار نہیںہم خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ سے جوڑنے کی پوزیشن میں ہیںلیکن اگر امریکا بغیر پائلٹ طیاروں سے بمباری کرتا رہے تو اسے کون روکے گااگر پوری قوم متحد ہوکر احتجاج کا فیصلہ کر لے ۔تمام اہم پارلیمانی سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہ نئی قومی حکومت بھی ایک طرح سے خود بخود پوری قوم کی آواز کا روپ دھار گئی ہے اسکا احتجاج بھی پوری قوم کا احتجاج سمجھا جائے گا ۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے دو طاقتوں کی لڑائی میں ہمیشہ مفت کی مار کھائی ہے۔ روس امریکا سرد جنگ میں سارا عذاب پاکستان نے جھیلا اب امریکا چین سردجنگ میں ہماری درگت بن رہی ہے۔ نئی حکومت کو اس وقت دو محاذوں پر لڑنا ہوگا کوئی جنگ بھی خواہ وہ فکری ہو یا عسکری دو محاذوں پر بیک وقت نہیں لڑی جاسکتی۔ حکومت نے امریکا کو اپنی مجبوریا ں بتلانی ہیں اور اسے قائل کرنا ہے اور اس طرح جنگجو قبائلیوں کو بھی آمادہ کرنا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے ضمن میں بھی ہم مصائب کا شکار ہیں۔ ہمارے زمینی حقائق یہ ہیںکہ بھارت نے پاکستان کے پانیوں پر ڈیم بنانے شروع کردیے اس نے 52ڈیم بنا نے کی تیاری شروع کردی ہے ، یہ ہمارے سرسبز مستقبل کا سوال ہے اورپاکستان کو بنجر بنانے کی گہری سازش ہے۔ لہٰذا پاکستان دریائے سندھ ،جہلم اور چناب کے سرچشمے کشمیر کو دیکھتی آنکھوں بھارت کے حوالے نہیں کرسکتا، ایسا کوئی بھی حل جس سے پاکستان کے پانیوں کا یہ سرچشمہ محفوظ ہوجائے ایسے کسی حل کی جانب پاکستان کو بڑھے بغیر چارہ نہیں، بھارت امن کی بولی نہیں سمجھتااور ملک کے زمینی حقائق ایسے نہیں کہ پاکستان دو محاذ کھول لے، پاکستان اس وقت افغانستان سے متصل سرحد میں عملاً حالت جنگ میں ہے، بھارت نے 7 سو 43 کلو میٹر کنٹرول لائن پر باڑھ لگاکر عملاً سرحدمستقل بنادی ہے، سرحد کی یہ پوزیشن اور پاکستان کے ان زمینی حقائق سے بھارت مکمل باخبر ہے اس لیے بھارت کوئی نرمی برتنے کو تیار نہیں ۔
جہاں تک بھارت نواز کشمیری لیڈروں کے دوروں کا تعلق ہے بھارت نواز کشمیریوں کے دوروں سے مسئلہ کشمیر اگر حل ہونا ہوتا تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔ عمر عبداللہ اورمحبوبہ مفتی کی پاکستان آمد انکی سیاسی مجبوری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس سال اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اورعمر عبدللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس ان تینوں بھارت نواز پارٹیوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کا حل اس سا ل مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کا اہم ایشو ہے۔ لہٰذا کشمیری ووٹرکو پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے سبز باغ دکھلانے شروع کردیے ہیں ،ان تینوں بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے ایک بارپھر مقبوضہ عوام کو دھوکہ دینے کی ٹھان لی ہے۔ انہوں نے عوام کو مسئلہ کشمیر کے حل کے نام پر دھوکہ دینا ہے اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے یہ پاکستان کا دورہ کرکے یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیںکہ دہلی کے بعد اسلام آبادنے بھی انکی سیاسی اہمیت تسلیم کرلی ہے ۔ یہ ساری وہ تنظیمیں ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے تک کے انتہاپسندانہ بیانات دیئے اور بھارت نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، آج مسئلہ کشمیر کے حل میں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں علی گیلانی اور حریت کانفرنس سے زیادہ خلوص پیداہوگیا ہے انہوں نے حریت کانفرنس کا موقف چورانے میں جتنی سینہ زوری اب دکھلائی ہے یہ جماعتیں بھارت کوکندھے نہ دیتیں توجو اقتدارآج خطرے میں پڑاہواہے یہ مستقل انہی کا ہوجاتا مگر یہ ہوکررہنا تھا کہ ایک نہ ایک دن بھارت نوازوںکوبھی عوامی دباو پرآزادی کی بات پر مجبور ہونا تھا ۔ ہمارے زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ افغان باڈر پر پاکستان امریکا اور عسکریت پسند دونوںکی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی افغان محاذ کے ہوئے ہوئے توجہ نہیں دی جاسکتی لیکن اگر ہمت کی جائے تو قبائلیوں کو اعتماد میں لے کر امریکا سے جان چھڑائی جاسکتی ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے یہ ہمت کرنی ہوگئی اس لیے کہ محترمہ نے اب بار بار شہید نہیں ہونا، عدلیہ کا بحران بار بار پیدا ہونا ہے اور نہ لال مسجد ایشو دوبارہ کھڑا ہوگا ۔ کون کہتا ہے کہ دو محاذوں پر بیک وقت مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔قیام پاکستان سے قبل حالت یہ تھی کہ مسلمان واضح طور پر تقسیم تھے آدھی تعداد کانگریس کے ہم خیال تھی،فروری1947 تک بشمول صوبہ سرحد برصغیر کے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت تھی ۔بر صغیر سے برطانوی اقتدار کے خاتمے کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی لہذا انگریزمسلمانوں کے دلی دشمن تھے ان تمام حالات کے باوجود قائداعظم اور مسلم لیگ نے کانگریس کی ریشہ دوانیوں اور انگریزوں سے بیک وقت دو محاذوں پر تنہا مقابلہ کیا اور پاکستان بھی بنالیا ہے۔تن تنہا بیک وقت دومحاذوں پر ڈٹنے اورمقابلہ کرنے کی یہ وہ ٹھوس حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top