صدر مشرف کے پاس ايک راستہ بچا ہے- کہ وہ سياسی عمل ميں اپنے آپ کو قابل قبول بنواليں- وہ بش سے تقويت حاصل کرنے يا جوڑ توڑ کے منفی طريقوں سے کنارہ کشی اختيار کر ليں اور افہام وتفہيم کی پاليسی سے کام ليتے ہوۓ موجودہ اور آنے والے سيٹ اپ سے جڑنے کی کوشش کريں- ميں سمجھتا ہوں کہ وہ ايسا کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں` بشرطيکہ وہ عوام کی راۓ کی عظمت کے معترف ہو جائيں` جس طرح وہ بش کو کے اشارے پر گھوم جاتے ہيں اسی طرح پاکستان ميں جمہوری عمل کے لۓ ايک يو ٹرن لے ليں-