Assalam-o-Alaikum
Aa Tujh Ko Bataoo'n Mai'n
Kafi dinoo'n baad aap logoo'n key liye ek nai tehreer
ler ker hazir huwa hoo'n umeed hey
pasand aaye gi
آ تجھ کو بتاؤں میں
رمضان ایک با برکت مہینہ مگر بری حیرت ہوتی ہے کہ اس با برکت مہینے میں بھی ہم موسیقی جیسی چیز سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے اب تو حد یہ ہے کہ نعتوں اور حمد میں بھی لوگ موسیقی کو شامل کرلیتے ہیں نشہ صرف ہیرؤن اور چرس وغیرہ کا ہی نہیں ہوتا اسکی مختلف قسمیں ہوتی ہیں ہم جس ملک کے باسی ہیں اسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جسکی بنیاد اور اساس اسلامی نظریہ ہے اور اس ملک میں اسلام کا نفاذ اور اسکی نشر و اشاعت اسکے قیام اور مقاصد کا ایک حصہ ہے تو پھر فن کے نام پر اس قسم کی چیزوں کو فروغ دینا اسلام کا کونسا حصہ ہے یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہم پہلے ہی وڈیو کے طوفان میں خس و خاشاک کی طرحہ بہے جا رہے ہیں آج کی نوجوان نسل کے ہاتھوں میں موبائل کا جو استعمال ہو رہا ہے ہم اس سے نہیں سنبھل پا رہے ہیں تو اوپر سے یہ ایک اور آفت مرے پر سو درے کے مصداق ہے ہم جناب شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر پڑھتے تھے
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و ثنا اول طاؤس و رباب آخر
اور یہاں حالت یہ ہے کہ ( جناب اقبال سے معزرت کے ساتھہ ) طاؤس و رباب اول اور طاؤس و رباب آخر آج ویڈیو کا نشہ ہمارے بچے بچے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے آج اسکول کا ایک بچہ اپنے کورس سے اسقدر واقف نہیں جتنی واقفیت اسے فلموں انکے گانوں اور اداکاروں سے ہے ہم نے آجتک اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آخر کیا وجہہ ہے کہ انڈیا اپنے بوسٹرز پاکستانی سرحد کے نزدیک نصب کرتا ہے آخر وہ کیوں چاہتا ہے کہ انڈین فلمیں اور پروگرامز پاکستان میں دیکھے جا سکیں ؟ اسکی وجہہ یہ ہے کے اس ملک کو کمزور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس ملک کی اس اساس کو کمزور کردیا جائے جس پر یہ ملک قائم ہے، پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور انڈیا ایک ہندو اسٹیٹ ہونے کہ باوجود سیکولر اسٹیٹ ہونے کا دعوا کرتا ہے اور اس سیکولرازم کا پرچار وہ پاکستان میں بھی کر رہے ہیں انکی زیادہ تر فلموں میں اس بات کی تبلیغ کی جاتی ہے کہ دوستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں ہوتی مذھب کا مقام بھی دوستی کے بعد آتا ہے جبکہ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماں باپ اگر مسلمان نہ بھی ہوں تو انکا ہر حکم بجا لانا ہے لیکن اگر وہ الله کے ساتھ شرک کرنے کو کہیں تو ان کی بھی نہیں سننی یعنی اسلام کو مقدم رکھا گیا لیکن لوگ انڈین فلموں میں اسے دیکھتے ہیں سراہتے ہیں اور سر دھنتے ہیں انڈین فلموں کے طوفان کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جو یہ لعنت سے محروم ہو ہر علاقے میں ویڈیو کی دکانیں پائی جاتی ہیں اور خاص کر کیبل کے آنے کے بعد تو عریانیت اور فحاشی کا ایک سیلاب ہے جو ہماری شرم و حیا کو بھی بہا لے گیا ہے اب باپ اور بیٹی، بہن اور بھائی، ماں اور بیٹا ساتھہ بیٹھہ کر دیکھتے ہیں اور کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ ہم گمراہی کے کس گڑھے میں گرتے جارہے ہیں کہ جس سے باہر آنا ہمارے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رمضان کے اس بابرکت مہینے میں سب کے لئے اور اس مملکت خدا داد کے لئے دعا کریں کہ الله ہمارے حال پر رحم فرماے اور ہدایت کی دولت سے نوازے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے تو مسلمان کی صورت صرف یہ ہی ہو سکتی ہے
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
آمین
Aa Tujh Ko Bataoo'n Mai'n
Kafi dinoo'n baad aap logoo'n key liye ek nai tehreer
ler ker hazir huwa hoo'n umeed hey
pasand aaye gi
آ تجھ کو بتاؤں میں
رمضان ایک با برکت مہینہ مگر بری حیرت ہوتی ہے کہ اس با برکت مہینے میں بھی ہم موسیقی جیسی چیز سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے اب تو حد یہ ہے کہ نعتوں اور حمد میں بھی لوگ موسیقی کو شامل کرلیتے ہیں نشہ صرف ہیرؤن اور چرس وغیرہ کا ہی نہیں ہوتا اسکی مختلف قسمیں ہوتی ہیں ہم جس ملک کے باسی ہیں اسکا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جسکی بنیاد اور اساس اسلامی نظریہ ہے اور اس ملک میں اسلام کا نفاذ اور اسکی نشر و اشاعت اسکے قیام اور مقاصد کا ایک حصہ ہے تو پھر فن کے نام پر اس قسم کی چیزوں کو فروغ دینا اسلام کا کونسا حصہ ہے یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہم پہلے ہی وڈیو کے طوفان میں خس و خاشاک کی طرحہ بہے جا رہے ہیں آج کی نوجوان نسل کے ہاتھوں میں موبائل کا جو استعمال ہو رہا ہے ہم اس سے نہیں سنبھل پا رہے ہیں تو اوپر سے یہ ایک اور آفت مرے پر سو درے کے مصداق ہے ہم جناب شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر پڑھتے تھے
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و ثنا اول طاؤس و رباب آخر
اور یہاں حالت یہ ہے کہ ( جناب اقبال سے معزرت کے ساتھہ ) طاؤس و رباب اول اور طاؤس و رباب آخر آج ویڈیو کا نشہ ہمارے بچے بچے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے آج اسکول کا ایک بچہ اپنے کورس سے اسقدر واقف نہیں جتنی واقفیت اسے فلموں انکے گانوں اور اداکاروں سے ہے ہم نے آجتک اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آخر کیا وجہہ ہے کہ انڈیا اپنے بوسٹرز پاکستانی سرحد کے نزدیک نصب کرتا ہے آخر وہ کیوں چاہتا ہے کہ انڈین فلمیں اور پروگرامز پاکستان میں دیکھے جا سکیں ؟ اسکی وجہہ یہ ہے کے اس ملک کو کمزور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس ملک کی اس اساس کو کمزور کردیا جائے جس پر یہ ملک قائم ہے، پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور انڈیا ایک ہندو اسٹیٹ ہونے کہ باوجود سیکولر اسٹیٹ ہونے کا دعوا کرتا ہے اور اس سیکولرازم کا پرچار وہ پاکستان میں بھی کر رہے ہیں انکی زیادہ تر فلموں میں اس بات کی تبلیغ کی جاتی ہے کہ دوستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں ہوتی مذھب کا مقام بھی دوستی کے بعد آتا ہے جبکہ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماں باپ اگر مسلمان نہ بھی ہوں تو انکا ہر حکم بجا لانا ہے لیکن اگر وہ الله کے ساتھ شرک کرنے کو کہیں تو ان کی بھی نہیں سننی یعنی اسلام کو مقدم رکھا گیا لیکن لوگ انڈین فلموں میں اسے دیکھتے ہیں سراہتے ہیں اور سر دھنتے ہیں انڈین فلموں کے طوفان کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جو یہ لعنت سے محروم ہو ہر علاقے میں ویڈیو کی دکانیں پائی جاتی ہیں اور خاص کر کیبل کے آنے کے بعد تو عریانیت اور فحاشی کا ایک سیلاب ہے جو ہماری شرم و حیا کو بھی بہا لے گیا ہے اب باپ اور بیٹی، بہن اور بھائی، ماں اور بیٹا ساتھہ بیٹھہ کر دیکھتے ہیں اور کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ ہم گمراہی کے کس گڑھے میں گرتے جارہے ہیں کہ جس سے باہر آنا ہمارے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رمضان کے اس بابرکت مہینے میں سب کے لئے اور اس مملکت خدا داد کے لئے دعا کریں کہ الله ہمارے حال پر رحم فرماے اور ہدایت کی دولت سے نوازے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے تو مسلمان کی صورت صرف یہ ہی ہو سکتی ہے
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
آمین