Amjab Islam AMjad's Autobiography in URDU!

  • Work-from-home

Hoorain

*In search of Oyster Pearls*
VIP
Dec 31, 2009
108,467
40,710
1,313
A n3st!
کچھ اپنے بارے میں
میں 4 اگست 1944 ءکو لاہور میں پیدا ہوا- میرے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے ہے- ہماری فیملی 1930 ءمیں لاہور آگئی تھی- میرا تعلق متوسط طبقے سے ہے- میرے خاندان کے بزرگ بنیادی طور پر دستکار تھے- - پرانے لاہور کی فلیمنگ روڈ جو ایک پرانی اور مشہور سڑک ہے اس زمانے کی بڑی بڑی اہم علمی ‘ ادبی اور صحافتی شخصیات اسی روڈ پر رہتی تھیں مثلاً حافظ محمود شیرانی فلیمنگ روڈ پر رہتے تھے- خود ہمارا گھر جس کٹڑی میں واقع تھا وہاں ہمارے قریبی ہمسائے آقا بیدار بخت تھے جو خود بھی لاہور کی بہت بڑی علمی اور تہذیبی شخصیت تھے- اس زمانے میں انہوں نے دارالعلوم السنات شرقیہ بنایا- ہمارے سول سرونٹس کی جتنی ابتدائی نسلیں ہیں ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس ادارے سے تربیت حاصل کی۔
طالبعلمی کا زمانہ
میں اپنے محلے ہی کے ایک پرائمری اسکول میں داخل ہوا- پرائمری اسکول تو اسی طرح کے تھے‘ جیسے ٹاٹ اسکول ہوتے ہیں- ان کا کوئی متعین نام بھی نہیں ہوتا- لیکن چھٹی جماعت سے میں نے لاہور کے مسلم ماڈل اسکول میں پڑھائی شروع کی‘ اس زمانے میں یہ اسکول لاہور کے اچھے اسکولوں میں شمار ہوتا تھا‘ اب بھی اس اسکول کی بڑی خصوصیات ہیں- آپ کو یاد ہوگا ہمارے ایک ڈاکٹر محبوب الحق ہوتے تھے سابق وزیر خزانہ او رمنصوبہ بندی‘ ان کے والد ہمارے ہیڈ ماسٹر تھے‘ ایم اے عزیز ان کا نام تھا۔ مسلم ماڈل اسکول سے میں نے میٹرک کیا -
اسی زمانے میں میرا بنیادی رجحان کھیلوں اور بالخصوص کرکٹ کی طرف تھا- اسکول ٹیم کی طرف سے میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ بچپن ہی سے مجھے کہانیاں سننے اور سنانے کا بہت شوق تھا- میری ایک سگی خالہ تھی جو آنکھوں سے اندھی تھی اور دو برس کی عمر میں ہی اس کا وجود میرے لئے ایک سوال کی مانند تھا مثلاً وہ اندھی کیوں ہے؟ اس کا قصور کیا ہے؟ اسے نظر کیوں نہیں آتا وغیرہ وغیرہ- وہ بیچاری نمازیں پڑھتی‘ دعائیں یاد کرتی رہتی‘ ہر وقت حمد و ثناءمیں مصروف رہتی تھی-میری اس خالہ کو کہانیاں سنانے کا بڑا شوق تھا لہٰذا اس سے سنی ہوئی کہانیوں میں کچھ کہانیاں اپنی طرف سے ملا کر انہیں اسکول میں سنایا کرتا تھا- مجھے یاد ہے کہ جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو میرے انگریزی کے ٹیچر نے میرا نام کہانیوں کی مشین رکھا ہوا تھا- اب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہانی سنانے اور بنانے کا شوق شاید مجھے اسی زمانے میں ہوگیا تھا- میں نے ساتویں جماعت میں رضیہ سلطانہ کے نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا- اس وقت تحریر تو اتنی پختہ نہیں تھی مگر اس ڈرامے کی خوبی یہ تھی کہ وہ سترّ اسّی صفحات پر مشتمل تھا- اس میں‘ میں نے بڑے سین اور منظر نامے وغیرہ لکھے تھے جس کا مجھے علم نہیں تھا- جب میں نے وہ ڈرامہ اپنے اسکول ٹیچر کو دکھایا تو اس میں غلطیاں اگرچہ بے شمار تھیں مگر انہوں نے میری اس کوشش کو بہت سراہا البتہ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ میں نے ہی لکھا ہے پھر جب میں نویں کلاس میں پہنچا تو اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے اسکول کے رسالے ”نشانِ منزل“ کا ایڈیٹر ہوگیا- آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اسکولوں کے رسالے میں بس نام کا ہی ایڈیٹر ہوتا ہے- کیونکہ اس رسالے میں ہمارے نام سے جو چیزیں چھپتی تھیں ہمیں ان تحریروں کو دیکھنے کی سعادت بھی نصیب نہیں ہوتی تھی مگر ایڈیٹر کے طور پر میرا نام چھپتا تھا اور عزت بھی ہوتی تھی- ان ملے جلے حالات میں ‘ میں نے ۰۶۹۱ءمیں مسلم ماڈل اسکول سے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک کیا- پھر جب فرسٹ ایئر میں آیا تو کالج کی ”بزم ادب“ سے میری بہت زیادہ وابستگی ہوگئی- اب میں اشعار بھی وزن میںکہنے لگا تھا- میری ابتدائی غزلیں فرسٹ ایئر میں ہی ”قندیل“ اور ”چٹان“ میں چھپنے لگی تھیں- اس سے مجھے مزید حوصلہ ملا- آقا بیدار بخت جو ہمارے ہمسائے تھے وہ بھی میرے اس شوق کو بہت زیادہ سراہتے تھے
مجھے صد فی صد بنجر زمین ہی ملی -میں ہموار ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے خاندان میں تو تعلیم کاتصور ہی ناپید تھا جسے آپ ڈائریکٹ پیرنٹ ہوڈ کہتے ہیں تو میرے ایک چچا کالج کی سطح تک تعلیم حاصل کر سکے تھے دوسرا آدمی فیملی میں مَیں تھا - ابتدا ءمیں دست کاری اور ہمارے دور میں دکانداری اکثر خاندانی پیشہ رہا - میری ذات کے حوالے سے یہ کرم نوازی عطیہ خداوندی ہے -
فرسٹ ایئر میں مجھے جن شاعروں نے زیادہ متاثر کیا ہے وہ وہی شاعر ہیں جو آج بھی فرسٹ ایئر کے لوگوں کو بڑا متاثر کرتےہیںجن میں رومانس یا انقلاب ہو- یعنی ایک طرف ساحر لدھیانوی اور دوسری طرف جگر مراد آبادی ‘یہ دونوں اس زمانے میں میرے پسندیدہ شاعر تھے- چنانچہ اس زمانے میں شاعری کا جو مروجہ انداز تھا‘ اس سے میں نے تھوڑا سا امپروو کرکے پروگریسواور سنجیدہ قسم کی شاعری کی جانب مائل ہوا-
کوئی خاص موضوع نہیں تھا- صرف روایتی سا انداز تھا یعنی کہیں زور لگا کر ساحر کے انداز میں غزل لکھ لی تو کبھی فیض کے انداز میں غزل لکھ لی یا کبھی جگر صاحب کے انداز کو اپنا لیا- ظاہر ہے وہ تو بہت بڑے لوگ تھے مگر میں یہاں پر فیکشن کی نہیں صرف نقل کی بات کر رہا ہوں- مثلاً مجھے اب بھی یاد ہے کہ فرسٹ ایئر میں‘ میں نے شراب کی ردیف میںایک غزل لکھی تھی -اس زمانے میں شراب پینا تو دور کی بات ہے میں نے کسی کو شراب پیتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا مگر پھر بھی شاعری پڑھ پڑھ کر جو تھوڑا بہت تجربہ ہوچکا تھا اس کی بنیاد پر میں نے کچھ اس قسم کی غزل لکھی:۔
جلتے ہیں آرزو کے ستارے شراب میں
ملتے ہیں بے کسوں کو سہارے شراب میں
میں سمجھتا ہوں یہ ایک طرح کی احتسابی شاعری تھی- اس سے میرے اندر کی جو شاعرانہ صلاحیتیں تھیں اس کی تربیت یا تہذیب صرف اتنی ہوئی کہ آگے چل کر مجھے اس کی نیٹ پریکٹس کا بہت فائدہ ہوامیں نے اسی زمانے میں نثر لکھنا شروع کر دی- یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میں نے شروع مزاح سے کیا- ”چاند“ کے نام سے ایک رسالہ اب بھی نکلتا ہے- میں ۱۶۹۱ءسے لے کر ۴۶۹۱ءتک ان کا بڑا مستقل رائٹرتھا- اس رسالے میں میرے بہت سے ڈرامے اور مزاحیہ مضامین بھی چھپتے رہے


ہمارے بعد ہیں کچھ لوگ کیسے‘ دیکھ تو آئیں
چلو اُس شہر کو اِک بار پھر سے‘ دیکھ تو آئیں​
 
Top