Anchal (september 2012)

  • Work-from-home

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کاروان محبت… نادیہ فاطمہ رضوی
وہ بد حواسی کے عالم میں دیوانہ وار بھاگتی ہوئی دروازہ کھولتے ہی کارپٹ پر ڈھے گئی اور پھولی پھولی سانسوں کو متوازن کرنے لگی۔
’’اللہ خیر کرے فاطمہ کیا پولیس پیچھے لگی ہوئی ہے جو پاگلوں کی طرح دوڑ کر آئی ہو۔‘‘ ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے علیشبہ نے فاطمہ کو یوں آتے دیکھا تو بے زار کن لہجے میں بولی۔
’’بات ہی کچھ ایسی ہے بہنا دیکھو‘ ابھی ابھی کوریئر والا دے کر گیا ہے۔‘‘ اس نے سرخ رنگ کا کارڈ فرط جوش و مسرت سے اپنے دائیں ہاتھ سے لہرایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ علیشبہ نے اشتیاق بھرے لہجہ میں پوچھا۔
’’پھوپھو کی طرف سے آیا ہے اگلے مہینے کی سات تاریخ کو ظہیر بھائی کی بارات ہے۔‘‘
’’وائو۔ کیا واقعی؟بہت مزا آئے گا مجھے بھی تو دیکھائو یہ کارڈ۔‘‘ علیشبہ ایکسائیٹڈ ہو کر بولی اور پھر دونوں کارڈ پر جھک گئیں۔
’’ایبٹ آباد میں پھوپھو کاگھر کتنا خوب صورت ہے وہاں مہمان بن کر جائیں گے میں تو ہل کر پانی بھی نہیں پیوں گی۔ یہاں تو سارا دن کام کام بس کام۔‘‘ علیشبہ آخر میں منہ بنا کر بولی وہ اول درجے کی کاہل اور سست الوجود تھی۔
’’ہاں‘ ہاں تم تو حبیسے یہاں کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہو نا۔‘‘ فاطمہ اس کے کاہل پن کی عادت سے چڑ کر بولی تو علیشبہ کو پتنگے لگ گئے۔
’’خود تو بڑی کام کرنے والی ہو۔‘‘
’’تم لڑ بعد میں لینا پہلے یہ سوچو کہ ہم پندرہ دن پہلے پھوپھو کے گھر کیسے جائیں گے۔‘‘ فاطمہ پریشان کن انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیوں بھئی ہم باذل بھائی کے ساتھ جائیں گے اور کس کے ساتھ جائیں گے؟‘‘
’’تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ باذل بھائی کو آفس سے اتنی لمبی چھٹی ہر گز نہیں ملنے والی اور وہ تو ویسے بھی اتنے دن پہلے وہاں ڈیرا ڈالنے کے حق میں ہر گز نہیں ہوں گے۔ اور امی ابا بھی شادی سے چار دن پہلے ہی جائیں گے کیونکہ بڑی خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اگلے ہفتے ان کے پتے کا آپریشن جو ہونے والا ہے۔‘‘ فاطمہ تفصیلاً بولی تو علیشبہ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
’’ہائے تو پھر کیا ہوگا۔ پر ہمارا دماغ رک جاتا ہے تو پھر یشب بی بی کا دماغ چلنا شروع ہوتا ہے۔‘‘ فاطمہ ڈرامائی انداز میں بولی۔
’’ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی یہ یشب کس مرض کی دوا ہے۔‘‘ علیشبہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولی۔
’’میں اسے فون کرتی ہوں کہ فوراً یہاں آجائے اور خبردار یہ بات باذل بھائی کو معلوم نہ ہو کہ ہم نے یشب کو سفارش کے لیے بلایا ہے۔‘‘ فاطمہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولی تو علیشبہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
…٭٭٭…
’’بالکل نہیں میں تم تین جوان جہان لڑکیوں کو ہر گز یوں اکیلے ایبٹ آباد نہیں جانے دوں گی۔‘‘ اماں نے واضح لفظوں میں انکار کیا تو دونوں بہنوں کے منہ لٹک گئے مگر یشب نے ہمت بالکل نہیں ہاری وہ اب صحیح معنوں میں کمر کس کر میدان میں اتر آئی۔
’’تائی اماں مانا کہ آپ کی دونوں لڑکیاں کافی بونگی اور بد حواس ہیں مگر میں ہوں نا ان لوگوں کے ساتھ۔ آپ بالکل اس بات کی فکر مت کریں۔ میں ان پر کڑی نظر رکھوں گی کہ سفر کے دوران یہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائیں بس آپ مجھ پر بھروسا رکھیں۔‘‘
’’یشب کی بچی۔‘‘ دونوں لڑکیاں اپنی اس عزت افزائی پر دانت پیس کر رہ گئیں مگر مجبوراً خاموش رہیں۔ اماں سے اجازت بھی تو لینی تھی۔
’’ارے بچی میں تو سخت پریشان رہتی ہوں ان لوگوں کی بے وقوفیاں دیکھ دیکھ کر۔‘‘
’’تائی اماں میری محبت کے سائے میں رہیں گی تو کچھ عقل آ ہی جائے گی۔‘‘ یشب صاحبہ نے انتہائی مدبرانہ انداز میں سر ہلا کر کہا تو اب دونوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’یشب تم جیسی دو چار بھابیاں ہم جیسی بے چاری نندوں کو مل جائیںتو میرے خیال میں پھر کسی اور دشمن کی ضرورت باقی نہ رہے۔‘‘ فاطمہ غصہ سے بولی۔
فاطمہ نے بھی حساب ایک ہی پل میں بے باق کر ڈالا جبکہ یشب بس آنکھیں دکھاتی رہ گئی۔
’’اف اللہ میں کیا کروں ان تینوں کا۔‘‘ اماں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا۔
’’کیا ہوا امی آپ یوں سر پکڑے کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘ باذل کمرے میں داخل ہوا تو اماں کو سر پکڑے دیکھ کر حیرت سے استفسار کیا۔ باذل کو دیکھ کر تینوں نے کورس میں اسے سلام کیا۔ تینوں کی اس سے جان جاتی تھی۔
’’ثریا کے بیٹے کی شادی کا کارڈ آیا ہے اور یہ تینوں پندرہ دن پہلے سے جانے کی ضد کر رہی ہیں مجھے بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر یوں تنہا میں انہیں بھیجنا نہیں چاہ رہی۔‘‘ اماں گویا ہوئیں تو حسب معمول باذل کی تیوروں پر بل پڑ گئے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے امی تینوں کو اکیلا بھیجنے کی‘ فاطمہ اور علیشبہ تو احمق ہیں ہی مگر یہ یشب بی بی عقل سے بالکل پیدل ہیں سیر پر سوا سیر ہیں یہ موصوفہ۔‘‘
’’آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ اب میں اتنی بھی بونگی نہیں ہوں۔‘‘یشب منمنائی تھی۔
’’آپ کیا ہیں یہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں مجھے بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔‘‘ باذل نے گردن موڑ کر اسے گہرے طنزیہ لہجے میں کہا پھر اماں سے بولا۔
’’آپ شادی سے چار دن پہلے ہی ان تینوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیے گا۔‘‘
’’بھائی جان پلیز۔‘‘ دونوں بہنیں منت کرتے ہوئے بولیں مگر باذل ان کی فریاد کو نظر انداز کرکے وہاں سے چلا گیا۔
’’ہونہہ خود کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں۔‘‘ یشب باذل کے کڑے انداز سے خائف ہو کر بڑ بڑائی پھر احتجاجاً وہاں سے واک آئوٹ کر گئی۔
تینوں لڑکیاں سر جوڑے بیٹھی تھیں کہ آخر کس طرح سے گھر والوں کو راضی کیا جائے کہ وہ انہیں ریل گاڑی کے ذریعے ایبٹ آؓباد جانے کی اجازت دے دیں۔
یشب‘ فاطمہ اور علیشبہ کی چچا زاد ہونے کے ساتھ ساتھ باذل کی منگیتر بھی تھی دونوں کے گھر برابر تھے لہٰذا یشب صاحبہ دن کا آدھے سے زیادہ وقت یہیں پر ہی گزارتی تھیں۔ یشب اور باذل کی منگنی دادی کی ایماء پر پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی۔ جب یشب انٹر میں تھی اور پھر ٹھیک ایک سال بعد وہ دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے دو بیٹے باذل کے والد احسان گردیزی اور یشب کے والد محسن گردیزی تھے اور ایک بیٹی ثریا جو ایبٹ آباد بیاہ کر چلی گئی تھی احسان گردیزی کی دو بیٹیاں فاطمہ‘ علیشبہ اور بیٹا باذل تھے۔ جبکہ ثریا کے دو بیٹے ظہیر اور اظہر اور دو بیٹیاں ثانیہ اور دانیہ تھیں۔ جبکہ محسن گردیزی کی اکلوتی بیٹی یشب تھی۔
’’تم لوگ فکر مت کرو ان شاء اللہ ہم لوگ ایبٹ آباد ضرور جائیں گے وہ بھی ٹرین کے ذریعے۔‘‘ یشب فیصلہ کن لہجے میں بولی تو فاطمہ طنزاً گویا ہوئی۔
’’بالکل جائیں گے خوابوں میں‘ خیالوں میں۔‘‘
…٭٭٭…​
’’یشب کی بچی آج تم ضرور بھائی کے ہاتھوں ہمیں بھری جوانی میں شہید کروائو گی وہ انڈین فلمز کے سخت خلاف ہیں۔‘‘ یشب کو باذل کے کمپیوٹر میں سی ڈی لگاتے دیکھ کر علیشبہ خوف زدہ سی ہو کر بولی۔
’’افوہ‘ تم یونہی ڈر ڈر کر فوت ہوجائو مگر ہمیں تو مت ڈرائو اگر میرا کمپیوٹر ٹھیک ہوتا تو کیا مجھے فاطمہ نے کاٹا تھا جو تمہارے بھائی کے کمپیوٹر سے چھیڑ خانی کرتی۔‘‘ یشب اپنے مخصوص انداز میں بولی۔
’’اللہ کرے باذل بھائی تجھے رنگے ہاتھوں عمران ہاشمی کی فلم دیکھتے ہوئے پکڑیں۔‘‘ فاطمہ دانت پیس کر بولی۔
’’فلم اسٹارٹ ہوگئی اب خاموشی سے فلم دیکھو۔‘‘ اچانک اسکرین روشن ہونے پر یشب جوش و مسرت سے بولی اور پھر واقعی تینوں فلم میں بری طرح محو ہوگئیں۔
’’ہائے اللہ کتنا ہینڈسم ہے نا عمران ہاشمی کاش باذل کی بھی ایسے ہی مونچھیں… مونچھیں… موں… مون…!‘‘
’’ہاہاہا‘ تم تو یوں اٹک گئیں جیسے مونچھیں تمہارے منہ میں آگئیں۔‘‘ فاطمہ اسکرین پر نگاہیں جمائے یشب کی زبان کو مونچھوں پر اٹکتا دیکھ کر تمسخر سے بولی مگر اچانک ہی یشب نے کمپیوٹر کی تاریں بے دردی سے کھینچ کر کمپیوٹر بند کردیا۔
’’یشب کی بچی یہ کیا حرکت ہے…؟‘‘ علیشبہ بے مزا ہو کر اتنا ہی بولی تھی کہ اس کی نگاہوں میں بھی وہ منظر آگیا جسے دیکھ کر یشب کی سٹی گم ہوگئی۔
’’باذل بھائی آپ… آپ آج اتنی جلدی کیسے؟‘‘ باذل کو دروازے پر خشمگیں نگاہوں سے ایستادہ دیکھ کر علیشبہ پھیکے پھیکے انداز میںبولی۔

’’کیا ہو رہا ہے میرے کمرے میں؟‘‘ باذل اچانک دہاڑا تو تینوں باقاعدہ کانپنے لگی تھیں۔
’’وہ… وہ ایکچوئیلی مجھے اسائمنٹ بنانا تھا میرا نیٹ کام نہیں کررہا تھا تو میں نے سوچا کہ میں آپ کے کمپیوٹر سے کچھ عمران ہاشمی کی ڈیٹیلز لے لوں۔‘‘ وہ عالم بد حواسی میں نجانے کیا بول گئی جبکہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ دونوں بہنوں کا مارے شرمندگی و خفت کے برا حال تھا۔
’’فاطمہ‘ علیشبہ تم دونوں جائو یہاں سے۔‘‘ باذل کا حکم سن کر وہ دونوں بھاگیں۔ جبکہ یشب بے بسی کے عالم میں کھڑی رہ گئی۔
’’اچھا تو تمہیں اسائمنٹ بنانا تھا۔‘‘ باذل اس کے قریب آکر کاٹ دار لہجے میں بولا۔
’’جی… جی بالکل۔‘‘ اس نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کس موضوع پر؟‘‘
’’موضوع یہ ہے کہ عمران ہا…!‘‘ اب یشب کو احساس ہوا کہ عمران ہاشمی ابھی تک اس کے حواسوں پر چھایا ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے اس کے تصور کو جھٹک کر لعنت بھیجی اور مودٔبانہ انداز میں بولی۔
’’موضوع یہ ہے کہ بھینس چوبیس گھنٹے بنا وقفہ کے دم کیوں ہلاتی ہے۔ چار ٹانگوں والے جانور کھڑے کھڑے تھکتے کیوں نہیں اور یہ کہ بندر کے سر میں جوئیں پڑ جاتی ہیں تو مٹی کا تیل کیوں نہیں ڈال دیا جاتا اور بھینس رات کو شاید دم ہلانے کا سلسلہ موقف کر کے…!‘‘
’’شٹ اپ۔‘‘ باذل درشت لہجے میں زور سے بولا تو روانی سے چلتی یشب کی زبان یک دم رک گئی۔
’’اف میرے خدا آخر کس عمل کی پاداش میں تم جیسی عقل سے فارغ البال لڑکی میری تقدیر میں لکھ دی… دیکھو یشب ابھی بھی وقت ہے اپنے اندر سے یہ بچپنا ختم کر کے سنجیدگی و بردباری پیدا کرو۔‘‘
’’باطل… اوہ آئی ایم سوری باذل آپ نہیں جانتے میں اندر سے اس قدر سنجیدہ ہوں کہ کچھ حد نہیں میرے ننھیال والے تو میری سنجیدہ طبیعت سے بہت متاثر ہیں سچی۔‘‘ یشب انتہائی جوش سے ہاتھ نچا کر بولی۔
’’اچھا وہ نادیدہ سنجیدگی مجھے تو کبھی دکھائی نہیںدی جو انہیں نظر آگئی۔‘‘ باذل اسے دیکھ کر طنز سے بولا۔
’’نہیں باذل میرا یقین کریں یہ تو میں محض اوپر سے یونہی غیر سنجیدگی کا خول چڑھائے رکھتی ہوں ورنہ…!‘‘
’’اچھا‘ اچھا مجھے یقین آگیا اب پلیز میری جان چھوڑو اور خبردار جو آئندہ تم نے میرے کمپیوٹر کو ہاتھ بھی لگایا اور یہ فضول…!‘‘ کہتے کہتے باذل نے کمپیوٹر سے سی ڈی نکال کر یشب کے ہاتھ میں تھمائی۔
’’تھرڈ کلاس فلمیں خود دیکھیں اور فاطمہ اور علیشبہ کو دکھائیں۔‘‘
یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پہلے یشب تو بری طرح حفیف ہوئی پھر فاطمہ کی بد دعا اچانک یاد آئی۔
’’دیکھو لوں گی فاطمہ تجھے۔‘‘
وہ بڑ بڑائی اور کمرے سے نکل گئی۔
…٭٭٭…
یشب نے چچا جان کو شیشے میں اتارنے کا سوچا اور اب تینوں احسان گردیزی کے سر ہوگئی تھیں۔
’’چچا جان آپ مجھ پر بھروسا کیجیے میں انتہائی سمجھ داری کے سات پھوپھو جان کے گھر پہنچ جائوں گی۔ فاطمہ اور علیشبہ کو بھی پہنچا دوں گی۔ دیکھیے نا چچا جان پھوپھو آپ کی اکلوتی بہن ہیں اور ان کے گھر کی اتنی بڑی خوشی ہے ظہیر بھائی گھوڑی بننے والے…مم… میرا مطلب ہے گھوڑی چڑھنے والے ہیں۔ اب اس موقع پر ہمیں کم از کم پندرہ دن پہلے تو جانا چاہیے نا۔‘‘ یشب زور و شور سے دلائل دیتے ہوئے بولی تو احسان گردیزی سوچ میں گم ہوگئے۔ یشب نے فاتحانہ انداز میں فاطمہ اور علیشبہ کو دیکھا اور فرضی کالر جھاڑا۔
’’ثریا اس بات کا یقیناً برا نہیں مانے گی کہ ہم عین شادی کے دن پہنچے وہ ہماری مجبوریوں سے واقف ہے کل رات میری فون پر بات ہوئی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ یہ سن کر یشب کے ساتھ ساتھ فاطمہ اور علیشبہ کے چہرے بھی اتر گئے۔
’’مگر چچا جان کچھ ہمارے دلوں کا بھی خیال کیجیے۔ ہم ظہیر بھائی کی شادی کا سوچ کر بہت خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم تینوں پندرہ دن پہلے جائیں۔ پلیز چچا جان ہمیں ایبٹ آباد جانے کی اجازت دے دیجیے نا۔‘‘ یشب منت آمیز لہجے میں بولی۔
’’ہوں ٹھیک ہے تم تینوں کے ٹکٹ کنفرم کروا دیتا ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ تینوں خوشی سے چلا اٹھیں۔
’’تھینک یو سو مچ چچا جان۔ مجھے ٹرین کے سفر کا سوچ کر ہی خوشی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ٹرین سے… میں نے ٹرین کی ٹکٹس نہیں جہاز کے ٹکٹس کی بات کی ہے۔‘‘ احسان گردیزی نے یشب کی غلط فہمی دور کی تو تینوں کے چہرے ایک بار پھر اتر گئے۔
’’مگر پاپا آپ پھول گئے کہ پچھلی بار یشب کی جہاز میں طبیعت خراب ہوگئی تھی۔‘‘
’’چچا جان پلیز مان جائیے نا ورنہ میں پورا ایک دن کھانا نہیں کھائوں گی۔ بس میں بھوک ہڑتال پر ہوں۔‘‘ یشب نے آخری حربہ آزمایا۔
’’کیا یشب واقعی تم بھوک ہڑتال کرو گی۔ یعنی کہ تم…!‘‘ علیشبہ حیرت سے بولی تو احسان گردیزی پریشان سے ہوگئے۔
’’اچھا بھئی چلی جائو ٹرین کے ذریعے مگر احتیاط اور خیال کے ساتھ۔‘‘ احسان گردیزی کو ماننا ہی پڑی جبکہ تینوں خوشی سے اچھلتی ہوئی لائونج سے باہر چلی گئیں۔
…٭٭٭…
ٹرین کی بوگی کے مخصوص ماحول کو تینوں بہت انجوائے کر رہی تھیں۔ ابھی ابھی باذل تینوں کے کانوں میں ہزاروں نصیحتیں اور ہدایتیں انڈیل کر گیا تھا جسے بظاہر تینوں نے کافی توجہ سے سنا تھا۔ جب وسل بجی تب ہی باذل انہیں خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا تھا اور اب رفتہ رفتہ ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی۔
’’فاطمہ کی بچی مجھے کھڑکی کی طرف بیٹھنے دو نا میرا بھی باہر دیکھنے کا دل چاہ رہا ہے۔‘‘ فاطمہ کے برابر میں بیٹھی یشب اشتیاق و جوش سے بولی مگر فاطمہ سنی ان سنی کر گئی تو یشب برا سا منہ بنا کر جیسے ہی سیدھی بیٹھی اس کی نگاہ ایک نو بیاہتاجوڑے پر پڑی مگر عجیب بات یہ تھی کہ اتنے کیوٹ سے جوڑے کے درمیان ایک پہاڑ کی مانند وجود ایستادہ تھا۔ بے چارے دونوں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے بھی دیکھنے کی کوشش میں بھی ناکام ہو رہے تھے۔ یشب کچھ سوچ کر ان لوگوں کے سامنے کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔
’’السّلام علیکم آنٹی میرا نام یشب ہے ہم لوگ اسلام آباد جا رہے ہیں پھر وہاں سے ایبٹ آباد جائیں گے ہمارے کزن کی شادی ہے نا۔‘‘ یشب صاحبہ نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ خاتون نے انتہائی ناگواری سے دیکھا پھر رخ کھڑکی کی جانب موڑ لیا۔
’’آپ نے بتایا نہیں آپ کہاں جا رہی ہیں۔‘‘ یشب پھر بولی۔
تو وہ خاتون طوعاً کرہاً یشب کی جانب متوجہ ہوئیں اور انتہائی پاٹ دار آواز میں بولیں۔
’’ہنی مون۔‘‘
’’ک… کیا… ہن… ہن… میرا مطلب ہے آپ اس عمر میں ہنی مون پر جا رہی ہے۔‘‘ یشب بہ مشکل حیرت سے باہر آئی اپنی آنکھوں کو واپس جگہ پر لاتے ہوئے بولی۔
’’میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے اور بہو کو ہنی مون پر لے کر جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ہنوز بگڑے لہجے میں بولی تو یشب نے بہ مشکل اپنے قہقہہ کا گلا گھونٹا۔
’’مگر آنٹی ہنی مون آپ کو معلوم ہے کیا بلا ہے؟‘‘ یشب بڑی بردباری سے بولی۔
’’لو بھلا مجھے جاہل سمجھ رکھا ہے کیا‘ اے گھومنا پھرنا تو ہنی مون ہوتا ہے۔‘‘ خاتون چڑ کر بولیں۔
’’ہوں وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو ذرا چوکس رہنا پڑے گا۔ بھائی صاحب کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ؟‘‘ یشب اچانک اس لڑکے سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’مری اور نتھیا گلی وغیرہ…!‘‘ وہ مختصراً بولا۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’ہوں… ہوں ٹھیک ہے مگر یہ تو غلط بات ہے آپ اپنے ہنی مون منانے کے چکر میں اپنی والدہ کی جان کے دشمن کیوں بن گئے؟‘‘ یشب تاسف سے بولی۔
’’کیا مطلب یہ کیا مجھ سے دشمنی نکال رہا ہے۔‘‘ ان خاتون کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔علیشبہ اور فاطمہ نے یشب کو محو گفتگو پایا تو سمجھ گئیں کہ یشب بی بی کوئی چکر چلا رہی ہیں۔
’’آنٹی پچھلے دنوں آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا تھا کہ مری اور نتھیا گلی کے ریسٹ ہائوس میں ایک چڑیل کی روح پھرتی ہے کہنے والے نے یہ کہا ہے کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ آنے والی ساسوں کی سانسیں بند کردیتی ہے۔‘‘
’’سانسیں بند کردیتی ہے؟‘‘ خاتون نے سانس روک کر کہا۔
’’میرا مطلب ہے مار دیتی ہے قتل کردیتی ہے ‘ مطلب خون۔‘‘ وہ اپنی آواز کو دہشت زدہ بنا کر بولی۔
’’کک… کیوں… ساسوں کو ہی کیوں؟‘‘
’’صرف ساسوں کو آنٹی‘ کیونکہ بیس سال پہلے جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منانے آئی تھی تو اس کی ساس بھی اس کے ساتھ آئی تھی اور اس نے ان لوگوں کو صحیح سے گھومنے پھرنے نہیں دیا تھا۔ پھر بے چاری نے تنگ آکر وہیں پہاڑیوں میں کود کر جان دے دی تھی۔‘‘ یشب آخر میں افسوس ناک لہجے میں بولی۔
’’اب… اب کیا ہوگا؟ میں بھی تو سانس ہوں مطلب ساس ہوں‘ وہ مجھے بھی مار ڈالے گی۔‘‘ خاتون کا خون پوری طرح خشک ہوگیا تھا۔
’’بہن یہ آپ کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہیں۔ میری والدہ بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہیں۔ آپ پلیز ایسی باتیں کر کے انہیں خوف زدہ مت کریں۔‘‘ وہ لڑکا یشب سے انتہائی سنجیدگی سے بولا۔
’’ٹھیک ہے آپ کی مرضی شوق سے اپنی والدہ کو لے کر جائیے۔‘‘ یشب بے پروائی سے کندھے اچکا کر بولی۔
’’سلطان… میں نہیں جائوں گی مری‘ میں اسلام آباد تمہاری خالہ کے گھر ہی ٹھہروں گی تم دونوں گھوم پھر کر آجانا۔‘‘ خاتون دہشت زدہ انداز میں بولیں۔
’’کوئی بات نہیں اماں ہم بھی مری نہیں جاتے۔‘‘ بہو صاحبہ سعادت مندی سے بولیں حالانکہ نگاہوں میں خوشی اور یشب کے لیے تشکر کے رنگ لیے وہ بظاہر فرمانبرداری کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
’’ارے ایسا غضب مت کرنا آپ لوگوں نے پروگرام کینسل کیا تب بھی آنٹی کی جان…!‘‘ یشب نے اپنے لہجے کو پر اسرار بنا کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بس فیصلہ ہوگیا میں اسلام آباد اپنی بہن کے گھر ہی رہوں گی۔ کتنا عرصہ ہوگیا اس کی صورت دیکھے ہوئے تم دونوں اس موئے ہنی مون پر چلے جانا۔‘‘ خاتون تڑخ کر بولیں تو یشب بھی ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہاں سے اٹھی اور اس لڑکی نے نگاہوں ہی نگاہوں میں شکریہ ادا کرنے پر سر ہلا کر جواب دیا۔
’’یشب پاپااور باذل بھائی کو پتا چل گیا نا کہ تم ٹرین میں یہ کارستانیاں کرتی پھر رہی ہو تو سمجھ لو ہمارا باہر نکلنا بھی بند ہوجائے گا۔‘‘ علیشبہ دانت پیس کر بولی۔
’’تم تو شروع سے میرے ٹیلنٹ سے جلتی ہو ارے میں نے تو دو پیار کرنے والوں کو تنہائی کے کچھ لمحات فراہم کیے ہیں۔ ورنہ دیکھا نہیں تھا وہ عورت کیسے چوکیدار کی طرح پہرہ دے رہی تھی۔ اب دیکھو محترمہ اوپر برتھ پر جا کر لیٹ گئی ہیں۔‘‘ یشب مزے سے بولی تو دونوں نے بے ساختہ برتھ کی جانب دیکھا جہاں وہ خاتون خراٹے لے رہی تھیں اور نوبیاہتا جوڑا کھڑکی سے باہر مناظر دیکھنے میں مگن تھا۔ علیشبہ اور فاطمہ دونوں مسکرا دیں۔
…٭٭٭…
تینوں بخیر و عافیت اسلام آباد پہنچ گئی تھیں۔ جہاں ظہیر اور اظہر انہیں لینے آئے تھے اور ان ہی کی گاڑی میں کچھ ہی گھنٹوں میں وہ ایبٹ آباد جیسے خوب صورت شہر میں پہنچ گئی تھیں۔ پھو پھو اور دانیہ ان کی آمد سے بہت خوش تھیں ابھی تھوڑی دیر پہلے بارش سے ہر شے دھلی ہوئی اور نکھری نکھری لگ رہی تھی۔
’’ہائے اللہ سب کچھ کتنا خوب صورت لگ رہا ہے۔ ہر شے صاف صاف ہوا بھی کتنی اچھی لگ رہی ہے نا۔‘‘ یشب نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔ بولتے بولتے اچانک یشب چیخ کر کھڑکی کے پاس سے بجلی کی تیزی سے پیچھے ہٹی۔ علیشبہ پلیٹ چھوڑ کر‘ ثانیہ اور فاطمہ باتیں چھوڑ کر جبکہ پھوپھو کچن کفگیر چھوڑ کر یشب کی جانب دوڑ کر آئیں جو اب اپنی پھولی سانسوں کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’کیا ہوا یشب کی بچی تم نے تو ہماری جان ہی نکال دی کھڑکی پر کوئی بھوت دیکھ لیا تھا جو بے ڈھنگے پن سے چلائیں۔‘‘ فاطمہ اور علیشبہ اس پر الٹ پڑیں۔
’’نہیں شاید ہاں‘ تھا تو وہ انسان نما چیز‘ مگر انسان تھا یا کوئی اور مخلوق…!‘‘
…٭٭٭…​
وہ صبح ہی صبح ناشتے سے فارغ ہو کر پھوپھا کے باغات کی سیر کے لیے نکل آئیں۔ اس پل موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ ایبٹ آباد کا خنک و نرم موسم انہیں بے حد پسند آرہا تھا۔
’’ہائے اللہ یشب کاش میرا قد اور تھوڑا بڑا ہوتا تو یہ سیب اس وقت میرے ہاتھ میں ہوتا۔‘‘ درخت پر لٹکے سیب کو دیکھ کر علیشبہ بھولے پن سے بولی۔
’’تمہیں تو کھانے پینے کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ذراوہ دیکھو آسمان کی جانب سورج آہستہ آہستہ کیسے پوری فضامیں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔‘‘ فاطمہ آخر میں بڑے اشتیاق سے بولی جبکہ یشب بڑی ترنگ میںباغ کے اندر بڑھتی چلی گئی۔
’’تم کیا سمجھ رہی ہو یہ اتنا بڑا سورج مجھے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا کیا؟‘‘ علیشبہ برا مانتے ہوئے بولی۔
’’بالکل میں کچھ ایسا ہی سمجھ رہی ہوں۔‘‘ فاطمہ شانے اچکا کر بے پروائی سے بولی ابھی علیشبہ کچھ کہنے والی تھی کہ یشب کی فلک شگاف چیخ نے دونوں کو بری طرح حواس باختہ کردیا وہ اس طرف دوڑیں جہاں یشب تھوڑی دیر پہلے گئی تھی۔
’’کیا ہوا یشب کی بچی اتنی زور سے کیوں چلائی پورا ایبٹ آباد ہل گیا تمہاری…!‘‘ یشب کو صحیح سلامت کھڑا دیکھ کر علیشبہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی ہی تھی مگر جیسے ہی اس کی نگاہ سامنے اٹھی بے ساختہ اس کی بھی چیخ نکل گئی انتہائی۔ انتہائی پستہ قامت شخص جس کی ٹانگیں کافی پتلی اور جسم کافی بڑا تھا سر پر منوں کے حساب سے تیل لگائے آنکھوں میں سرمہ کی دکان سجائے بڑی حیرت سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’ک…کون ہو تم‘ یہاں کیا کر رہے ہو؟ یہ ہمارے پھوپھا کا باغ ہے۔‘‘
’’باجیوں سو بسم اللہ یہ باغ آپ کے پھوپھا کا ہوگا میں نے کب کہا کہ یہ میرے ماموں کا ہے۔‘‘ وہ شخص حیرت سے باہر آکر انہیں بڑے اشتیاق بھرے انداز میں دیکھ کر دانت نکال کر بولا تو یشب‘ فاطمہ کے کان میں گھس کر با آواز بولی۔
’’یہی تھا وہ آدمی جسے میں نے کل پھوپھو کی کھڑکی کے پاس دیکھا تھا۔‘‘
’’افوہ یشب یہ اپنے منہ کا لائوڈ اسپیکر میرے کان میں گھسانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ فاطمہ یشب کی اس حرکت پر بے ساختہ پیچھے ہٹ کر اپنا ہاتھ کان پر رکھ کر بولی مگر اس وقت وہ فاطمہ کی بات قصداً نظر انداز کرکے اس آدمی کی جانب متوجہ ہوگئی وگرنہ کوئی اور وقت ہوتا تو فاطمہ کے اس انداز پر وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتی اور پھر تقریباً پندرہ منٹ میں علیشبہ اور یشب نے وہ شخص جس کا نام شیدا تھا۔ اس کے متعلق تمام معلومات حاصل کرلی تھیں جو وہیں کا مقامی تھا اور بڑی سادہ طبیعت کا مالک تھا۔ اب بڑے مزے سے تینوں شیدے کی معیت میں ایبٹ آباد کی حسین وادیوں کی سیر کر رہی تھیں۔
…٭٭٭…​
وہ تینوں تھکی ماندی گھر لوٹیں تو معلوم ہوا کہ پھوپھو کی نند صاحبہ آج رات کی فلائٹ سے دبئی سے تشریف لا رہی ہیں۔‘‘ میں تو سونے جا رہی ہوں۔ ظہیر بھائی آپ کی پھوپھو سے ان شاء اللہ کل ملوں گی۔‘‘ یشب کسلمندی سے کائوچ سے اٹھتے ہوئے بولی تو علیشبہ اور فاطمہ نے بھی یک بہ یک کہا۔
’’ہم بھی سونے جا رہے ہیں۔‘‘
’’افوہ بھئی یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی آپ میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا رات کے کھانے پر۔‘‘ دانیہ منہ بسور کر بولی تو یشب نے فاطمہ اور علیشبہ کو گھورتے ہوئے چڑ کر کہا۔
’’تم دونوں کیوں میرے دائیں بائیں چپکی ہوئی ہو۔ دانیہ کے ساتھ پھوپھو کی نند کو ریسیو کرلونا۔‘‘
’’ہمیں کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ چپکنے کا سمجھیں۔‘‘ علیشبہ‘ یشب کی بات پر سخت برا مان کر بولی۔
’’ہنہ یشب بی بی یہ تمہاری خوش فہمیاں۔ بھئی ہم بھی تھکے ہوئے ہیں تمہارے ساتھ پورے ایبٹ آباد میں ہم بھی جھک مار کر آئے ہیں۔‘‘ فاطمہ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا کر بولی۔
’’اف میرے اللہ‘ آپ لوگ پھر شروع ہوگئیں پلیز مہرین باجی کے سامنے آپ لوگ مت لڑیے گا۔ وہ تو بہت پر سکون طبیعت کی مالک ہیں۔‘‘ دانیہ ان تینوں کو الجھتا دیکھ کر گھبرا کر بولی۔

’’ہائے مہرین باجی؟ یہ مہرین باجی تمہاری پھوپھو کی وہی بیٹی ہیں نا جو بہت مشکل سے منہ سے آواز نکالتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر زیادہ الفاظ یا آواز نکل جائے تو شاید منہ ہی گردن سے گر جائے۔‘‘ یشب کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
’’دانیہ وہی مہرین نا جو بہت سوبر اور سنجیدہ سی ہیں۔‘‘فاطمہ کو بھی کچھ یاد آیا تو چہک کر بولی۔
’’ہائیں باذل بھیا کو ایسی لڑکیاں ہی پسند… مم… میرا مطلب ہے سنجیدگی اچھی چیز ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ ہر وقت چہرے پر انسان ٹیچر والے تاثرات ہی سجائے رکھے۔‘‘ علیشبہ نے لہک کر بولتے ہوئے جونہی یشب کو خونخوار نگاہوں سے گھورتا پایا تو اچانک جملہ بدل کر بولی۔
’’آپ لوگ مہرین باجی سے تو پہلے بھی ملی ہیں مگر مہروز بھائی سے پہلی بار ملیں گی سچی وہ بہت نائس ہیں۔‘‘ دانیہ خوشی سے بولی۔
’’ہاں‘ ہاں ہم ضرور ملیں گے مجھے تو مہرین سے ملنے کا بہت اشتیاق ہو رہا ہے اور مہروز بھائی سے بھی مل لیں گے۔‘‘ فاطمہ صاحبہ فوراً پیر پسار کر کارپٹ پر براجمان ہوگئیں جبکہ علیشبہ نے بھی کائوچ سنبھال لیا۔
’’ہاں نا کتنی بد اخلاقی کی بات ہوگی کہ مہمان دبئی سے آرہے ہیں اور ہم یہاں گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔‘‘ دونوں کو دل ہی دل میں لعن طعن کر کے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
…٭٭٭…​
’’ہائے اللہ مہرین آپ کی اور بھیا کی سوچوں میں اتنی مطابقت ہے۔ سچی آپ کی تو عادتیں بھی باذل بھیا جیسی ہیں۔‘‘ ناشتے کی غرض سے صبح لائونج میں داخل ہوتے علیشبہ کا کھنکھناتا جملہ اسے بری طرح خاکستر کر گیا۔
’’ذلیل‘ بدتمیز علیشبہ دیکھو لوں گی تجھے‘ وہ دانت پیس کر دل ہی دل میں بولی پھر بظاہر بڑے تپاک سے مہرین سے مل کر اور ناشتے سے فراغت کے بعد تنہائی میں یشب نے علیشبہ کی طبیعت بھرپور طریقے سے صاف کی مگر حیرت کی بات تو یہ تھی اس تمام وقت میں فاطمہ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر منہ رکھے اداس بلی کی طرح بس ایک ہی نقطے پر نگاہ مرکوز کیے کھڑی رہی۔
’’خیریت تو ہے فاطمہ دیر سے چھپکلی کی طرح گرل سے کیوں لپٹی ہوئی ہو۔‘‘ یشب فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متعجب ہو کر بولی تو فاطمہ نے ایک گہری آہ بھری۔
’’ہائے یشب کیا بتائوں تجھے میرے ساتھ کیا واردات ہوگئی۔‘‘ وہ اتنے ڈرامائی اور دل سوز انداز میں بولی کہ دونوں حقیقتاً گھبرا گئیں۔
’’یا اللہ خیر‘ واردات ہوگئی ارے وہ دل والا لاکٹ بھی کیا چوری ہوگیا؟ فاطمہ کی بچی کتنا کہا تھا میں نے تجھ سے مت رکھو زیور اپنے پاس ہائے میری منگنی کا تحفہ۔‘‘ یشب اسے جھنجوڑ کر اب باقاعدہ رونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ فاطمہ انتہائی چڑ گئی۔
’’افوہ وہ والی واردات نہیں‘ سچ میں یشب تمہارا اوپر کا پورشن بالکل خالی ہے۔ میں اپنے دل کی واردات کی بات کر رہی ہوں۔‘‘ فاطمہ زچ ہو کر بولی۔
’’ہائے کیا مطلب دل کی واردات۔‘‘ علیشبہ نے ہونق انداز میں استفسار کیا۔
’’ہاں یشب علیشبہ مجھے…!‘‘ وہ بولتے بولتے کچھ پل ٹھہری۔
’’مجھے محبت ہوگئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے گویا اقرار جرم کیا۔ علیشبہ نے بے ساختہ اپنا سر تھام لیا۔
’’تو بس ایک یہی کام کرنے کو رہ گیا تھا۔‘‘ یشب شانے اچکا کر استہزائیہ انداز میں بولی تو فاطمہ کو حسب معمول اس کے انداز پر پتنگے لگ گئے۔
’’کیوں؟ کیا صرف تم ہی یہ کام کرسکتی ہو۔ مجھے کوئی اچھا نہیں لگ سکتا کیا؟‘‘
’’اچھا بابا تم بھی کرسکتی ہو محبت‘ مگر یہ بتائو کون ہے وہ بد… مم… میرا مطلب ہے خوش نصیب۔‘‘ پھوپھو کا وہ خانساماں جس کی بائیں آنکھ ہمہ وقت پھڑکتی رہتی ہے۔ یا پھوپھا کا وہ خرانٹ اونٹ نما مینجر جس کی مونچھیں دیکھ کر آٹھ بج کر بیس منٹ کا گمان ہوتا ہے یا پھر وہ مالی کا بھانجا جو…!‘‘
’’یشب کمینی کیا میرا ٹیسٹ اتنا خراب ہے کہ مجھے ان میں سے کسی سے محبت ہوگی؟ خبردار اب ایک بھی لفظ اپنی زبان سے نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ یشب کی بات کو فاطمہ نے انتہائی تلملا کر درمیان سے قطع کیا اور غصے سے دانت کچکچا کر بولی۔
’’تو پھر وہ کس کی ذات شریف ہے جسے تمہاری محبت کا شرف ملا ہے کل سے اب تک یہی حضرات نگاہوں سے گزرے ہیں۔‘‘ علیشبہ بے زاری سے بولی پھر اچانک کچھ یاد آجانے پر
اچھل پڑی۔ پھر یشب کو دیکھ کو گویا ہوئی۔
’’تم شیدے کو بھول گئیں۔‘‘
’’اف فاطمہ تمہیں شیدے میں کیا نظر آیا جو…!‘‘
’’نکل جائو اپنی منحوس شکلیں لے کر تم لوگ ورنہ میں تم لوگوں کا خون پی جائوں گی۔‘‘ فاطمہ علیشبہ کی بات پر آپے سے باہر ہو کر بولی۔
تو دونوں نے فی الحال یہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔
…٭٭٭…
’’جی مجھے تو شاعری سے بچپن سے لگائو ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شاعری تو مجھے بے حد پسند ہے اور موسیقی میں مجھے صرف غزلیں ہی بھاتی ہیں۔‘‘ فاطمہ کی انتہائی مودب آواز جونہی علیشبہ اور یشب کے کانوں سے ٹکرائی دونوں نے ایک دوسرے کو خاصا اچنھبے سے دیکھا۔ پھر لان میں قدم رکھتے ہی دونوں بخوبی سمجھ گئیں کہ مہروز میاں ہی وہ ہستی ہے جن سے فاطمہ صاحبہ بری طرح متاثر ہو کر اب جی جان سے انہیں متاثر کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔
’’جی مگر قائد اعظم تو شاعری نہیں کرتے تھے۔‘‘ مہروز کی حیرت میں ڈوبی آواز ابھری تو فاطمہ یک دم سٹپٹا گئی۔
’’اچھا نہیں کرتے تھے۔‘‘ وہ کھسیانی ہو کر بولی۔
’’ارے نہیں مہروز بھائی یہ اپنی فاطمہ فیض احمد فیض کو قائد اعظم کہہ رہی ہے۔ دراصل ان کی انقلابی شاعری میں اسے ایک قائد اعظم دکھائی دیا تو اس نے انہیں قائد اعظم کا درجہ دے ڈالا۔‘‘ یشب نے بر وقت آکر فاطمہ کو بچایا۔ پھر علیشبہ اور یشب نے مہروز سے اپنا تعارف کروایا اور ہمیشہ کی طرح کچھ ہی وقت میں انہوں نے مہروز کااچھی طرح سے انٹرویو لے لیا۔
…٭٭٭…
فاطمہ ہانپتی کانپتی اپنی پھولی سانسوں سمیت دھپ سے یشب اور علیشبہ کے قریب بیٹھی۔
’’یشب یہ واکنگ واکنگ میرے بس کا روگ نہیں ہے تم کوئی اور طریقہ نکالو اسمارٹ اور پر کشش بننے کا۔‘‘ فاطمہ اپنی بے ترتیب سانسوں کے درمیان بہ مشکل بولی تو یشب نے گویا ہاتھوں کو جھاڑا۔
’’اور کوئی طریقہ نہیں ہے بی بی‘ مہروز بھائی کو موٹی لڑکیاں سخت نا پسند ہیں اب انہیں ایمپریس کرنے کے لیے تمہیں یہ سب تو کرنا پڑے گا نا۔‘‘
’’میں کہاں سے موٹی ہوگئی یہ علیشبہ موٹی ہے میں تو پھر بھی اس سے کافی دبلی ہوں۔‘‘ فاطمہ یشب کی بات پر برا مانتے ہوئے بولی تینوں اس پل گھر کے باہر بنے خوب صورت و دل کش لان میں بیٹھی صبح کی تازہ ہَوا کھا رہی تھیں۔ مگر بے چاری فاطمہ کی شامت آئی ہوئی تھی۔ کیونکہ مہروز کی آئیڈیل ایک حسین سراپا کی مالک لڑکی تھی جبکہ فاطمہ فربہی مائل تھی اور اب یشب اور علیشبہ اس کو دو دن میں ہی اسمارٹ بنانے کے چکر میں تھیں۔
’’اچھا تم ایسا کرو پارک کے اس کونے کا چکر لگا کر آئو آج کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ یشب گویا اس پر احسان کرتے ہوئے بولی تو فاطمہ برے برے منہ بناتی ہمت کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ ہر قیمت پر مہروز کی پسند بننا چاہتی تھی۔
’’ویسے یشب تمہیں دادی جان کی روح کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو بنا محنت کے تمہاری جھولی میں باذل بھائی کو ڈال دیا وگرنہ تم بھی فاطمہ کی طرح جھک مار رہی ہوتیں۔‘‘ علیشبہ نے اخبار سے منہ ہٹا کر یشب سے کہا تو اس نے تادیبی نگاہوں سے علیشبہ کو دیکھا۔
’’ہاں تمہارے بھیا تو ربڑ کا گڈا ہیں جو میری جھولی میں آن گرے… ارے دیکھا نہیں ہے تم نے ان کی بے زاری اور بے پروائی کو مجال ہے جو کبھی پیار سے بات کی ہو۔‘‘ یشب اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے بولی۔
’’ظاہر ہے جب تم ان کے کمرے میں عمران ہاشمی کی فلمیں دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی جائو گی تو وہ تمہیں خراج تحسین تو پیش کرنے سے رہے۔‘‘ علیشبہ منہ بنا کر بولی تھی۔ ابھی یشب اسے کوئی سخت جملہ کہنے ہی والی تھی کہ معاً اس کی نظر فاطمہ پر پڑی جو بد حواسوں کی طرح بے تحاشا بھاگ رہی تھی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’لو دیکھو اس دیوانی کو میں نے واکنگ کا کہا تھا اور اس نے پاگلوں کی طرح بھاگنا شروع کردیا۔ یا اللہ کیا کروں اس لڑکی کا۔‘‘ یشب سر اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولی مگر جونہی بد حواس سی فاطمہ ان کے قریب پہنچی دونوں کو سچویشن اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔ تینوں ’’کتا‘ کتا‘‘ چلا کر گھر کے مین گیٹ کی طرف گرتے پڑے بھاگیں۔ کیونکہ ایک کالے رنگ کا کتا بڑے مزے سے فاطمہ کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں آن پہنچا تھا۔
…٭٭٭…
دن یونہی موج مستی اور ہنسی مذاق میں تیزی سے گزر گئے۔ آج ظہیر کی مہندی تھی۔ یشب اور فاطمہ و علیشبہ کے گھر والے بھی آ پہنچے تھے۔ بازل بھی ان کے ہمراہ تھا۔ جسے دیکھ کر یشب کی من کی کلی کھل اٹھی تھی۔
چپکے چپکے نجانے کتنی ہی بار یشب نے باذل کو دیکھا تھا مگر باذل نے ایک نگاہ خاص بھی یشب کی جانب نہیں اٹھائی تھی۔ جسے محسوس کر کے اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔
رات کی تقریب کا اہتمام گھر کے پاس بنے گرائونڈ میں کیا گیا تھا۔کاہی گرین اور سرخ رنگ کے امتزاج کے لہنگے میں ملبوس یشب بہت چہک چہک کر اور حلق پھاڑ کر گانے گا رہی تھی۔ فاطمہ نے مہروز کی پسند کے مطابق سیاہ رنگ کا دیدہ زیب سوٹ زیب تن کیا تھا۔ جو اس نے یشب سے ادھار لیا تھا کیونکہ اس رنگ کا سوٹ فی الحال اس کے پاس موجود نہیں تھا۔ جبکہ علیشبہ صاحبہ آتشی گلابی سوٹ میں پیاری لگ رہی تھی۔
رسموںکے دوران یشب کو باذل کا خیال آیا تو وہ اسے ڈھونڈنے کی غرض سے اسٹیج سے اتری اور چند ہی لمحوں میں باذل مہرین کے ہمراہ خوش گپیاں کرتا نظر آگیا۔ آج سے پہلے یشب نے باذل کو اتنا خوش و مطمئن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ خاص طور پر یشب کو تو سامنے پا کر اس کے چہرے پر خشونت طاری ہوجاتی تھی۔ پھر پوری شادی اور حتیٰ کہ ولیمے میں بھی دونوں اکٹھے دکھائی دیے اور یشب کے دل پر چھریاں چلتی رہیں۔
…٭٭٭…
گھر میں ایک افراتفری کا عالم تھا۔ پھوپھو کے گھر سے مہمان اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا رہے تھے۔ یشب علیشبہ اور فامطہ نے بھی اپنی اپنی پیکنگ کرلی تھی وہ گیسٹ روم کی طرف سے گزر رہی تھی کہ یکدم مہرین کی دل کش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’باذل پلیز مجھے فون ضرور کیجیے گا وہاں جا کر بھول نہیں جائیے گا اور ہاں آپ نے میر فیس بک کا ایڈریس تو نوٹ کرلیا ہے نا؟‘‘ یہ سن کر یشب کے تلوے سے لگی اور سر پر بجھی ۔ وہ بنا کچھ سوچے سمجھے دروازہ کھول کر چھپاک سے اندر داخل ہوگئی۔ دونوں نے ہی چونک کر اسے دیکھا۔
’’یشب آخر تمہیں تمیز کب آئے گی‘ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے۔‘‘ باذل نے اپنے مخصوص انداز میں اسے لتاڑا تو آج پہلی بار بے ساختہ یشب کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
’’ایم سوری آئندہ خیال رکھوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر یشب تیزی سے وہاں سے نکل آئی اور باتھ روم میں جا کر منہ پر ہاتھ رکھ کر بے تحاشا رو دی۔ آج باذل اسے اپنی دسترس سے بہت دور جاتا محسوس ہوا تھا۔
…٭٭٭…
واپس آکر سب اپنی اپنی روٹین میں لگ گئے مگر یشب بہت بدل گئی۔ اب وقت بے وقت اس نے علیشبہ و فاطمہ کے گھر آنا بھی چھوڑ دیا تھا اور ان کے ساتھ مل کر شرارتیں کرنا بھی وہ شاید بھول گئی تھی۔ علیشبہ اور فاطمہ اس سے اس رویے کی وجہ معلوم کرتے کرتے تھک گئی تھیں۔ مگر یشب نے گویا کچھ بھی نہ بولنے اور بتانے کی قسم کھالی تھی۔ باذل نے بھی یشب کے رویے کو محسوس کرلیا تھا اور اندر ہی اندر حیران تھا کیونکہ یشب کو تو نچلا بیٹھنا جیسے آتا ہی نہیں تھا اور یکدم اب وہ بالکل ہی بدل گئی تھی۔
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوا تو سب ہی عبادات میں مصروف ہوگئے۔ یشب بھی پوری دل جمعی کے ساتھ اللہ کی بارگارہ میں عبادت میں مشغول ہوگئی۔ آج دسواں روزہ تھا۔ تائی اماں اور یشب کی امی دونوں بازار گئی ہوئی تھیں۔ فاطمہ آکر زبردستی یشب کو اپنے گھر لے آئی تھی۔ آج کل وہ بھی کافی اداس تھی کیونکہ مہروز اسے شدتوں سے یاد آرہا تھا۔ جس نے دبئی جاکر اس سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں کیا تھا۔
دروازے پر بیل بجی تو علیشبہ اور فاطمہ کی غیر موجودگی دیکھ کر وہ گیٹ کی جانب آگئی۔ سامنے کوریئر والا باذل کے نام کا لیٹر لیے کھڑا تھا۔ اس نے بد دلی سے سائن کر کے لیٹر وصول کیا اور اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھا جو کسی کمپنی کی طرف سے آیا تھا۔ یشب یہ سوچ کر باذل کے کمرے کی جانب بڑھی کہ اس وقت تو باذل آفس میں ہوگا لہٰذا یہ لیٹر اس کے کمرے میں رکھ آئے مگر جونہی اس نے دروازے کے ہینڈل کو گھما کر تھوڑا سا دروازہ کھولا ہی تھا کہ معاً باذل کی دل کش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’نہیں مہرین میں بالکل فارغ تھا آخر آپ کو میری…!‘‘ اتنا سننا تھا کہ یشب نے پوری طاقت سے دروازہ دھکیلااور خطرناک تیور لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ باذل بے ساختہ مڑا اور یشب کا چہرہ دیکھ کر مہرین سے ’’میں بعد میں بات کرتا ہوں۔‘‘ کہہ کر فون آف کر کے الجھ کر اسے دیکھا۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے یہی کہیں گے کہ تمہیں تمیز نہیں ہے دروازہ ناک کر کے آنا چاہیے تھا۔ تو ہاں ہوں میں بد تمیز‘ ان مینرڈ ایک بے وقوف لڑکی۔‘‘ یشب گویا پھٹ پڑی۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے پسند نہیں کرتے میری کوئی بات بھی آپ کو اچھی نہیں لگتی میرے اندر سنجیدگی نہیں ہے میری حرکتیں بچوں جیسی ہیں یہ تو دادی جان نے زبردستی آپ کو میرے پلے باندھ دیا ورنہ آپ تو مہرین جیسی لڑکی کے خواہش مند ہیں نا۔‘‘ یشب تیز آواز میں بولتی چلی گئی جبکہ فاطمہ باذل کے کمرے میں کسی کام سے آتے ہوئے بھونچکا سی دروازے پر کھڑی یشب کا یہ انداز حقیقتاً اس کے ہوش اڑا گیا۔
’’ٹھیک ہے مسٹر باذل میں یہ رشتا ابھی اور اسی وقت ختم کیے دیتی ہوں۔ آپ شوق سے مہرین کو اپنی زندگی میں لے آئیے میں…!‘‘ وہ پل بھر کو رکی پھر اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے بولی۔
’’میں اسی وقت آپ کی زندگی سے جا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے تحاشا روتی ہوئی وہاں سے پلٹی اور فاطمہ کو یکسر نظر انداز کرتی تقریباً بھاگتے ہوئے وہاں سے نکل آئی جبکہ باذل ساکت سا وہیں کھڑا رہ گیا۔ فاطمہ بہ مشکل خود کو سنبھال کر کمرے میں داخل ہوئی۔
’’بھیا یہ… یہ سب کیا ہے؟ یہ یشب کیا بول کر گئی ہے؟ کیا واقعی یہ سچ ہے۔‘‘ فاطمہ نے انتہائی خوف زدہ ہو کر استفسار کیا یشب انہیں دل و جان سے عزیز تھی۔
’’دماغی حالت پر اس کی تو مجھے پہلے سے شبہ تھا مگر اب یقین ہوگیا ہے۔ بالکل ہی عقل سے پیدل ہیں یہ موصوفہ۔‘‘ باذل تلملا کر بولا تو فاطمہ کے اندر ڈھیروں سکون اترتا چلا گیا۔
’’فاطمہ تمہیں یشب کو سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں اس بد گمانی کی سزا تو اسے ضرور ملے گی۔‘‘ باذل اسے تنبیہہ کرتے ہوئے بولا۔
’’مگر بھیا وہ بہت پریشان…!‘‘
’’میں نے کہا نا کہ تم کچھ نہیں بتائو گی اسے میں خود اسے دیکھ لوں گا۔‘‘ باذل نے درمیان میں اس کی بات قطع کر کے حتمی انداز میں کہا تو فاطمہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
…٭٭٭…​
پھوپھو کی نند نے بذریعہ ٹیلی فون مہروز کے لیے فاطمہ کا رشتہ مانگا تھا اور بے حد اصرار کیا تھا کہ عید میں وہ منگنی کی رسم طے کرلیں تاکہ وہ دبئی سے آکر مہروز کے نام کی انگوٹھی فاطمہ کی انگلی میں ڈال جائیں۔ فاطمہ تو جیسے ہَوائوں میں اڑ رہی تھی۔ اس نے علیشبہ کو بھی اس دن کی تمام رو داد سنا ڈالی تھی اور سختی سے منہ بند رکھنے کو کہا تھا کیونکہ یہ معاملہ خالصتاً باذل اور یشب کا تھا اور باذل خود ہی اسے سمجھانا چاہتا تھا۔ یشب بھی اس رشتے سے بہت خوش تھی۔ فاطمہ کو اس کا من پسند جیون ساتھی جو مل رہا تھا۔ مگر جب یکدم ذہن مہرین اور باذل کی جانب بھٹکتا ڈھیروں اداسی اس کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی۔
’’میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی باذل… صرف تمہیں اپنے من کا دیوتا بنایا تھا۔ میری اولین چاہت تھے تم بہت خلوص سے محبت کی تھی تم سے مگر تم…!‘‘ ایک سسکی اس کے لبوں سے برآمد ہوئی پھر اپنا غم چھپانے کی غرض سے وہ وہاں سے اٹھ کر چھت پر چلی آئی۔
’’مجھ سے یشب کی حالت دیکھی نہیں جا رہی فاطمہ دیکھو کیسی مرجھا گئی ہے نہ ہنستی ہے نہ بولتی ہے۔ کتنی ویران سی ہوگئی ہے۔‘‘ علیشبہ نے یشب کو وہاں سے تیزی سے اٹھ کر جاتے دیکھا تو اس کی اندرونی کیفیت محسوس کر کے وہ منہ لٹکا کر بولی۔
’’خبردار علیشبہ جو تم نے یشب سے کچھ کہا تو باذل بھائی نے سختی سے منع کیا ہے۔‘‘ فاطمہ نے اسے فی الفور ٹوکا تھا۔
’’مگر باذل بھائی یشب کو منائیں گے کب؟‘‘
’’بہت جلد کیونکہ انہوں نے امی پاپا سے شادی کی تاریخ رکھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔‘‘ فاطمہ سرشاری سے بولی تو یہ سن کر علیشبہ بھی جھوم اٹھی۔ دونوں کو باذل کی شادی کا بے حد ارمان تھا۔
…٭٭٭…​
دن سرعت سے گزر گئے آج انتیسواں روزہ تھا کہ جب ہی افطاری کے فوراً بعد تایا جان کی فیملی معہ باذل کے پھولوں کا زیور اور مٹھائی کے ٹوکرے کے ہمراہ آ دھمکی انہیں دیکھ کر یشب چونک پڑی۔
’’ارے یشب یہ کیا ملگجے سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ذرا اچھی طرح سے تیار ہو کر آئو دیکھ نہیں رہیں تمہارے سسرال والے آئے ہیں۔‘‘ فاطمہ چہک کر بولی۔ تو یشب نے تلملا کر فاطمہ کو دیکھا۔
’’ہاں کرو میرے زخموں پر نمک پاشی آخر تم مذاق نہیں اڑائو گی تو اور کون اڑائے گا۔‘‘ یشب گلوگیر لہجے میں بولی۔
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ فاطمہ بے پروائی سے سر ہلا کر بولی۔
’’ویسے یشب پہلے کتنا مزا آتا تھا تم دونوں کیسے نند بھاوج کی طرح لڑتی تھیں مگر اب…!‘‘ علیشبہ نے قصداً جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ہاں‘ ہاں کہہ دو نا کہ اب تمہاری بھاوج میں نہیں مہرین بنے گی۔ اللہ کرے مہرین اتنی لڑاکا نکلے کہ تم دونوں کی زندگیاں عذاب کردے۔‘‘ یشب کلس کر بولی کہ اس دم لائونج میں باذل داخل ہوا۔
’’تمہیں معلوم ہے فاطمہ مہرین کو انڈین فلموں سے سخت الرجی ہے اور وہ ہیرو کا کیا نام ہے اس کا…؟‘‘ وہ اپنے ذہن پر زور دے کر سوچنے لگا تو بے ساخہ یشب کے منہ سے نکلا۔
’’عمران ہاشمی…!‘‘
’’ہاں وہی‘ وہ تو اسے زہر لگتا ہے۔‘‘ باذل بڑی ترنگ میں بولا۔
’’مگر بھیا اپنی یشب نے بھی انڈین فلمیں دیکھنا چھوڑ دی ہیں۔ بلکہ محلے میں مٹر گشت کرنا اور لوگوں کو مفت مشورے دے کر اس پر زبردستی عمل در آمد کروانا بھی ترک کردیا ہے۔‘‘ فاطمہ کھلکھلا کر بولی۔ اس پل فاطمہ یشب کو سخت زہر لگی۔
’’ہاں بھیا جو حرکتیں آپ کو یشب کی نا پسند تھیں وہ سب اس نے چھوڑ دی ہیں۔‘‘ علیشبہ بھی جلدی سے بولی تو یشب بری طرح بھڑک اٹھی۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے میری سفارش کرنے کی مجھے خیرات میں ملی محبت ہر گز نہیں چاہیے۔‘‘ یشب چیخ کر بولی اور پھر تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی بستر پر گرتے ہی اس نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔
’’بالکل بچی ہو تم… چلو تمہاری موجودگی میں بچوں کی کمی نہیں رہے گی مگر دو بچے تو ضرور ہونا چاہیں کیا خیال ہے تمہارا ایک لڑکا اور ایک لڑکی…؟‘‘ اچانک عقب سے باذل کی آواز ابھری تو یشب نے بجلی کی تیزی سے سر تکیے سے اٹھا کر پلٹ کر دیکھا بلیک پینٹ پر بلیک ہی ہاف سلیوز ٹی شرٹ پہنے باذل اس پل کتنا مختلف لگ رہا تھا باذل کی بے باک مگر نا سمجھ آنے والی بات پر وہ قدرے سٹپٹا کر بولی۔
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟ یہ تو آپ اس مہرین سے پوچھیے نا۔‘‘
’’کیوں مہرین سے کیوں پوچھوں بچے ہمارے ہوں گے یا مہرین کے تم واقعی عقل سے پیدل لڑکی ہو۔‘‘ وہ اپنے سابقہ انداز میں بولا تو یشب حقیقی معنوں میں چکرا کر رہ گئی۔
’’ہمارے بچے وہ کیسے؟‘‘ وہ ہونقوں کی طرح بولی تو باذل قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
’’بائولی میڈم جب ہماری شادی ہوگی تو بچے بھی ہمارے ہی ہوں گے نا۔‘‘
’’مگر ہماری شادی کیسے ہو گی؟‘‘ وہ جیسے خود سے بولی۔
’’کیسے ہوگی کیا مطلب…! قاضی صاحب نکاح پڑھوائیں گے اور پھر ہماری شادی ہوجائے گی۔‘‘ باذل بڑے نارمل انداز میں بولا تو یشب کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر رونا شروع کردے۔
’’آپ میری بے بسی دیکھنے آئے ہیں یا میرا مذاق اڑانے۔‘‘ وہ واقعی زار و قطار رونے لگی جبکہ باذل کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔
’ارے‘ ارے یشب پلیز چپ ہوجائو یقین کرو میرا مہرین سے ایسا کوئی تعلق نہیں جیسا تم سمجھ رہی ہو۔ وہ تو ہماری کمپنی کے ہیڈ آفس کی کمپیوٹر سیکشن کی انچارج ہے۔‘‘ باذل جلدی جلدی بولا تو یشب نے یکدم رونے پر بریک لگایا اور چونک کر اسے دیکھا۔
’’جی ہاں میڈم! مہرین اور میں ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں چونکہ ہماری کمپنی کا ہیڈ آفس دبئی میں ہے اور اکثر و بیشتر ہیڈ کوارٹر سے واسطہ پڑتا رہتا ہے لہٰذا میری مہرین سے کولیگ کے طور پر علیک سلیک پہلے سے تھی مگر جب اسے معلوم ہوا کہ میں ظہیر کا کزن ہوں تو جب سے وہ بہت اپنائیت سے مجھ سے ملتی ہے۔‘‘ باذل وضاحت آمیز لہجے میں بولا تو یشب کے اندر ڈھیروں سکون اتر گیا۔ منہ موڑتے ہوئے کہا۔
’’کچھ زیادہ ہی اپنائیت نہیں آپ دونوں کے درمیان۔ اسی لیے اس دن وہ فیس بک کا ایڈریس مانگ رہی تھی اور آپ فون پر کیسے چہک چہک کر اس سے باتیں کر رہے تھے۔‘‘
’’واقعی تمہاری اوپر کی منزل بالکل خالی ہے۔ وہ اپنے تایا زاد سے منسوب ہے یار اور فون پر وہ مجھ سے مہروز کے متعلق ڈسکس کر رہی تھی۔ جو فاطمہ میں دلچسپی لے رہا تھا۔‘‘ باذل کی زبان سے ادا ہوا ایک ایک لفظ اس کے دل میں ٹھنڈک اتارتا چلا گیا۔ وہ یکدم پھول کی مانند ہلکی پھلکی ہوگئی پھر معاً باذل کا خیال آیا تو کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔
’’وہ ایکچوئیلی مجھے غلط فہمی ہوگئی تھی ایم سوری باذل…!‘‘ بولتے بولتے اسے کچھ یاد آیا تو اس نے غصے سے باذل کو دیکھا۔
’’جب آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ ساری خرافات میرے دل و دماغ میں بھر گئی ہیں تو آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟‘‘
’’سوچا کہ کتنے پر سکون دن گزر رہے ہیں نہ تم میرا کمپیوٹر استعمال کر رہی ہو اور نہ ہی شور مچاتی گھر میں دندناتی پھر رہی ہو اور نہ فلمیں دیکھ رہی ہو… پھر تمہاری اس بد گمانی کی تھوڑی بہت سزا بھی تو دینی تھی اور…!‘‘
’’باذل آپ کتنے برے ہیں۔ وہ انتہائی چڑ کر اس کی بات درمیان میں قطع کر کے بولتی باہر جانے کی غرض سے وہاں سے اٹھی مگر باذل نے ہنستے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’اچھا بابا میں معافی مانگتا ہوں… تمہیں منانا تو تھا بس کسی خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔
’’خاص دن…!‘‘
’’ہاں آج ہماری شادی کی تاریخ جو ٹھہر رہی ہے اور کل عید تو ہے میں نے امی ابو سے کہہ دیا ہے کہ پندرہ دن کے اندر اندر کی تاریخ ہی رکھ لیں۔‘‘
باذل کی بات پر یشب کے صحیح معنوں میں ہوش اڑ گئے۔
’’صرف پندرہ دن…! مگر بازل آپ میرا چہرہ دیکھ رہے ہیں کتنا پیلا اور مرجھایا ہوا ہے آخر آپ نے مجھے اتنی ٹینشن بھی تو دی ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ گھبراتے ہوئے بولی۔
’’کچھ نہیں ہوا تمہارے چہرے کو پہلے کون سا تم چندے آفتاب چندے مہتاب تھیں ایسا ہی پھٹکار برستا چوکٹا تھا تمہارا ہاں البتہ روزے کی برکت سے کچھ بہتر ضرور نظر آرہا ہے۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہوئے فاطمہ نے چہک کر گوشمالی کی۔
’’یشب بھابی اور بھیا آپ کو چاند مبارک ہو اور اگلے جمعے آپ کی شادی بھی مبارک ہو۔‘‘ علیشبہ خوشی سے گویا ہوئی تو یشب کے حقیقی معنوں میں ہاتھ پیر پھول گئے۔
’’ہائے اللہ اتنی جلدی۔‘‘
’’ہاں ہاں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی شادی کے وظیفے جب پڑھتی تھیں۔ بھیا کو قابو میں کرنے کے لیے آنٹیوں سے مشورے لیتی تھیں۔ آخر وہ تو کام آنے ہی تھے نا۔‘‘ فاطمہ لڑاکا انداز میں بولی تو علیشبہ اور باذل بے ساختہ ہنس دیے جبکہ یشب خفیف ہو گئی پھر کچھ یاد آنے پر تیوری چڑھا کر گویا ہوئی۔
’’تم دونوں کو معلوم تھا نا کہ میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہوں۔ مجھے ساری بات کیوں نہیں بتائی۔‘‘
’’وہ سوری یشب‘ بھیا نے منع کیا تھا۔‘‘ علیشبہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ تو یشب نے باذل کو گھور کر دیکھا۔
’’میں ذرا باہر جا رہا ہوں اگر تم لوگوں کو بازار جانا ہے تو فٹافٹ باہر آجائو۔‘‘ یہ کہہ کر باذل یہ جا وہ جا جبکہ فاطمہ اور علیشبہ نے بھی بھاگنے کی ٹھانی۔
’’فاطمہ کی بچی دیکھنا میں کل کیسے تمہاری منگنی رکواتی ہوں۔‘‘ یشب پیچھے سے انہیں آواز دے کر بولی پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور جلدی سے تیار ہونے کی غرض سے وارڈ روب کی جانب دوڑی۔ یہ عید اس کے لیے حقیقی خوشیوں اور محبت کا کارروان لے کر آئی تھی اور اسے اس کا پرتپاک استقبال کرنا تھا۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کیکٹس کا پھول… عشناء کوثر سردار
ڈائون اسٹریٹ پر چلتے ہوئے اس کا ذہن سوچوں سے بری طرح الجھا ہوا تھا۔ اسے اس وقت اس برستی بارش کی بھی کوئی پروا تھی نا اس ٹھنڈے موسم کی‘ چہرہ کسی بھی جذبات سے ایسے عاری تھا جیسے وہ کوئی ڈمی ہو اور کسی موسم یا بات کا اثر اس پر مطلق نہ ہوتا ہو۔
’’ایلیاہ میر‘ تمہیں عادت ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے کی۔ زندگی ایسے نہیں گزرتی۔‘‘ شام میں ہی اس کے ساتھ بیٹھی نمرہ نے کافی کے سپ لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’میں بزدل نہیں ہوں نمرہ۔ مجھے ایسے مت دیکھو میں تھک کر رکنا بھی نہیں چاہتی۔ میں رک گئی تو زندگی رک جائے گی اور…!‘‘ اس سوچ سے آگے وہ سوچ سکی تھی نہ بول سکتی تھی۔ بس خاموشی سے نمرہ کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’ڈونٹ وری‘ آئی ایم ہیئر‘ اگر تمہیں خود پر بھروسا ہے تو پھر ساری منفی باتوں اور سوچوںکو ذہن سے نکال کر باہر پھینک دو۔ اس عمر میں اتنی ٹینشن لو گی تو آگے جا کر کیا کرو گی؟ چہرے پر رونق رہے گی نہ خوب صورتی۔ تم یوں بھی ’’آئس میڈن‘‘ مشہور ہو۔ کوئی تمہاری طرف مشکل سے ہی متوجہ ہوتا ہے۔ سوچنے کی رفتار یہی رہی تو کوئی بے تاثر نگاہ ڈالنا بھی ترک کردے گا۔ تم چاہتی ہو ایسا کچھ ہو؟‘‘ نمرہ نے مسکراتے ہوئے اسے ڈرایا تھا۔ وہ جانتی تھی نمرہ اسے اس سوچ سے باہر لانا چاہتی تھی تبھی مسکرا دی تھی۔ مگر مسکرانے سے اس کی سوچ ختم نہیں ہوئی تھی نہ وہ فکر گئی تھی۔
’’یہاں آنے کا میرا فیصلہ جیسے کوئی آخری راہ تھی نمرہ۔ مجھے اس سے آگے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دی تھی۔ اب اگر یہ راہ بھی کسی بند گلی پر ختم ہوگئی تو میرا کیا بنے گا؟ میری ساری امیدوں کا پانی میں ملنا تو طے ہے نا؟‘‘ ایلیاہ میر نے کافی کا سپ لیتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنی کنپٹی کو دبایا تھا۔
’’اوہ مائی ڈیئر ایلیاہ میر‘ کاش میں تمہاری ان بے وجہ کی فکروں کی گٹھڑی بنا کر کسی دریا میں پھینک پاتی یا پھر تمہیں ہی اس دریا میں دھکا دے دیتی۔‘‘ نمرہ نے دونوں ہاتھ اس کے گلے کی سمت بڑھاتے ہوئے اسے گھورا تھا۔ ایلیاہ میر مسکرا دی۔
’’اچھی خاصی معقول لگتی ہو جب مسکراتی ہو۔ تمہیں روتی صورت بنائے رہنا کیوں پسند ہے؟‘‘ نمرہ نے بسکٹ کی پلیٹ اس کی سمت بڑھائی تھی جسے اس نے ہاتھ سے پرے کر دیا۔
’’آئی لوسٹ مائی جاب نمرہ‘ تم جانتی ہو یہ کتنا بڑا نقصان ہے۔ میں اسٹوڈنٹ ویزہ پر یہاں ہوں۔ یہ کساد بازاری کا دور ہے۔ جابز ملنا کتنا مشکل ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو۔ میرا ویزہ آل ریڈی ایکسپائرڈ ہوچکا ہے۔ (UK Border Agency) میں ویزا ایکسٹنڈکرنے کی اپیل کیے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ ابھی تک مجھے میری یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ میں (Post Study Work) کے لیے تب تک اپلائی نہیں کرسکتی جب تک کہ یونیورسٹی مجھے وہ سرٹیفکیٹ نہ دے دے۔ میں اپنی اس ایک پارٹ ٹائم جاب سے بھی ہاتھ دھو چکی ہوں اور تم کہہ رہی ہو میں پریشان نہ ہوں۔ اس سچویشن میں اور کیا کروں میں؟ اب تک میں نے وہ‘ وہ کیا جو تم نے مجھے مشورہ دیا۔ اس موٹے پیٹ والے لائر کے منہ میں کتنے پائونڈز جا چکے ہیں اور کتنے وہ مزید کھانے اور ڈکار لیے بنا ہضم کرنے کو تیار ہے۔ اس کی فکر میں نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ میں یہ سب کیسے کر پائوں گی؟ گھر سے ثناء کا فون آرہا ہے۔ ان کو وہاں پیسے چاہئیں۔ کہاں سے بھیجوں میں؟ سب بے کار رہا میرا یہاں آنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ فضول میں آگئی میں نہ آتی تو اتنی پرابلم میں بھی نہ گھرتی۔ میرے ساتھ تو وہ ہوا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا اور میری شامت آئی تھی جو اس بے کار کے کالج میں ایڈمیشن لیا اور یہ کساد بازاری کا ٹائم بھی ابھی آنا تھا؟ کب نکلوں گی میں ان پرابلمز سے؟ کہاں سے پیسے بھیجوں گی ثناء اور جامی کو؟ کتنی اسٹوپڈ ہوں میں اب PSW ملنے تک کیا کروں گی؟ یو کے والے مجھے اٹھا کر باہر پٹخ دیں گے اور ایسا نہ بھی ہوا تو کس طرح سروائیو کروں گی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ دماغ پھٹ جائے گا میرا۔‘‘ ایلیاہ میر کے پاس فکروں کے انبار تھے۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے بھرپور ہمت دلانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ ایلیاہ میر نفی میں سر ہلانے لگی تھی۔
’’مجھے دبئی کی جاب چھوڑ کر اس طرح یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ تب مجھے لگا تھا یہی بہتری کی راہ ہے مگر اب لگتا ہے میں نے تمام سفر صرف ایک بند گلی کی طرف کیا۔‘‘
’’تم اتنا پریشان مت ہو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی ایلیاہ‘ ایسے نا امید نہیں ہوتے تم کچھ پیسے مجھ سے ادھار لے سکتی ہو۔ اس سے تم خود بھی گزارہ کر سکتی ہو اور جامی اور ثناء کو بھی بھیج سکتی ہو۔ جب جاب مل جائے تو مجھے لوٹا دینا۔‘‘
ایلیاہ نے اس کے کہنے پر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس پرائے دیس میں نمرہ اس کا ایک مضبوط سہارا تھی۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتی تو اس کے لیے یہاں آنا‘ سروائیو کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔
’’تم خود کچھ پریشان لگ رہی ہو؟‘‘ ایلیاہ نے اپنی مشکل سے سوچ بچا کر اس کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے گہری سانس لی تھی۔
’’نہیں‘ سب ٹھیک ہے۔‘‘ وہ مطمئن نظر آنے کو مسکرائی تھی اور کافی کے سپ لینے لگی تھی۔
’’تم تو گھر جانے والی تھیں نا‘ کیا ہوا؟ ایسے منہ کیوں اترا ہوا ہے؟‘‘ ایلیاہ نے پوچھا تھا۔
’’اب نہیں جا رہی؟‘‘ نمرہ کا انداز مطمئن تھا۔
’’کیوں؟‘‘ ایلیاہ حیران ہوئی تھی۔
’’وہاں کسی کو میری ضرورت نہیں ہے‘‘ وہ اطمینان سے مسکرائی تھی اور اس کی سمت سے نظریں چرا گئی تھی۔ ایلیاہ کو ان آنکھوں میں کچھ دکھائی دیا تھا تبھی ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔
’’کیا ہوا ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ تم تو چھ سال بعد گھر جانے والی تھیں نا؟ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کی سب کے لیے گفٹس لیے سب کو سرپرائز دینے کی ٹھانی اور اب…؟‘‘
’’ہاں میں سرپرائز دینا چاہتی تھی چھ سال بعد وہاں جا کر مگر ابھی وہاں بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنا باقی ہے۔ ممی نے بتایا ہے عروسہ کی شادی کے لیے بڑی رقم چاہیے اور مجھے اس کے لیے یہیں رہنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر تم تو کچھ ہی مہینے پہلے اپنے بھائی کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا چکی ہو اور اس کے سمسٹرز کی فیس بھی بھر چکی ہو۔ پچھلے مہینے تم نے گھر بنانے کے لیے بھاری رقم بھیجی تھی اس کا کیا؟‘‘ ایلیاہ حیران تھی۔
’’میں نہیں جانتی مگر وہ سب اس وقت کی ضرورت تھی۔ اب نئی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں اور اس کے لیے میرا پاکستان جانے کا ٹرپ منسوخ کرنا ضروری ہے۔ ممی نے کل کہا پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور میں انہیں یہ بتا نہیں سکی کہ میں آپ سب سے ملنے کو کتنی بے قرار تھی اور کتنی ڈھیر ساری شاپنگ بھی کر چکی تھی۔‘‘ وہ سر جھکائے کہہ رہی تھی۔ ایلیاہ کو افسوس ہو رہا تھا۔
’’اوہ‘ یہ ٹھیک نہیں ہوا‘ نا تم اگر آنٹی کو بتاتیں تو…!‘‘
’’اس سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ نمرہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
’’لڑکیوں کے کاندھوں پر ساری کی ساری زمہ داریاں ڈال دینے سے ان کے خواب مر جاتے ہیں نمرہ اور وہ اس کی شکایت بھی کسی سے نہیں کرسکتیں۔ دیکھو تم کتنی اسٹرگل کر رہی ہو۔ پچھلے چھ سال سے یہاں ہو۔ جو کماتی ہو سارا کا سارا گھر بھجوادیتی ہو اور اس پر بھی کسی کو تمہاری کوئی پروا نہیں وہ پلٹ کر یہ تک نہیں پوچھتے کہ ٹھیک بھی ہو کہ نہیں۔ گھر واپس آنا چاہتی بھی ہو کہ نہیں؟ ہمیں مس بھی کرتی ہو کہ نہیں بات ہوتی ہے تو صرف پیسے بھجوانے کی‘ ضرورتیں گنوانے کی‘ میری صورت حال مشکل ہے۔ مگر تم میری صورت حال سے کہیں زیادہ مشکل میں ہو۔ میری طرف سارا کا سارا بوجھ اور ذمہ داری اس لیے کہ وہاں کوئی اور ایسا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ مگر تم… سب رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی سب جھیل رہی ہو۔‘‘ ایلیاہ افسوس سے بولی تھی۔
’’مجھے اس کی پروا نہیں ہے ایلیاہ‘ تم زیادہ مت سوچو میں خوش ہوں۔ میں ان کی کوئی مدد کر رہی ہوں جاذب کی پڑھائی مکمل ہوجائے گی تو میری ذمہ داریاں بھی پوری ہوجائیں گی۔ اینی وے میں اپنے آفس میں تمہاری جاب کے لیے بات کروں گی تم فکر مت کرو۔‘‘ نمرہ مشکل صورت حال سے نمٹنے کا ہنر جانتی تھی اور تھکی ہوئی تو وہ بھی نہیں تھی۔ مگر اسے فی الحال سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس سچویشن سے کس طرح باہر نکلا جائے۔
…٭٭٭…​
وہ گھر کے قریب تھی۔ بارش کے باعث سڑک پر کچھ پھسلن تھی۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں تھی۔ تبھی ایک دم سے پائوں پھسلا اور وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں گھنٹوں کے بل زمین پر آرہی اسی وقت اس کے سامنے سے آتی ہوئی کار کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ اپنی آنکھیں خوف سے بند کر گئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ اس نے آنکھوں پر کلائی رکھ لی تھی۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر کوئی باہر نکلا اور اس کے قریب آن رکا۔ ایلیاہ نے اسی طرح گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر دیکھا تھا۔ کوئی اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو مرنے کا بہت شوق ہے لیکن اس کے لیے میری ہی گاڑی کا انتخاب کیوں؟ آپ کو کوئی اور گاڑی نہیں ملی؟‘‘ کسی نے اسے لتاڑا تو وہ چندھائی ہوئی آنکھوں کو دیکھنے کے قابل بنانے کی سعی کرتے ہوئے اپنی دونوں آنکھوں سے اس بندے کو گھورنے لگی تھی۔ لمحۂ توقف سے اس کی آنکھیں اس قابل ہوئی تھیں کہ وہ سامنے کھڑے لمبے چوڑے بندے کودیکھ پائی تھی۔
’’اب اس طرح کیا دیکھ رہی ہیں؟ گاڑی کے سامنے سے ہٹنے کا موڈ ہے یا نہیں؟‘‘ اس شخص کا موڈ خراب تھا یا اسے دیکھ کر خراب ہوگیا تھا؟ وہ اخذ نہیں کر پائی تھی۔ بس خاموشی سے اس شخص کو دیکھا تھا اور اس کے معصوم انداز میں اس کی سمت دیکھنے سے اثر یہ ہوا تھا کہ اس شخص نے اپنا ہاتھ اس کی سمت مدد کے لیے بڑھا دیا تھا۔ جسے ایلیاہ میر نے حیرت سے دیکھا تھا۔
’’اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں‘ ہاتھ دیجیے۔‘‘ وہ مدد کی بھرپور پیشکش کرتا ہوا بولا۔ ایلیاہ نے تب بھی اپنا ہاتھ اس کی سمت نہیں بڑھایا تھا۔ اس بندے کو شاید ایلیاہ پر ترس آگیا تھا تبھی لمحہ بھر کو اسے خاموشی سے دیکھنے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل جھک کر اس کے قریب بیٹھ کر پوچھا۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اس کے توجہ سے پوچھنے کا اثر تھا کہ وہ ہی زددرنج ہو رہی تھی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔
’’اوہ آپ کا پروگرام تو لمبا لگ رہا ہے۔ ٹھیک ہے آپ یہاں بیٹھ کر آنسو بہائیے میں جاتا ہوں میں صرف یہ تسلی کرنا چاہتا تھا کہ آپ ٹھیک تو ہیں۔‘‘ وہ شخص اتنا بے حس ہوسکتا ہے ایلیاہ کو سوچ کر ہی غصہ آیا تھا اور اپنے انتہا سے زیادہ حساس ہونے پر بھی جی بھر کے ملال ہوا تھا۔ اسے اپنے یہ آنسو اس طرح کسی کے سامنے بہانا نہیں چاہیے تھے۔ وہ شاید یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی فضول سی لڑکی ہے اور…!
یہی سوچ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی اورگھٹنے کی چوٹ کے باعث کراہ کر رہ گئی تھی۔ اس اجنبی نے جو اپنی گاڑی کی طرف پلٹ رہا تھا مڑ کر اسے دیکھا تھا اور پھر جانے کیوں اس کے قریب آیا اور مدد کو ہاتھ دوبارہ اس کی سمت بڑھا دیا تھا۔
ایلیاہ نے اس کا پھیلا ہوا ہاتھ دیکھا تھا اور پھر جانے کیا سوچ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’آپ کو چوٹ زیادہ لگی ہے تو اسپتال لے چلوں؟‘‘ اس بندے نے پیشکش کی تو ایلیاہ نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’اچھا کہاں رہتی ہیں آپ‘ گھر ڈراپ کردوں؟‘‘ وہ مہربان بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر ایک سمت کھڑی ہوگئی تھی۔ اس شخص نے اسے بغور دیکھا تھا۔ شاید وہ بھی لیا دیا انداز رکھنے والا تھا یا پھر وہ جلدی میں تھا اور اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ ایلیاہ میر نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا اور زخمی گھٹنے کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی تھی اس کا ارادہ لینڈ لیڈی کا سامنا کرنے کا قطعاً نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا رینٹ مانگنا تھا اور وہ فی الحال اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ تبھی نظر بچا کر چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیگ ایک طرف رکھ کر جب وہ گھٹنے کا زخم دیکھ رہی تھی تبھی فون بجا تھا۔ ثناء کا نام دیکھ کر اس نے کال پک کر نے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی تھی۔
’’آپا آپ ٹھیک تو ہیں؟ میں کافی دیر سے آپ کا نمبر ٹرائی کر رہی تھی۔ آپ کال پک کیوں نہیں کر رہی تھیں؟‘‘ دوسری طرف ثناء نے فکر سے پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ گھٹنے پر اینٹی سپٹک لگاتے ہوئے سسکی تھی۔
’’کیا ہوا‘ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ثناء کو فکر ہوئی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوا‘ سب ٹھیک ہے تم کیسی ہو؟ جامی کہاں ہے‘ کئی دنوں سے اس نے فون نہیں کیا؟‘‘
’’وہ اپنے سمسٹر میں بزی تھا اور اس کے بعد اسے اسائمنٹ جمع کروانا تھے۔ اس کے نئے سمسٹر کی فیس بھرنا تھی۔ آپ نے کہا تھا پیسے بھجوا رہی ہیں ابھی تک اکائونٹ میں پیسے آئے نہیں۔‘‘
’’وہ ہاں میں تمہیں ویسٹرن یونین سے پیسے بھجوانے والی تھی مگر…!‘‘
’’مگر کیا آپا؟‘‘
’’میں رقم جلد بجھوائوں گی ثناء تم فکر مت کرو۔ تمنا کی اسٹڈی کیسی چل رہی ہے؟ تمہیں فون کرتی ہے یا نہیں؟‘‘
’’کرتی ہے مگر اس کی اسٹڈی ٹف ہے سو زیادہ ٹائم نہیں ملتا اور دو چار سال میں ڈاکٹر بن جائے گی تو آپ کو کافی آرام مل جائے گا۔ ابھی تو ساری ذمے داریوں کا بوجھ آپ کے کاندھوں پر ہے اور…!‘‘
’’ایسا نہیں ہے ثنائ‘ میں ایسا نہیں سمجھتی یہ بوجھ نہیں ہے میری ذمہ داری ہو تم لوگ میں تم سب کا حصہ ہوں‘ تم سب کے علاوہ میرا کون ہے؟ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سو ایک دوسرے کی طاقت بھی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہتے ہوئے گھٹنے کے زخم کو پٹی سے چھپایا تھا۔
’’میں دو چار دنوں میں پیسے بھجوا دوں گی تم جا کر گرو سری کر آنا اور ہاں جامی سے کہنا بائیک زیادہ تیز مت چلائے ورنہ میں آئوں گی تو اس کے خوب کان کھینچوں گی۔‘‘
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ مل گیا آپ کو؟ میں نے نیوز پیپر میں پڑھا تھا آج کل یو کے میں اسٹوڈنٹس کے لیے انہوں نے اپنی پالیسیز کافی سخت کر دی ہیں۔ اب آپ اسٹڈی کے بعد وہاں رک نہیں سکتیں۔ میں نے پڑھا تھا کہ اسٹؑوڈنٹس صرف چائے بسکٹ پر گزارا کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ آپ کو دبئی کی جاب کو چھوڑ کر یو کے جانے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یو کے اسٹوڈنٹ ویزا پر جانا بہت بڑا رسک تھا۔ اگر کچھ غلط ہوتا تو…!‘‘ ثناء فکر مندی سے بولی۔
’’کچھ غلط نہیں ہوگا ثنائ۔ میرے پاس دو دو ایم بی اے کی ڈگریاں ہیں اب… اگر چہ یہاں سے کیے گئے ایم بی اے کی ڈگری ابھی نہیں ملی مگر جلد یا بدیر مل ہی جائے گی پھر میں پی ایس ڈبلیو کے لیے اپلائی کروں گی اور دو سال کے لیے لیگلی یہاں رہ سکوں گی اور کام بھی کر سکوں گی۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔ تمہیں اس کے لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتی ہو ثنائ۔ میرے ہوتے ہوئے تم لوگوں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے جو بھی کیا جو بھی فیصلہ لیا تم لوگوں کو ذہن میں رکھ کر لیا۔ دو سال بہت ہوتے ہیں۔ دو سال یہاں ٹک جانے کا مطلب ہے تمنا کے میڈیکل کی تعلیم مکمل ہوجانا۔ تمہارا بی بی اے مکمل ہوجانا اور جامی کا ہائی اسکول پاس کرلینا۔ اس کے بعد میں کہیں بھی جا کر کوئی بھی اچھی جاب کرسکتی ہوں۔ میں یہاں مستقل قیام کا سوچ کر نہیں آئی صرف تم لوگوں کا اچھا فیوچر میری نظر میں ہے اور دو سال اس کے لیے کافی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر اسے سہولت سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’اچھا سنو ثناء میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے تھوڑی پیٹ پوجا کرنے دو۔‘‘
’’آپ کھانا کھانے کے بعد SKYPE پر آئیں گی نا؟ ہم نے کئی دنوں سے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ثناء میں بات کرتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہہ کر سلسلہ منقطع کیا تھا اور اٹھ کر واش روم میں گھس گئی۔
…٭٭٭…​
صبح اٹھ کر اس نے ای میلز چیک کیں مگر کسی اپلائی کی گئی جاب کا جواب نہ پا کر اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔ اس نے بریک فاسٹ کیے بنا کوٹ پہنا تھا اور اٹھ کر باہر نکل آئی تھی۔ اسٹریٹ پر ایک طرف چلتے ہوئے وہ سیل فون پر نمرہ کا نمبر ملانے لگی تھی۔ وہ شاید اس وقت سو رہی تھی تبھی کال پک نہیں کی تھی۔ وہ بینک آئی اور اپنے اکائونٹ سے کچھ رقم نکلوا کر ثناء کو بجھوائی اور ایک ریسٹورنٹ میں آن بیٹھی تھی۔ کافی کے سپ لیتے ہوئے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور سامنے نگاہ اٹھا کر دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوںمیں ایک چمک سی کوندی تھی۔ جیسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی اور دوسرے ہی پل اٹھ کر وہ اس طرف چل پڑی تھی۔ نمرہ نے کچھ دن پہلے اسے ایک کارڈ تھمایا تھا اس کے کسی جاننے والے کی کمپنی تھی شاید یہاں کچھ بات بن سکتی تھی۔
’’جی‘ کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘ ریسیپشسنٹ نے شستہ انگریزی میں پوچھا تھا۔
’’وہ‘ میں‘ مجھے ریان حق سے ملنا ہے۔‘‘ اس نے مٹھی میں دبا کارڈ دیکھ کر روانی سے کہا تھا۔ ریسیپشنسٹ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’آپ کی کوئی اپائمنٹ ہے۔‘‘
’’نہیں‘ مگر…!‘‘
’’آپ ان سے نہیں مل سکتیں۔‘‘ اس کے دو ٹوک جواب نے اس کی آخری امید بھی توڑ دی تھی۔ وہ اس سے زبردستی کیسے ملتی؟ اس نے ریسیپشنسٹ کو دیکھا کچھ سوچا اور پھر پوچھا۔
’’وہ آپ کے بائیں جانب پیچھے دیوار پر کیا سائن ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ کلف لگی گردن والی اس خاتون نے اپنے سپاٹ چہرے کو کچھ موڑا اور یہی وقت تھا جب وہ ایک ہی جست میں اندر کی جانب بڑھ گئی تھی ریسیپشنسٹ اس کے پیچھے چیخی تھی۔
’’ہے‘ لڑکی… کوئی روکو اسے۔‘‘ وہ پورے زور سے حلق پھاڑ کر چلائی مگر ایلیاہ میر نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا اور سیدھی چلتی ہوئی سی ای او کے روم کے سامنے آن رکی تھی۔ بنا کچھ سوچے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا اور بنا اجازت لیے اندر داخل ہوگئی تھی۔
’’ایکسکیوزمی‘ آئی ایم ایلیاہ میر۔‘‘ وہ پورے جوش سے بولی تھی۔ تبھی چیئر پر بیٹھے شخص نے سر اٹھا کر اس کی سمت دیکھا اور وہ اپنی جگہ بت بن گئی تھی۔ سامنے چیئر پر وہی شخص براجمان تھا جس کی گاڑی کے سامنے وہ اس رات آئی تھی۔ وہ شخص اسے دیکھ کر چونکا تھا۔
’’جی‘ آپ یہاں کیسے؟‘‘ وہ بنا کسی اپائنمنٹ لیے اسے اپنے روم میں گھس جانے پر حیران ہوا تھا اور اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایلیاہ میر نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب سیکیورٹی نے اسے آن دبوچا تھا۔
’’یہ کیا بد تمیزی ہے یہ کس قوم کا رویہ اپنا رہے ہیں میرے ساتھ؟‘‘ وہ چیخی تھی۔ مگر ہٹے کٹے سیکیورٹی اہلکاروں نے اسے چھوڑا نہیں تھا۔ ایلیاہ میر نے سامنے چیئر پر بیٹھے شخص کو گھورا تھا۔
’’ایسے خاموش بیٹھے کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟ آپ کی کنٹری سے ہوں کچھ تو لحاظ کریں یہاں بم پھوڑنے نہیں آئی۔ آپ سے ملنے آئی ہوں۔ کم از کم اس طرح کا سلوک نہ کریں۔‘‘ وہ غصے سے اردو میں گویا ہوئی تھی۔ ریان حق نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا تھا اور پھر سیکیورٹی اہلکاروں کو اسے چھوڑنے کا اشارہ دیا تھا۔
’’آپ جائیں یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر دونوں اہلکار باہر نکل گئے تھے۔ ایلیاہ میر نے گہری سانس لیتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
’’شکر ہے بات آپ کی سمجھ میں تو آئی۔ چلو پرائے دیس میں ایک دیسی کی ہیلپ تو نصیب ہوئی۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’آئی ایم برٹش۔‘‘ وہ جتاتا ہوا بولا تھا۔ اس مختصر جملے میں کوئی نفی تھی نا کوئی مثبت اعلان۔ مگر ایلیاہ میر نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا ضرور تھا۔ مگر وہ مزید کچھ کہہ کر بات بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سہولت سے بولی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے آپ کا کارڈ دیا تھا۔ آپ ان کی کسی کزن کے ریلیٹیو ہیں۔‘‘ اس نے مدعا بیان کیا تھا۔ اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ تبھی وہ گہری سانس خارج کرتا ہوا بولا تھا۔
’’مس‘ آپ کوئی بھی ہیں مگر اس وقت انگلینڈ میں کساد بازاری چل رہی ہے۔ ہم اپنا اسٹاف کم کر رہے ہیں۔ بہت سے قابل لوگ اپنی جابز سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہمیں اپنی کمپنی کو بچانا ہے۔ اس کی ساکھ کو بچانا ہے اور اس کے لیے ہم بہت سا غیر ضروری اسٹاف بھرتی نہیں کرسکتے۔ ہم مقامی لوگوں کو جابز سے برخاست کر رہے ہیں اور آپ تو یہاں کی ہیں بھی نہیں۔ یوں بھی ہم صرف لوکل لوگوں کو ہی جابز دینے پر پابند ہیں۔ میں کمپنی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتا۔‘‘ اس کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ اس شخص کا چہرہ اس رات سے زیادہ سپاٹ تھا۔ وہ اسے گھورنے لگی تھی پھر سلگ کر بولی۔
’’روبوٹ ہیں آپ‘ ایک انسان کی مجبوری دکھائی نہیں دیتی آپ کو؟ صرف لوکل لوگ ہی انسان ہیں ہم فارنر نہیں۔ باصلاحیت ہوں میں اگر آپ مجھے جاب دیں تو میں پروف کر سکتی ہوں میں غلط انتخاب نہیں ہوں۔ آپ یہ فائل دیکھیں۔ میں نے ایک ایم بی اے پاکستان سے کیا ہے ایک یہاں کی مقامی یونیورسٹی سے کیا ہے۔ میں نے اپنے دو سالہ قیام کے دوران اچھی کمپنیز کے ساتھ کام کیا ہے۔ اگرچہ پارٹ ٹائم ہی مگر مجھے یہاں کی ٹاپ کمپنیز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے آپ اس طرح مجھے نا نہیں کرسکتے۔‘‘ اس نے فائل آگے رکھی تھی۔ ریان حق نے بنا دیکھے فائل بند کردی تھی۔
’’وہاٹ ایور‘ بات آپ کی سمجھ میں آجانی چاہیے۔ ہمیں اپنی ویل رپیٹیٹیو کمپنیز کی فہرست میں آنا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی بقا کو بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت کسی بھی غیر مقامی کو جاب دینا رسک ہوسکتا ہے۔ اس کمپنی پر ہم فالتو کا بوجھ نہیں لاد سکتے۔ آئی ایم سوری۔‘‘ وہ معذرت کر رہا تھا۔ عجیب بے حس شخص تھا۔
’’کس قسم کے انسان ہیں آپ بات سمجھ نہیں آئی آپ کے جو مقامی ہیں صرف وہی انسان ہیں اور ہم کیا کریں۔‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ آپ اپنی کنٹری میں واپس جا سکتی ہیں اگر آپ کے لیے یہاں صورت حال مشکل ہوگئی ہے تو گو بیک ہوم…!‘‘ وہ سفاک لہجے میں بولا۔
’’میری کنٹری؟ اور وہ آپ کی بھی تو کنٹری ہے؟ دیار غیر میں اپنے دیس کے کسی بندے کی مدد کردیں گے تو کیا بگڑ جائے گا آپ کا؟‘‘
’’مس…!‘‘
’’ایلیاہ میر…! ایلیاہ میر نام ہے میرا۔ بے نام نہیں ہوں میرے نام سے بلا سکتے ہیں آپ مجھے۔ غیر مقامی لوگوں کو ان کے نام سے بلانا یقیناً کمپنی پالیسی کا حصہ نہیں ہوگا اور آپ کے مشورے کے


لیے بھی شکریہ۔ میں ڈھونڈ لوں گی راستا‘ گھر واپس چلی جائوں گی۔ یہاں میں اپنی مرضی اور شوق سے نہیں آئی ہوں۔ میری ڈگری پھنسی ہوئی ہے۔ آپ کے اس انگلینڈ کے دو نمبر کے گھٹیا لوگوں نے پیسا بنانے کے لیے جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرنے کے لیے گھٹیا کالج اور کیمپس بنائے ہیں نا۔ وہ ٹائم پر سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کرتے۔ کمانا آتا ہے آپ لوگوں کو خوب کما رہے ہیں دونوں ہاتھوںسے۔ پیٹ بھر بھر کر کھا رہے ہیں مگر ہم اسٹوڈنٹس بسکٹ اور کافی کو بھی ترس رہے ہیں اور قصور کس کا ہے؟ آپ لالچی لوگوں کا جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ ہائر کرنے کے لیے بہت تگ و دو کرتے ہیں۔ انہیں سہانے خواب دکھاتے ہیں اور یہاں انہیں اپنی گھٹیا پالیسیز کی نذر کر دیتے ہیں۔ لالچ کی بھی حد ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو ہائر کرتے ہوئے کیوں بوجھ نہیں پڑتا آپ کی اکانومی پر؟ تب کیوں کساد بازاری دکھائی نہیں دیتی؟ تب کیوں صرف فائدہ دکھائی دیتا ہے؟‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے اسے اکتائے ہوئے انداز میں دیکھا تھا۔ پھر گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا تھا۔
’’لسن مس ایلیا میر۔ بات اگر لالچ کی ہے تو آپ بھی صرف لالچ کے لیے ہی اس کنٹری میں آئی ہیں۔ ایک اچھے مستقبل کا لالچ آپ کو کھینچ کر لایا ہے یہاں۔ یہ بات عام ہے کہ انگلینڈ کی اس وقت کیا حالت ہے۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آنکھیں بند کیے نہیں بیٹھے کہ انہیں حقائق کی خبر نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ یہاں پارٹ ٹائم جاب کر کے بھی اتنا کما سکتی ہیں جتنا اپنی کنٹری میں آٹھ دس مہینوں میں کمائیں گی۔ یہ آپ کا لالچ ہی تو ہے جو سختیاں جھیلنے کے لیے آپ کو یہاں ٹھہرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لالچ کس میں نہیں ہے؟ سبھی لالچی ہیں اینی وے میرا وقت بہت قیمتی ہے ہم مزید بات نہیں کرسکتے۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔‘‘ سپاٹ لہجے میں کہہ کر ریان حق نے اس کی فائل اس کے سامنے رکھی تھی اور اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔ تب ساکت بت بنی ایلیاہ میر کو بھی اٹھنا پڑا تھا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل آئی۔
لڑ کر‘ جھگڑا کر کے یا ہم وطنی کا واسطہ دے کر وہ حاصل نہیں کرسکتے جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ اس کے پائوں میلوں چلتے رہے تھے اور جب اپنے کمرے میں آکر اس نے اپنے وجود کو بستر پر ڈالا تو اسے کوئی احساس نہیں تھا سارا وجود جیسے بے حس تھا۔ تھکن کا کوئی احساس بھی نہیں تھا۔
وہ ایک برے وقت سے گزر رہی تھی۔ مگر وہ اپنے پیاروں کو ان حالات میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ اس کے کاندھوں پر ذمہ داری تھی ان کی۔ وہ خود چاہے کتنا بھی سفر کرتی مگر وہ انہیں سفر کرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر وہ کیا کرسکتی تھی؟ فی الحال کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ذہن پوری طرح سے مائوف تھا۔ اس پاکستانی‘ دیسی دکھائی دینے والے ریان حق نے بہت اچھی طرح اس کی عقل ٹھکانے لگائی تھی۔
ہاں یہ اس کا لالچ ہی تو تھا۔
لالچی ہی تو ہوگئی تھی وہ جو اپنی اچھی خاصی دبئی کی جاب کو لات مار کر یہاں چلی آئی۔ مگر کس کے لیے؟ یہ اس کی اپنی خود کی غرض نہیں تھی۔ یہ اس کی فیملی کی بہتر سپورٹ کے لیے تھا۔ وہ اتنا کمانا چاہتی تھی کہ گھر چل سکے۔ ثنائ‘ جامی اور تمنا کے اخراجات اٹھا سکے۔ انہیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنا سکے۔ بس یہی تو چاہتی تھی وہ یہی تو تھا اس کا لالچ تو کیا غلط تھا اس میں۔
گرم گرم آنسو آنکھوں کے کناروں سے نکل کر بالوں میں جذب ہونے لگے تھے۔ وہ تنہا کھڑی تھی۔
بہت تنہا۔ کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔
اس کا دل چاہا تھا ریان حق کا منہ نوچ لے۔ مگر اس کا بھی کیا قصور تھا۔ وہ مقامی روبوٹ تھا جو صرف فائدے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا۔ وہ فائدے سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتا تھا۔ وہ اسے یا اس جیسے کسی اور کو الزام نہیں دے سکتی تھی۔
وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی تھی یہ اس کی مجبوری تھی۔ مزید دو سال یہاں رہ کر کمانا چاہتی تھی کیونکہ یہی اس کے حق میں بہتر تھا۔ کوئی اور اس کی مجبوری کیوں سمجھتا۔ وہ کیوں کسی سے فیور چاہ رہی تھی۔ پچھلے کئی دنوں سے اس نے پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔ اس کی روم میٹ کچھ خرانٹ تھی مگر اس کی کیفیت دیکھ کر اس نے اپنا فوڈ اس کے ساتھ شیئر کرلیا تھا۔ وہ رشین لڑکی تھی وہ بھی اسٹوڈنٹ تھی مگر ابھی اس کی اسٹڈی اور ویزا دونوں ختم نہیں ہوئے تھے۔ سو اسے ان حالات کا سامنا نہیں تھا جن کا ایلیاہ میر کو تھا۔ وہ بہت زیادہ مدد گار نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ خود بھی پارٹ ٹائم جاب کرتی تھی اور اپنے بوائے فرینڈ کا خرچہ بھی اٹھا رہی تھی جو کہ مقامی تھا اور آج کل بے روزگار تھا۔ نہ ہی ایلیاہ اس سے روز مدد مانگ سکتی تھی۔ اس کی خودداری اسے اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس نے لیپ ٹاپ کھول کر کئی سائٹس پر اپنی سی وی چھوڑ دی تھی۔ شاید اس سے کوئی راہ مل سکتی۔ اس نے اپنے لائر سے بات کی تھی۔
’’مجھے جاب چاہیے۔ اس کے لیے مجھے وہ پیپرز ایوی ڈینس کے طور پر چاہئیے جو میں نے اپنے (Post Study Work) کے لیے (Uk Border Agency) میں جمع کروائے ہیں۔ کیا اس کی فائل مجھے آپ آج بجھوا سکتے ہیں؟ یا میں آپ کے آفس آجائوں؟‘‘
میں آج کچھ بزی ہوں مگر اس کے لیے مجھے UKBA جانا ہوگا۔ تبھی کچھ ہوسکتا ہے۔ آپ بڑی کمپنیز کے بجائے چھوٹی جابز پر دھیان دیں۔ کسی ریسٹورنٹ یا پھر اسٹور یا شاپ کوئی بھی جاب بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی مس میر۔ میں نے یہاں MBA کیے لوگوں کو مچھلی پیک کرتے تک دیکھا ہے۔ جو کہ انتہائی گھٹیا کام سمجھا جاتا ہے مگر اس کی ایک دن کی آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ آپ پریشان مت ہوں خدا کوئی راہ ضرور دکھائے گا۔‘‘ وہ لائر شاید کوئی اچھا انسان تھا جو اس کی حالت کو سمجھ رہا تھا۔ اس نے سلسلہ منقطع کیا تھا۔
’’تو کیا اسے بھی مچھلیاں پیک کرنے کا کام کرنا ہوگا؟‘‘ وہ اپنا کوٹ پہن کر باہر نکلتے ہوئی سوچ رہی تھی۔ جان پہچان کے بنا کہیں بھی جانب حاصل کرنا ممکن نہیں تھا اور وہ تھک کر نمرہ کے پاس آئی تھی۔ وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
’’کہاں جا رہی ہو تم؟‘‘ ایلیاہ میر نے پوچھا تھا۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’مسٹر حیات کے یہاں ایک تقریب ہے انہوں نے انوائٹ کیا ہے تم میرے ساتھ آنا چاہو گی؟‘‘ آئینے میں اس کے عکس کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’لیکن میں تو انوائٹڈ نہیں۔‘‘ وہ سرد لہجے میں کہہ کر کائوچ میں دھنس گئی تھی۔ نمرہ نے اسے آئینے میں بغور دیکھا تھا۔
’’تمہاری جاب کا کیا بنا؟ تم ریان حق سے ملنے گئی تھیں؟‘‘
’’ہاں گئی تھی مگر اس نے کہا وہ صرف مقامی لوگوں کو جابز دیتا ہے۔‘‘
نمرہ کو وہ بہت لاچار اور تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ تبھی اسے مسکراتے کر دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چلو ہوسکتا ہے کوئی بات بن جائے؟ میں مسٹر حیات سے بات کروں گی ۔ وہ ایم ڈی کے کافی قریب ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کچھ مدد کرسکیں؟ ملنے جلنے سے ہی کوئی راہ نکل سکتی ہے نا۔ ہم کوشش تو کرسکتے ہیں۔‘‘ وہ راہ دکھا رہی تھی۔ وہ جانے پر مائل نہیں تھی مگر جانے کیا سوچ کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ وہاں آکر اسے اندازہ ہوا تھا۔ اس تقریب کے لیے اس کا حلیہ خاصا غیر مناسب اور نا معقول تھا۔ اس نے خود کو مس فٹ محسوس کیا تھا۔
’’نمرہ میں نے تم سے کہا تھا یہ مناسب نہیں مجھے بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔ میرا حلیہ دیکھو کسی ڈرنک سرو کرتی ویٹرس سے زیادہ نا معقول لگ رہی ہوں۔‘‘ اس نے نمرہ کے کان میں سرگوشی کی۔ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’دیٹس اوکے اس سب کے بارے میں مت سوچو۔ یہ جو سب ویٹر ویٹریس دکھائی دے رہے ہیں نا یہ بے چارے سبھی اسٹوڈنٹس ہیں جو تقریب میں شریک سبھی لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے اور معقول ہیں۔ مجبوری کیا کیا کرواتی ہے۔ اس کا اندازہ تم سے زیادہ بہتر کون کرسکتا ہے۔ کئی کوالیفائیڈ انجینئر‘ سافٹ ویئر انجینئر‘ میڈیا پرسنز‘ ایم بی ایز ان کی چاکری کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کافی خوش نصیب قوم ہے یہ جو اتنے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے پائوں کے نیچے دبائے ہوئے ہے۔ دیکھو یہ قوم کل بھی راج کر رہی تھی اور آج بھی ہم پر قابض ہے۔‘‘ نمرہ مسکرائی تھی۔ وہ اس کی بات سے انکار نہیں کرسکی تھی۔ مگر ترقی کا راستا یہیں سے ہو کر تو گزرتا تھا۔ یہیں سے سارے خوابوں کی راہ ملتی تھی۔ سبھی پرابلمز کا حل بھی ملتا تھا۔ شاید یہی بات سب کو یہاں باندھے ہوئے تھی ویسے ہی جیسے وہ خود بندھی تھی۔
’’نمرہ مجھے چلنا چاہیے یہ ٹھیک نہیں ہے دیکھو مجھے سب کس طرح اور کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ نمرہ کے کان کے قریب بولی تھی مگر نمرہ نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ وہ اس وقت سامنے کھڑے ایم ڈی کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔ اسے ہاتھ ہلایا تھا اور پھر آگے بڑھ گئی تھی۔ ایلیاہ میر نے دیکھا تھا وہ غائب تھی۔ وہ کچھ سوچ کر پلٹی ارادہ اس تقریب سے نکل جانے کا تھا تبھی وہ کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی۔
’’اف۔‘‘ ناک پر جیسے کوئی فولاد ٹکرایا تھا۔ اس کی سسکی نکلی تھی۔ شاید وہ لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب کسی نے اسے تھام لیا تھا۔ ایلیاہ میر نے آنکھیں کھول کر بہ مشکل سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا اور آنکھیں یکدم پوری کھل گئیں۔ اس کے سامنے ریان حق کھڑا تھا۔
’’دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ؟ یا آپ صرف مقامی لوگوں کو دیکھ کر چلتے ہیں۔‘‘ ایک زور دار طنز کیا تھا۔ جس کا اثر ریان حق پر قطعاً نہیں ہوا تھا۔
’’یہاں بھی جاب مانگنے آئی ہیں آپ۔‘‘ اس نے رسانیت سے طنز کیا تھا۔
’’اوہ۔‘‘ ایلیاہ میر نے ہونٹ سکوڑے تھے۔ وہ انسان اپنی حیثیت اور نشے میں پوری طرح چور تھا۔ اس کا دماغ ٹھکانے لگانا بہت ضروری تھا۔
’’ہاں جاب مانگنے آئی ہوں کوئی تکلیف ہے آپ کو؟‘‘ وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی پر اعتماد انداز میں بولی۔ ریان حق نے اس کی سمت خاموشی سے دیکھا۔ کیا وہ اس کے کونفیڈنسز سے متاثر ہوا تھا۔ وہ گھورتی ہوئی کوئی اور سخت بات کہنے والی تھی۔ جب نمرہ نے کہیں سے نکل کر اسے کھینچ لیا تھا۔
’’میں نے حیات صاحب سے بات کی ہے تم ان سے مل لو وہاں سامنے کھڑے ہیں وہ۔‘‘ اس کے کان کے قریب منہ کر کے کہا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی سمت دیکھتی رہی تھی۔ پھر بھٹکتی ہوئی نگاہ ریان حق پر گئی جو اس لمحے کسی پری وش کے ساتھ کھڑا کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔ تو کیا مسکرانا بھی جانتا تھا وہ؟ اسے اتنا سینس تھا کہ کسی لڑکی کو کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ یا کیسے بات کی جاتی ہے؟ تو کیا وہ صرف مقامی لوگوں سے بات کرنے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا؟
’’اف‘ یہ نسل پرستی ایک بلی یا کتے کو سڑک سے اٹھا کر اسے شاہانہ زندگی دینے والے کیسے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انسانوں کے نام پر اپنی پالیسیز کو سخت کرلیتے ہیں اور مقامی جانوروں کے لیے بھی ان کے اندر انسانیت عود کر آجاتی ہے۔ اپنا جانور بھی خاص ہے اور دوسری کنٹری کا انسان بھی جانور سے بد تر۔‘‘ ایلیاہ میر نے سوچا تھا اور حیات صاحب کی طرف بڑھ آئی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے…!‘‘ اس نے ابھی منہ کھولا ہی تھا۔ جب وہ مسکرا کر بولے۔
’’جانتا ہوں آپ ادھر آکر میری بات سنیں۔‘‘ وہ اسے شانے سے تھام کر ایک ویران گوشے میں لے گیا تھا۔ اس کے سامنے کھڑی ایلیاہ میر اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مسٹر حیات نے ڈرنک کا سپ لیا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے اس کی سمت دیکھا۔
’’مس میر بات اتنی سی ہے کہ آج کل کساد بازاری کا دور ہے اور…!‘‘
جانتی ہوں نئی بات کریں۔‘‘ وہ اکتا کر بولی۔ وہ اس کے تیور دیکھ کر مسکرایا تھا۔
’’خاصا ایٹی ٹیوڈ ہے آپ میں اور خود اعتمادی بھی مگر اپنی کنٹری میں سب چلتا ہے یہاں نہیں۔ یہاں کچھ کو آپریٹ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اس کی مسکراہٹ میں لین دین کا معاملہ تھا وہ چونکی تھی۔
’’مطلب۔‘‘ سوالیہ نظروں سے مسٹر حیات کو دیکھا تھا۔
’’مطلب مس میر میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ اگر کچھ مدد آپ میری کردیں تو؟‘‘
اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ ایلیاہ میر کا دل چاہا تھا اس کا منہ نوچ لے۔ یہ شخص اس کارپوریٹ روبوٹ سے زیادہ گھٹیا لگا تھا۔ اس نے اپنے برائون بیلٹ ہونے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاتھ کا ایک بھرپور پنج بنا کر اس کے منہ پر مارا تھا۔ مسٹر حیات کو سمجھنے اور سوچنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ جب تک وہ سنبھا وہ وہاں سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے بے حد غصہ آرہا تھا سامنے پارکنگ میں ریان حق کی گاڑی دیکھ کر وہ رکی تھی۔ غصہ کہیں تو نکالنا تھا۔ اس نے ہیئر پن بالوں سے نکالی تھی اور اس کی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دی تھی اور ایک گہری سانس لے کر اطمینان سے چلتی ہوئی وہاں سے نکل آئی تھی۔ اپنے بیڈ پر خالی پیٹ لیٹے ہوئے اسے ایسا کرنے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ نہ کوئی پچھتاوا رات کے کسی پہر نمرہ کی کال آئی تھی۔
’’تم وہاں سے اتنی جلدی کیوں چلی آئیں؟ وہ بھی مجھے بنا بتائے بات ہوئی حیات صاحب سے۔ کیا کہا انہوں نے؟‘‘ نمرہ اس کی سچی پکی خیر خواہ تھی۔ مگر بات فی الحال بن نہیں رہی تھی۔ شاید مسٹر حیات نے اسے پنج والی بات نہیں بتائی تھی۔ تبھی وہ کہہ رہی تھی یہ سب۔
’’کچھ نہیں ہوا نمرہ جاب حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے تم تو جانتی ہو۔ اینی وے مدد کرنے کے لیے شکریہ تم بہت ساتھ دے رہی ہو میرا۔‘‘
’’تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ پیسے… اوہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں نا‘ جانتی ہوں میں‘ میں کل آفس جانے سے پہلے…!‘‘
’’نہیں نمرہ اس کی ضرورت نہیں تھینکس تم پہلے ہی میری کافی مدد کرچکی ہو۔ مجھے خود کوئی راہ ڈھونڈنا ہوگی یہ مناسب نہیں تم فکر مت کرو۔ میں نے کھالیا تھا۔‘‘
’’کھالیا تھا‘ کہاں سے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی۔
’’وہ میری لینڈ لیڈی کا آج اکیلے کھانے کا موڈ نہیں تھا تو اس نے بلا لیا۔ کافی لذیذ پکوان بناتی ہے وہ۔‘‘ اس نے صاف جھوٹ بولا تھا۔ وہ خود دار تھی۔ انا پرست تھی یوں نہیں جھک سکتی تھی۔ فون کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد اس نے کروٹ بدلی تھی اور سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ صبح اٹھی تھی تو ارادہ جاب ڈھونڈنے کے لیے نکلنے کا تھا۔ تھبی کچھ دوستوں اور جاننے والوں کو میسجز کر کے اپنے لیے جاب ڈھونڈنے کی ریکوئیسٹ بھی کی تھی۔ وہ شاور کے لیے واش روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب فون بجا۔ اسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی۔ اجنبی نمبر دیکھ کر بھی کال ریسیو کرلی تھی۔ دوسری طرف کوئی خاتون تھیں اسے آواز کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔
’’آپ اس وقت آفس آسکتی ہیں ریان حق آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ وہی ریسیپشنسٹ تھی جس نے اسے اندر جانے سے روکا تھا اور جسے جھانسا دے کر وہ زبردستی ریان حق سے ملنے چلی گئی تھی۔ ریان حق کیوں ملنا چاہتا تھا اس سے؟اس کی سانس لمحہ بھر کو رکی تھی۔ اوہ‘ تو کہیں اس نے اسے اپنی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکالتے دیکھ تو نہیں لیا تھا؟ اف خدا! اس نے اس کا کیا حشر کرنا تھا۔
اختیارات تو تھے اس کے پاس۔ کہیں وہ اسے جیل کی ہوا کھانے ہی نا بھجوا دیتا۔ اس کے لیے یہ کیا مشکل تھا۔ مقامی بندہ تھا‘ امیر تھا کئی اختیارات تو رکھتا ہی تھا۔ وہ ہی غصے میں پاگل ہوگئی تھی۔ دھیان ہی نہیں رہا کہ کس سے الجھ رہی ہے۔ مسٹر حیات کا غصہ بھی اس کی گاڑی پر نکال دیا۔ اب ایک پل میں ہوش آیا تھا۔ فون کا سلسلہ منقطع کر کے وہ کچھ دیر سوچتی رہی تھی۔
’’نہیں‘ میں ریان حق سے ملنے نہیں جائوں گی۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں سوچا تھا اور واش روم میں گھس گئی۔ وہ سارا دن اس نے سڑکیں ناپتے ہوئے گزارا تھا۔ تبھی دن کے اختتام پر ایک دوست کا میسج موصول ہوا تھا۔
’’میں ان دنوں ایک ریسٹورنٹ میں کام کر رہا ہوں۔ کوشش کر کے تمہارے لیے جگہ نکلوا سکتا ہوں۔ مگر ایس فوری نہیں ہوسکتا کچھ انتظار کرسکتی ہو تو میں بات کروں۔‘‘
کچھ امید کی کرن تو دکھائی دی تھی۔ چھوٹی جاب حاصل کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔ سو اس نے ہاں کردی تھی۔ سروائیو تو کرنا تھا اور اب کوئی راہ تو دکھائی دی تھی۔ کچھ نا ہونے سے ہونا بہتر تھا۔ جان پہچان کے بنا یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ تھکن سے چور گھر پہنچی تھی جب نمرہ کا فون آیا تھا۔
’’میں نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا تمہاری جاب کے لیے جاب بڑی نہیں ہے دو گھنٹوں کی ہے مگر تمہیں دو گھنٹوں کے پچیس پائونڈ ملیں گے۔ تمہیں ریسٹورنٹس کے مسالوں کو چھانٹ کر الگ الگ جار میں بھرنا ہے۔ بس اتنی سی جاب ہے۔ مگر اس کی ٹائمنگ رات کی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کل رات میں حملہ آوروں کے قصے عام ہیں۔ موبائل اور رقم چھیننے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ کچھ راہ گیر تو بری طرح زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ میں تمہیں اس جاب کو کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتی۔ مگر…!‘‘ نمرہ نے آخر میں ایک سوالیہ نشان چھوڑا تھا وہ تلخی سے مسکرا دی تھی۔
’’یہ لندن شہر عجیب ہے۔ مقامی لوگ اسے فارنرز کی سٹی کہتے ہیں اور فارنرز یہاں کتے سے بد تر زندگی جیتے ہیں۔ میں ان گروہوں کے قصے پڑھ چکی ہوں۔ پریشان مت ہو۔ میں برائون بیلٹ ہوں مارشل آرٹ سے واقف ہوں مجھ سے ٹکرانے والا خالی ہاتھ واپس نہیں جائے گا۔ میں یہ جاب ضرور کرنا چاہوں گی۔ نا ہونے سے ہونا بہتر ہے۔‘‘
وہ اس تھوڑے کو بہت جان رہی تھی۔ کیونکہ اس نے سروائیو کرنا تھا۔ ایک مہینے کے سات ساڑھے سات سو پائونڈ کچھ برا نہیں تھا۔ وہ گھر کچھ تو بھجوا سکتی تھی۔ دو سوپائونڈز شیئرنگ کمرے کے نکال کر بھی کچھ ہاتھ آسکتا تھا۔ جب تک دوسرے ریسٹورینٹ کی بات ہوتی اور بنتی تب تک وہ فارغ رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک اطمینان کی سانس لیتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے صبح

کی کال یاد آگئی تھی۔
یہ ریان حق کتنا عجیب بندہ تھا۔ کیا بگڑ جاتا اگر وہ مدد کردیتا۔ وہ اس کی جاننے والی تھی نا کوئی رشتے دار وہ صرف ہم وطن ہونے پر کتنی امیدیں لگا بیٹھی تھی اور وہ شخص بھی ایک کائیاں تھا اس نے صرف ٹائروں کی ہوا ہی تو نکالی تھی اور اس نے باز پرس کرنے وہاں بلوایا تھا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ اس کے پاس دو پیسے کیا آگئے تھے یہاں اس سر زمین پر پیدا کیا ہوگیا خود کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ کتنے عجیب ہوتے ہیں ایسے لوگ۔
وہ کتنی دیر سوچتی رہی تھی۔ دو بار ملی تھی اس بندے سے یا پھر تین بار مگر وہ کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پایا تھا یا پھر وہی امپریسڈ ہونے والوں میں سے نہیں تھی۔ تمام سوچوں کو ایک طرف رکھ کر وہ آنکھیں موند کر سونے کے جتن کرنے لگی تھی۔
…٭٭٭…​
کچھ لوگ شاید دوسروں سے زیادہ حوصلہ رکھتے ہیں تبھی مشکلات بھی اتنی ہی وافر مقدار میں تعاقب میں رہتی ہیں۔ ایلیاہ میر نے ہوش سنبھالا تھا تو اطراف کی کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔ گھر میں ممی اور تین بھائی بہن تھے۔ پاپا کبھی کبھی آتے تھے۔ ممی سے ان کی دوسری شادی تھی۔ وہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے سو ان کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تھے۔ آتے بھی تھے تو قیام مختصر ہوتا تھا۔ وہ گریجویشن میں تھی جب خبر ہوئی اس کی نسبت بچپن سے پاپا نے اپنے بھانجے سے طے کردی ہے اور اس کی شادی بھی اس سے ہونا قرار پائی ہے۔ اس کے ذہن میں کوئی خاص امیج نہیں تھا۔ اس نے خواب دیکھنا نہیں سیکھا تھا۔ حقیقت پسندی نے اسے خواب دیکھنے کی عادت پڑنے ہی نہیں دی تھی۔ ممی کو سخت محنت کر کے گھر چلاتے دیکھا تھا۔ وہ دو جابز کر رہی تھیں۔ پاپا گھرچلانے میں ان کی مدد نہیں کرتے تھے کہ ان کے اور دیگر بچے بھی تھے۔ پھوپھو جب بھی آتیں طنز کے تیر چلا جاتیں۔ شاید وہ انہیں اتنی پسند نہیں تھی یا پھر پسند ہوتی اگر وہ پاپا کی دوسری بیوی کی اولاد نہ ہوتی۔ سارا بھید شاید اس رشتے سے تھا۔ اسے ہمیشہ لگتا تھا وہ اور ممی پھوپھو کی پسندیدہ نہیں وہ اس رشتے کے لیے کوئی فیلنگز نہیں رکھتی تھی۔ بہت برف سا احساس تھا اس رشتے کا۔ حمزہ کو بھی اس سے شاید کوئی خاص انٹرسٹ نہ تھا۔ تبھی وہ ضروری یا غیر ضروری رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا نا ان میں زیادہ بات چیت ہوتی تھی۔ وہ ایک بار گھر آیا تھا تو ممی نہیں تھیں۔ تبھی اس نے چائے کا پوچھا تھا۔ وہ کچھ دیر اس کو بغور دیکھتا رہا تھا پھر جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوشنما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ پہلی بار تھا جب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا۔ وہ معنی سمجھ نہیں پائی تھی۔ پوچھ بھی نہیں پائی تھی۔ وہ کیون اسے کیکٹس کے پھول سے ملا رہا تھا۔ محبت اتنی اذیت ناک تھی‘ یا بہت خوب صورت یا پھر اس سے محبت کا ہونا اتنا انوکھا اور نایاب تھا جیسے کیکٹس کا پھول؟ وہ اپنے طور پر معنی تلاشتی تھی۔ پہلی بار تھا جب اس نے محبت کا سوچا تھا۔ احساس ہوا تھا کہ محبت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ مگر وہ جو اس کا ہم سفر بننے جا رہا تھا اسے اس سے محبت نہیں تھی؟ اگر محبت نہیں تھی تو عمر ساتھ کیسے گزرتی۔ ایک عمر جب ایک لمحے کو سن کر اس کا دل گھٹن سے بھر گیا تھا۔ اس نے اپنی ممی کو راتوں کو اٹھ کر روتے دیکھا تھا۔ شادی اگر سمجھوتا تھی تو کیوں نباہ رہی تھیں وہ؟ کیونکہ وہ سہام میر سے محبت کرتی تھیں۔ پورا خاندان جب خلاف تھا تو سہام میر نے ان سے شادی کیوں کی تھی؟ وہ اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر یہ بات اس نے محسوس کی تھی کہ وہ یا اس کی ماں سہام میر کی فیملی کی پسندیدہ کبھی نہیں تھیں۔ یہ رشتے مخالف سمت کیوں بہتے ہیں۔ اس کا پتا وہ کبھی نہیں لگا پائی تھی۔
وہ اس راز کی کھوج میں سوچتی رہتی تھی۔ مگریہ سوچ اس روز تھمی جب پھوپھو کسی بات سے ممی سے الجھ پڑیں۔ جانے کیابات ہوئی تھی وہ کالج سے واپس لوٹی تھی جب ممی کو اس نے روتے دیکھا اور اس کے بعد جب وہ گرنے کو تھیں اس نے خود آگے بڑھ کر ان کو اپنے بازوئوں میں تھاما تھا۔ کیا بات ہوئی تھی؟ کس بات کا صدمہ پہنچا تھا۔ وہ کس سے پوچھتی۔ اس کے بعد ممی تو ہوش میں ہی نہیں آئیں پندرہ دن تک وہ کوما میں رہیں اور پھر اسی دوران ان کی ڈیتھ ہوگئی۔ صدمہ کیا ہوتا ہے‘ دکھ کسے کہتے ہیں؟ یہ بات اس نے پہلی بار اس شدت سے جانی تھی۔ وہ سرے ڈھونڈتی رہی تھی دکھ سے نمٹنے اور نبرد آزمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ممی گئیں تو ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈال گئیں۔ اپنی جگہ اسے کھڑا کر گئیں ممی کو کیسے لگا تھا وہ اتنی بڑی ذمہ داری نبھا سکتی ہے؟ وہ تو ابھی زندگی کے معنی بھی ٹھیک سے نہیں جانتی تھی۔ ابھی تو اسے ڈھنگ سے دنیا کی سمجھ بھی نہیں آئی تھی پھر کجا اتنی ساری ذمہ داریوں کو نبھانا۔ وہ ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی پہاڑ اس کے سر پر آن پڑا ہوا۔ ممی کی موت کے بعد حمزہ سے صرف ایک بار بات ہوئی تھی۔ وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا پھر بولا تھا۔
’’اس رشتے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا مجھے سمجھ نہیں آتا یہ آگے کیسے بڑھے گا‘ صائمہ مامی تمہیں اپنی جگہ کھڑا کر گئیں تم ساری عمر اب ان رشتوں کا بوجھ ڈھوتی رہو گی اور… مجھے نہیں لگتا یہ مناسب ہے کہ…!‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔ جب وہ شاید اس کا خیال کر کے مسکرایا تھا۔
’’تم بہت خوب صورت ہو اگر اچھی نہ لگو تو یہ عجیب ہوگا۔ محبت سے نابلد سہی مگر مرد کی آنکھ تو رکھتا ہوں اگر تم باعث کشش لگتی ہو تو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔‘‘
وہ مسکرائی نہیں تھی۔ وہ اگر مذاق بھی تھا تو بہت بھونڈا تھا۔ وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ اس رشتے کو آگے نہیں بڑھا سکتا کیونکہ اس پر ذمے داریوں کا بوجھ ہے۔ اس سے آگے اسے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔ وہ یہ بات فراموش نہیں کرسکتی تھی کہ وہ ایک لڑکی تھی‘ نا وہ یہ فراموش کرسکتی تھی کہ اس سے چھوٹے بہن بھائی اپنی ضرورتوں کے لیے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت مشکل سے ممی کی دوست کی مدد سے ایک جاب ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر اس کے لیے اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا محال ہو رہا تھا۔ مگر اسے کچھ بھی کر کے خود کو آگے ضرور بڑھانا تھا کہ اگر اس کا سفر رک جاتا تو باقی سب کے خواب بھی منجمد ہوجاتے۔ باقی


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
سب کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اس کا خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ضروری تھا
جانے کتنے دن گزرے تھے اس نے تو شمار کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس روز الماری صاف کرتے ہوئے کچھ پیپر ہاتھ لگے تھے۔ اس نے کھول کر دیکھا تو ساکت رہ گئی تھی۔ وہ طلاق کے پیپر تھے۔ جن پر ممی کے سائن ہونا باقی تھے۔ تو کیا یہ وجہ تھی ان کی موت کی۔ تو کیا پھوپھو اس بات پر امی سے الجھ رہی تھیں اور کیا یہی وہ بات تھی جو ان کے کوما میںجانے کا باعث بنی تھی اور ان کی موت کا سبب بھی؟ وہ کئی لمحوں تک سوچتی رہی تھی۔ ممی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ اگر پھوپھو اور پاپا ممی کی موت کے ذمہ دار تھے تو وہ اس رشتے کو کیسے آگے بڑھا سکتی تھی جن رشتوں سے ممی کو اتنی تکلیف پہنچی وہ ان رشتوں کے ساتھ کیسے بندھ سکتی تھی؟ حمزہ کا لہجہ سماعتوں میں گھوما تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جیسے دیکھو تو خوش نما لگتا ہے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ اس نے بہت آہستگی سے انگیجمنٹ رنگ انگلی سے اتاری اور دوسرے دن حمزہ کے آفس جا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ وہ حیران سا اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’مجھے شاید یہ بہت پہلے ہی کردینا چاہیے تھا۔ مگر حقائق کو جاننے میں بہت دیر لگی مگر اب جان گئی ہوں۔ اس رشتے کی کوئی حقیقت نہیں۔ مگر سہام میر سے یا اس سے وابستہ کسی بھی شخص سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھنا چاہتی۔ اگر یہ رشتا باقی رہا تو شاید میرے اندر کی گھٹن بہت بڑھ جائے گی۔ میں ایک اور صائمہ افتخار کو جنم نہیں دے سکتی۔ جبکہ میں جانتی ہوں تم دوسرے سہام میر بننے میں ایک پل نہیں لو گے۔ جب سہام میر کے لیے میرے اندر ڈھیروں نفرت ہے تو میں اس سے وابستہ کسی رشتے کو محبت کیسے دے سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر وہاں سے نکل آئی تھی۔ دوسال کھینچ تان کر کے نکالے تھے۔ ممی کی کچھ سیونگ تھی کچھ انشورنس تھی مگر وہ رقم ناکافی تھی۔ مگر اس سے اس نے نئی راہ ڈھونڈی ممی کی ایک دوست کی مدد سے اس نے دبئی میں جاب ڈھونڈ لی اور پھر وہاں منتقل ہوگئی تھی۔ حیرت کی بات تھی سہام میر نے اس کے بعد ان لوگوں سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھا تھا اور وہ سوچتی رہی تھی کہ کوئی اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ ایک شوہر تھا۔ ایک مرد تھا اور ایک باپ بھی تھا۔ وہ اچھا مرد نہیں تھا۔اچھا شوہر نہیں بن پایا تھااور ایک اچھا باپ بھی نہیں بن پایا تھا اور اس پر اسے کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔ وہ کتنا بے حس تھا۔ اس کا اندازہ اسے ہوگیا تھا۔ شاید وہ اس سطح سے بھی نیچے جا سکتا تھا۔ ممی کے جانے کے بعد ددھیال اور ددھیالی رشتے دار ان کی زندگی سے خارج ہوگئے تھے۔ بس ایک خالہ تھیں جو دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ جب ملنے آتی تو گھر میں ممی کا احساس جاگنے لگتا تھا۔
’’ماسو! جامی‘ ثناء اور تمنا کا خیال رکھا کریں ابھی بہت چھوٹے ہیں۔‘‘ وہ فون پر بولی تھی۔
’’چھوٹی تو تم بھی ہو ایلیاہ۔‘‘ ندا ماسو نے احساس دلایا تھا وہ مسکرا دی تھی۔
’’ہاں مگر میں سمجھ بوجھ رکھتی ہوں وہ نہیں رکھتے۔‘‘
’’تم فکر مت کرو۔ میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ تمہارے انکل سے کہہ کر اس شہر منتقل ہوجائوں گی تاکہ قریب رہوں تو ان کو بھی حوصلہ رہے۔ ماسو نے کہا۔
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے سراہا تھا۔
دبئی آکر زندگی میں کچھ خوشحالی آئی تھی اگرچہ جاب بہت ٹف تھی مگر وہ اب اپنی پروا نہیں کرتی تھی نا اپنے بارے میں سوچتی تھی۔ وہ صرف اپنے سے وابستہ رشتوں کے لیے سوچتی تھی۔ تین سال اس نے دبئی میں جاب کی تھی پھر جانے کیوں انگلینڈ جانے کا خیال آیا تھا اور غلطی کہاں ہوئی تھی۔ اس نے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اپلائی کیا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا بد ترین فیصلہ تھا جس کے باعث آج اسے اور اس کی فیملی کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ را تھا اسے یہ رسک نہیں لینا چاہیے تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس فیصلے کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔ اس مہینے تو اس نے کچھ سیونگ نکال کر گھر بجھواد ی تھی اگلے مہینے کیا ہونا تھا؟ یہ سوالیہ نشان اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
وہ سو کر اٹھی تھی تو سر بری طرح بھاری ہو رہا تھا۔ جسم میں جیسے انرجی نام کو نہیں تھی۔ لینڈ لیڈی نے دروازہ اپنی مخصوص دستک کے ساتھ بجایا تھا۔ تو اسے علم ہوگیا تھا وہ روم کے رینٹ کے بارے میں پوچھے گی۔ اس نے بہ مشکل اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
لینڈ لیڈی رینٹ مانگ رہی تھی۔ اس نے جیسے تیسے انہیں قائل کرلیا تھا کہ وہ ایک دو دن میں انہیں رینٹ ادا کردے گی۔ دروازہ بند کر کے وہ دوبارہ آکر بستر پر گر گئی تھی۔ یہاں کھانے کو نہیں تھا اور وہ رینٹ کہاں سے لاتی؟ ذہن بہت مائوف تھا۔ جب اس نے نمرہ سے فون کر کے اس ریسٹورنٹ کی جاب کے بارے میں پوچھا تھا۔
’’ہاں سوری میں بتا نہیں سکی کچھ بزی رہی تم شام میں جوائن کرسکتی ہو۔ تمہارے کام کی پیمنٹ تمہیں ملے گی۔‘‘ نمرہ نے ایک اچھی خبر دی تھی۔ اس کا جسم حرارت سے تپ رہا تھا۔ مگر ایک لمحے میں جیسے نئی جان بھر گئی تھی۔ وہ اٹھی اور تیار ہو کر نمرہ کی طرف کا سفر کرنے لگی۔ اس سے پتا لینا تھا اور روم کا رینٹ بھی کہ لینڈ لیڈی اس سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتی تھی اور نہ وہ زیادہ بھوک برداشت کرسکتی تھی۔ اس دن اس نے کئی دنوں بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ اب پیسے ملنے کی امید تھی تو وہ قرض بھی لے سکتی تھی۔ ورنہ مانگنا بھی عجیب لگ رہا تھا۔ شام میں وہ ریسٹورنٹ گئی تھی۔ بہت بڑا ریسٹورنٹ نہیں تھا مگر اسے صرف پیسوں سے مطلب تھا۔ اس کے ہاتھ 25 پائونڈز ہی سہی کچھ تو آنے والا تھا۔
اس رات وہ کام ختم کر کے ریسٹورنٹ سے نکلی تھی جب ایسٹ لندن کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ سیاہ فام گروہ کے بندوں نے اسے آن لیا تھا۔ وہ لڑکی تھی رات کا اندھیرا تھا اس پر اتنی بڑی مصیبت کہ اس کی جیب میں پیسے تھے جو اسے آج ہی ملے تھے اور وہ انہیں گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کوئی بد مزگی نہیں چاہتی تھی تبھی موبائل فون نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔ مگر وہ مزید کی ڈیمانڈ کرنے لگے تھے۔ وہ الجھنا نہیں چاہتی تھی مگر اس وقت چارہ نہیںرہا تھا۔ اگرچہ ان کے ہاتھ میں چاقو تھے وہ تین تھے اور وہ تنہا۔ اس نے گھوم کر ایک فلائنگ کک ایک کو رسید کی تھی مگر تبھی دوسرے دو نے
اسے دبوچ لیا تھا۔ وہ ہٹے کٹے تھے وہ بے بس ہوگئی تھی۔
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس نے نگاہ سے کچھ پرے دیکھا تھا۔
دور سے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھائی دی تھی۔ ایک لمحے میں وہ روشنی آنکھیں چندھاتی ہوئی قریب پہنچی تھی۔ گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ آنکھوں پر کلائی رکھ کر آنکھوں کو روشنی کے اثر سے بچانے لگی تھی۔ جب اسے کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ نائجرین گروہ کے لوگ اس سے دور نکل چکے تھے اور ایسا کیسے اور کس باعث ممکن ہوا تھا؟ اس نے اپنے سامنے نگاہ کی تھی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ کوئی اس کی مدد کو پہنچ چکا تھا اور وہ کوئی اور نہیں ریان حق تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر لمحہ بھر کو یقین نہیں ہوا تھا۔ وہ جھک کر اس کا گرا ہوا موبائل فون اٹھانے لگا تھا۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’اس وقت مٹر گشت کا شوق اچھا نہیں۔ رت جگوں اور آوارہ گردی کا اتنا ہی شوق ہے تو دن کافی لمبا ہوتا ہے۔‘‘ وہ انگارے چباتا ہوا بولا تھا۔ اس شخص سے اس کی کسی قسم کی دشمنی تھی وہ جان نہیں پائی تھی۔ مگر یہ غصہ اگر ٹائرز کی ہوا نکالے جانے کا ری ایکشن تھا تو اسے جھیلناچاہیے تھا۔
’’مجھے راتوں کو سڑک پر گھومنے کا کوئی خاص شوق نہیں ہے آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کی ہمت کی ہی تھی کہ ریان حق نے اس کے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’کوئی نئی کہانی نہیں سننا ہے مجھے گاڑی میں بیٹھو۔‘‘ وہ تحکم بھرے انداز میں بولا تھا اور وہ حیران رہ گئی تھی۔ وہ اس پر اس طرح رعب جما رہا تھا جیسے اس سے گہرا تعلق ہو۔ وہ اس شخص کو گھورتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹا کر یکدم آگے بڑھی تھی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ وہ دوسری طرف سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا تھا۔ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
’’اس روز آفس بلایا تھا تو آئیں کیوں نہیں آپ؟‘‘ وہ بنا اس کی سمت دیکھے بولا تھا۔ وہ سبب جانتی تھی تبھی بولی تھی۔
’’کیوں آتی تاکہ آپ اپنا بدلہ پورا کرسکتے؟‘‘
’’بدلہ؟‘‘ وہ چونکا۔ ایلیاہ میر نے اس شخص کی سمت نگاہ کی خاموشی سے دیکھا پھر بولی تھی۔
’’آپ کے ٹائرز کی ہوا…!‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولتے بولتے رہ گئی تھی۔
’’اوہ‘ تو وہ آپ تھیں؟ مجھے بھی لگا اچانک سے اس شہر میں کون دشمن آگیا۔‘‘ وہ سرسری انداز بولا۔ ایلیاہ نے اپنا سچ اپنے منہ سے بتا کر غلطی کی تھی۔ اگر اسے پتا نہیں تھا تو کیا ضرورت تھی بتانے کی کتنی بے وقوف تھی نا؟ اس نے خود کو ڈپٹاتھا۔
’’ویسے مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ایسی کوئی حرکت آپ ہی کرسکتی ہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹا گئی تھی۔
’’مجھے ایسا کوئی شوق تو نہیں ہے بس اس رات غصہ تھا اور آپ کو بھلا کیا فرق پڑا ہوگا ایک ذرا سی ہوا ہی تو نکالی تھی نا ٹائرز کی۔ ٹائرزیا گاڑی تو نہیں چرائی۔ اتنا کمایا ہے ٹائرز کی ہوا بھروانے میں کیا گیا ہوگا آپ کا؟‘‘ وہ ازلی خود اعتمادی سے بولی۔ وہ جانے کیوں بغور دیکھنے لگا تھا اس کی سمت۔
’’تمہیں دنیا کے سارے امیروں سے اتنی ہی نفرت ہے؟‘‘
’’سبھی امیروں سے نہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت بنا دیکھے بولی تھی۔
’’اوہ تو پھر عتاب کا نشانہ مجھے کیوں بنا دیا؟‘‘ وہ جاننے پر بضد ہوا۔
’’اچھا ہوتا میں آپ کو نہ بتاتی آپ کو تو شاید قیامت تک پتا نہ چلتا کہ یہ میںنے کیا ہے۔ بے وقوف ہوں نا اپنے ہاتھوں بھانڈا پھوڑ دیا۔ کیا کروں جھوٹ بولا ہی نہیں جاتا۔ انسان ہوں نا‘ وہ بھی سینسسٹیو اگر کوئی کارپوریٹ روبوٹ ہوتی تو شاید…!‘‘وہ پورے اعتماد سے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔
’’آہ‘ آپ کو میں روبوٹ لگتا ہوں؟ اچھا خاصا آدمی ہوں اگر اس روز آپ کو اپنی کمپنی میں جاب نہیں دے سکا تو اس کا مطلب یہ نہیں میں ان سینسیٹیو ہوں۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولا تھا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا۔ اچھا خاصا ہینڈ سم بندہ تھا۔ اس نے پہلی دو چارملاقاتوں میں تو اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔ اب دیکھا تھا تو کچھ امپریسڈ ہو ہی گئی تھی۔ نک سک سے تیار‘ رات کے اس پہر بھی فریش دکھائی دیتا بندہ‘ کاش اسے جاب بھی دے دیتا تو کیا بگڑ جاتا…!دل سے آہ نکلی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’مجھے فرق نہیں پڑتا اس بات سے۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولی تھی۔
’’مگر مجھے فرق پڑا‘ اس رات آپ نے مسٹر حیات کو وہ زور دار پنج مارا۔ کیونکہ اس کے بعد انہیں مجھے اسپتال لے جانا پڑا تھا۔ بے چارے کی ناک کی ہڈی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی۔ پورا منہ سوج گیا تھا۔ یہ تو شکر کرو انہوں نے جھوٹ کہہ دیا کہ واش روم میں گر گیا ہوں۔ ورنہ پولیس کیس بن جاتا اور اگر اس بات کی بھنک ان کی وائف کو پڑ جاتی تو خوامخواہ بے چارے کا بسا بسایا گھر اجڑ جاتا۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔ اس پنچ کے بارے میں اسے کیسے پتا چلا تھا؟ وہ حیران تھی۔
’’حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے شہر بڑا ہے مگر بات پتا چل ہی جاتی ہے اگر میں اس پارٹی میں نہ بھی ہوتا تو مجھے خبر ہوجاتی۔ اس رات تو پھر اس جگہ موجود تھا اور کچھ فاصلے پر بھی۔‘‘ وہ جتا رہا تھا۔
’’اوہ‘ بہت بری بات ہے اس طرح دوسروں کی خبر لینے کی‘ ویسے آپ یہ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں کوئی SPY تو نہیں اور آپ لوگوں کی عادت ہے نا ہر دوسرے پاکستانی پر شک کرنے کی؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی۔
’’عجیب خاتون ہیں آپ بجائے تھینکس کہنے کے الٹا مجھے لتاڑ رہی ہیں۔ مجھے آپ کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اس کے لیے شہر کی پولیس ہے۔‘‘ وہ لا تعلق لہجے میں بولا تھا۔
’’اوہ تو پھر آپ کو صرف یہ قلق ہے کہ میں نے تھینکس کیوں نہیں کہا۔ اوکے تھینکس اگر آپ اس رات جھوٹ نہیں بولتے تو میں جیل میں ہوتی نا اور مسٹر حیات کو کیا سزا ملتی؟‘‘
’’آپ جو نہیں ہوا اس کے بارے میں کیوں سوچ کر جان جلاتی ہیں؟ مسٹر حیات با اثر وبا رسوخ شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیان کافی ہے۔ آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ انہوں نے آپ کو کوئی غلط پروپوزل دیا مگر وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے ان کو آسورٹ کرنے کی کوشش کی اور آپ اس سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ وہ یہاں کے سٹیزن ہیں۔ کئی گنا کما کر دیتے ہیں‘ ٹیکس پے کرتے ہیں‘ آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’اوہ…!‘‘ وہ حقائق بتائے جانے پر اس کی سمت خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ یہ سب تو اس نے سوچا نہیں تھا۔ اسے تو بس غصہ آیا تھا اور اس نے پنچ کھینچ مارا تھا۔
’’ہر بات کا علاج یا حل صرف غصہ نہیں ہوتا خاتون۔‘‘ مشورہ دیتے ہوئے بولا تھا۔
’’ایلیاہ میر۔‘‘ وہ اسے خاتون بلاتے دیکھ کر بولی تھی۔ ’’آپ مجھے مس میر بلاسکتے ہیں۔‘‘ وہ ہنوز اپنے فطری ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی۔ ریان حق نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا تھا پھر گردن گھما کر ونڈ اسکرین کی سمت دیکھنے لگا تھا۔
’’اوکے ایلیاہ…!‘‘ وہ شخص شاید نشاندہی کیے گئے راستوں پر چلنا مناسب خیال نہیں کرتا تھا۔ اسے اپنی راہ بنانے کی عادت تھی شاید اسے خود کو صرف ایلیاہ بلائے جانے پر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’آپ اپنے طور پر کچھ بھی اخذ کرلیتے ہیں۔ میں اس وقت جاب ختم کر کے واپس آئی ہوں جب راستے میں اس گروہ نے گھیر لیا۔ آپ پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھے اور…!‘‘ وہ مطلع کرتے ہوئے بولی تھی۔ حالانکہ وہ اسے کوئی صفائی دینے پر مجبور نہیں تھی۔ پھر بھی جانے کیوں بتانا ضروری خیال کیا تھا۔ وہ شخص ونڈ اسکرین سے گردن ہٹا کر اس کی سمت دیکھنے لگا تھا۔ شاید یہ بات اس کے لیے سرسری اور انتہائی غیر اہم تھی۔
’’اینی وے تھینکس اس رات مسٹر حیات کے معاملے میں جھوٹ بولنے کے لیے اور آج کی شب اس گروہ سے جان بچانے کے لیے۔ میری پاکٹ میں صرف 175پائونڈ تھے جو میرے کام کی ویکلی پے منٹ تھے۔ اگر یہ چلے جاتے تو میری کئی امیدیں بھی چلی جاتیں۔ کہنے کو یہ بہت معمولی رقم ہے مگر میرے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔‘‘ وہ سر جھکا کر کہہ رہی تھی۔ وہ لڑکی بلاکی پر اعتماد تھی۔ خود اعتماد اور خوددار بھی۔ اس کے چہرے میں کچھ تو تھا کہ وہ لیا دیا رہنے والا شخص بھی اسے ایک پل کو دیکھتا رہا تھا۔ تبھی ایلیاہ میر نے نگاہ اٹھائی تھی۔ اس کی سمت دیکھا تھا۔ نگاہ ایک پل کو ملی تھی۔ وہ جانے کیوں جھجک کر نگاہ پھیر گئی۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی تھی۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں یہاں رہتی ہوں؟‘‘ وہ چونکی۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموشی سے گاڑی سے اتر گئی۔ ریان تب تک کھڑا رہا جب تک وہ دروازے تک نہیں گئی۔ ایلیاہ میر نے جانے کیوں دروازے کا ہینڈل گھمانے سے پہلے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ وہ شخص اس کی سمت دیکھ رہا تھا۔ کیا وہ صرف اس کے خیال سے رکاہوا تھا؟ ایلیاہ کے پلٹ کے دیکھنے پر وہ قطعاً اجنبی بن کر نگاہ پھیر گیا اور گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا تھا۔ ایلیاہ میر نے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور اندر بڑھ گئی۔
…٭٭٭…
کھائے پیے پیٹ اٹھو تو صبح اتنی بے نور نہیں لگتی۔ جبکہ اس بات کی امید بھی ہو کہ اس دن کے آغاز کے بعد بھوکا نہیں سونا پڑے گا۔ اس نے بھوکے سونے اور اٹھنے کا تجربہ کیا تھا۔ ایک دن نہیں کئی دنوں تک سو وہ اس سکون اور اطمینان کو محسوس کرسکتی تھی۔ اندر ایک سکون والی کیفیت تھی۔ وہ کھڑکی کھولے دیر تک طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھتی رہی تھی۔ لندن میں بہت کم دن سورج والے ہوتے تھے مگر گرمیوں میں کافی پرفیکٹ سمر ٹائم ہوتا تھا۔ رات نو بجے تک سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ جبکہ سردیوں میں دن کے تین بجے ہی اندھیرا ہوجاتا تھا۔ یہ دن بہار کے تھے اور سمر کے آغاز کے اسے یہ موسم بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اس نے آئینے میں خود کو بغور دیکھا تھا۔ برش کرتے ہاتھ رک گئے تھے۔ وہ کافی لین ہوگئی تھی۔ جب دبئی میں تھی تو دعوتیں اڑا اڑا کر اور ریسٹورینٹس کے کھانے کھا کھا کر اچھی خاصی صحت بن گئی تھی۔ لندن آنے کے بعد تو وہ پیٹ بھر کر کھانا تک بھول گئی تھی۔ تبھی کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے‘ جو بھگتے وہی جانے۔ وہ اتنے دنوں میں پہلی بار مسکرائی تھی۔ جیب میں کچھ پائونڈز کا ہونا بھی کافی اطمینان دے رہا تھا۔
’’میں نے بھوک کے احساس کو کبھی نہیں جھیلا تھا۔ اب پتا چلا یہ احساس اندر کتنا مارتا ہے اور اس سے زیادہ اس بات کا احساس کہ دوسروں کے رزق کا سبب کیسے اور کس طرح بنے گا۔ مجھے خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھلانے کی فکر تھی۔‘‘ وہ نمرہ کے ساتھ چلتی ہوئی بولی تھی۔ نمرہ مسکرا دی تھی۔
’’چلو شکر ہے تمہیں یہ چھوٹی سی جاب ہی ملی مجھے بہت فکر ہو رہی تھی ارے ہاں یاد آیا تم مسٹر حیات سے ملی تھیں۔ انہوں نے کیا کہا؟‘‘
’’کچھ نہیں‘ وہ کافی بڑے بندے ہیں اور اس وقت مجھے بڑی جاب کی نہیں چھوٹی جاب کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ وہ طنز سے بولی تھی۔ نمرہ کچھ سمجھی نہیں تھی۔
’کیا مطلب؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’اور میں نے تمہیں بتایا نہیں بے چارے واش روم میں گر گئے تھے۔ اچھی خاصی ناک زخمی ہوگئی۔‘‘
’’اوہ‘ کافی گرے ہوئے آدمی معلوم ہوتے ہیں اینی وے میں چلتی ہوں اگر کوئی صبح کی جاب کا بندوبست ہو سکے تو پلیز انفارم کردینا۔ میں صرف دو گھنٹوں کی جاب پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’لیکن تم تو اسٹوڈنٹ ہو نا۔ پارٹ ٹائم ہی جاب کرسکتی ہو۔‘‘ نمرہ نے جتایا تھا۔
’’تم بھول رہی ہو۔ میں اپنی تعلیم ختم کرچکی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔ فی الحال میرے پیسے لوٹانے کی کوشش مت کرنا۔ تمہیں اور بھی کئی ضرورتیں ہوں گی۔‘‘ نمرہ نے خیال کر کے بولا تھا۔ وہ سر ہلا کر ٹیوب کی طرف بڑھ گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
خواب بننے کی عمر نہیں ہوتی۔ مگر اس نے اس عمر میں بھی خواب نہیں بنے تھے۔ جب اسے خواب بونے تھے۔ جب موسم بھی تھا اور زمین بھی زرخیز تھی۔
’’کوئی کوئی آنکھیں خواب بننے کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے سوچا۔
’’جانے کیوں تم کو دیکھ کر لگتا ہے تم کیکٹس کا پھول ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوش نما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ کوئی گمنام سماعتوں میں گونجا تھا۔ وہ چلتے چلتے کسی سے بے طرح ٹکرا گئی تھی۔ سوچتے ہوئے چلنا اور چلتے ہوئے سوچنا۔ کبھی کبھی واقعی خطرناک ہوسکتا تھا اس نے سنبھلتے ہوئے سوچا تھا۔ سر اٹھا کر دیکھا اسے گرنے سے بچانے کی سعی کرتا ہوا کوئی اسے تھامے کھڑا تھا۔ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
’’ریان حق…!‘‘ اس نے اپنی نظروں کے سامنے کھڑے شخص کو باقاعدہ پکارا تھا۔
’’ایلیاہ میر کیا عادت ہے کبھی تو سوچنے کے علاوہ بھی کوئی کام کیاکرو۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولا تھا
’’اوہ آئی ایم سوری مجھے دھیان نہیں رہا۔‘‘
’’کبھی اپنے دھیان سے باہر آکر بھی دیکھا کریں۔ اس جہاں سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔‘‘
’’اوہ آپ کے پروگرام میں کسی کی پروا کرنا بھی ہے؟‘‘ وہ طنز کرتے ہوئے مسکرائی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکا تھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’میرے ساتھ چلو۔‘‘ وہ تحکم بھرے لہجے میں بولا تھا۔ وہ دوسری بار چونکی۔
’’کہاں… کیوں۔‘‘ وہ بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔ وہ بجائے اسے مطلع کرنے کے اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی میں بٹھا کر ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا۔ وہ اس کی ہمت پر حیران رہ گئی تھی۔ جس طرح وہ بد ستور اس کی کلائی تھامے ہوئے تھا اس پر وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی اس لمس سے کوئی خاص احساس ہوا تھا۔ کچھ خاص تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ جو ویٹر کو مینو آرڈر کر رہا تھا اس کی سمت دیکھنے لگا۔ پھر احساس ہوا تھا کہ اس کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھ میں ہے تبھی اس کی کلائی کو بہت آہستگی سے چھوڑ دیا تھا۔ ’’ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ وہ ایسی مراعات کی عادی نہیں تھی۔ تبھی بولی تھی۔
’’تم سے ضروری بات کرنا تھی۔ اگر تمہیں برا لگ رہا ہو تو اس کھانے کا بل پے کرسکتی ہو۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’اوہ‘ اب یہ مت سمجھنا کہ میں تمہاری غربت کا مذاق اڑا رہا ہوں۔ یا تم پر کوئی چوٹ کر رہا ہوں۔ میں مذاق کر رہا تھا۔ میرے پروگرام میں مذاق کرنا شامل ہے۔‘‘ وہ اسے جتاتے ہوئے بولا تھا۔
’’تم نے کبھی کیکٹس کا پھول دیکھا ہے؟‘‘ وہ بولا تو وہ بری طرح چونکی تھی۔ مگر وہ بہت رسانیت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
’’تمہیں دیکھ کر جانے کیوں اس کیکٹس کے پھول کا دھیان آجاتا ہے۔ جو بے پناہ مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی جینے کے لیے مائل دکھائی دیتا ہے اور اپنے اندر ایک بے خوفی رکھتا ہے۔ میں نے کل اپنے گارڈن میں ایک کیکٹس کا پھول دیکھا تھا۔ مجھے اس کی خوب صورتی دیکھ کر جانے کیوں تمہارا خیال آگیا۔ تم اس پھول کی طرح بے فکر ہو‘ نڈر ہو اور حوصلہ مند بھی۔ تم تمام حقائق سے لڑ کر بھی کہنے کا ہنر جانتی ہو اور …!‘‘ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ چونکا۔ شاید وہ بہت زیادہ کہہ رہا تھا۔ وہ رک گیا تھا ویٹر کھانا سرو کر گیا تھا۔ اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر ایلیاہ میر نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ ریان حق نے بغور اس چہرے کو دیکھا تھا جانے کیوں وہ اسے کچھ اداس لگی تھی۔
’’تمہیں اچھا نہیں لگا جو میں نے کیا یا جس طریقے سے کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔ ’’میں صرف تمہاری ہمت کو سراہا رہا تھا اور…!‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں ایسے ہی لفظ کسی اور نے بھی کہے تھے مگر ان لفظوں میں زیادہ کچھ واضح نہیں تھا۔ مجھے حیرت ہے دو لوگ ایک ہی طرح کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ نظریں نیچی کیے بولی تھی۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’کون… کس نے کہا تھا ایسا؟‘‘ وہ چونکا تھا۔
’’میرے فیانسی نے۔‘‘ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی تھی۔
’’اوہ۔‘‘ وہ اپنا پورا دھیان اس پر سے ہٹا گیا تھا۔ ’’سو کب شادی کر رہی ہیں آپ؟ ساری تگ و دو اسی لیے ہے۔‘‘ وہ اس کی اسٹرگل کے لیے بات کر رہا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ پرسکون انداز میں بولی تھی۔ ’’وہ میری زندگی سے کب کا خارج ہوچکا ہے اور یہ چیپٹر میں نے خود کلوز کیا تھا۔ یہ انگیجمنٹ میں نے خود ختم کی تھی۔‘‘
’’کیوں…!‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے اسے دیکھا تھا۔
’’میں اس پر بات کرنا مناسب خیال نہیں کرتی۔ مگر اتنا بتا سکتی ہوں کہ یہ تمام اسٹرگل میری فیملی کے لیے ہے۔ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے جو اب میری ذمہ داری ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ وہ کہتے ہوئے اسے کھانے پر مائل کرنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر نے صرف سوپ لیا تھا۔
’’سو مجھے صحیح لگا کہ آپ بہادر ہیں۔ یہ آپ کی بہادری کا تیسرا ثبوت ملا اب تک۔ شواہد کافی گہرے ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’تیسرا ثبوت۔‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’پہلا میرے آفس میں گھس کر‘ دوسرا مسٹر حیات کو پیٹ کر اور تیسرا اس گروہ سے نمٹتے ہوئے اور… آہ سوری یہ تو چوتھا ثبوت بن گیا۔‘‘ وہ اسے مسکرانے پر اکساتے ہوئے بولا تھا۔ شاید وہ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانا چاہتا تھا۔ وہ مسکرا دی تھی۔ وہ بغور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔ پھر آہستگی سے بولا۔
’’میں دیکھنا چاہتا تھا اگر کوئی پھول مسکرائے تو کیسا لگ سکتا ہے۔میں نے کسی کیکٹس کے پھول کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ایلیاہ میر اپنے لب بھینج گئی تھی اور سوپ پینے لگی تھی۔
’’تمہاری ریسٹورنٹ کی جاب کیسی جا رہی ہے؟‘‘ وہ مدعا پر آتا ہوا بولا تھا۔
’’ٹھیک‘ مگر میں نے نمرہ سے ایک اور جاب ڈھونڈنے کے لیے بھی کہہ دیا ہے۔ میں صبح میں فارغ ہوتی ہوں تو اس وقت بھی اویل کرسکتی ہوں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں بولی تھی۔
’’تو ٹھیک ہے پھر آپ صبح ہی جاب جوائن کرسکتی ہیں۔‘‘ اس نے اچانک کہا۔
’’صبح… کیسے‘ میرے پاس ابھی صبح کے لیے کوئی جاب نہیں ہے۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولی تھی۔
’’میرے گھر میں ہائوس کیپر کی جاب کرو گی؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ وہ چونکی تھی۔
اتنے مشکل حالات کے بعد اب برا وقت جیسے اپنے پر سمیٹ رہا تھا۔ اسے تعرض سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اور انکار کر کے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ تبھی سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔ اسی شام وہ سامان پیک کر کے ایسٹ لندن سے Belgravia آگئی تھی جو لندن کا ہی ایک امیر ترین رہائشی علاقہ تھا۔
اس نے شاید ویسا گھر اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وکٹوریہ جو دیگر امور سنبھالنے پر مامور تھی نے اسے پورا گھر دکھایا تھا اور پھر اسے اس کی جاب سمجھائی تھی۔ ریان حق نے اسے نہیں بتایا تھا کہ وہ اسے کتنا پے کرنے والا ہے۔ مگر اسے امید تھی کہ اس سے اتنا مل سکے گا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے ایک معقول رقم گھر بھجوا سکے۔ اس شام ندا ماسو سے بات ہوئی تھی۔
’’مجھے سن کر خوشی ہوئی تم نے ایک اچھی جاب حاصل کرلی ہے۔ انتھک محبت کرنے والوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے۔ مگر ایلیاہ تم اس طرح خود کو اگنور مت کرو۔‘‘
’’میں کہاں خود کو اگنور کر رہی ہوں ماسو۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ ’’آج کل تو خوب پیٹ بھر کر کھانے لگی ہوں۔ یہاں کھانااور رہائش فری ہے۔ سو پہلے کی طرح دو لڑکیوں کے ساتھ ایک روم بھی شیئر نہیں کرنا پڑتا اور میں جو جی چاہتا ہے کھاتی ہوں۔ ان فیکٹ یہاں آکر تو میرا ویٹ بھی ایک دو پائونڈ بڑھ گیا ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’میرا مطلب وہ نہیں ایلیاہ تمنا ڈاکٹر بننے جا رہی ہے اور جامی بھی اپنا تعلیمی سفر کامیابی سے کر رہے ہیں میں بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں موجود ہوں۔ تم اپنے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں؟
اب تو حمزہ سے سلسلہ ختم ہوئے بھی کئی سال ہو گئے۔ بیٹا تم اپنی زندگی کی راہ تلاش کرنے میں عار مت جانو۔ اچھی زندگی جینے کا حق ہے تم خواب دیکھنے سے ہچکچائو مت۔‘‘
’’ماسو جانے دیں نا بقول حمزہ کے میں کیکٹس کا پھول ہوں۔ شاید اسے میرے ارد گرد زیادہ ہی کانٹے دکھائی دیتے تھے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’ویسے فی الحال میں اپنا سوچنا نہیں چاہتی سب کی تعلیم مکمل ہوجائے۔ اپنے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو سوچوں گی۔‘‘ وہ بولی تھی۔
’’ایلیاہ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں تم سب کے خواب پورے کرتے کرتے خود خواب نہ بن جائو۔ اپنے خوابوں کو خواہشوں کو اس طرح غیر اہم مت جانو۔ جامی‘ ثناء اور تمنا کے لیے ہم بھی ہیں نا۔‘‘
’’اوکے ماسو مگر فی الحال زندگی کچھ کٹھن ہے اس دور سے باہر آنے دو پھر دیکھیں گے۔ میں چاہتی ہوں کل کو کوئی مجھے الزام نہ دے یوں بھی اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرائی تھی۔ اس کے پیچھے کھٹکا ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا ریان حق کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر شاید مروت سے مسکرایا تھا۔ کیا وہ اس کے اور ماسو کے درمیان ہونے والی گفتگو سن چکا تھا؟
’’کیسی جا رہی ہے جاب اچھا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’ہوں…!‘‘ اس نے سر ہلایا تھا۔
’’تم دادی اماں سے ملی ہو۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آتیں۔ تمہیں ان سے ملنے خود ان کے کمرے میں جانا پڑے گا۔‘‘ ریان حق نے کہا تھا۔
’’ہاں جانتی ہوں مجھے وکٹوریہ نے پہلے ہی دن ان سے ملوادیا تھا۔ دادی سے مل کر بہت اچھا لگا۔ ان کا ادبی ذوق عمدہ ہے۔ ان کے لیے بکس پڑھنا اچھا لگا مجھے۔‘‘ وہ مطلع کرتی ہوئی بولی۔ تو وہ مسکرادیا تھا۔
’’اوہ‘ تو تم ان کے لیے بک ریڈنگ بھی کر رہی ہو۔ دادی اماں کو کتابوں سے عشق ہے۔‘‘
’’صرف آپ اور دادی اماں ہی اس گھر میں رہتے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ہاں فی الحال ٹینا کچھ دنوں کے لیے جرمنی گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’ٹینا؟‘‘ اس نے زیر لب دہرایا تھا۔
’’میری جرمن گرل فرینڈ۔‘‘ اس نے مختصر بتایا تھا۔ ایلیاہ میر کو جانے کیوں سن کر اپنے اندر سکوت پھیلتا لگا تھا۔
’’ممی‘ ڈیڈی کی ڈیتھ کے بعد بہت عرصہ صرف میں اور دادی اماں اس گھر میں رہے پھر ٹینا میری زندگی میں آگئی۔ اس کے آنے سے ایک تبدیلی آئی کہ گھر کا سکوت کچھ ٹوٹ گیا۔ اسے میوزک کا شوق ہے۔ اس کا ایک بینڈ ہے جس کی وہ لید واکلسٹ ہے۔ کئی gigs کرچکی ہے وہ۔ ان فیکٹ کئی ایک gigs تو میں بھی اٹینڈ کر چکا ہوں۔ وہ ماڈلنگ بھی کرنا چاہتی ہے اور فلموں میں کام بھی۔ میں چاہوں تو یہ ممکن ہے۔ مگر میں اس میں اس کی مدد کرنا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں وہ صرف میوزک تک محدود رہے۔ ٹینا ایک سیلف میڈ لڑکی ہے۔ وہ بھی اپنے بل بوتے اور اپنی صلاحیتوں کے سہارے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ آئی ہوپ تمہیں اس گھر کے تیسرے فرد سے مل کر بھی اچھا لگے گا۔‘‘ وہ مسکرا دیا تھا۔ وہ رسماً مسکرا دی تھی۔
خواب دیکھنا شاید اتنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ خوابوں خیالوں کی دنیائوں سے واقف نہیں تھی یہ سفر یقیناً مہنگابھی پڑ سکتا تھا سو اس نے خواب نہ دیکھنے اور خواب جزیرے پر نہ جانے کا قصد کیا تھا اور کام میں مصروف ہوگئی تھی۔
شام میں جب گارڈن میں تھی تو کیکٹس کے پھولوں پر نگاہ پڑی تھی۔ وہ بے ساختہ ان کے قریب آگئی اور پھولوں کو چھو کر دیکھنے لگی تھی تبھی کیکٹس کے کانٹوں نے اس کے ہاتھ کو زخمی کیا تھا۔
’’آہ۔‘‘ اس کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔ جانے ریان حق کہاں سے اس کے پیچھے آن رکا تھا۔ اس کے ہاتھ کو تھاما تھا اور دبا کر خون نکال کر اپنے رومال سے صاف کرنے لگا تھا۔
’’ممی کہتی تھیں اگر کچھ چبھ جائے تو باقی کا رکا ہوا بلڈ دبا کر نکال دینے سے سپٹک نہیں ہوتا۔ آئو میں تمھارے ہاتھ میں بینڈیج کروا دوں۔‘‘ وہ بولا تھا۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ کھینچنا چاہا تھا۔ مگر وہ اس پر مائل دکھائی نہیں دیا تھا۔ اسے اندر لے گیا تھا اور اینٹی سیپٹک سے اس کے زخم صاف کر کے ان پر چھوٹی چھوٹی پٹیاں لگانے لگا تھا۔
’’آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کے منہ کھولا تھا۔
’’شش…!‘‘ ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی تھی۔ کچھ تھا اندر دل بہت تیزی سے دھڑکا تھا۔ اس شخص کے قریب بیٹھنے سے بات کرنے سے اندر کوئی لگن لگنے لگی تھی۔ کچھ عجیب محسوس ہونے لگا تھا جو اس سے پہلے محسوس نہیں ہوا تھا۔ کیا یہ خواہشوں کا انبار تھا جو اس کے اندر لگتا جا رہا تھا یا کوئی اور احساس تھا۔ یہ صرف دل کا دھڑکنا تھا یا پھر… کچھ اور…؟ وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’محبت! محبت ہوئی ہے تمہیں؟‘‘ یک دم پوچھنے لگا تھا۔ یہ اچانک محبت کی بات کیوں آغاز ہوئی تھی؟ وہ بے طرح چونک پڑی تھی۔
محبت بھی کیکٹس جیسی ہوتی ہے‘ کتنے بھی خار کیوں نہ لگے ہوں‘ ذہن یہ جانتا ہی کیوں نہ ہو مگر پھر بھی‘ محبت کے قریب جانے کو دل چاہتا ہے‘ اسے چھونے کو دل چاہتا ہے‘ یقین کرنے کو دل کرتا ہے‘ محبت شاید اتنی ہی عجیب ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا تھا۔ ایلیاہ میر کو اس کی سمت دیکھنا محال لگا تھا‘ وہ اپنی نظریں پھیر گئی تھی‘ ساتھ ہی گردن کا رخ بھی‘ ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ اپنی سمت موڑا تھا۔
’’تم یقین کرو یا نہ کرو۔ مگر مجھے جانے کیوں لگتا ہے کہ تم محبت جیسی ہو‘ انوکھی‘ پُرکشش‘ پُر یقین‘ نڈر‘ بہادر اور بھرپور خالص‘ مجھے حیرت ہے محبت سے کبھی تمہارا ساتھ کیسے نہیں پڑا؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ایلیاہ میر! تم اتنی خوف زدہ کیوں ہو؟ میں نے محبت کو نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے وہ خوف زدہ نہیں ہوتی ہوگی اور اگر ہوتی ہوگی تو شاید تمہارے جیسی دکھتی ہوگی‘ ان آنکھوں میں کچھ تو ہے شاید کوئی راز؟ تم ان رازوں سے ایک ایک کرکے پردہ اٹھائو گی تو میری مشکل آسان ہوجائے گی یا پھر تم ایسا کرکے میری مشکل اور بڑھا دو گی؟‘‘ بہت مدہم لہجے میں وہ کہہ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کے لیے وہاں رکنا محال ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی نظروں کی تپش سے جلنے لگا تھا۔ وہ ایسا کیسے ہوگیا تھا؟ اچانک سے اس کے قریب کیوں آرہا تھا؟ اس کا اندر‘ اس کا دل‘ سارا وجود بدل رہا تھا‘ یہ تغیر کیسے رونما ہوا تھا؟
ریان حق نے ایک پل میں ساری دنیا کو اپنے سنگ کیسے باندھ لیا تھا؟ وہ ناقابل حصول تھا‘ ناقابل رسائی تھا۔ وہ کیوں اس سے بندھ رہی تھی؟ کیوں اس کے دیکھنے سے دل کے زمانے اس کے ساتھ بندھ رہے تھے؟ وہ یک دم گھبرا کر اٹھی تھی۔ ریان حق نے ہاتھ تھام لیا تھا‘ وہ پلٹ کر دیکھنے لگی تھی۔
وہ اس کی سمت بغور دیکھ رہا تھا‘ ایلیاہ میر کی جان مشکل میں گھرنے لگی تھی۔
’’میں حیران ہوں‘ میں بہت حیران تھا‘ جب تم سے پہلی بار ملا تھا میں ایسی کسی لڑکی سے پہلے کبھی نہیں ملا‘ مجھے قبول کرلینے دو کہ میں نے زندگی میں تمہاری جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔ تم دوسروں سے الگ ہو‘ کچھ عجیب ہو‘ نہیں جانتا میں کیوں سوچ رہا ہوں مگر تم سے ملنے کے بعد کئی بار تمہیں سوچا‘ تم بہت انوکھی لگیں۔ مجھے کبھی محبت نہیں ہوئی‘ اس کے لیے وقت نہیں شاید محبت اتنی ہی انوکھی ہوتی ہے؟ مگر…‘‘ وہ رکا تھا۔ ’’میں نہیں جانتا کیا ہے مگر تم اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہو‘ بالکل محبت کی طرح۔ تم اس دنیا کی نہیں لگتیں‘ میں الجھن میں ہوں‘ فی الحال سمجھ نہیں پارہا یا پھر تمہیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پارہا‘ مجھے پوری عقل کو شامل کرنے دو پھر کسی نتیجے پر پہنچوں گا شاید یا پھر تمہیں سمجھنے کے لیے عقل و خرد کو ایک طرف رکھنا ہوگا؟‘‘ اسے سوالیہ نظروں سے تکتا وہ کچھ الجھا ہوا دکھائی دیا تھا اور الجھ تو وہ بھی گئی تھی۔ وہ ہاتھ چھڑا کر وہاں سے نکل گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
تمنا‘ ثنائ‘جامی خوش تھے‘ انہیں معقول رقم مل گئی تھی‘ انہوں نے کڑا وقت نہیں جھیلا تھا‘ وہ خود دھوپ میں جل رہی تھی اور انہیں چھائوں دے رہی تھی۔ اپنے بارے میں وہ نہیں سوچ سکتی تھی اور اگر سوچ بھی لیتی تو اس شخص کے متعلق تو بالکل نہیں سوچ سکتی تھی۔
وہ سوکر اٹھی تھی‘ معمول کے مطابق دن کا آغاز کیا تھا اس شخص کے سامنے دانستہ نہیں گئی‘ وہ پر یقین تھی کہ ریان حق کے دل و دماغ میں کچھ نہ تھا‘ بے تکلفی سے بات کرنا اس کی عادت تھی‘ وہ اس ماحول میں پلا بڑھا تھا۔ وہ دوستانہ انداز رکھتا تھا‘ جو تھا وہ اس کی طرف سے تھا۔ وہ خود تھی جو غلط سوچ رہی تھی اور وہ ایسا سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے صرف وہ اس لیے انوکھی لگی تھی کیونکہ وہ اس طرح کی لڑکیوں سے واقف نہیں تھا۔ اسے مشرقی لڑکیوں سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ شاید اس لیے وہ اس کے اثر میں تھا اور وہ اسے انوکھی لگ رہی تھی‘ شاید تبھی وہ اس سے مل کر حیران تھا اور الجھا ہوا تھا۔
سہ پہر میں جب وہ دادی اماں کو کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی تبھی گھر میں غیر معمولی شور کا احساس ہوا تھا۔
’’اُف! لگتا ہے وہ جرمن بلی آگئی۔‘‘ دادی نے کہا تھا‘ اسے جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ دادی کس کی بات کررہی تھیں۔
’’تم نے چیزوں کی ترتیب تو نہیں بدلی؟ اسے اس بات سے سخت چڑ ہے‘ ریان کی زندگی میں یا اس کے گھر میں کوئی مداخلت کرے تو پھر اس کی خیر نہیں‘ تم سے پہلے تین ہائوس کیپر برخاست کرچکی ہے وہ۔‘‘ دادی نے بتایا تھا۔
اف! اس نے کئی تبدیلیاں کی تھی سو کیا اب اس جاب کو گنوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا؟ شاید وہ وکٹوریہ پر برس رہی تھی‘ وکٹوریہ بھاگی بھاگی اندر آئی تھی۔
’’مس میر! آپ باہر آئیں‘ میڈم آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
اوہ! اس کے لیے بلاوا آگیاتھا‘ تو کیا اب اس کی خیر نہیں تھی؟ ایلیاہ میر ڈرتے ڈرتے اٹھی تھی اور ٹینا کے سامنے چلتی ہوئی آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’یہ سب تم نے بدلا؟ وہ سامنے دیوار کی پینٹنگ‘ اس لیونگ روم کے کرٹین؟ میرے کمرے میں اشیاء کی ترتیب؟‘‘ ٹینا نے اسے گھوراتھا۔ اس نے ابھی اثبات میں سر نہیں ہلایا تھا جب ریان حق اس کے مقابل آن رکا تھا‘ اس سے پہلے کہ ٹینا اس پر غصہ نکالتی یا اسے جاب سے برخاست کرتی۔ وہ بول پڑا تھا۔
’’ٹینا! اسے ایسا میں نے کہا‘ مجھے لگا تمہیں یہ تبدیلی اچھی لگے گی‘ جو بھی ہوا میری مرضی سے ہوا ۔‘‘ وہ اسے سپورٹ کررہا تھا یا اسے صرف اس کے غصے سے بچا رہا تھا؟ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ تبھی وہ اس کی سمت دیکھتا ہوا بولا تھا۔
’’ایلیاہ! تم جائو یہاں سے۔‘‘ اس کے حکم پر وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ دروازے کے قریب جاکر اس نے جانے کیوں پلٹ کر دیکھا تھا۔ وہ دونوں قریب تھے‘ اس کے اندر جانے کیوں دور تک خاموشی پھیلنے لگی تھی۔
ٹینا کے آجانے سے جانے کیوں اس کے اندر کے موسم خاموشیوں میں گھر گئے تھے‘ ایسا کیوں تھا؟ کیوں وہ ریان حق کو ٹینا کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی‘ کیوں یہ اتنا عجیب سا لگ رہا تھا؟ کیوں وہ بے چین ہورہی ہے؟ یہ اضطراب رگ و پے میں دور تک پھیل رہا تھا؟ وہ عجیب مشکلوں میں گھر گئی تھی‘ یہاں رکنے سے پہلے کچھ اور مسائل میں گھری تھی اور یہاں آکر کچھ عجیب نوعیت کی مشکلات اس سے بھی دوگنا بڑھ گئی تھیں‘ ان مشکلات سے وہ مشکلات زیادہ بہتر تھیں‘ تب سکون تو تھا‘ چین تو تھا۔
اس نے کچن کے دروازے میں رک کر گہری سانس خارج کی تھی۔ جب اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا‘ اس نے پلٹ کر دیکھا‘ اس کا لائٹ آف کرتا ہاتھ وہیں رک گیا‘ وہ اس کے قریب آرکا۔
’’آج کل کچھ کم دکھائی دے رہی ہو‘ ٹینا سے بہت ڈر لگتا ہے؟‘‘ اس کا مکمل جائزہ لیتا ہوا وہ بغور دیکھ رہا تھا‘ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’میں یہاں جاب کے لیے ہوں‘ جاب کے دوران غلطی ہوجائے تو ڈانٹ پڑسکتی ہے‘ ٹینا اس گھر کی مالکن ہیں‘ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی ان کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ وہ مخصوص پروفیشنل انداز میں بولی تھی۔ ریان حق نے خاموشی سے اس کی سمت دیکھاپھر اور قریب آگیا اور دیوار پر ایک ہاتھ رکھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے وہاں سے نکل جانے کی ہر راہ مسدود کردی تھی۔
’’لگتا ہے تم بعید جاننے لگی ہو…‘‘ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مدہم لہجے میں بولا۔
’’لگتا ہے تمہیں خبر ہونے لگی ہے‘ یہ جو آنکھوں میں رتجگوں کا شمار ہے یہ یوں ہی نہیں ہے یا پھر اس کا بھی کوئی بعید ہے؟‘‘ بہت مدہم سرگوشی تھی۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
ایلیاہ کی ساری جان ایک پل میں مٹھی میں سمٹی تھی۔ ساری خود اعتمادی ایک پل میں اڑنچھو ہوئی تھی‘ کوئی کہہ سکتا تھا یہ وہی ایلیاہ میر تھی جو دیدہ دلیری کی حد کرتے ہوئے ایک بندے کو پنچ مار سکتی تھی یا نڈر ہوکر کسی کی بھی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال سکتی تھی‘ اس لمحے وہ کیسی چاروں شانے چت کھڑی تھی‘ کیا شکست خوردہ سا انداز تھا‘ جیسے وہ کوئی مزاحمت کر ہی نہیں سکتی ہو‘ ریان حق نے اس کے چہرے کو بہت آہستگی سے چھوا تھا۔
’’محبت یہی ہے‘ ایسی ہی ہوتی ہے یا پھر یہ سارے بھیدوں سے واقفیت پانے کا احساس ہے اور یہ نگاہ اس لیے جھکی ہے کہ اگر ملی تو سارے راز افشا ہوجائیں گے۔ شکست خوردہ انداز ‘ یہ ڈری سہمی نظر‘ یہ سانسوں میں تلاطم‘ اس کے اسباب ڈھونڈنے میں کتنی دیر لگتی ہے ایلیاہ میر؟‘‘ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنے سے مکمل گریز کرتے ہوئے اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی تھی مگر وہ اس آہنی دیوار کو نہیں ہٹا پائی تھی‘ اس کوشش میں سر اس کے سینے سے جاٹکرایا تھا‘ اس کی مخصوص خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسنے لگی تھی‘ اس کی گرم گرم سانسیں اس کے چہرے سے ٹکرارہی تھیں‘ اس کے حواس خطا ہونے لگے تھے۔
’’گہرے سمندروں سے محبت ہے تو پھر سمندروں میں طغیانی کیوں لاتی ہے یہ محبت؟ کچھ سوچنے سمجھنے کیوں نہیں دیتی؟کناروں پر رکو تو سفر پر مائل کیوں ہے؟ اور رک جائو تو بے چینیوں کو سوا کیوں کرتی ہے؟ پوچھو اس محبت سے‘ بات کرو یا کہو اس محبت سے بے بس نہ کرے۔‘‘ وہ جنونی انداز میں اس کے کانوں میں سحر پھونک رہا تھا۔
کیا تھا‘ کیوں تھا؟ جیسے دل کسی نے مٹھی میں کیوں لے لیا تھا؟ وہ آنکھیں میچ گئی تھی یا پھر اس میں سکت ہی نہیں تھی کہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھ سکتی‘ سامنا کرسکتی۔
’’ایلیاہ میر… الجھنوں میں تیرتے رہنے سے سرا ہاتھ نہیں آتا‘ سرا ہاتھ میں لینے کے لیے دھڑکنوں کو سننا‘ آنکھوں کو پڑھنا‘ فاصلوں کو سمیٹنا ضروری ہوتا ہے اورفاصلوںکو سمیٹنے کے لیے خالی ہاتھ نہیں چلا جاتا‘ ہاتھ تھامناضروری ہوتا ہے۔‘‘ اس نے ایلیاہ میر کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا اور ایلیاہ میر اس گھڑی جیسے طوفان کی زد پر تھی‘ سارا وجود کانپ رہا تھا‘ جیسے سمندر میں طغیانی آجائے تو نائو ڈول جاتی ہے۔
’’سمندروں میں بے سمت سفر نہیں کیا جاتا ایلیاہ میر! سمندروں کے سفر سے سمتوں کا تعین کرنے کے لیے دل سے پوچھا جاتاہے۔ صرف دل کی سنو اور جانو کہ کیا کہتا ہے اور نظر کے لیے اور محبت کے لیے کیا ضروری ہے‘ جانتی ہو؟‘‘ مدہم سرگوشی اس کے کان کے قریب ہوئی تھی۔
’’محبت کے لیے محبت ضروری ہوتی ہے ایلیاہ میر! محبت کو جیتنے کے لیے صرف محبت سے جیتا جاتا ہے‘ اگر ذرا سی بھی حقیقت ہے تو میری نظروں میں جھانکو اور دیدہ دل وا کرو‘ اسی بہادری سے جیسے پہلے دن میرے آفس میں گھسی تھیں۔ اگر کچھ حقیقت ہے تو خرد کو ایک طرف رکھ دو‘ دل کو فیصلہ کرنے دو کہ کبھی کبھی عقل کو تنہا چھوڑ دینا بھی ضروری ہوتا ہے‘‘ وہ مدہم سرگوشی میں اس کی سماعتوں میں کوئی جادو پھونک رہا تھا‘ اسے لگا تھا کہ اس کے گرد محبتوں نے حصار کھینچ دیا ہو اور وہ بالکل بے بس ہوگئی ہو‘ وہ شخص جنونی ہورہا تھا‘ کیا تھا یہ؟ کیا حقیقت تھی؟ ٹینا جو اس کے حوالے سے اس گھر میں تھی؟ یا پھر اس کا یہ پل‘ جب وہ اس کے قریب تھا‘ کیا تھا سچ؟
ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو دیکھا تھا پھر بہت سہولت سے اسے پرے دھکیلا تھا اور وہاں سے نکل گئی‘ وہ نہیں جانتی تھی سچ کیا تھا‘ مگر اسے اپنا سارا وجود شل لگ رہا تھا‘ جیسے وہ کسی محاذ سے لوٹی تھی مگر وہ فاتح نہیں لوٹی تھی۔ کچھ تھا جو وہیں رہ گیا تھا‘ اسے اپنا آپ بہت ادھورا لگا تھا‘ کیسا احساس تھایہ؟ کیوں تھا؟وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’کیا ہوا؟ تم اتنی کھوئی کھوئی کیوں ہو؟‘‘ دادی اماں نے پوچھا۔ اس نے سر نفی میں ہلادیا تھا۔
’’ٹینا نے کچھ کہہ دیا؟ تم اس کی باتوں کا برا مت ماننا‘ دل کی بری نہیں ہے‘ ویسے یہ جرمن لوگ کچھ Weird ہوتے ہیں‘ ان کی سمجھ زیادہ نہیں آتی بڑے ان پری ڈکٹیبل قسم کے ہوتے ہیں مگر ایک بار سمجھ آجائے تو پھرنبھا آسان ہوجاتا ہے‘ دیکھو ریان کے کتنے قریب ہے وہ۔‘‘ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’آپ کو بہت پسند ہے وہ؟‘‘ وہ جانے کیا جاننا چاہتی تھی۔
’’میری پسند نا پسند کی بات نہیں‘ میں کچھ دیسی ہوں‘ جس مٹی میں پیدا ہوئی اس مٹی کی خوشبو بھاتی ہے۔ تم اچھی لگتی ہو تبھی تو ساتھ بٹھا کر گھنٹوں باتیں کرتے رہنا چاہتی ہوں‘ ریان کے دادا‘ میں اور ریان کے ڈیڈی جب یہاں انگلینڈ میں آئے تھے تو ریان کے ڈیڈی بہت چھوٹے سے تھے‘ ریان یہیں پیدا ہوا‘ ریان کا باپ بھی یہیں پلا بڑھا‘ ان لوگوں نے اس زمین کو اپنا لیا‘ مگر ہمارے لیے اب بھی اپنی مٹی اور زمین کی قدر ہے‘ برسوں گزر گئے اس دیس کوچھوڑے مگر آج تم سے ملی تو اپنی مٹی کی مخصوص خوشبو آئی‘ اگر میرا بس چلے تو ریان کے لیے کوئی اپنے ہی دیس کی لڑکی ڈھونڈ کر دلہن بناکر لائوں مگر ریان کو مشرقی لڑکیاں زیادہ بھاتی نہیں‘ دو چار رشتے داروں سے کہہ کر رشتے دکھائے ہیں مگر ریان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب تک تین گرل فرینڈز بدل چکا ہے اور ان میں کوئی ایک بھی دیسی نہیں‘ ایک آئرش تھی‘ دوسری انگلش اور تیسری یہ ٹینا جو جرمن ہے۔ مجھے لگتا ہے ان لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے‘ ماڈرن سوچ کی نہیں ہوتیں۔ عجیب چھوٹی موٹی ٹائپ ہوتی ہیں‘ انہیں قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں آتا۔ آج تک کسی مشرقی لڑکی کے قریب سے نہیں گزرا ‘ کہتا ہے انہیں دیکھتے ہی Touch me Not کی آواز آتی ہے‘ اب تو میں بھی کسی مغربی بہو کے لیے مائنڈ سیٹ کرلیا ہے‘ اگر ریان کی ماں زندہ ہوتی تو شاید وہ اس کی سنتا‘ مگر اب ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔‘‘ دادی اماں نے افسوس سے کہا تھا۔
’’ریان کے ممی ڈیڈی کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔
’’ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں‘دونوں ایک ساتھ چلے گئے۔ ریان کو اس کا بہت گہراصدمہ ہوا ‘ تبھی چپ سا ہوگیا‘ کئی برسوں تک تو نہ ہنستا تھا نہ بات کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آہی جاتی ہے سو ریان کو بھی سچائی ماننا پڑی ۔ گئے ہوئوں کو واپس نہیں لایا جاسکتا‘ مگر وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘
’’ریان حق محبت کرتے ہوں گے ٹینا سے؟‘‘ اس نے دل میں آیا سوال پوچھا تھا‘ دادی مسکرادیں۔
’’بیٹا! پچھلے دو سال سے وہ گھر میں ہے‘ محبت ہوگی تو ساتھ ہے نا۔ ہم ٹھہرے پرانے وقتوں کے لوگ‘ ہمارے لیے محبت دو لوگوں کا اور خاندانوں کا قانونی اور مذہبی طور پر جڑنا ہوتا تھا۔ محبت اس رشتے کے بعد شروع ہوتی تھی‘ آج کل یہی رسمیں نہیں نبھائی جاتیں‘ ان مغربی ملکوں میں تو بالکل بھی نہیں‘ ان کے لیے تو محبت بھی فاسٹ فورڈ ہے یا کوئی Smothy یا ڈرنک ادھر غٹا غٹ اندر اور نشہ ہرن۔‘‘ دادی بدگمان دکھائی دی تھیں۔
’’اس کے لیے آپ ریان حق کو قصو وار نہیں ٹھہرا سکتیں‘ وہ ایسا بن سکا کیونکہ وہ اس ماحول میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا‘ اگر وہ کسی مشرقی ماحول میں پرورش پاتا تو شاید وہ ایسا ہی ہوتا۔‘ ایلیاہ میر نے اس کی حمایت کی تھی۔ وہ انگلش لوگوں کی طرح دوستانہ مزاج رکھتا تھا‘ اچھا حس مزاح رکھتا تھا‘ سو جہاں بہت سی چیزیں وہ نہیں سیکھ پایا تھا وہیں کچھ اچھی چیزیں تو اس نے‘ اس ماحول سے آڈاپٹ کرہی لی تھیں‘ اس کی اس اچھائی کو تو اس نے بھی مانا تھا‘ جس طرح وہ برے دور سے گزر رہی تھی اگر وہ اس کی مدد نہ کرتا تو آج شاید وہ اس سے بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہوتی‘ وہ اتنا برا نہیں وہ سر جھکا کر سوچنے لگی تھی۔ اگر اسے مشرقی لڑکیوں سے لگائو نہیں تھا تو اس سے …کیا جاننے کے لیے اس نے دادی اماں سے اتنی بات چیت کی تھی اور کھلا کیا تھا؟ اس کا دل بہت سکوت سے بھر گیا تھا۔
ؤ…ز …ؤ
’’تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘ وہ لیونگ روم میں تھی جب ٹینا نے اسے آلیا تھا۔ وہ چونک کر اس کی سمت دیکھنے لگی تھی‘ ٹینا کو اس کی خاموشی سے الجھن ہوئی تھی تبھی دوبار پوچھنے لگی تھی۔
’’میں نے تم سے پوچھا تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
’’اوہ! تم غیر قانونی یہاں ہو؟‘‘ وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔
’’نہیں‘ میں نے اپنے ویزا کو Extend کرنے کے لیے اپلائی کیا ہے سو پاسپورٹ یو کے بارڈر ایجنسی میں جمع ہے۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’اوہ! تب تمہارا کام کرنا بھی قانوناً نہیں‘ تمہیں یہ رعایت اس لیے ملی ہوئی ہے کیونکہ ریان کے گرینڈز کی کنٹری سے ہو۔‘‘ وہ اپنے مخصوص جرمن لہجے میں انگلش بول رہی تھی۔ اسے یہ چھان بین بہت بُری لگی تھی‘اس کا فطری غصہ عود کر آیا تھا۔
’’ایکسکیوزمی‘ میں تمہاری ملازم نہیں ہوں‘ سو تمہیں مجھ سے پوچھ گچھ کا حق بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ کٹے ہوئے لہجے میں بولی تو ٹینا اس کے پراعتماد ‘ انداز اور ایٹی ٹیوڈ پر حیران رہ گئی تھی۔
’’آئندہ مجھ سے ایسے سوالات مت کرنا۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں سے نکل گئی تھی‘ کچھ فاصلے پر کھڑے ریان حق نے اسے بغور دیکھا تھا اور ٹینا کے قریب آگیا تھا۔
’’تمہیں ایلیاہ میر سے ایسے بات نہیں کرنا چاہیے‘ اسے میں نے یہاں جاب دی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ اس سے سوالات کرنے کا حق بھی صرف تمہیں حاصل ہے؟‘‘ ٹینا نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا‘ ریان حق سنجیدگی سے دیکھنے لگا تھا پھر شانے اچکادیئے تھے۔
’’جیسا تم سمجھو۔‘‘ ٹینا اس کے انداز پر چڑ گئی تھی۔
’’کیا؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’مجھے یہ لڑکی بالکل مناسب نہیں لگتی‘ کچھ عجیب ہے۔ اس کے اندر خوامخواہ کی اکڑ ہے‘ تیسری دنیا کی ایک چھوٹی سی کنٹری سے ہے اور بات ایسے کرتی ہے جیسے کہیں کی پرنسس ہو۔‘‘ وہ تپے لہجے میں کہہ رہی تھی‘ ریان کو یہ الفاظ اچھے نہیں لگے تھے۔
’’ٹینا انسان کی عزت کرنا سیکھو‘ ایک انسان کی عزت بڑی یا چھوٹی‘ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر کنٹری کے باعث نہیں ہوتی‘ بہ حیثیت انسان ہوتی ہے‘ وہ بہت پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہے‘ وہ اتنی چھوٹی جاب کرنے پرمجبور ہے کیونکہ اس کا ویزا Expired ہوگیاہے‘ وہ کسی سے بدتر ہے نہ کم تر۔‘‘ وہ اسے بھرپور ڈی فنڈ کررہا تھا‘ ٹینا نے اسے چپ چاپ دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی۔
ؤ…ز …ؤ
’’کہاںغائب ہو تم؟ ایسی گئیں کہ پلٹ کر خبر بھی نہیںلی؟ لگتا ہے کافی اچھی جاب مل گئی ہے جو دوست بھی بھول گئے؟‘‘ نمرہ فون کرکے شکوہ کررہی تھی‘ وہ مسکرادی تھی۔
’’ارے نہیں تمہیں بھول سکتی ہوں بھلا‘ یہاں آکر مصروفیت کچھ بڑھ گئی ہے‘ اب مجھے لگ رہا ہے کہ ہائوس کیپنگ کرنا اتنا آسان کام نہیں‘ سچ نمرہ! اتنا بڑا گھر ہے‘بالکل کسی محل سا‘ میرے تو گمان میں بھی نہیں تھا ایک دن اتنے بڑے گھر میں رہوںگی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی تھی‘ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’کہیں ارادہ قبضہ جمانے کا تو نہیں؟ ریان حق خاصا ہینڈسم ہے اور…‘‘
’’کم آن نمرہ! ڈونٹ بی اسٹوپڈ‘ ریان حق کی گرل فرینڈ ہے اور مجھے دوسرں کے حق غصب کرنے کا کوئی شوق نہیں‘یوں بھی ریان حق مشرقی لڑکیوں سے دس فٹ دور بھاگتا ہے‘ اسے ٹچ می ناٹ والا دیسی امیج بالکل بھی پسند نہیں۔‘‘ ایلیاہ نے بتایا۔
’’اوہ! یہ تو ٹھیک نہیں‘ تم قائل کرلو نا اسے؟‘‘ وہ چھیڑنے لگی تھی۔ ’’اسے بتادو‘ ہم مشرقی لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں‘ یوں بھی دیسی ہونے کے ناتے پہلا حق تو ہمارا ہی بنتا ہے‘ آخر کو ہم پاکستانی ہی تو ہیں۔‘‘

نمرہ مسکرائی تھی۔
’’وہ خود کو انگلش اور برٹش کہلانے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہے۔‘‘ ایلیاہ نے گہری سانس لیا۔ ’’تم بتائو کیا کررہی ہو آج کل؟‘‘ وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔
’’کچھ خاص نہیں یار! شادی کا بہت موڈ ہورہا ہے مگر لگتاہے یہ لکیر میرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ کون سی لکی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی شادیاں ہوتی ہیں اور جن کی شادی کی فکروں میں ان کے گھر والے گھلے جاتے ہیں‘ یہاں دیکھو سال پر سال گزر رہے ہیں‘ یہاں پرائے دیس میں کماتے ہوئے اور گھر چلاتے ہوئے کسی کو احساس ہی نہیں شاید بیٹیوں کو کمانا نہیں چاہیے کیونکہ جب بیٹیاں کماتی ہیں تو پھر والدین ان کی ذمے داریوں سے نبر د آزما ہونے کا نہیں سوچتے‘ میں اپنے ماں باپ کا بیٹا بننا چاہتی تھی اور دیکھو بیٹی بھی نہیں رہی۔ کسی کو میرے احساسات کی فکر نہیں‘ کسی کو نہیں لگتا میرا گھر بھی بسنا چاہیے‘ سب کو بس یہ فکر ہے کہ میرا گھر بس گیا تو ان کے اخراجات کون اٹھائے گا۔ یہ اپنے کبھی کبھی کتنے خود غرض ہوجاتے ہیں نا۔ ایلیاہ! میری مان تو تُو بھی خود کو ایسے ضائع مت کر‘ کل کو کوئی کام نہیں آتا نا بھائی‘ نا بہن۔‘‘ نمرہ حقائق بتارہی تھی‘ اسے نمرہ سے ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔
’’نمرہ! تم کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر شادی کرلو۔‘‘
’’اچھا لڑکا…!‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’یہاں اچھا لڑکا کہاں ملے گا؟ جو اپنے دیس سے یہاں آتے ہیں وہ گوریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ انہیں ریڈ پاسپورٹ مل سکے‘ وہ اپنی لڑکیوں کو لفٹ نہیں کرواتے اور جو گورے ہیں وہ میرے کسی کام کے نہیں‘ ان کے لیے سوچنے سے بہتر ہے میں شادی کا نہ سوچوں۔ مجھے اپنے بچوں کو آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر نہیں بنانا۔‘‘ وہ نمرہ کی بات پر ہنس دی تھی۔ نمرہ صاف دل کی تھی سیدھی بات کرتی تھی۔
’’تم ان لڑکوں کو بھول رہی ہو جو Born and Bred یوکے ہیں۔‘‘ ایلیاہ مسکرائی تھی۔
’’ان کی تو بات ہی جانے دو ایلیاہ!‘‘ وہ منہ بگاڑ کربولی۔
وہ سب سے زیادہ ٹیڑھی لکیر ہیں‘ پہلے غلطی سے یہاں پیدا ہوتے ہیں پھر ساری زندگی اس غلطی کو سدھارنے میں لگا دیتے ہیں۔ ریان حق انہی میں سے ایک ہے نا؟ دیکھو اسے دیسی لڑکیا ں سرے سے پسند ہی نہیں؟ وہ تمہیں گھاس نہیں ڈال رہا حالانکہ تم اچھی خاصی اسمارٹ ہو‘ خوب صورت ہو اور پر اعتماد ہو۔‘‘ نمرہ نے تجزیہ کیا تھا۔
’’نمرہ بات کسی اور کی نہیں ہے‘ میری ہے اور میں جانتی ہوں مجھے کیا چاہیے۔‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’تمہیں ریان حق جیسا بندہ نہیں چاہیے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی‘ وہ چپ رہی تھی۔
’’ویسے ایک ٹرائی تو کرو‘ بندہ بُرا نہیں ہے‘ کیا ہوا جو برٹش ہے‘ ہے تو رئیس اور ہینڈ سم بھی۔‘‘ وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
’’میں رانگ نمبرپر ٹرائی کرنا مناسب خیال نہیں کرتی نمرہ!‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
’’رانگ نمبر کہاں ہے یار! سیدھے سے رائٹ بندہ ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’شاید‘ مگر لائن انگیج ہوتو دوسری بار ٹرائی کرنا عقل مندی نہیں۔‘‘ اس کے انداز میں بولی تھی اور نمرہ کھلکھلا کرہنس دی تھی۔
’’خیر ہیں کوا کب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ‘ چلومجھے نیند آرہی ہے پھربات کرتے ہیں۔ تم اب بھول مت جانا‘ ورنہ وہاں آکر پٹائی لگائوں گی۔‘‘ وہ ایسی ہی بے تکلف تھی‘ تبھی اس سے اس کی خوب بنتی بھی تھی‘ نمرہ سے بات کرنے کے بعد وہ کافی فریش ہوگئی تھی مگر اسے اس کے لیے افسوس بھی تھا‘ کیسی حسرت تھی اس کے انداز میں شادی کو لے کر‘ تو کیا وہ خود کو نظر انداز کرکے غلطی کررہی تھی‘ نداماسوکا لہجہ سماعتوں میں گونجا تھا۔
’’ایلیاہ خود کو اگنور مت کرنا‘ اس نے بہت سی سوچوں سے گھبرا کر سر نفی میں ہلا یا تھا‘ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا‘ کب ریان حق اس کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
’’کس سے بات کررہی تھیں تم؟‘‘ وہ تفتیشی انداز اختیار کررہا تھا یا محض بات آغاز کرنے کو بولا تھا‘ وہ الجھتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی تھی۔
’’نمرہ سے…‘‘
’’شادی کی بات ہورہی تھی؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ اسے کیسے خبر ہوئی تھی‘ وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی تھی۔
’’ہاں وہ نمرہ شادی کرنا چاہ رہی ہے مگر اسے کوئی اچھا لڑکا نہیں مل رہا۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’اور تم…؟‘‘ وہ اسے موضوع بناتا ہوا بولا تھا۔
’’میں…؟‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’تمہیں شادی نہیں کرنا؟ کوئی ارادہ ہے بھی کہ نہیں؟ ہے کوئی نظر میں۔‘‘ وہ اس سے کیسے سوال کررہا تھا؟ وہ حیران ہوئی تھی پھر نفی میں گردن ہلادی تھی۔
’’فی الحال کوئی پلان نہیں‘ یوں بھی پلان کے لیے کسی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔‘‘ وہ سرسری لہجے میں بولی اور گلدان میں پھول سیٹ کرنے لگی۔
’’تمہارے اس فیانسی کا کیا ہوا؟‘‘ ریان حق نے پوچھا‘ وہ چونک پڑی تھی۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’اس کے بارے میں کیوں بات کررہے ہیں آپ؟ میں یہاں رہتی ہوں‘ جاب کرتی ہوں‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر الٹی سیدھی بات آپ مجھ سے پوچھیں گے۔‘‘ حمزہ کا نام سن کر ہی اسے غصہ آگیا تھا۔ وہ جانے کیوں مسکرادیا تھا۔
’’مجھے جانے کیوں لگا تم اس کی یاد میں بیٹھی ہو‘ مشرقی لڑکیوں کا مزاج نرالا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کا خواب میں بھی سوچیں تو گناہ سمجھتی ہیں۔‘‘ وہ جانے کیوں اسے چڑا رہا تھا۔ وہ خودا پنے اندر کی الجھنوں سے الجھتے ہوئے تھکنے لگا تھا یا اس کی خاموشی اس کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی؟ ایلیاہ میر نے اسے اعتماد سے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
’’میں کسی بات کی وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھتی‘ مگر اس شخص کے لیے میری زندگی میں کہیں جگہ نہیں ہے‘ یہ بات بہت پہلے بھی بتاچکی ہوں۔‘‘ وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔ وہ اس کے پھول لگاتے ہاتھ کو بغور دیکھنے لگا تھا پھر جانے کیا سوچ کر اس کا وہ ہاتھ تھام لیا‘ کلائی پر گرفت مضبوط تھی۔ وہ کوئی معنی اخذ نہ کرپائی تھی مگر تکلیف کے احساس سے اس کی سمت تکنے لگی تھی۔
’’ایک لڑکی کیا چاہتی ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدہم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔وہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ ’’میں جاننا چاہتاہوں۔‘‘
’’لڑکی لڑکی میں فرق ہوتا ہے ریان حق! ہر لڑکی کے خواب ایک سے نہیں ہوتے‘ ہر لڑکی کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔‘‘ وہ تکلیف کے احساس سے اس کی گرفت سے اپنی کلائی چھڑانے کی سعی کرنے لگی تھی‘ وہ اس کے جواب پر مسکرادیا تھا۔
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ آج اتنے عجیب سوال کیوں کررہا تھا؟ اسے حیرت ہوئی تھی۔
’’تم کیا خواب دیکھتی ہو ایلیاہ میر! مجھے جاننا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ کیا حق ہے آپ کے پاس یہ سب جاننے کا؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی‘ وہ مسکرادیا تھا۔
’’چلو نہ بتائو‘ مگر میں جانتا ہوں لڑکی کے خواب کیا ہوتے ہیں‘ اسے جنون ہوتا ہے پانے کا اور مزید پانے کا‘ مرد کی توجہ ‘ اس کا حصول اور پھر اس کی دولت کا حصول اور مزید اچھی زندگی گزارنے کی چاہ‘ مہنگی قیمتی اشیاء خریدنے کی خواہش۔ بس یہی ہوتی ہے لڑکی کی خواہش۔‘‘ جانے کیا جانا تھا اس نے یا کسی بات کے گنجل اس کے اندر تھے جو وہ اس طرح سے بات کررہا تھا۔
’’ میں نے کہا نا ریان حق! ہر لڑکی یہ خواب نہیں دیکھتی۔‘‘
’’اچھا بتائو ایک اولڈ فینشڈ لڑکی کیا خواب دیکھتی ہے؟‘‘ وہ اس پر انگلی رکھتے ہوئے بولا تھا۔
’’میری ماں کہتی تھی لڑکی کے لیے سب سے زیادہ اہم محبت ہوتی ہے‘ وہ مرد کی محبت سے محبت کرتی ہے‘ وہ مرد سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی محبت کے سوا۔‘‘
’’اوں ہوں… تمہاری ممی کی بات نہیں ہورہی۔ تم… تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ ساری توجہ اس پر مرکوز کرتے ہوئے بولا۔
’’محبت‘ عزت اور تحفظ۔‘‘ ایلیاہ میر روانی سے بولی۔
’’اور…؟‘‘ وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔
’’اور کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’پیسہ… دولت… شہرت…؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’یہ میری ترجیحات میں شامل نہیں۔‘‘ وہ اعتماد سے بولی۔
’’آہ! انوکھی لڑکی ہو تم‘ اپنی نوعیت کی انوکھی ترین لڑکی۔‘‘ اسے جیسے ایلیاہ میر کے جواب نے مطمئن نہیں کیا تھا۔ ایلیاہ میر کی کلائی پر اس کی گرفت جوں کی توں تھی۔
’’میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘ وہ درخواست کرتی ہوئی بولی۔ ریان حق نے اس کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔ کیا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس کی دولت میں انٹرسٹڈ ہے؟ مگر کیوں‘ وہ تو سرے سے اس میں انٹرسٹڈ نہیں تھی ؟ پھر وہ ایسا کیوں سوچ رہا تھا؟
’’ریان حق! میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘اس نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ دیکھا تو وہ اس کے انداز سے محظوظ ہوتا ہوا مسکرادیا۔
’’کیکٹس کا پھول‘ دیکھنے میں دل رُبا… چھونے میں تکلیف دہ۔‘‘ وہ مدہم سرگوشی کرتا ہوا اس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ایلیاہ نے سر اٹھا کر تکلیف کے احساس سے اسے دیکھا تھا مگر ریان حق اس کی پروا نا کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ اپنی کلائی کو دیکھنے لگی تھی جہاں پر اس کی گرفت کے نشان پیوست ہوگئے تھے‘ یہ کون سا طریقہ تھا احتجاج کا؟ اس سے اس طرح کا برتائو کرنے کا؟
اس نے دھندلاتی آنکھوں سے پار دیکھا تھا وہ ٹینا کے ساتھ کھڑا تھا‘ جانے کیا بات کررہا تھا‘ پھر اس کو اور قریب کرلیا تھا‘ وہ جانے کیوں دیکھ نہیں سکی تھی اور اس طرف سے دھیان ہٹانے کی سعی کرنے لگی۔
…٭٭٭…​
کسی کی نظروں میں ناپسندیدگی ہو یا پسندیدگی اس کے بارے میں علم ہو ہی جاتا ہے۔ ٹینا کی نظروں میں اس کے لیے پسندیدگی نہیں تھی۔ یہ بات وہ جان گئی تھی‘ اس کی نظریں اس کی طرف اٹھتیں تو وہ بہت سرد ہوتی تھیں۔ مگر وہ محسوس کرتی تھی وہ کہیں بہت ڈری سہمی ہوئی ہے۔
’’تمہاری یونیورسٹی سے تمہیں ڈگری کب مل رہی ہے؟‘‘ اس شام وہ اس کے سامنے آن بیٹھی تھی اور بہت فرینڈلی انداز سے بات چیت کرنے لگی تھی۔ ایلیاہ میر کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’اس کے لیے کچھ ویٹ کرنا پڑے جو فی الحال میں کرنا نہیں چاہتی‘ یونیورسٹی سے ٹیکسٹ مسیج موصول ہوجائے گا یا پھر ای میل کرکے بتادیں گے وہ‘ میں خود چاہتی ہوں ایسا جلد ہو۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی۔
’’تمہارے فیوچر پلانز کیا ہیں؟ یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد تو تم یہاں سے جاسکتی ہو نا؟‘‘ ٹینا نرمی سے بات کررہی تھی۔
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد میں پوسٹ اسٹڈی ورک کے لیے اپلائی کرسکوں گی اور دو سال مزید یہاں رک سکوں گی۔‘‘ وہ کافی کے سپ لیتے ہوئے بولی۔
’’اوہ! اور اگر تمہیں نہیں ملتا تمہارا ویزا‘ Expend نہیں ہو پاتا تو؟‘‘ وہ مسکرائی تھی‘ کچھ حسِ مزاح پھڑکی تھی تبھی اطمینان سے بولی تھی۔
’’تو پھر کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈوں گی‘ ویزاکئی طرح سے سوئچ ہوسکتا ہے اگر میں کسی مقامی بندے سے شادی کرلوں تو بھی میںیہاں رک سکتی ہوں۔‘‘
’’اوہ! تو تمہارا خواب یہاں مستقل رکنے کا ہے؟ ریڈ پاسپورٹ پانا؟‘‘ ٹینا نے اپنے طورپر اخذ کیا تھا‘ وہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہوتی ہوئی مسکرادی تھی۔
’’ویل بندہ امیر ہو تو اس بارے میں سوچا بھی جاسکتا ہے۔‘‘
’’اوہ! مجھے اس کا اندازہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔‘‘ ٹینا نے ہونٹ سکوڑے تھے‘ایلیاہ میر مسکرادی تھی اور بغور اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا تھا۔
’’ہے کوئی نظر میں؟‘‘
’’کون؟‘‘ ٹینا چونکی تھی۔
’’جو مجھے ریڈ پاسپورٹ دلانے میں مدد کرسکے؟‘‘ وہ جاننا چاہتی تھی اس کا ذہن کیا سوچ رہا ہے اور اگر ریان حق نے اس طور ری ایکٹ کیا تھا اس کی وجہ کیا تھی‘ کہیں وہ ٹینا تو نہیں تو جو ریان حق کا مائنڈ بدل رہی تھی‘ اسے ایلیاہ میر سے بدظن کررہی تھی۔
’’یہاں کئی ہیں جو تمہاری مدد کرسکتے ہیں‘ تم صرف پیپر میرج کرکے بھی وہ سب حاصل کرسکتی ہو جن کا خواب تم دیکھ رہی ہو‘ یہاں ایسی پیپر میرجز عام ہیں‘ یہ شادیاں صرف ریڈ پاسپورٹ کے حصول کے لیے ہوتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔‘‘ ٹینا نے بتایا تھا‘ جیسے وہ اس کی سب سے بڑی خیر خواہ تھی۔
’’جانتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی تھی۔ ’’میں غلط راستوں سے منزل پانے پر یقین نہیں رکھتی‘ اگر منزل پانا قسمت میںہے تو راستے خودمجھے منزل تک رہنمائی دیں گے۔ وہ ایک تمہی ہو جس نے ریان حق کو جتانے اور قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں یہاں پیسوں کے لیے رکی ہوئی ہوں؟ لالچی ہوں اور دولت یا ریڈ پاسپورٹ چاہتی ہوں؟‘‘ ایلیاہ میر نے دو ٹوک پوچھا تھا‘وہ ساکت رہ گئی تھی‘ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی۔
’’تمہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے ایلیاہ میر! تمہارے اس گھر میں آنے سے پہلے ریان حق میرے بہت قریب تھا۔ مگر تمہارے یہاں آنے کے بعد وہ قربت معنی کھوگئی۔ میں نہیں چاہتی تم یہاںرہو اور ہمارے درمیان دیوار اٹھائو؟ مجھے غلط ثابت کروگی؟‘‘ ایلیاہ میر نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا‘ ٹینا نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’میرے لیے ریان حق اہم ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی‘ میں نہیں چاہتی کوئی اس کا فائدہ اٹھائے‘ اس کے لیے میں کسی صحیح غلط کو نہیں مانتی۔‘‘ بات جب کھل ہی چکی تھی تو وہ بھی کچھ مزید چھپانے میں عار نہیں جانتی تھی۔
’’تم مجھ سے خوف زدہ ہو؟‘‘ ایلیاہ میر کو حیرت ہوئی تھی۔ ’’میں اس کی ایک ملازم ہوں‘ وہ تمہارے ساتھ دو سال سے ہے‘ تم دونوں قریب ہو‘ میں کہاں ہوں؟‘‘ وہ بولی تھی۔
’’تم اس کے دل میں ہو‘ اس کی آنکھوں میں ہو۔‘‘ ٹینا نے جتایا تھا اور فضا میں ایک سکوت پھیل گیا تھا۔ ایلیاہ میر کو یہ سن کر عجیب لگا تھا۔ یقین نہیں ہوا تھا‘ وہ سر نفی میں ہلانے لگی تھی۔
’’پلیز چلی جائو یہاں سے‘ کوئی اور جاب ڈھونڈ لو‘ تم چاہو تو میں پائول سے بات کرسکتی ہوں۔‘‘ ٹینا بولی تھی۔
’’کیسی بات؟‘‘ وہ چونکی تھی‘ ٹینا اس کی سمت دیکھتی رہی تھی پھر بولی۔
’’وہ تمہارے ساتھ پیپر میرج کرسکتا ہے‘وہ برٹش ہے‘ میرے ہینڈ میں ہے مگر اس کے لیے تمہیں اسے کچھ پیسے دینا ہوں گے۔‘‘ نیشلٹی ملنے کے بعد تم اس شادی سے‘ اس تعلق سے آزاد ہوگی۔ یہی چاہیے نا تمہیں؟ تم قابل ہو اچھی جاب حاصل کرسکتی ہو‘ خوب صورت ہو بہت سے اور مل سکتے ہیں تمہیں‘ زندگی شروع کرسکتی ہو‘ مگر ہماری دنیا سے نکل جائو۔ اس سے زیادہ تمہاری مدد میں نہیں کرسکتی۔‘‘ ٹینا بول کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اس کی سفاکی پر حیران رہ گئی تھی۔ ٹینا جانتی تھی ویزا سوئچ کرنے کے کئی طریقے اور بھی تھے مگر وہ اس کی شادی کرانا چاہتی تھی تاکہ وہ ان کی راہ سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے۔ وہ اتنی بچی نہیں تھی کہ آنکھیں بند کرکے ٹینا کی مان لیتی تو پھر ریان حق نے ٹینا کی کیسے مان لی تھی؟ وہ لمحہ بھر کو سوچ کر حیران ہوئی تھی۔
اس دن کے بعد سے وہ شخص اس سے بہت سرد لگ رہا تھا۔ اس کے قریب نہیں آیا تھا‘ اس سے بات نہیں کی تھی‘ اس سے نگاہ بھی نہیں ملائی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھتا نہ بات کرتا مگر وہ اسے اپنے بارے میں وہ غلط فہمی مزید رکھے‘ نہیںچاہتی تھی۔ وہ اسے ایک لالچی لڑکی سمجھ رہا تھا‘ موقع پرست جان رہا تھا اور ایک غلط تاثر بنائے بیٹھا تھا‘ وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی تھی‘ تبھی اس شام جب بارش ہورہی تھی اور وہ کارپورچ سے باہر نکال رہا تھا‘ وہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ریان حق نے ہارن پر ہاتھ رکھا تھا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی‘ وہ تیز بارش میں بُری طرح بھیگ رہی تھی۔ جس کا اسے مطلق احساس

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تھا نہ پروا۔ ریان حق جانتا تھا اس کا مزاج وہ اگر ٹھان چکی تھی تو وہ گاڑی کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتی تھی تبھی اسے گاڑی سے نکل کر باہر آنا پڑا تھا۔
’’کیا حرکت ہے؟‘‘ وہ برہم ہوا تھا۔
’’مجھے بات کرنا ہے؟‘‘ ایلیاہ میر نے مدعا بیان کیا۔
’’کیا بات؟ اوہ! ٹینا نے بتایا تھا تم جاب چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟‘‘ وہ اپنے طور پر اخذ کرتا ہوا بولا۔
’’ٹینا کی کہی گئی ہر بات پر اتنا ہی اعتبار کرتے ہو؟‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ریان حق اسے کچھ دیر خاموشی سے دیکھتا رہا تھا پھر اسے شانوں سے تھام لیا۔
’’مرد کی سب سے بڑی بے وقوفی پتا ہے کیا ہوتی ہے؟ وہ حسن کے غلط سلط کہے جانے پر اعتبار کرتا ہے‘ اس سے آگے دیکھتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھا تو اس سے آگے نہیں دیکھ سکا۔ اس چہرے سے آگے دیکھنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ بس یہیں پر الجھ گیا اور یہیں پر شاید غلطی بھی کردی۔ میں نہیں جانتا تھا تم یہاں رہنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہو‘ تم پائول سے شادی کررہی ہو؟ چلو کسی طرح تمہاری پرابلمز کا حل تو نکلا‘ اب تمہیں جگہ جگہ خوار نہیں ہونا پڑے گا۔‘‘ اس کے شانوں پر اس کی گرفت سخت تھی۔ اس کی انگلیوں کا دبائو اسے اپنے گوشت کے اندر پیوست ہوتا محسوس ہوا۔ وہ اس شخص کے سامنے کھڑی تھی جس کے باعث اس کے دل نے دھڑکنا سیکھا تھا۔ اس شخص کی کھری کھری سن رہی تھی‘ جس کو اس نے خوابوں میں جگہ دی تھی مگر وہ کچھ نہیں سمجھ رہا تھا‘ کچھ نہیں دیکھ رہا تھا۔ تیز بارش میں وہ ساکت اس کے سامنے کھڑی تھی پھر یک دم اس نے ریان حق کے ہاتھوں کو اپنے شانوں سے ہٹادیا تھا اور پورے اعتماد سے اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’میں غلط نہیں ہوں‘ نہ ہی لالچی ہوں۔ میں پیسوں یا دولت کے پیچھے کبھی نہیں رہی۔ اب میری سمجھ میں آرہا ہے اس روز تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے تھے کہ ایک لڑکی کیا چاہتی ہے‘ میرا جواب سننا چاہو گے؟ میرا خواب آج بھی وہی ہے‘ محبت‘ عزت اور تحفظ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں‘ جانتے ہو میں نے منگنی کی انگوٹھی اپنے منگیتر کے منہ پر کیوں ماری؟ کیونکہ وہ مجھے یہ تینوں چیزیں نہیں دے سکتا تھا کیونکہ میں نے اپنی ماں کو ان تین چیزوں کے لیے اپنی زندگی میں سسکتے‘ تڑپتے دیکھا ہے‘ میں اپنی ماں کی زندگی جینا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کیکٹس کا پھول کہتا تھا مجھے‘ اس کے لیے میں دلچسپی کا باعث نہیں تھی اور میرے لیے وہ اہم نہیں تھا۔ میری ماں ان لوگوں کی وجہ سے اس دنیا سے گئی‘ میں ان لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ میں نے انتھک محنت کی راہ چن لی کیونکہ مجھے خود پر بھروسا تھا‘ میں نے پوری جان لگادی کیونکہ میں اپنوں کے لیے سب کچھ کرنا چاہتی تھی ‘ جو شخص کسی سے پیار کرتا ہو وہ ان سب باتوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ یہاں مزید دو سال ٹھہرنے کی خواہش میرا حق ہے۔ میں نے اس کے لیے یہاں کا سفر کیا ہے‘ اس سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا نہ مجھے لالچی کہہ سکتا ہے۔ ہوں گے آپ کہیں کے پرنس مگر میرے لیے میرا وقار‘ میری عزت میرے تشخص سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ اگر مجھے آپ سے محبت بھی ہوتی ہے تو میں آپ کو اس الزام کے لیے معاف نہیں کرتی۔ مجھے آپ سے بات کرنے کا شوق نہیں تھا مگر میں خود پر لگائے گئے الزام کی صفائی دینے کے لیے آپ کی گاڑی کے سامنے آئی‘ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں‘ میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے آپ کو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ایک ملازم تو ہوں نا میں آپ کی پھر کس نے حق دیا آپ کو یہ سب سوچنے کا‘ میرے لیے آپ ایک انتہائی بند عقل کے آدمی ہیں‘ جس کی خود کی کوئی سوچ ہے نہ سمجھ بوجھ۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ کے پیچھے ہوں‘ آپ پر فریفتہ ہوں‘ محبت ہوگئی ہے آپ سے؟ دولت ہتھیانا چاہتی ہوں آپ کی؟ آ… آپ اگر مفت میں بھی ملیں تو بھی آپ کو قبول نہ کروں‘ چھوڑ رہی ہوں میں آپ کی جاب‘ نہیں کرنا ایسے شخص کے ہاں جاب جسے دوسرے کے بارے میں غلط سلط باتیں سوچنے کا خبط ہو۔‘‘ وہ پلٹنے لگی تھی‘ جب یک دم رک کر دوبارہ مڑی تھی۔
’’سچ کہوں؟ آپ کوئی اچھی مشرقی لڑکی ڈی زرو بھی نہیں کرتے کیوں کہ آپ خود اس لڑکی کو پانے کے گٹس نہیں رکھتے۔ میں فضول میں متاثر ہورہی تھی آپ سے‘ آپ کی اچھائی سے۔ کچھ دیر اور یہاں رہتی تو شاید محبت بھی ہو ہی جاتی‘ تھینک گاڈ! آنکھیں کھل گئیں‘ اگر کہہ دیتی کہ محبت ہوچکی ہے تو شاید آپ اسے بھی کوئی ٹرک سمجھ لیتے‘ جس بندے کی اپنی کوئی عقل سمجھ بوجھ نہ ہو‘ اس سے کوئی کیا توقع کرسکتا ہے؟‘‘ وہ پلٹ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ یک دم ریان حق نے اسے کلائی سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی سمت کھینچا ‘ انداز جارحانہ تھا۔ وہ اس کے سینے سے آن ٹکرائی تھی۔ دونوں بارش میں بُری طرح بھیگ رہے تھے مگر دونوں ہی کو اس بات کی مطلق پروا نہیں تھی۔ ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا‘ نگاہ ان آنکھوں سے ملی تھی‘ وہ دونوں آنکھیں اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ ایلیاہ میر کی روح فنا ہوچکی تھی۔ پوری جان میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ ان آنکھوں کے سامنے وہ ہارنا نہیں چاہتی تھی‘ شکست نہیں چاہتی تھی‘ تبھی وہ اس کی سمت سے اپنی آنکھیں ہٹاگئی۔
’’بہت رعایت دی تمہیں بہت مراعات دیں‘ اس گھر میں لایا‘ کیوں…؟‘‘ وہ سخت لہجے میں کہہ رہا تھا‘ وہ آنکھیں اس پر گڑی تھیں۔’’میں چاہتا ہوں تم زندگی کا خلاصہ خود کرو ایلیاہ میر‘ خود گوشوارہ بنائو‘ مجھے اپنے نفع نقصان کی پروا نہیں‘ شاید تمہیں اس سے فرق پڑتا ہو‘ اپنا حاصل جمع کرو اور بتائو کہاں میں غلط ہوں اور کہاں تم؟ مگر یہ سب کرنے سے سچ تبدیل نہیں ہوگا‘ ٹینا پر یقین نہ کرنا حماقت ہوگی‘ وہ جھوٹ نہیں بولتی‘ اگر اس نے کہا کہ تم لالچی ہو تو ہو‘ مجھے پہلے ہی دن اس کا احساس ہوجانا چاہیے تھا۔‘‘ وہ مدہم مگر سخت لہجے میں بولا تھا۔ ایلیاہ میر کی آنکھیں بھرنے لگیں مگر ریان حق کو اس کی پروا نہ تھی‘ ایک جھٹکے سے اس سے اسے چھوڑا تھا اور وہاں سے چلا گیا۔ ایلیاہ میر کس جگہ ہاری تھی۔
کس جگہ دل نے ڈبویا تھا
شکستِ پائی بھی تھی تو کس جگہ
وہ وہاں مزید رکنا نہیں چاہتی تھی تبھی سامان پیک کیا اور واپس ایسٹ لندن آگئی تھی۔ نمرہ کے دل اور کمرے دونوں میں اس کے لیے جگہ تھی‘ ایک ہفتے کی کوشش کے بعد اسے ایک ریسٹورنٹ میں
جاب مل گئی تھی تو وہ ایک شیئرنگ روم میں دوسری جگہ شفٹ ہوگئی تھی‘ اندر ایک گہرا سکوت تھا اور وہ اس سکوت کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کررہی تھی۔ زندگی کو ایک توازن دینے کی کوشش میں وہ ایک مشین بن گئی تھی‘ پلٹ کر ریان حق کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
عزت‘ محبت اور تحفظ… اس کی ترجیحات میں عزت اول نمبر پر آگئی تھی۔ محبت کو اس نے ثانوی قرار دیا تھا‘ شاید محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی‘ ان دنوں وہ ممی کو بہت یاد کررہی تھی‘ کئی بار ان کو یاد کرکے آنکھیں بھیگ چکی تھیں‘ وہ روکر خود کو کمزور کرنا نہیں چاہتی تھی مگر سمجھ نہیں آتا تھا کیوں وہ خود پر کنٹرول نہیں کرپارہی تھی۔
’’تم نے بتایا نہیں اچانک سے ریان حق کی جاب کیوں چھوڑ دی؟‘‘وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکی تھی‘ نمرہ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’کیا ہوا؟ تمہاری آنکھیں ایسے ویران کیوں لگ رہی ہیں؟‘‘ اس نے سر نفی میں ہلایا اور وہاں سے نکل آئی تھی۔ زندگی میں بھیانک ترین لمحہ تب لگتا ہے جب کوئی آپ کا یقین نہ کررہا ہو اور تب کوئی آپ کو انتہائی ارزاں جان رہا ہو‘ اسے قلق اس بات کا نہیں تھا کہ اسے رد کیا گیا تھا۔ کسی اور اس کی جگہ اپنا لیا گیا تھا یا کسی کے کہنے پر اس کی بے عزتی کی گئی تھی‘ اس نے تمام چیزوں کو اپنے اندر کہیں مار دیا تھا۔ کسی بات کا احساس وہ اپنے اندر باقی نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس شخص سے ملنا‘ بات کرنا‘ محبت ہونا‘ شاید اس کی غلطی تھی اور وہ غلطیوں کو زندگی پر طاری یا حاوی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ جو محبت کو فوقیت دیتی رہی تھی اور جس کی خود کی زندگی محبت سے خالی رہی تھی۔ بے حس لوگوں کے درمیان رہنے سے کہیں بہتر تھا وہ تنہا رہتی۔ سکون سے رہتی۔
وہ ریسٹورنٹ میں جاب ختم کرکے گھر کے لیے آرہی تھی جب اسے میسج آیا تھا کہ شاید کل یونیورسٹی میں اس کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا‘ جس کے لیے اسے ال فورڈ جانا تھا۔ وہ اپنے ہی دھیان میں چل رہی تھی جب گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا‘ گاڑی اس کے قریب آن رکی تھی اور گاڑی سے جو شخص نکلا تھا اسے دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ چپ چاپ ریان حق کو دیکھتی رہی تھی‘ وہ گاڑی سے نکل کر اس کے سامنے آن رکا۔
’’تم بتائے بغیر چلی آئیں‘ اپنی سیلری بھی نہیں لی‘ میں کسی کا حق غصب کرنا مناسب نہیں خیال کرتا۔ یہ رہے تمہارے پیسے۔‘‘ اس کی سمت ایک لفافہ بڑھایا تھا۔ جسے وہ کچھ لمحوں تک خاموشی سے دیکھتی رہی تھی پھر آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر وہ لفافہ تھام لیا تھا۔
’’تم نے شادی نہیں کی‘ پائول تمہارے ساتھ دکھائی نہیں دے رہا؟‘‘ وہ طنز کرنا اپنا حق سمجھتا تھا‘ وہ غصے سے اسے گھورنے لگی تھی۔
’’میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے‘ آپ کو اس سے مطلب؟‘‘ وہ اپنے ازلی ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی‘ وہ جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’تمہیں ستاروں پر چلنے کا بہت شوق ہے نا؟ کہکشائوں پر پائوں دھرنا خواب اولین ہے؟ اس کے لیے تم کانٹوں سے دامن چھڑانا چاہتی ہو؟ اور اس کے لیے تم ہر انتہائی قدم اٹھا سکتی ہو؟ تمہاری آنکھوں کی لگن بتاتی ہے‘ اندر کہیں بہت ویرانی ہے۔ ان کہکشائوں کی روشنی تمہاری ان آنکھوں میں کیوں نہیں‘ ستارے قدموں میں ہیں تو اندر اتنی تاریکی کیوں ہے؟ کس بات کا قلق ہے یہ؟ کیا نہیں ملا جس کا ملال ستار ہا ہے؟ کس بات کی لگن سانسوں میں ارتعاش کا باعث ہے؟ کس بات کا تلاطم ان دھڑکنوں میں ہے؟ ہم سر راہ اس کا خلاصہ نہیں کرسکتے‘ اہم باتوں کو سر راہ ڈسکس نہیں کیا جاسکتا؟‘‘ وہ بہت اطمینان سے کہتا ہوا مسکرادیا تھا۔ کیسا بے حس شخص واقع ہوا تھا جسے ذرا بھی ملال نہیں تھا کہ وہ کسی کے دل کو زک پہنچا چکا ہے‘ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں دنیا میں‘ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی جب ریان حق اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی کے پاس لے آیا‘ وہ ایک پل کو حیران رہ گئی تھی۔ یہ کیا کررہا تھا وہ؟ کیوں؟ اس کی اجازت کے بنا؟ یہ شخص کیوں سمجھتا تھا کہ اسے ہر جائز و ناجائز کرنے کا اختیار ہے اور وہ ہر طرح کا رویہ واجب رکھ سکتا ہے۔
’’آپ…‘‘ اس نے سخت سست کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تھا ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا‘ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی۔
’’مجھے شور سے الجھن ہوتی ہے‘ فی الحال کوئی بات مت کرو۔‘‘ وہ حتمی اندازمیں کہہ کر گاڑی آگے بھگانے لگا‘ ایلیاہ میر چپ چاپ اسے تکنے لگی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ اسے اپنی سمت دیکھتا پاکر وہ بولا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹاگئی تھی۔ وہ نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ انہیں گلہ ہے اور با ت کرنا نہیں چاہتیں۔ ریان حق نے اسے بولنے پر نہیں اکسایا تھا۔ گاڑی ریان حق کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی۔
’’یہاں کیوں لے آئے آپ مجھے؟‘‘وہ چونکی۔
’’ضروری بات کرنا ہے‘ ضروری باتیں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سرِ راہ نہیں ہوتیں‘ اترو۔‘‘ اسے گاڑی سے اترنے کا کہہ کر وہ ڈور کھول کر باہر نکلا تھا۔
’’اتنی رات میں کسی بات کا احساس ہے آپ کو؟ کل مجھ کیمپس جانا ہے۔ ڈگری کلیکٹ کرنا ہے اور…‘‘
’’اوہ! تو تم اب بھی اپنی ڈگری کا انتظار کررہی ہو؟ مجھے لگا تم نے پائول سے شادی کرلی ہوگی اور تمام پرابلمز کا حل ڈھونڈ لیا ہوگا۔ مگر تمہاری سوئی تو وہیں اٹکی ہوئی ہے۔‘‘ ریان حق کا انداز اسے تلملا گیا تھا۔
’’انتہائی فضول درجے کے انسان ہیں آپ۔ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جو کرتے ہیں اپنے طور پر کرتے ہیں اور اسے ہی مناسب خیال کرتے ہیں‘ جو کہتے ہیں وہی آپ کو صحیح لگتا ہے۔ آپ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا بند نہیں کرسکتے؟ امیر پیدا ہوگئے اس زمین پر پیدا ہوگئے تو پرمٹ مل گیا آپ کو کسی کو بھی ذلیل کرنے کا؟ میں قطعاً امپرسٹڈ نہیں ہوں آپ سے۔ آپ کی ان حرکتوں کے بعد تو قطعاً نہیں ۔ آپ مجھے مزید غصہ مت دلائیں ورنہ…‘‘ اس نے دھمکی دی تھی اور ریان حق نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور کچھ قریب آگیا تھا‘ اس کی آنکھوں میں مکمل توجہ سے
دیکھا تھا۔
’’ورنہ…؟‘‘ وہ اس کی دھمکی سے آگے سننا چاہتا تھا۔ ایلیاہ میر اسے غصے سے گھور رہی تھی۔ جب ریان حق نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں کو بھینچ دیا۔
’’کبھی کبھی کھلی آنکھوں سے جو دکھائی نہیں دیتا بند آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ میں چاہتا ہوں تم میرے معاملے میں اپنی آنکھیں بند کرلو‘ سماعتوں کو تالے لگادو اور صرف دل کو محسوس کرنے کو تنہا چھوڑ دو۔ کبھی کبھی دل اپنی جانچ پڑتال خود جس ڈھنگ سے کرتا ہے اس میں فرد کوکچھ واسطہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ بولا تھا۔ ایلیاہ میر بند آنکھوں سے سننے پر مجبور تھی اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اورکیونکر…!
’’میں چاہتا ہوں تم اپنی پوری عقل کو استعمال کرو۔ وہ جانو جو آج سے پہلے نہیں جانا یا پھر جانا بھی تو انجانا کردیا۔ میں نے اس سے قبل اپنی دونوں آنکھوں کو استعمال نہیں کیا تھا۔ تم نے موقع ہی نہیں دیا‘ چاہتا تھا تمہیں دونوں آنکھوں سے بغور دیکھوں‘ پوری عقل سے جانچوں اور دل سے پہچانوں ۔ میں چاہتا ہوں تم وقت کی رفتار کو کچھ دھیما کردو تاکہ سارے منظر یک دم سے نہ گزرنے پائیں اور ساری چیزیں متواتر دل پر اثر کرسکیں‘ مجھے وقت کو تھامنے کا شوق تھا مگر میں نہیں کر پایا۔ تمہارے مقابل عجیب شکست خوردہ رہا‘ تم نے میرے وقت کو مجھ سے چھینا اور مجھے اپنے آپ سے بیگانہ کردیا۔ بہت سے گلے ہیں تم سے اور سب سے لمحوں کا حساب لینا ہے مگر آج نہیں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ کر اس کی آنکھوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹاگیا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ رات کی اس تاریکی میں ان آنکھوں میں کچھ بے چینی تیرتی واضح دکھائی دی تھی۔ کس بات کا احساس تھا یہ؟ اس کے اثر کا تسلسل ٹوٹا تھا جب اس کا سیل فون بجا تھا۔ دوسری طرف نداماسو تھیں
’’ایلیاہ کیسی ہو تم؟ تمنا کے لیے ایک اچھا پروپوزل آیاہے‘ میں ای میل کرتی ہوں تم لڑکے کو دیکھ کر فیصلہ کرو‘ کیا کرنا ہے؟ مجھے اور تمہارے انکل کو تو کافی معقول لگا ہے وہ۔ تمنا کی تعلیم ختم ہونے والی ہے اور شادی بھی ہوجائے تو تمہار ی ذمے داری کچھ تو کم ہوگی نا۔‘‘
’’لیکن ماسو ابھی؟ آپ جانتی ہیں میں یہاں کن حالات سے گزر رہی ہوں‘ اس میں تمنا کی شادی کیسے ہوگی؟ مناسب ہوگا ہم دو سال بعد ہی سوچیں اور…‘‘
’’ان باتوں کو چھوڑو تم… میں نے ایک اچھا لڑکا تمہارے لیے بھی دیکھا ہے‘ لڑکا انجینئر ہے‘ اچھا کماتا ہے تم کہو تو تصویر بھجوادوں؟‘‘ ندا ماسو نے ٹھان لی تھی تمنا کے ساتھ اس کی شادی بھی کروا کر رہیں گی۔ اس نے ریان حق کی سمت دیکھا تھا۔
’’میں نے آپ سے کہا ہے نا ماسو! فی الحال میری شادی کے بارے میں مت سوچیں‘ جس لڑکے کو آپ نے قائل کیا ہے نا وہ صرف اس بات پر قائل ہوا ہوگا کہ میں یعنی لڑکی یہاں انگلینڈ میں ہوں‘ اسے نہیں معلوم کن حالات میں ہوں اور کتنی مشکلوں میں۔ مزید کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور…‘‘ اس نے کہنے کا قصد کیا تھا‘ ریان حق نے اس کے ہاتھ سے سیل فون لے لیا۔ وہ حیرت سے تکنے لگی تھی مگر وہ بنا اس کی نظروں کی پروا کیے ندا ماسو سے بات کرنے لگا تھا۔
’’ندا ماسو! آپ کی بھانجی کافی ٹیڑھی لکیر ہیں‘ ان کے لیے کسی انجینئر کی نہیں دماغ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ آپ کہیں تو میں یہاں نیوز پیپر میں ایک اشتہار لگوا دوں؟ کسی کی شامت تو آئی ہوگی ‘ کہتے ہیں گیڈر کی جب شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے‘ کسی عقل کے اندھے کی شامت آئی ہوگی تو ضرور ایلیاہ میر سے رجوع کرے گا۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا‘ دوسری طرف ندا ماسو حیران ہوئیں‘ مگر کہنے والے نے اپنا تعارف کروانے کی بجائے یا اس کہے کی وضاحت دینے کی بجائے فون کاسلسلہ منقطع کردیا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ وہ اسے گھورتی ہوئی بولی تھی۔ ’’کیا حق پہنچتا ہے آپ کو میری ماسو سے اس طرح سے بات کرنے کا؟وہ بھی میرے بارے میں؟‘‘ وہ سخت سست سنانے والی تھی جب ریان حق نے اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ دی تھی اور پوری توجہ سے دیکھنے لگا تھا۔
’’اور کتنے چاہئیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا‘ وہ بُری طرح چونکی تھی کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس کی انگلی بدستور اس کے لبوں پر سختی سے جمی تھی سو وہ بول نہیں پائی۔
’’ایک مل گیا سو کافی نہیں ہے؟‘‘ وہ کس کی بات کررہا تھا؟ اور اتنی دھونس سے کیوں؟ سارا رعب وہ اسی پر کیوں جماتا تھا؟ ایلیاہ میر کو غصہ آنے لگا تھا‘ وہ اس کی نظروں کی سرخی دیکھ کر مسکرادیا تھا۔
’’ان آنکھوں میں غضب نہیں پیار زیادہ سوٹ کرے گا‘ تم اب نرمی اور محبت سے دیکھنے کی عادت ڈال لو۔‘‘ ایلیاہ میر نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹایا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟ کیا بکواس کررہے ہیں آپ؟ دو پیسے ہیں جیب میں تو کوئی بھی بات کہہ سکتے ہیں؟ کسی پر بھی رعب جماسکتے ہیں؟ آپ کی حیثیت سے متاثر ہوجائوں گی‘ جرمن بلی سمجھ رکھا ہے مجھے؟‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔
’’اوں ہوں‘ جرمن بلی… جرمن بلی کا یہاں کام نہیں۔ اس کا قصہ تمام ہوا۔‘‘ وہ بہت رسانیت سے بولا تھا‘ وہ چونکی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ایلیاہ میر جاننے کی خواہاں ہوئی تھی۔
’’ٹینا کو لگتا تھا مجھے اس سے محبت نہیں ہے اور مجھے محبت تھی بھی نہیں‘ دو سالہ رفاقت میں میں نے اسے کبھی وہ تین لفظ نہیں کہے‘ کبھی وہ محسوس نہیں کیا جو دو دلوں میں ربط ہوتا ہے‘ ہم میں سب بہت سرد تھا اور بہت سرد مہری میں زمانے بیت رہے تھے شاید میں انہی زمانوں میں ایک سرد وجود بن جاتا جب تم مجھ سے ٹکرا گئیں۔ تم سے ملا تو حدت کا احساس ہوا‘ شدت کا احساس ہوا۔ مجھے قبول کرنے دو کہ تم وہ پہلی لڑکی ہو جس نے مجھے حیران کیا اور پریشان بھی۔ کئی دن تک الجھنوں میں رہا‘ خود اخذ نہ کرپایا کہ ایسا کیوں ہے اور تبھی ٹینا نے تمہیں راہ سے ہٹانے کی ٹھانی‘ بتایا کہ تم پائول کو پسند کرتی ہو‘ اس سے شادی کرنا چاہتی ہو اور میرے قریب اس لیے آئی ہو کہ میری دولت کو ہتھیا سکو ۔ تم مجھے بند دماغ کا آدمی کہہ سکتی ہو‘ جس پائول کو ٹینا چاہتی تھی اور جس سے تم کبھی ملی بھی نہیں تھیں اس سے تمہیں محبت کیسے ہوسکتی
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
تھی؟ یا تم اس سے شادی کرنے کا کیسے ٹھان سکتی تھیں؟ یہ بات تب میری سمجھ میں نہیں آئی تھی؟ مگر تمہارے جانے کے بعد آئی جب ایک دن پائول سے ملاقات ہوئی۔ وہ گھر آیا تھا ٹینا سے ملنے۔ تبھی مجھے اس سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ تو تمہارے نام سے بھی واقف نہیں۔ مجھے ٹینا سے یہ امید نہیں تھی مگر شاید وہ مجھے گنوانا نہیں چاہتی تھی‘ تم اس گھر میں تھیں۔ مجھ سے قریب تھیں یہ بات اسے فکر مند کررہی تھی بہرحال ایک کہانی کو ختم ہونا تھا سو تمام ہوئی۔ وہ گھر سے چلی گئی‘ اسے یہاں رکنے کا جواز نہیں دکھائی دیا اور مجھے بھی یہ مانتے ہی بنی کہ تم کیا ہو اور کیا اہمیت رکھتی ہو۔ شاید اب اگر میں کہوں کہ میں آج تمہیں اپنی پوری توجہ سے اور دونوں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں تو تمہارا دل میرا سر پھوڑ دینے کو چاہے گا مگریہی سچ ہے۔‘‘ ریان حق نے کہہ کر اسے خود سے کچھ اور قریب کیا۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی تھی‘ یہ کیسا اظہار تھا؟ اسے خود اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔قسمت اس پر مہربان ہورہی تھی‘ اس ڈھنگ سے ‘ وہ خود یقین کرنے کو تیار نہ تھی۔
’’میں ان دھڑکنوں کو تمہارے ساتھ جوڑنا چاہتا ہوں‘ تمہارے قدموں سے قدم ملا کر چلنا چاہتا ہوں‘ کیا تم اس کا موقع دو گی؟‘‘ ایلیاہ میر اسے جامد نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ریان حق نے اس کے چہرے پر آئے بالوں کی لٹ کو اس کے چہرے سے ہٹایا اور مدہم سرگوشی میں بولا۔
’’ایلیاہ میر! مجھے ایسی ہی لڑکی کی ضرورت تھی‘ جو مجھے اچھی طرح جانتی ہو اور جو مجھے اپنے ساتھ باندھ سکے‘ تم نے پہلے ہی دن اپنے اثر میں لیا اور سنگ جوڑ دیا ‘ مجھے دبی دبی دبو قسم کی لڑکیاں پسند نہیں‘ لڑکیوں میں حوصلہ ہونا چاہیے‘ اپنی ذات کو منوانے کا ڈھنگ ہونا چاہیے۔ اعتماد ہونا چاہیے اور تم میں وہ سب ہے۔ تم نے جس طرح مسٹر حیات کو اس رات روز دار پنچ مارا اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا‘ تبھی مجھے لگا میں تمہارے ساتھ اندر سے کہیں جڑ رہا ہوں۔ میں نے شور نہیں مچایا‘ بس خاموشی سے اپنے اندر کی آواز کو سنا۔ اپنے اندر کے شور کو سمجھا اور جانا کہ دل کیا کہتا ہے اور اندر کی آواز کیا ہے‘ کوئی تم جیسی دلیر دھانسو قسم کی لڑکی ہی ہوسکتی تھی‘ جس کے ساتھ میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا تھا‘ میں تم سے ملنے سے پہلے خود نہیں جانتا تھا کہ میرے اندر کیا ہے یا میری خواہش کیا ہے‘ تم نے میرے نظریات کو بدلا‘ میری سوچ کو بدلا اور میرے دل کو جیتا‘ ایسی ہی ہوتی ہے نا محبت؟ دلیر‘ نڈر‘بے ریا‘ اور بے غرض اور مصائب کے باوجود بھی تھکنے والی نہ رکنے والی؟ تبھی میں نے تمہیں کیکٹس کا پھول کہا ۔ تم ویسی ہی تو ہو۔ اجلی اجلی‘ کھلی کھلی بہت سے مصائب کا ڈٹ کا سامنا کرتی‘ ایسی جیون ساتھی کون نہیں چاہے گا؟ اور کون ہوگا جو پاکر گنوادے گا؟ میں ان کم عقلوں اور نا فہم لوگوں کی فہرست میں نہیں شمار ہونا چاہتا تھا‘ تبھی میں نے لمحوں کو شمار کرنا ترک کیا اور تم تک کا سفر کیا۔
میں جانتا ہوں ان دھڑکنوں میںکیا ہے اوریہ دل کس باعث دھڑکتا ہے‘ اتنا احمق نہیں ہوں‘ قیاس آرائیوں پر یقین نہیں کرتا مگر محبت ایک یقین ہے‘ ربط ہے اور میں اپنے دل کو تمہارے دل سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں تم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہو ‘ دادی اماں کی خواہش بھی یہی تھی میری دلہن دیسی ہو پکی مشرقی ہو‘ بچے آدھے تیتر آدھے بٹیر نہ ہوں۔ سو اب سب کی خواہشوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا تھا‘ وہ پلکیں جھکا گئی تھی‘ اس خاموشی میں ریان حق کے دل کی دھڑکنیں اسے بہت واضح سنا ئی دی تھیں‘ وہ ان دھڑکنوں کے معنی سمجھ سکتی تھی۔ ان دھڑکنوں میں چھپے راز جان سکتی تھی‘ لمحہ بھر کو اس نے آنکھیں موند لیں شاید یقین کرنے کے لیے کہ وہ بند آنکھوں سے بھی وہی دیکھ رہی ہے جو کھلی آنکھیں اسے دکھا رہی تھیں؟ لمحہ بھر کو وہ اس طرح کھڑی رہی تھی پھراپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’بند آنکھوں سے کیا دکھائی دیا؟ وہی نا جو کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے؟‘‘ ریان حق نے پوچھا تھا‘ ایلیاہ میر نے چند لمحوں تک سوچا پھرہاتھ کاپنج بنا کر اس کی سمت بڑھایا تھا‘ جسے ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا تھا‘اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت میں آگیا تھا۔ ایلیاہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی پھرمسکرادی تھی‘ اس کے چہرے کو بغور تکتے ہوئے ریان حق بھی مسکرادیا۔
’’تمہاری مسکراہٹ بہت بھلی ہے‘ میںنے اس سے زیادہ خوب صورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ تم کچھ نہ بھی کہو مگر میں جان سکتا ہوں تم خوش ہو اور میں تمام عمر اس مسکراہٹ کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘ وہ یک دم پریشان ہوئی۔
’’اس سفر میں اب تم تنہا نہیں ہو‘ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب بھی تم ایک قدم اٹھائوگی‘ تم دوسرا قدم میرا اپنے ہمراہ پائو گی‘ ہم مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ تمنا کی شادی بھی ہوگی اور جامی‘ ثناء کی پڑھائی بھی‘ اب خوش؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔ اب تعرض کی کیا وجہ نکلتی تھی؟ کوئی جواز نہیں بچا تھا انکار کرنے کا‘ سو اس نے اثبات میں سر ہلادیا تھا۔
ریان حق نے اس کے سر کے ساتھ اپنے سر کو جوڑا تھا تو وہ دھیمے سے مسکرادی تھی‘ آسمان پر بادلوں میں چھپا چاند ان دونوں کو دیکھ کر بادلوں کے سنگ آگے بہنے لگا تھا۔
[DOUBLEPOST=1348380178][/DOUBLEPOST]
چراغِ جاں… سفینہ یاسمین
شام کے سائے اپنے پَر پھیلا چکے تھے اور دور افق پر سورج کسی سنہری تھال کی مانند نظر آرہا تھا‘ جس کے اردگرد سنہری اور نارنجی رنگوں کا ایک انوکھا امتزاج تھا‘ اس نے اس خوب صورت منظر سے نظریں ہٹا کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا جہاں پرندوں کا ایک غول پرواز کرتا ہوا نظر آیا جو یقینا اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ رزق کی تلاش میں صبح دم نکلنے والے یہ پرندے سارے دن کی مشقت کے بعد اب سکون اور آرام کی خاطر اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے۔ بڑے مطمئن‘ بڑے اتفاق اور بڑی ہی محبت کے ساتھ۔ اس کی نظروں نے بہت دور تک ان پرندوں کا تعاقب کیا تھا۔
اسے اپنے گرد کرب و اضطراب کا حصار مزید تنگ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔اس کے چہرے پر پھیلی اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور آنکھوں کی ویرانی مزید بڑھ گئی‘ اس نے پرندوں کے اس غول کو آسمان پر کھوجا لیکن کوشش کے باوجود وہ اسے دور دور تک نظر نہیں آئے۔ اچانک اس کی نگاہوں کی زد میں ایک پرندہ آگیا۔ بالکل ویسا ہی پرندہ جیسے پرندے ابھی ابھی غول کی شکل میں وہاں سے گزرے تھے۔ وہ اکیلا ان کے تعاقب میں اڑتا چلا جارہا تھا۔ وہ شاید اپنے غول سے بچھڑ گیا تھا یا پھر وہ خود ہی اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے‘ اسے تنہا کرگئے تھے۔ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار ایک سسکی سی نکل گئی‘ گویا سانس لینا دشوار ہوگیا تھا‘ اس سے پرندے کا اکیلا پن اور اداسی دیکھی نہیں گئی۔ اس نے دوبارہ سے ابھرتی ہوئی سسکی کو دبانے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ منہ پر رکھا تو رخسار کو چھوتی ہوئی اس کی انگلیاں گیلی ہوگئیں۔ وہ رو رہی تھی بالکل بے آواز‘ لیکن آنکھوں سے بہتے ہوئے اس نمکین پانی پر وہ بند نہیں باندھ سکتی تھی‘ جو بہت تیزی سے اس کے رخساروں کو بھگو رہا تھا۔ اس کی پشت کی جانب کھڑا کوئی کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی ہر ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔ جب وہ جی بھر کے رو چکی تب وہ آہستگی سے بنا کوئی آواز پیدا کیے دھیمی چال چلتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اپنے دونوں بازو اس کی گردن میں حمائل کردیے۔ اس نے چونک کر مڑنا چاہا مگر اس سے پہلے کہ نگاہوں کا تصادم ہوتا‘ وہ اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ چکا تھا۔ پھر وہ دھیرے سے بولا۔
’’آج کا سورج بھی ڈوب گیا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ایک اشک چھلکا اور نیچے گِر کر خاموشی سے کہیں غائب ہوگیا۔
’’مگر میری امیدوں کا سورج آج بھی نہیں ڈوبا ہے اور ڈوبنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ امید روح ہے اور روح کبھی نہیں مرتی‘ جسے روح مل جائے اسے زندگی مل جاتی ہے۔‘‘ بہت پُرسکون اور ٹھہرا ہوا انداز تھا اس کا۔
’’اور کب ملے گی یہ زندگی…؟‘‘ اس نے اس کے گلے سے اپنی بانہوں کا حصار توڑ دیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر سامنے دیکھا‘ جہاں اندھیرے کی چادر دھیرے دھیرے پھیلتی جارہی تھی‘ قریبی مسجد سے اذانِ مغرب بلند ہونے لگی۔
’’ہر ایک کو زندگی ایک بار ضرور ملتی ہے چراغِ جاں بجھنے سے پہلے زندگی ایک بار مجھے بھی ضرور ملے گی۔‘‘ اس کے انداز میں یقین ہی یقین تھا‘ جس کی خوش بُو سامنے کھڑے وجود نے بھی محسوس کی اور اس کے لب ہلے۔
’’ان شاء اللہ…!‘‘ اس کی آواز میں بھی یقین در آیا تھا۔
’’اذان ہورہی ہے چلو چل کرنماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اور پھر دونوں نے قدم آگے بڑھادیئے۔
…٭٭٭…
’’اس بار رمضان المبارک میں سحری میں بنائوں گی۔‘‘ شام کی چائے پیتے ہوئے ماہ رخ نے لہک کر کہا۔
’’بی بی! تم سحری میں اٹھ جائو یہی بڑی بات ہے‘ بنانا تو بڑی دورکی بات ہے۔‘‘ چائے کا خالی کپ درمیانی میز پہ رکھتے ہوئے علی عون نے اپنی رائے دی۔ جس پہ چائے کا گھونٹ لیتی ہوئی ماہ رخ نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’تم تو ہمیشہ مجھ سے جلتے ہو۔‘‘ماہ رخ نے غصیلے انداز میں کہا۔
’’جب کوئی اور جواب نہیں بن پڑتا تو یہی بات کہہ کر جان چھڑاتی ہو لڑاکا بلّی!‘‘
’’امی دیکھ رہی ہیں نا آپ اس کو؟‘‘ اس نے پاس بیٹھی ہوئی ثمینہ سے مدد طلب کی تو وہ علی عون کوسرزنش کرتے ہوئے بولیں۔
’’علی! بیٹا کیوں تنگ کرتے ہو بہن کو؟‘‘ ثمینہ نے اس کے مزاج کے مطابق بات کی تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔
’’امی! آپ ہمیشہ اسی کی حمایت لیتی ہیں‘ کبھی اسے بھی کہہ دیا کریں کہ ماہ رخ بیٹی! بھائی کو کیوں تنگ کرتی ہو۔‘‘ اس کے شکایتی اور روٹھے روٹھے انداز کو دیکھ کر ثمینہ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’ماہ رخ بیٹی! بھائی کو تنگ ہی نہیں کرتی تو کیوں کہیں ایسا؟ ہے نا امی!‘‘ وہ ثمینہ سے بھی تائید چاہتی تھی لیکن ذوالفقار احمد کو بریف کیس اٹھائے اندر آتا دیکھ کر بقیہ جملہ ضبط کرگئی۔
’’السّلام علیکم ابو…!‘‘ مشعل نے سلام کیا۔ ساتھ ہی آگے پیچھے ماہ رخ اور علی عون نے بھی ادب سے سلام کیا۔ ذوالفقار احمد سلام کا جواب دے کر صوفے پر بیٹھ گئے۔ مشعل ان کے لیے پانی لانے کے لیے اٹھنے لگی تو ماہ رخ اشارے سے اسے وہیں بیٹھے رہنے کا کہہ کر خود پانی لینے چلی گئی۔
’’چائے لائوں آپ کے لیے؟‘‘ ثمینہ نے استفسار کیا۔
’’نیکی اور پوچھ پوچھ؟‘‘ انہوں نے خوش مزاجی سے کہا اور ماہ رخ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے بچوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’کیا ہورہا ہے بھئی؟‘‘
’’ابو! آج ویک اینڈ تھا تو چائے کے ساتھ گپ شپ چل رہی تھی۔‘‘ ماہ رخ نے علی عون کے قریب بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا بھئی آپ لوگ بیٹھ کر گپ شپ کرو میں ذرا فریش ہولوں۔‘‘ پھر وہ بریف کیس اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
…٭٭٭…​
’’آیئے آپی! بیڈمنٹن کھیلیں۔‘‘ وہ کچن سے نکل کر باہر لان میں آئی تو علی عون دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا تھا اور جوش سے بولا تھا۔ ماہ رخ بھی ادھر ہی چلی آئی تھی۔
’’نہیں میرا موڈ نہیں ہورہا‘ تم کھیلو!‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تو ماہ رخ کندھے اچکا کر وہاں سے چلی گئی۔ علی عون بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
’’تمہیں آپی سے کھیلنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ علی عون نے سرگوشی سے کہا۔
’’ہاں واقعی! تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن میں نے سوچا تھا کہ سارا سارا دن اکیلی اور اداس رہتی ہیں‘ تھوڑا دل بہل جائے گا مگر میرا اندازہ غلط نکلا۔ وہ شاید مزید اداس ہوگئی ہیں۔‘‘
’’اچھا چھوڑو‘ وہ ہمیں ہی دیکھ رہی ہوں گی اور سوچ رہی ہوں گی کہ ہم آپس میں کیا کھسر پھسر کررہے ہیں۔‘‘ اس کی نگاہیں ان دونوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے ریکٹ والا ہاتھ اوپر ہَوا میں اٹھا کر ماہ رخ کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔
’’میں جیت گئی‘ یا ہُو! تم ہارگئے۔‘‘
’’آج ہی تو جیتی ہو۔‘‘ علی عون نے کہا۔
’’جیتی تو ہوں نا! تم نے تو پیش گوئی کررکھی تھی کہ میں تم سے کبھی جیت ہی نہیں سکتی۔یاہُو… ہُرے… میں جیت گئی‘ میں جیت گئی…‘‘ یاد کا اک روزن کُھلا تھا اور اس کی نگاہوں کے سامنے دھواں سا پھیلنے لگا۔
’’تم آج پھر جیت گئیں۔‘‘ ریحان نے ریکٹ گھاس پر رکھ دیا اور خود بھی گھاس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’اور تم آج پھر ہار گئے۔‘‘ وہ بھی گھاس پر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے بولی۔
’’ہاں بھئی! میں آج پھر ہارگیا‘ کبھی تم بھی تو ہارکے دیکھو تاکہ تمہیں بھی پتا چلے کہ ہار کیسی ہوتی ہے۔‘‘
’’کبھی بھی نہیں‘ خاص طور پر تم سے ہارنا تو میں برداشت ہی نہیں کرسکتی‘ کیونکہ اگر میں ہار گئی تو پھر مجھے پکوڑے بنانے پڑیں گے اور آئس کریم کھانے کی بجائے پکوڑے بنانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔‘‘
ایک مرتبہ وہ اپنی دوست دیبا سے فون پر بات کررہی تھی اور اسے بتارہی تھی کہ پکوڑے بنانا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے تب دادا ابو کے کمرے سے نکلتے ہوئے ریحان نے سن لیا تھا اور تب سے وہ جب بھی شرط لگاتاپکوڑے بنانے پر ہی لگاتا تھا لیکن مشعل اسے اس بات کا فائدہ اٹھانے کا موقع شاذو نادر ہی دیا کرتی تھی۔ ہارنے اور پکوڑنے بنانے کے ڈر سے وہ ڈٹ کر کھیلا کرتی تھی اور اکثر جیت جایا کرتی تھی‘ آج بھی وہ جیت گئی تھی۔
’’مشعل… مشعل…‘‘ وہ چونک گئی‘ جب ماہ رخ نے اسے پکارنے کے ساتھ اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو ماہ رخ نے کارڈلیس اسے تھماتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا فون ہے۔‘‘ وہ اسے فون تھما کر چلی گئی۔
اسے پتا تک نہیں چلا تھا کہ دونوں کب گیم ختم کرکے اندر چلے گئے تھے۔ فون کان سے لگا کر مشعل نے ’’ہیلو‘‘ کہا تو جواباً دیبا کی چہکتی ہوئی آواز کانوں میں آئی۔
’’کیسی ہو یار…؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟کب آئی ہو سعودیہ سے اور تمہارے میاں کیسے ہیں؟ اور وہ تمہارے دونوں شرارتی بچے کیسے ہیں؟ احمر تو کافی بڑا ہوگیا ہوگا؟‘‘ اس نے ایک ساتھ سوالات کی بھرمار کردی۔
’’میرے میاں اُتاولے ہورہے تھے اپنے اماں ابا سے ملنے کے لیے‘ ان کا بس چلتا تو ائرپورٹ سے سیدھے روہڑی چلے جاتے مگر میں نے کہا کہ خالد صاحب‘ میرے اماں ابا کا گھر یہیں ہے ذرا دن ٹھہر کر ہی روہڑی چلیں گے۔‘‘
’’تو پھر وہ مان گئے؟‘‘ وہ لحظہ بھر کو رکی تو مشعل نے پوچھا۔
’’مانتے کیسے نہیں‘ رہنا تو میرے ساتھ ہے نا!‘‘ دیبا نے چہک کر کہا۔
’’ہاں بھئی‘ ان کو تو تمہارے ساتھ بناکر رکھنا پڑے گی اور سنائو‘ میرے گھر کب آرہی ہو؟‘‘
’’کل آرہی ہوں‘ شمع کیسی ہے؟‘‘ دیبا نے بتانے کے ساتھ ہی اپنی دوسری دوست کے بارے میں پوچھا۔
’’اچھی ہوگی‘ میرا اس سے رابطہ نہیں ہے۔‘‘ مشعل نے بتایا تو دیبا نے تقریبا چیختے ہوئے پوچھا۔
’’کیا! ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے تمہارا اس سے کوئی رابطہ نہیں؟ ‘‘
شادی ہوگئی اس کی؟‘‘ اس نے ایک لمبی سانس بھر کر بتایا تو ایک پل کے لیے دیبا کو چپ سی لگ گئی۔
’’یار! ریحان کیا گئے تم نے تو دنیا ہی سے ناتا توڑ لیا۔‘‘ دیبا نے بے اختیار کہا تو دونوں کے درمیان روح کو گھائل کرتی ہوئی کربناک سی خاموشی چھاگئی۔ مشعل سسک اٹھی۔ اگر اگلے ہی پل اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے دیبا اس خاموشی کو توڑ نہ ڈالتی۔ ’’یار! پتا ہے شمع نے شادی کے دوسرے سال ہی تین بچوں کو بہ یک وقت جنم دیا تھا۔ ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو‘ میں نے مبارک باد دیتے ہوئے اس کے خوب لتے لیے تھے کہ یار یہ کیا… صرف تین! کم از کم چوکا یا چھکا تو لگالیتیں۔‘‘ مشعل بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’تُو نہیں سدھرے گی؟‘‘ اس نے اپنی گیلی آنکھوں کو خشک کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا یار! کل ملاقات ہوگی‘ روہا جاگ گئی ہے اور رو رو کر اپنے جاگنے کی اطلاع دے رہی ہے۔ اچھا اوکے‘ اللہ حافظ! آنٹی کو میرا سلام کہنا۔‘‘
’’اللہ حافظ!‘‘ اسے بھی روہا کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں‘ اس نے بھی آنٹی کے لیے سلام کہہ کر فون بند کردیا۔
…٭٭٭…​
اگست کی پہلی دھوپ تھی اور آج کا موسم اسے بہت عجیب رنگ میں رنگا ہوا محسوس ہوا تھا۔ موسم خوش گوار تھا لیکن اسے ایک عجیب سی سوگواریت‘ بے نام سی اداسی اور تنہائی محسوس ہورہی تھی یا شاید اس کے اندر کا موسم ہی ایسا تھا۔ اس نے ہَوا کے زور سے اڑتے ہوئے دوپٹے کو انگلیوں کی مدد سے کھینچ کر اپنے کندھوں پر جمایا اور لان میں چلتے ہوئے بائونڈری وال کی جانب آگئی‘ بائونڈری وال میں موجودلکڑی کے چھوٹے سے دروازے کو کھول کر وہ اپنے لان سے افتخار احمد کے لان میں داخل ہوگئی۔ ویرانی اور تنہائی نے اسے خوش آمدید کہا تو اس کے اندر اداسی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ وہ لان میں لگے بیل‘ پودے اور پھولوں کو دیکھتی ہوئی دھیمی چال چلتی برآمدے کی طرف آگئی اور ماربل کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ اب لان اس کی نگاہوں کے سامنے تھے‘ جس میں ہرے بھرے انواع و اقسام کے پودے لگے ہوئے تھے اس نے ان پودوں پر نظریں جمائیں مگر آنکھوں کے سامنے بار بار ثمینہ کا مرجھایا ہوا چہرہ اور نم آنکھیں آتیں تو اس کا دل بھر آتا۔ آج وہ کتنی حسرت سے دیبا اور اس کے دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔
دیبا اور اس کے بچوں پر نگاہ پڑتے ہی ان کے چہرے پر اداسی در ائی تھی لیکن انہوں نے خوش دلی سے اسے ویلکم کیا تھا اور اس کے بچوں کو پیار بھی کیا تھا مگر مشعل کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ ان کے شکستہ وجود کا سامنا کرلیتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دیبا کو گیٹ تک چھوڑنے کے بعد اندر جانے کی بجائے ادھر چلی آئی تھی۔ ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد اس نے گردن گھما کر اپنے دائیں جانب دیکھا تو چمکتے ہوئے سفید ماربل کو دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جیسے وہ جگہ اس کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہو‘ اس کے ساتھ اس کی زندگی کی کوئی حسین یاد جڑی ہو‘ ایک لمحہ تھا جو ٹھہر گیا تھا اور سفید رنگ کے اس ماربل سے جیسے چپک کر رہ گیا تھا۔
آج سے چار سال پہلے جب تیز بارش ہورہی تھی‘ اس نے برستی بارش میں روتے ہوئے اسی جگہ سے ایک ادھ کھلا سرخ گلاب اٹھایا تھا مگر آج بارش تھی نہ اس جگہ پر کوئی ادھ کھلا سرخ گلاب…! مگر اس دن کی طرح وہ آج بھی رو رہی تھی اور اس کے آنسوئوں نے جل تھل مچادیا تھا کیونکہ وہ تو آج بھی خوابوں کے اسی سفر میں تھی۔
تم تنہا ہو
میں تنہا ہوں
چلو خواب نگر میں چلتے ہیں
جہاں پیار کی بارش ہوتی ہے
اور سکھ کے دیپ جلتے ہیں
جہاں پتھر میں بھی پھول کھلیں
اور سرد ہَوائیں گرم لگیں
چھم چھم کرکے خوشیاں برسیں
بن بادل برسات ہو جیسے
تجھے چُھونے کا احساس ہو جیسے
جب دن کے نظارے سوجائیں
پھر چاند سے باتیں ہوجائیں
ہم خواب میں خواب ہی ہوجائیں
الفاظ ہَوا میں کھو جائیں
تم ساتھ چلو تو چلتے ہیں
ہم خواب نگر میں چلتے ہیں
…٭٭٭…​
’’مشعل! یار یہ آخری بال ہے اور ہمیں جیتنے کے لیے صرف چھ رنز چاہئیں‘ تم چھکا لگانا۔‘‘ ماہ رخ نے پچ پہ بیٹ سنبھالے کھڑی مشعل سے کہا۔
’’ہاں ہاں بس تم دیکھتی جائو‘ چھکا ہی لگائوں گی اور ہم ہی جیتیں گے۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ ماہ رخ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ علی عون فیلڈنگ پہ کھڑا تھا اور ریحان بولنگ کرارہاتھا۔ اس نے لمبا اسٹارٹ لیا اور بھاگ کر آتے ہوئے بال مشعل کی جانب پھینکی۔ مشعل نے پوری قوت سے بیٹ گھمایا اور بال اوپر کی جانب اڑتی ہوئی دوسری منزل کی نبیلہ چچی کی کھڑکی کا شیشہ توڑتے ہوئے اندر چلی گئی۔ مشعل نے یہ منظر دیکھا تو فوراً زبان دانتوں تلے دبالی۔ ماہ رخ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور علی عون کی تو سٹّی گم ہوچکی تھی۔ ایک ریحان تھا جس کے حواس قائم تھے‘ اس نے بھاگ کر بیٹ مشعل کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مشعل وہاں سے ہٹ کر وکٹ کے پیچھے جاکھڑی ہوئی۔ نبیلہ بڑے جارحانہ تیوروں کے ساتھ برآمدے میں سے برآمد ہوئی تھیں۔ ماتھے پر سلوٹیں اور آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے مگر ان شعلوں پر اس وقت اوس پڑگئی جب بیٹنگ پچ پر بیٹ ہاتھوں میں تھامے کھڑے اپنے لخت جگر ریحان پر نظر پڑگئی۔ اگر یہ بیٹ اس وقت مشعل کے ہاتھوں میں ہوتا تو یقینا اس کی خیر نہیں تھی۔ بیٹ چونکہ ان کے بیٹے کے ہاتھوں میں تھا لہٰذا وہ ان تینوں پر ایک ناگوار سی نگاہ ڈال کر واپس چلی گئیں۔
’’ہُرے…! ہم جیت گئے۔‘‘ ان کے اندر جاتے ہی مشعل کی زبان دانتوں تلے سے نکلی اور اس نے جوش سے نعرہ مارا۔ ماہ رخ نے ایک طویل سانس لی اور اس کے قریب چلی آئی۔
’’آج تو خیر نہیں تھی اگر ریحان بھائی نے بروقت تمہارے ہاتھ سے بیٹ نہ لیا ہوتا تو مارے گئے تھے آج!‘‘
’’اس سے تو اچھا تھا ہم بیڈ منٹن کھیلتے‘ اس سے کسی کا شیشہ تو نہیں ٹوٹتا نا! میں نے کہا بھی تھا کہ بیڈ منٹن کھیلتے ہیں مگر میری کسی نے نہیں سنی۔‘‘ علی عون جو اپنی گم ہونے والی سٹی ڈھونڈ کر ادھر


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
آنکلا تھا تیزی سے بولا۔ اسے نبیلہ کے غصے اور قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے لان میں ہی کھیلا کرتے تھے مگر دادا ابو کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ریحان کے لان میں کھیل رہے تھے۔
’’چھوڑو یار! ان بے کار باتوں کو‘ جب سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر ان سب باتوں کا فائدہ؟ شکریہ ادا کرو تم سب میرا‘ خصوصاً تم…‘‘ اس نے مشعل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ ادا کروں… میں…؟ تمہارا…؟ وہ کیوں… کون سا میں نے کہا تھا کہ آکر مجھ سے بیٹ چھینو اور اپنی امی کی آنکھوں میں دھول جھونکو۔‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری! ابھی بلاتا ہوں امی کو پتا لگ جائے گا۔‘‘ اس نے اسے دھمکایا اور ساتھ ہی نبیلہ کو پکارا۔
’’امی…آہ ہاہا آہ!‘‘ اس کے منہ سے لا یعنی سی آواز برآمد ہوئی‘ اس نے بیٹ نیچے گھاس پر پھینک دیا اور خود ایک پائوں اوپر اٹھاکے گول گول چکر کاٹنے لگا۔
’’بڑی خراب ہو سچی تم۔‘‘ اس نے کہا تو مشعل نے شانے اچکادیے۔ مشعل نے اس کے منہ سے امی سنتے ہی زور سے اپنا پائوں اس کے پائوں پر دے مارا تھا‘ جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ نبیلہ کو پکارنے کی بجائے مسلسل کراہ رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نبیلہ دوبارہ نمودار ہوئی تھیں‘ انہوں نے شاید ریحان کی پکار سن لی تھی۔ ریحان نے گول گول چکر کاٹنا چھوڑ کر یک دم پائوں زمین پر رکھ دیا اور پھر ہشاش بشاش انداز میں بولا۔
’’کچھ نہیں امی!‘‘ مشعل کو اس پر ترس کم اور ہنسی زیادہ آرہی تھی اور اس کی یہ ہنسی نبیلہ کو زہر لگی تھی اور وہ اسے گھورتے ہوئے واپس چلی گئیں۔ اس نے ریحان کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کتنے ڈرپوک ہو تم۔‘‘
’’ہر شریف بندہ ڈرپوک ہوتا ہے۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’رٹی رٹائی مت بولو۔‘‘ مشعل نے اسے لتاڑا تو وہ سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔
مشعل بھی کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہی پھر کچھ توقف کے بعد بولی۔
’’تھینکس!‘‘
’’مگر کس لیے؟‘‘ وہ واقعی نہیں سمجھا تھا۔
’’چچی کے عتاب سے بچانے کے لیے۔‘‘ اور وہ چپ کا چپ رہ گیا۔
’’چلو باہر پارک میں چلتے ہیں‘ کل سے رمضان المبارک شروع ہورہا ہے اور کل سے اس وقت گھومنے کی بجائے ہم روزہ کھلنے کا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’کہیں تم چچی کے ناشائستہ رویے کی تلافی تو نہیں کررہے؟ اگر ایسا کررہے ہو تو بہت غلط کررہے ہو۔‘‘
’’نہیں میں کوئی تلافی نہیں کررہا‘ بس میرا دل چاہ رہا ہے تمہارے ساتھ گول گپے کھانے کو۔‘‘ اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو مشعل پُرسکون ہوگئی۔ پھر دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر جانے لگے۔
’’نجانے کب اور کیسے اس بد روح کو میں اپنے ریحان سے دور کرپائوں گی؟‘‘ اوپر ٹیرس پر کھڑی نبیلہ نے ان دونوں کو گیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر سوچا۔ ’’اگر میرا بس چلے تو میں اپنے بیٹے پر اس کا سایہ بھی نہ پڑنے دوں۔‘‘
…٭٭٭…
افتخار احمد اور نبیلہ کی لَو میرج تھی‘ نبیلہ کا تعلق متمول گھرانے سے تھا اور افتخار کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے۔ وہ ان کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ دونوں کی پہلی ملاقات نبیلہ کے ڈیڈی کے آفس میں ہوئی تھی اور وہی پہلی ملاقات آئندہ کئی ملاقاتوں اور گہری دوستی کا باعث بن گئی اور یہ دوستی جب محبت میں تبدیل ہوگئی تو ایک دن نبیلہ نے افتخار احمد کو پروپوز کردیا۔ افتخار احمد نے جواباً اپنا رشتہ ان کے گھر بھجوایا جسے قبول کرلیا گیا۔ ان کے والد گلزار احمد رشتہ تو طے کرآئے تھے لیکن وہ دل سے اس رشتے پر راضی نہیں تھے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ خاصے ماڈرن قسم کے لوگ تھے اور دولت ہی ان کے لیے سب کچھ تھی اور دوسرا انہیں نبیلہ کا رویہ اور طور طریقے پسند نہیں آئے تھے۔ بات بات پر اپنی دولت کا تذکرہ اور نمائش… اور یہ بات انہیں سخت بُری لگتی تھی۔ انہوںنے قریب بیٹھی ہوئی اپنی بھانجی کی طرف دیکھا جو اُن کی بڑی بہو بھی تھی۔ سلجھی ہوئی اور مہذب! ثمینہ نے آتے ہی سارے گھر کو سنبھال لیا تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا۔
’’اس گھر کو دوسری فائزہ مل گئی ہے۔‘‘ جب کہ نبیلہ نے بہو بن کر آنے سے پہلے ہی الگ گھر کا مطالبہ کردیا تھا۔ افتخار نے الگ گھر بنانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی کہ وہ الگ گھر بنالیں لیکن اس گھر کے بالکل ساتھ‘ اپنے سسرال کے قریب نہیں۔ سو ساتھ والا گھر خرید لیا گیا اور دونوں گھروں کے درمیان میں موجود بائونڈری وال کا لکڑی کا دروازہ گلزار احمد نے بنوایا تھا تاکہ دونوں گھر وں کو آنے جانے میں آسانی رہے۔ جب نبیلہ نے اس دروازے کو دیکھا تو سیخ پا ہوگئیں مگر جب انہوںنے سنا کہ یہ دروازہ گلزار احمد نے بنوایا ہے تو ضبط کا گھونٹ بھر کر رہ گئیں۔ گلزار احمد نے اپنے چھوٹے بیٹے افتخار احمد کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔ نبیلہ نے جب خوب صورت بیٹے کو جنم دیا تو غرور و تکبر سے تنی ہوئی ان کی گردن مزید تن گئی۔ انہوں نے تمسخرانہ نظروں سے ثمینہ کی جانب دیکھا‘ جن کی شادی کو دوبرس کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ان کی گود ہنوز سونی تھی۔ انہیں ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہی ہوں۔
’’دیکھ لو سسر کی چہیتی بہو! اس خاندان کو پہلا وارث میں نے دیا ہے‘ تم تو آج بھی بنجر ہو۔‘‘ لیکن انہوں نے ان کی نگاہوں کو نظر انداز کرکے خوش دلی سے ننھے ریحان کو گود میں اٹھاتے ہوئے انہیں مبارک باد دی تھی۔ دونوں گھروں میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
’’بیگم صاحبہ نے ریحان کو واپس لینے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ گلزار احمد ریحان کو ثمینہ کے یہاں لے آئے تھے۔ ان کا کوئی دوست آگیا تو وہ اس سے ملنے چلے گئے اور وہ ایک سالہ ریحان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگیں۔ یہی وہ وقت تھا جب نبیلہ کی ملازمہ ان کے سر پر آکھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے اپنی گود سے اتار دیا تو وہ اسے اٹھا کر چلی گئی۔ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں‘ تبھی گلزار احمد چلے آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر انہیں صبر کی تلقین کی اور دعا دی‘ جس کے جواب میں انہوں نے آمین کہا تھا۔ جو جس کے نصیب میںہوتا ہے اسے مل کر رہتا ہے۔ ثمینہ اور ذوالفقار کے نصیب میں بھی اولاد تھی اور انہیں اپنا نصیب مشعل کی صورت میں مل گیا تھا۔ مشعل کے بعد ماہ رخ اور اس کے بعد علی عون نے آکر ان کی فیملی مکمل کردی تھی۔ اب انہیں کوئی غم نہیں تھا۔ وہ پروردگار کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کی تربیت میں مگن تھیں۔
…٭٭٭…​
مشعل دسویں کلاس کی طالبہ تھی جب گلزار احمد نے ایک دن ثمینہ سے مشعل اور ریحان کے نکاح کی بات کی تھی۔ تب انہوں نے جواباً کہا۔
’’آپ بڑے ہیں‘ بزرگ ہیں ہمارے۔ آپ کافیصلہ سر آنکھوں پر…‘‘
’’ذوالفقار احمد سے میں نے بات کرلی تھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے‘ سوچا تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے مشعل پر جتنا کہ ذوالفقار کا‘ اس لیے پوچھا ہے تم سے۔‘‘
’’آپ نے مجھے اس قابل سمجھا‘ اتنا مان دیا یہ آپ کا بڑا پن ہے۔ آپ کو اختیار حاصل ہے جس کے ساتھ چاہیں اس کا رشتہ طے کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے آپ اس کے لیے بہتر ہی سوچیں گے۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔ یہی بات جب انہوں نے افتخار سے کی تو انہوںنے بھی ایسا ہی جواب دیا تب انہوں نے کہا کہ نبیلہ کی بھی رائے جان لیں تاکہ ان دونوں کے نکاح کی رسم ادا کردی جائے مگر نبیلہ نے جب یہ سنا تو غصے سے پھٹ پڑیں۔
’’ میں اپنے بیٹے کا رشتہ ان فقیروں سے ہر گز نہیں کروں گی۔‘‘
’’میرا تعلق بھی ان ہی فقیروں سے تھا محترمہ نبیلہ صاحبہ!‘‘ افتخار احمد نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔ انہیں نبیلہ کے الفاظ برچھی کی طرح لگے تھے‘ جس کے نتیجے میں ان کا لہجہ اپنے آپ ہی غصیلا ہوگیا تھا۔ نبیلہ چپ کی چپ رہ گئیں۔ تب انہوں نے مزید کہا۔
’’میں تم سے پوچھنے نہیں‘ بتانے آیا ہوں کہ ابو نے ان دونوں کا رشتہ طے کردیا ہے۔‘‘
’’وہ کون ہوتے ہیں میرے بیٹے کا رشتہ طے کرنے والے…‘‘
’’نبیلہ!‘‘ وہ دہاڑ اٹھے اور زندگی میں پہلی بار انہیں اس طرح گرجتے ہوئے دیکھ کر نبیلہ سہم کر رہ گئیں۔
’’مم… میرا مطلب ہے کہ ابھی ریحان کی عمر ہی کیا ہے؟ وہ ابھی پڑھ رہا ہے اور… مشعل بھی تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک اور پہلو نکالا۔
’’جب بھائی اور بھابی کو اعتراض نہیں تو تم کیوں اعتراض کررہی ہو؟ ان کی بچی ہے وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ میں ابو سے ہاںکہہ چکا ہوں۔ تم سے پوچھیں تو تم بھی کہہ دینا کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایسا ہی کرنا پڑا۔ ریحان اور مشعل کی رسم نکاح میں تینوں باپ بیٹوں کو خوش و خرم دیکھ کر وہ جل بھن کر رہ گئیں۔ شاید انہوں نے پہلی بار افتخار کے سامنے مات کھائی تھی۔ افتخار ان کے آئیڈیل ضرور تھے لیکن وہ ان کے اس روپ سے کہاں واقف تھیں۔ حقیقت یہی تھی کہ افتخار ان کا آئیڈیل ہونے کے باوجود اپنے باپ کا فرماں بردار بیٹا بھی تھا۔
’’چھوڑو نبیلہ! تم بھی کن خوابوں میں رہتی ہو‘ جب ان دونوںکا نکاح ہوگیا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے رخصت ہوکر تمہارے گھر آنے سے نہیں روک سکتی۔‘‘ نبیلہ کی بہن شکیلہ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا۔
’’تم دیکھ لینا میرے جیتے جی وہ کبھی بھی میرے گھر میں نہیں آسکتی۔‘‘ نبیلہ نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔
’’وہ تمہیںمات پہ ماتے دیتے آئے ہیں۔ پہلے اپنے گھر کے قریب گھر خرید لیا اور اب تمہارے بیٹے پہ قبضہ جمالیا۔‘‘ شکیلہ نے جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے کہا۔
’’اتنی آسانی سے وہ میرے بیٹے پر قبضہ نہیں جماسکیں گے کیونکہ کچھ ہی عرصے کے بعد ہم یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے پھر بیٹھی رہے وہ ریحان کے نکاح میں‘ مجھے کیا؟‘‘
’’تم ایسا کرپائو گی؟ افتخار راضی ہوجائے گا فارن جانے کے لیے؟‘‘
’’اپنا الگ کاروبار تو افتخار کا شروع ہی سے خواب رہا ہے‘ پہلے اسے میری وجہ سے ہماری فیکٹری میں تیس فیصد پارٹنر شپ ملی اور اب اگر میں اسے یہ کہوں کہ ڈیڈی کینیڈا میں اپنے بزنس کی ایک برانچ کھول رہے ہیں اور وہ مکمل طور پر ہماری ہوگی تو وہ یقینا مان جائیں گے کیونکہ ان کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ میں نے ڈیڈی سے بات کرلی ہے اور وہ عنقریب خوش خبری سنائیں گے۔‘‘ وہ ایک فاتح کی طرح مسکرائی تھیں اور جوس کے گھونٹ لیتی ہوئی شکیلہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
’’ضرورت کیا ہے مشعل کو ساری عمر اس کے نام پر بٹھائے رکھنے کی؟ جاتے ہی طلاق کے پیپرز بھجوادینا تاکہ انہیں اپنی اوقات کا پتا چلے‘ ہونہہ! چلے ہیں اونچے خاندان سے رشتہ جوڑنے۔‘‘ شکیلہ نے تنفر آمیز انداز سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! میں چاہتی ہوں کہ انہیں اپنے کیے کی عبرت ناک سزا ملے۔‘‘ نبیلہ کے انداز میں نفرت ہی نفرت تھی۔
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ شکیلہ کو ان کی بات پسند آئی تھی۔
…٭٭٭…​
افتخار احمدلائونج میں بیٹھے ہوئے تھے جب نبیلہ ایک فائل ہاتھ میں تھامے ان کے پاس چلی آئیں اور فائل انہیںتھما کر ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ افتخار احمد نے فائل دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’کھول کر دیکھیے!‘‘ نبیلہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا پھر کینیڈا والی نئی برانچ کے سارے کاغذات اپنے نام دیکھ کر وہ حیران رہ گئے تھے اور انہوں نے نبیلہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جواباً نبیلہ ایک ادا سے مسکرائی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ڈیڈی کی بات مان کر انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ کاغذات بنتے وقت ڈیڈی نے مشورہ دیا تھا کہ ’’اگر وہ افتخار احمد کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں تو سارے کاغذات اس کے نام کروادیں تب وہ تمہارے خلاف جانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکے گا اور ساری عمر تمہارے احسانوں تلے دبا رہے گا۔‘‘
’’اور اگر سارا بزنس اپنے نام دیکھ کر اس نے منہ موڑنا شروع کردیا تو…؟‘‘ نبیلہ نے سوال اٹھایا۔
’’احسانوں تلے دب جانے والے لوگ اگر ایماندار بھی ہوں تو پھر وہ گردن کٹا تو دیتے ہیں گردن اٹھاتے نہیں۔ خطرہ ہمیشہ بے ایمانوں سے ہوتا ہے‘ افتخار جیسے لوگوں سے نہیں۔‘‘ اور اسے ڈیڈی کی یہ بات بہت پتے کی لگی تھی اور اب افتخار احمد کا انداز دیکھ کر بھی نبیلہ کے سارے خدشات جیسے منوں مٹی تلے جاسوئے تھے۔
’’تم نے اپنی ساری جائیداد میرے نام کردی؟‘‘ افتخار ابھی تک حیران تھے۔
’’میں اور آپ الگ تو نہیں‘ ڈیڈی جب کاغذات میرے نام بنوانے لگے تو میں نے کہا کہ آپ کاغذات افتخار کے نام بنوائیں‘ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ان کے ہوتے ہوئے کاغذات میرے نام بنیں۔‘‘ نبیلہ نے کمال بے نیازی سے سفید جھوٹ بولا اور افتخار احمد اپنی عظیم بیوی کی محبت پر اش اش کر اٹھے۔
’’تو کب جوائن کررہے ہیں اپنا نیا آفس؟‘‘ نبیلہ نے مسکرا کر ’’اپنا‘‘ پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ان شاء اللہ بہت جلد!‘‘ یہ افتخار احمد کا جواب تھا۔
…٭٭٭…​
پارک سے واپسی پر جب ریحان اسے اللہ حافظ کہہ کر واپس اپنے گھر جانے لگا تو مشعل نے کہا۔
’’تم بھی اندر آئو‘ دادا ابو سے ملتے جانا‘ وہ تمہارا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘ اور وہ گھر جانے کا ارادہ تبدیل کرکے اندر آگیا۔
’’کیسے ہو برخوردار! آخر بھول گئے نا اپنے دادا ابو کو؟‘‘ گلزار احمد اسے دیکھ کربولے۔
’’السّلام علیکم دادا ابو! آپ بھی کوئی بھولنے کی چیز ہیں۔ آپ میرے دادا ہی نہیں دوست اور محسن بھی ہیں۔‘‘
’’بس بس رہنے دو‘ زیادہ مکھن نہیں لگائو یار! پہلے بوڑھا تھا‘ اب تو بیمار بھی ہوں۔ اپنے باپ سے کہنا کہ اپنی بیوی کی طرح عید کا چاند نہ بنے اور آکر مل جائے مجھے۔‘‘ ان کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔
’’السّلام علیکم ابو!‘‘ افتخار احمد اندر داخل ہوتے ہوئے بولے تو گلزار احمد کے جھریوں زدہ چہرے پر رونق درآئی۔ ان کے اندر کی خوشی چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو آئو بیٹا! بڑی لمبی عمر ہے تمہاری۔ میں ابھی ریحان سے تمہارا ہی ذکر کررہا تھا۔‘‘ انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔ ریحان نے اپنی نشست ان کے لیے خالی کردی اور باہر نکل گیا۔
’’بیٹا! ایک بات کرنی تھی تم سے؟‘‘ گلزار احمد‘ افتخار احمد سے مخاطب ہوئے۔
’’حکم کریں ابو!‘‘ افتخار احمد بولے۔
’’بیٹا! میری خواہش ہے کہ اب مشعل کی رخصتی کردی جائے۔‘‘
’’مگر ابو اتنی جلدی کس بات کی ہے؟ ابھی تو ان دونوں کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔‘‘ افتخار احمد کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ بات چھیڑ دیں گے۔
’’بیٹا! آج نہیں تو کل پڑھائی تو پوری ہو ہی جائے گی مگر زندگی کا کیا بھروسا‘ آج ساتھ چھوڑ جائے یا کل؟ میں اپنے مطلب کے لیے خود غرض ہورہا ہوں لیکن دنیا سے جانے سے پہلے میں ان دونوں کو ایک ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیسی باتیں کررہے ہیں ابو! اللہ آپ کو لمبی عمر دے‘ ابھی تو آپ کو ریحان کے بچوں کو اپنی گود میںکھلانا ہے۔‘‘
’’مجھ جیسے بڈھے کو تسلی دینے کے لیے تو یہ باتیں ٹھیک ہیں مگر بیٹا! لگتا نہیں ہے کہ اب زیادہ عرصہ جی پائوں گا بس تم میرا یہ آخری کام کردو‘ یہ تمہارا مجھ پہ احسان ہوگا۔‘‘
’’پلیز ابو! یسا تو نہ کہیں۔ جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ اس عید کے بعد رخصتی کی کوئی بھی تاریخ رکھ لیتے ہیں‘ آپ بھیا اور بھابی سے بھی مشورہ کرلیں۔‘‘ افتخار احمد نے پل بھر میں فیصلہ کرلیا۔
’’ارے… ثمینہ بیٹا! تم نے موکل چھوڑ رکھے ہیں جو ادھر ہم نے بات مکمل کی اُدھر تمہیں پتا چل گیا۔‘‘ گلزار احمد نے پُرتکلف چاٹ کے ساتھ ثمینہ کو آتے دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا کر رہ گئیں۔
’’ابو!یہ مٹھائی تو افتخار بھائی لے کر آئے ہیں‘ کینیڈا میں اپنا نیا بزنس اسٹارٹ کرنے کی خوشی میں۔‘‘ ثمینہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔
’’اچھا! یہ تو خوشی کی خبر ہے۔ افتخار میاں تم نے بتایا ہی نہیں!‘‘ انہوں نے قریب بیٹھے افتخار سے پوچھا۔
’’جی ابو! یہی تو بتانے کے لیے حاضر ہوا تھا۔‘‘ افتخار احمد نے جواب دیا۔
’’بہت بہت مبارک ہو بھئی! سُن کر بہت خوشی ہوئی‘ کب جارہے ہو؟‘‘
’’عید کے بعد…!‘‘
’’صرف تم جائو گے یا بہو بھی ساتھ جائے گی؟‘‘
’’ان شاء اللہ ابو ! سب جائیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘
’’تو چلیے اسی اچھی بات پر منہ میٹھا کیجیے ابو!‘‘ ثمینہ نے مٹھائی کی پلیٹ اٹھا کر ان کے سامنے کردی۔
…٭٭٭…​
نبیلہ نے بہت کوشش کی تھی کہ ان کے کینیڈا جانے تک کسی طرح یہ رخصتی ٹل جائے لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ آخر وہی ہوگیا تھا جس کا انہیں ڈر تھا‘ ان کے لاکھ بہانوں کے باوجود عید کے تیسرے دن تاریخ طے کردی گئی تھی اور وہ سوائے بڑبڑانے کے اور کچھ نہیں کرسکتی تھیں۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’بلیک میلر ہے بڈھا! دیکھو کس طرح اپنی بیماری کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔‘‘ نبیلہ نے شکیلہ کے سامنے دل کے پھپولے پھوڑے ۔
’’تم بھی پرلے درجے کی بے وقوف ہو۔ جو کام کل سوچا تھا کرنے کے لیے‘ اسے کل ہی کرلیتیں تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی۔ ریحان کے نکاح کے فوراً بعد کینیڈا سیٹل ہوجاتیں اور بہانہ کردیتیں کہ ریحان کی پڑھائی اور افتخار کے بزنس کی وجہ سے وہاں سیٹل ہورہے ہیں تو ان کے منہ خود ہی سل جاتے اور آج وہ تمہارے محتاج ہوتے کہ تم کب انہیں رخصتی کی تاریخ دیتی ہو۔ اِدھر تم نے کینیڈا جانے کا سوچا ہے اُدھر انہوں نے رخصتی کی تاریخ طے کردی‘ اب بھگتو!‘‘ شکیلہ تو اس سے بھی زیادہ چڑی بیٹھی تھی اور چڑتی کیوں نہیں آخر اس نے اپنی بیٹی حنا کا رشتہ طے کرنے کا سوچاتھا ریحان سے اور شادی کینیڈا میں ہونا طے پائی تھی دونوں بہنوں میں اور یہ رشتہ حنا کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے طے کیا گیا تھا مگر اب اس کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ وہ تو یہ سوچ سوچ کرپریشان ہوگئی تھی کہ اب یہ شاکنگ نیوز حنا کو کیسے سنائے۔
’’اب مجھے کیا پتا تھا کہ وہ بڈھا اس طرح بیمار ہوجائے گا اور اس طرح چالاکی سے اپنی بیماری کا استعمال کرے گا۔ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو یہ کام میں پہلے ہی کردیتی۔ میں نے تو کہا بھی تھا کہ رخصتی ریحان کے ایم بی اے فنانس اور مشعل کی بی ایس سی کے بعد ہی کریں گے مگر ان مگر مچھوں نے تو وقت سے پہلے ہی مجھے ثابت نگل لیا۔ اب کیا کروں‘ کوئی راستہ بھی تو نہیں نکل رہا‘ اللہ کرے وہ بڈھا ہی مرجائے۔‘‘ تلخی سے بولتے بولتے نبیلہ نے آخر میں بددعا دی۔
’’ہاں اللہ کرے کہ وہ بڈھا ہی مرجائے تاکہ یہ رخصتی ٹل جائے‘ اب تو یہی ایک آخری راستہ بچا ہے۔‘‘ شکیلہ نے نبیلہ کی بات کی تائید کی۔
’’اچھا میں اب چلتی ہوں کافی دیر ہوگئی۔‘‘ وہ شکیلہ کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آئیں۔ جب ان کی گاڑی باہر نکلی تو حنا کی گاڑی کے قریب سے گزری اور ان کی نگاہیں حنا کے وجود سے ٹکرائیں‘ گاڑی اس کا کوئی دوست ڈرائیو کررہا تھا۔ شکیلہ اپنی بیٹی کے تمام کرتوتوں سے واقف تھیںمگر چشم پوشی سے کام کرتی تھیں یوں بھی ان کی سوسائٹی میں اس قسم کی دوستیاں معیوب نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ سو شکیلہ کے لیے بھی یہ بات معیوب نہیں تھی۔
…٭٭٭…
’’چاند نظر آگیا…‘‘ ماہ رخ چیخ کر قریب کھڑی مشعل سے لپٹ گئی۔ ’’کل عید ہوگی‘‘ اس نے مزید کہا۔
’’آج کا چاند اور کل کی عید بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آپی! چاند بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ پاس ہی کھڑے علی عون نے کہا تو وہ دونوں بھی اسے مبارک باد دینے لگیں۔ وہ تینوں ہی نماز کے بعد چھت پر آگئے تھے۔
’’سب سے پہلے میں جاکر مبارک باد دوں گی دادا ابو کو ابو جان کو اور امی کو۔‘‘ ماہ رخ نیچے لپکی‘ علی عون اس کے پیچھے تھا۔ مشعل وہیں کھڑی ان دونوں کا جو ش دیکھ رہی تھی کہ اس نے ریحان کو اوپر آتے دیکھا۔
’’چاند رات بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ اس نے سفید گلاب کی ادھ کھلی کلی اس کی جانب بڑھائی جسے اس نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا۔
’’بہت بہت شکریہ‘ تمہیں بھی مبارک ہو۔‘‘
’’کبھی تم بھی بھولے سے ایک عدد پھول‘ چلو گلاب کا نہ سہی موتیے‘ چنبیلی کا ہی دے کر چاند مبارک کہہ دیا کرو۔ ہمیشہ یونہی مجھ سے پھول لے کر چاند رات مبارک کہہ دیتی ہو۔‘‘
’’میری تو باتوں ہی سے پھول جھڑتے ہیں پھر خالی خولی پھول دینے کا تردد کیوں کروں؟‘‘ اس نے سفید گلاب کے پھول پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ جواباً ریحان کا قہقہہ بے ساختہ تھا پھر وہ بولا۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے!!
تو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں!!
وہ سر جھکائے اسے سُن رہی تھی عین اسی وقت اس کی سماعت سے رونے کی آوازیں ٹکرائیں۔ اس نے سرعت سے گردن اٹھا کر ریحان کی طرف دیکھا‘ اس کی پریشان نگاہوںمیں سوال تھا گویا وہ اس سے پوچھ رہی ہو کہ کیا تم نے بھی کچھ سنایا یہ میرا وہم ہے؟ اس کی نگاہوں میں بھی ایسے ہی احساسات تھے پھر وہ ایک ساتھ نیچے کی جانب لپکے تھے۔ رونے کی آوازیں دادا ابو
کے کمرے سے بلند ہورہی تھیں ۔ وہ دونوں دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں کے ساتھ وہیں چلے آئے اور سب کو روتا دیکھ کر ساکت ہوگئے۔ دادا ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ یہ جان لیوا انکشاف ان کی سانسیں بے ربط کرگیا۔ اشک بے ساختہ ان دونوں کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ اتنی اچانک وہ ان سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی سوائے نبیلہ کے!
شاید اس کے منہ سے نکلی بددعا کسی قبولیت کے لمحے کی زد میں آگئی تھی۔
…٭٭٭…
’’کیا کررہی ہو مشعل!‘‘ ماہ رخ نے کچن کے دروازے میں سے جھانک کر چولہے کے پاس کھڑی مشعل سے پوچھا۔
’’پکوڑے بنارہی ہوں۔‘‘
’’ریحان بھائی کے لیے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’ہمیںبھی ملیں گے؟‘‘
’’ہاں کیوںنہیں‘ سب کے لیے بنارہی ہوں۔‘‘ ماہ رخ اندر آگئی اور اس نے پلیٹ میں سے ایک پکوڑا اٹھا کرمنہ میں رکھ لیا۔
’’تم پکوڑے بناتی کم کم ہو مگر بناتی اچھے ہو‘ تبھی تو ریحان بھائی تم سے ہمیشہ پکوڑوں پر ہی شرط لگاتے ہیں۔‘‘ماہ رخ نے تبصرہ کیا۔
’’تعریف کا شکریہ! یہ تم اندر لے جائو اور یہ میں ریحان کے لیے لے کر جارہی ہوں۔‘‘ پکوڑے اور چٹنی کی پیالی کی جانب اس نے اشارہ کرکے بتایا تو ماہ رخ کہے بنا نہ رہ سکی۔
’’ان کی طرف لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اِدھر تم لان میں قدم رکھو گی اُدھر وہ دروازے سے نمودار ہوں گے۔‘‘ اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ تھوڑے عرصہ پہلے ہی کی بات ہے وہ پکوڑے ٹرے میں سجائے اس کی طرف جارہی تھی کہ وہ سامنے دروازے سے نمودار ہوتا دکھائی دیا تھا وہ ان کی طرف جانے کا پروگرام ملتوی کرتے ہوئے بولی۔
’’میں ابھی تمہاری طرف ہی آرہی تھی۔‘‘
’’دیکھ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اِدھر تم نے یاد کیا اُدھر ہم حاضر!‘‘ وہ بھی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ہاں شیطان کو یاد کیا اور شیطان حاضر!‘‘ مشعل نے کہا تو اس کا منہ بن گیا۔
’’تم بھی نا! پل میں انسان کو عرش پر بٹھا دیتی ہو اور پل میں فرش پر پٹخ دیتی ہو۔‘‘ اس نے دہائی دینے والے انداز میں کہا تو وہ اس کا گلہ دور کرتے ہوئے بولی۔
’’چلو شیطان ہٹا کر فرشتہ لگا دیتے ہیں‘ اب خوش؟‘‘
’’ہاں! یہ ٹھیک ہے‘ جو میرے ساتھ بیٹھی ہے وہ خود شیطان سے کافی ملتی جلتی ہے۔‘‘ اس نے پکوڑا کھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ظاہر سی بات ہے اب فرشتے توشیطان سے دوستی کرنے سے رہے۔‘‘ وہ دوبدو بولی تو اس نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
’’شیطان نے پکوڑے تو بہت اچھے بنائے ہیں۔‘‘
’’شیطان خود کھارہا ہے تبھی اسے اتنے مزے کے لگ رہے ہیں۔‘‘ اس نے منہ پھلا کر کہا۔
وہ بیتے لمحوں کے سحر سے نکل کرباہر لان میں آگئی اور اس کی نگاہیں سامنے دروازے پر جم گئیں۔ وہ اکثر اس دروازے سے نمودار ہوتا تھا مگر نجانے کیوں اس کا دل گواہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ آج دروازے سے نمودار ہوگا۔ ایک ایک بڑھتے قدم کے ساتھ ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کی تکرار بڑھتی جارہی تھی۔ وہ دروازے پرپہنچ چکی تھی اور وہ نمودار نہیں ہوا تھا۔ اس کا دل ڈوب سا گیا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے برآمدے کی جانب آگئی۔لائونج میں کھلنے والا داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ ٹرے پر اس کی گرفت غیر ارادی طور پر مضبوط ہوگئی۔ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نے ٹرے ایک ہاتھ میں کی اور پھر دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا اور کھولنے کے لیے گھمایا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ اس نے ناب کو دوبارہ گھمایا لیکن دروازہ ٹس سے مس نہیں ہوا‘ اس کا ہاتھ کانپنے لگا تھا اور دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
اس نے تیسری مرتبہ ناب گھمائی کہ شاید کھل جائے پھر وہ چوتھی بار بھی گھماتی اگر گھر کے مالی کی آواز اس کے کانوں سے نہ ٹکراتی۔
’’یہ دروازہ بند ہے بی بی! یہاں پر کوئی بھی نہیں ہے‘ وہ سب چلے گئے ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے کینیڈا! میں بھی جا ہی رہا تھا آپ کو دروازے سے الجھتے دیکھا تو رک گیا۔ خداحافظ بی بی جی!‘‘ وہ اس کے سر پر بم پھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
اور وہ تو جیسے پاتال میں جاگِری تھی۔ اسے اپنے گرد گہرے اندھیرے پھیلتے محسوس ہورہے تھے۔ ٹرے اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین بوس ہوچکی تھی اور وہ خود بھی نیچے گِرنے والے انداز میں بیٹھتی چلی گئی۔
’’ریحان مجھے چھوڑ کر چلا گیا وہ بھی کچھ بتائے بغیر؟‘‘ سوچتے ہوئے اس کی گیلی نگاہوں کی زد میں سب سے اوپر والی سفید سیڑھی پہ دھرا ادھ کھلا گلاب آگیا۔ وہ اس کی برتھ ڈے پر ہمیشہ سرخ گلاب دیا کرتا تھا اور آج جاتے ہوئے وہ یہ پھول شاید اس کے لیے رکھ گیا تھا۔ اس نے بے جان ہاتھوں کو آگے بڑھا کر وہ پھول اٹھالیا‘ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے جل تھل مچادیا تھا اور اس کی آنکھوں نے بھی جل تھل مچادیا تھا تب بھی وہ بے تحاشا روئی تھی اور آج چار سال بعد بھی وہ بے تحاشا رو رہی تھی۔
وہ کیا عجیب شخص تھا کہ جس کی ذات پر
جب اعتبار بڑھ گیا تو اختیار نہ رہا!
چار سال پہلے بھی وہ ریحان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلا گیا اور آج چار سال بعد بھی وہ اس سے یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے محبتوں کے بندھن میںباندھ کر کیوں منجدھار میں چھوڑ کر چلا گیا… کیوں؟ وہ یہ سارے سوال وقتاً فوقتاً خود سے کرتی مگر اپنی سالگرہ کے دن وہ یہ سوال خود سے نہیں کرتی تھی کیونکہ اس دن وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ وہ سارا سارا دن گیٹ پر نگاہیں جمائے بیٹھے رہتی کہ کب بیل بجے وہ بھاگ کر گیٹ پر جائے اور کینیڈا سے بھیجا گیا ادھ کھلا سرخ گلاب وصول کرے۔ سارے سال کے انتظار کا پھل اسے ایک پل میں حاصل ہوجاتا تھا‘ وہ خوش ہوکر خود سے کہتی ’’بس اس نے مجھے بُھلایا نہیں ہے‘ میں اسے یاد ہوں‘ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتا ہے تبھی تو اسے میرا جنم دن یاد ہے۔‘‘ وہ پھر سے جی اٹھتی تھی اور وہ جیتی رہتی تھی تب تک جب تک اسے اپنی سالگرہ پر پھول ملتا رہا تھا اور یہ پھول اس کے جانے کے تین سال تک اسے ملتا رہا تھا۔ چوتھے سال اسے وہ پھول نہیں ملا تھا اس کی شادی کا کارڈ ملا تھا جو بڑے اہتمام سے اس کے لیے کینیڈا سے بھیجا گیا تھا۔ اس کی شادی حنا سے ہورہی تھی اور وہ اس دن دوبارہ مرگئی تھی۔
…٭٭٭…​
’’آخر کب تک ہماری بیٹی اس کے نام پر بیٹھی رہے گی؟ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گانا۔‘‘ ثمینہ نے سونے سے پہلے لیٹے ہوئے ذوالفقار سے کہا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ہاں اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا‘ افتخار بھی یہاں سے جاتے ہی ہمیں بھول گیا۔ میں کئی مرتبہ اس سے بات کرچکا ہوں مگر اس نے ہر بار یہی کہا کہ وہ جلد ہی کوئی جواب دے گا مگر اس جلدی کو تین سال بیت گئے۔ اس نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کروادی اور ہماری بیٹی کو آج تک سولی پر چڑھا رکھا ہے۔ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے‘ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آپ آخری بار افتخار بھائی سے فیصلہ کن بات کرکے دیکھیں‘ اس کے بعد ہی کوئی انتہائی قدم اٹھائیے گا۔ آپ ان سے دو ٹوک بات کریں رخصتی کی تاریخ دیں یا پھر…‘‘ وہ پل بھر کو تھمی تھیں۔ ’’یا پھر… مشعل کو طلاق بھجوادیں۔ اگر اس مسئلے میں بھی وہ اسی چلن سے کام لیں تو کورٹ میں خلع کا کیس دائر کروادیں‘ آپ ان سے بالکل نپے تلے انداز میں باتیں کریں‘ بہت ہوگیا یہ چوہے بلی کا کھیل… ہماری بچی بھی انسان ہے کوئی بے جان گڑیا نہیں۔ آخر کب تک ہم اس پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں؟‘‘ ثمینہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا اب ان سے فیصلہ کن بات کرنی ہی پڑے گی۔‘‘ مشعل کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا دوبھر ہوگیا تھا۔ وہ ان کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ ان کی گفتگو سُن کر اس کے قدم تھم گئے تھے۔
آتا ہی نہیں دل میں رہائی کا تصور
دلچسپ بہت جرم محبت کی سزا ہے
اس نے ریحان سے خلع لینے کا سوچنا تو کیا کبھی تصور تک نہیں کیا تھا‘ یہ سننا بھی اس کے لیے سوہان روح تھا۔ وہ مردہ جسم اور بے جان پیروں کے ساتھ اپنے کمرے میں آگئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ وہ اس سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھی نہ اس سے طلاق لینا چاہتی تھی نہ خلع لیکن وہ اپنے والدین کو یہ قدم اٹھانے سے منع نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے پہلی بار خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا‘ پہلی بار اسے سارے راستے بند محسوس ہوئے۔ اسے اپنے چاروں طرف اندھیرے چھاتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
’’یااللہ! تُو غفور الرحیم ہے‘ تُو ہی بخشنے والا ہے‘ تُو مجھے بخش دے‘ اپنے پیارے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مجھ پر اپنا کرم کر‘ تُو ہی مجھے اس امتحان سے نکالنے والا ہے۔ تُو

ہی بند راستے کھولنے والا ہے‘ تُو ہی اندھیروں کو روشنی دینے والا ہے۔ تُوہی مجھے ریحان سے ملاسکتا ہے‘ میرے اللہ مجھے ریحان سے ملادے‘ میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں‘ میں اس سے جدا ہوکے اب مزید نہیں جی سکتی۔ میرے اللہ مجھے اس کے نام سے الگ مت کرنا‘ میرے اللہ مجھے اس سے جدا مت کرنا‘ مجھے اس سے ملادے۔ میرے اللہ مجھے اس سے ملادے۔‘‘ وہ روتے روتے سجدے میں چلی گئی تھی اور سجدے میں بھی اللہ تعالیٰ سے اسے ہی مانگ رہی تھی۔
کچھ رات کی آنکھیں بھیگی تھیں
اور چاند بھی روٹھا روٹھا تھا
کچھ یادیں اس کی باقی تھیں
اور دل بھی ٹوٹا ٹوٹا تھا
کس موڑ پہ بچھڑے یاد نہیں
ہونٹوں پہ کوئی فریاد نہیں
اس وعدے کی بھی خبر نہیں
وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا
ہر لمحہ آہیں بھرتے ہیں
نہ جیتے ہیں
نہ مرتے ہیں
بس ایک دعا یہ کرتے ہیں
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!
…٭٭٭…​
’’آپ کی بات ہوئی افتخار بھائی سے…؟‘‘ ثمینہ نے چند دنوں بعد پوچھا۔
’’بات تو ہوئی تھی مگر افتخار سے نہیں نبیلہ بھابی سے‘ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ریحان نہ تو مشعل کو طلاق دے گا اور نہ رخصت کروا کے اپنے ساتھ لے جائے گا جو کرنا ہے کرلو۔ بس یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔‘‘ ذوالفقار بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے پل بھر کے لیے تو ثمینہ کو چپ سی لگ گئی۔
’’تو پھر کیا سوچا ہے آپ نے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا تھا۔
’’سوچنا کیا تھا؟ میں نے انہیں کورٹ کا نوٹس بھجوادیا ہے۔ آج سارا دن اسی کام میں لگارہا انہوں نے میری صابر بچی کے صبر کو خوب آزمالیا مگر اب نہیں… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
کچن میں کھڑی پکوڑوں کا بیسن گھولتی ہوئی مشعل کی آنکھیں تیزی سے گیلی ہورہی تھیں۔ اس نے ماہ رخ سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا رخ موڑ لیا۔ ہال میں سے ثمینہ اور ذوالفقار کے بولنے کی آوازیں صاف آرہی تھیں اور اس نے ان کی گفتگو کو حرف بہ حرف سنا تھا۔
…٭٭٭…​
پاکستان سے آئی ہوئی رجسٹری ریحان نے خود وصول کی تھی۔ وہ کورٹ کی طرف سے بھیجا گیا خلع کا نوٹس تھا۔ وہ رجسٹری ہاتھ میں لیے اندر آگیا اور رجسٹری میز پر پھینک کر خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر نبیلہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔
’’کورٹ نوٹس!‘‘


 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
’’کورٹ نوٹس؟ مگر کیسا کورٹ نوٹس اور کس کے لیے آیا ہے یہ؟‘‘ نبیلہ نے پوچھتے ہوئے کاغذات اٹھالیے اور پڑھتے ہی ان کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔ ’’اوہو! تو مشعل نے خلع کے لیے کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔ ہاں بھئی ظاہر ہے اس آوارہ لڑکی سے کیا بعید… دے دیا ہوگا مشورہ کسی عاشق نے‘ جبھی تو کورٹ نوٹس بھجوایا ہے۔‘‘
’’امی پلیز! بہت ہوگیا…‘‘ ریحان پہلی بار نبیلہ کے سامنے حلق کے بل چلّایا تھا۔ نبیلہ دم ساکت رہ گئیں ریحان کے اس روپ کو دیکھ کر۔ اتنا طیش میں تو وہ تب بھی نہیں آیا جب انہوں نے مشعل کی توہین آمیز تصویریں اسے دکھائی تھیں۔ تصویریں دیکھنے کے بعد اس نے حنا سے شادی کے لیے ہاں کہہ دی تھی مگر آج تو وہ اس کا ایک نیا ہی روپ دیکھ رہی تھیں‘ جو انوکھا ہی نہیں حیران کن بھی تھا۔ وہ مشعل سے اس وقت سے محبت کرتا تھا جب اسے محبت کا مفہوم بھی نہیں معلوم تھا۔ اسے اس کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا اور دادا ابو کے بہانے وہ اس کے ساتھ وقت گزارتا بھی تھا۔ نبیلہ اسے وہاں جانے سے منع کرتیں یا ٹوکتیں تو وہ ان سے کہتا کہ وہ دادا ابو سے ملنے جارہا ہے تب نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسے اجازت دے دیتی تھیں۔ پھر وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے چلے گئے اور ان کی چاہتوں میں شدت آنے لگی تب پہلی بار دادا ابو نے اس سے ایک چونکا دینے والی بات کی تھی۔ وہ مشعل سے الجھنے کے بعد ہمیشہ کی طرح ان کے کمرے میں آیا تھا اس کی شکایت لے کر تب پہلی بار اس کی شکایت سننے کے بعد وہ کافی دیر تک اس کی صورت کو دیکھتے رہے تھے۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں دادا ابو!‘‘ اس نے دریافت کیا۔
’’دیکھ رہا ہوں کہ میرا پوتا کتنا بڑا ہوگیا ہے؟‘‘ انہوں نے مسکرا کر شرارت بھرے انداز میں کہا۔
’’دادا ابو! آپ کا پوتا بڑا نہیں بہت بڑا ہوگیا ہے‘ دیکھ لیں اس نے آپ سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے۔‘‘ جواباً گلزار احمد کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ ہنسے کس بات پر ہیں۔ وہ ٹکر ٹکر ان کی صورت دیکھ رہا تھا جب انہوںنے اس سے دریافت کیا تھا۔
’’مشعل سے بہت محبت کرتے ہو نا!‘‘ ان کے منہ سے یہ غیر متوقع بات سن کر وہ جھینپ سا گیا پھر قدرے حیرانی سے بولا۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘
’’بیٹا میں تمہارے باپ کا بھی باپ ہوں۔‘‘ اور وہ مزید جھینپ گیا۔ ’’کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ وہ جیسے خود سے بولے تھے۔
’’کیا مطلب دادا ابو؟‘‘
’’مطلب یہ میری جان کہ اب تم بہت بڑے ہوگئے ہو‘ اپنے دادا ابو سے بھی لمبا قد نکال لیا ہے لہٰذا اب تمہارا نکاح کروا دیا جائے مشعل بیٹی سے۔‘‘
’’سچ دادا ابو؟‘‘ وہ ان سے لپٹ گیا تو دادا ابو بے ساختہ ہنسنے لگے۔
’’سچ مچ! مگر یہ نکاح مشعل بیٹے کی رضا مندی کے بعد ہی طے ہوگا۔ اگر وہ راضی ہوئی تو پھر ایسے موقعوں پر وہی کہاوت ہوتی ہے کہ دلہا دلہن راضی تو کیا کرے گا قاضی! قاضی مطلب نبیلہ بی بی!‘‘
’’وہ تو انکار کر ہی نہیں سکتیں۔‘‘ اس کی زبان سے بے اختیار پھسلا تھااس نے زبان دانتوں تلے دبالی اور گلزار احمد نے اس کا کان پکڑلیا۔
’’کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے کہنا؟‘‘
’’آہ! دادا جی پلیز کان چھوڑیئے بہت درد ہورہا ہے۔‘‘
’’مجھ سے اداکاری؟‘‘ انہوں نے اس کے کان کو مزید مروڑا اور پھر اس کا کان چھوڑ دیا تو وہ ان کی جانب دیکھے بنا ہی بھاگ گیا۔ گلزار احمد تا دیر مسکراتے رہے تھے۔ انہوں نے مشعل کی رضامندی کے بعد ان کے والدین سے بات کی اور یہ رشتہ طے کردیا۔ ظاہر یہی کیا کہ یہ رشتہ ان کی اپنی مرضی اور خواہش پر طے ہوا ہے لیکن اندر کی بات ہے۔ یہ صرف ان تینوں کو ہی علم تھا۔
…٭٭٭…
اس دن جب نبیلہ اپنی بہن شکیلہ کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں وہ اچانک وہاں چلا گیا تھا اور پھر ان کی گفتگو سُن کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ دبے پائوں کسی سے ملے بغیر وہاں سے واپس آیا اور گلزار احمد کو سارا ماجرا سنایا‘ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولے۔
’’تم پریشان نہ ہو‘ تمہاری اماں کے جانے سے پہلے پہلے تمہاری رخصتی کروادیں گے۔‘‘ تب وہ پُرسکون ہوگیا تھا۔ گلزار احمد نے اپنے قول کے مطابق بیماری کی پروا نہ کرتے ہوئے رخصتی کی تاریخ طے کرادی تھی مگر موت نے انہیں اتنی مہلت ہی نہیں دی تھی کہ وہ اپنے جان سے پیارے بچوں کی خوشی دیکھ سکتے۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے اور ساتھ ہی ان کی زندگی بھی اجڑ


گئی۔ وہ ان کی مدد سے اٹوٹ بندھن میں تو بند گئے تھے مگر ایک نہیں ہوسکے تھے اور ایک ہونے کے لیے ہی وہ نبیلہ سے سمجھوتا کرکے اسے بنا بتائے ان کے ساتھ کینیڈا چلا آیا تھا‘ کہ آج نہ سہی تو کل شاید وہ اپنے بیٹے کی خوشیوں کی خاطر مشعل کو بہو کے روپ میں قبول کرلیں مگر اس کی خوش فہمی پر اس وقت پانی پڑگیا جب انہوں نے اسے حنا سے شادی کرنے کے لیے کہا۔ اس نے انہیں دوٹوک انداز میں منع کردیا تھا کہ وہ مشعل کی جگہ کسی اور کو دینے کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کا دوٹوک جواب نبیلہ کو اپنے منہ پر تمانچے کی طرح محسوس ہوا۔
’’کپڑوں کی طرح بوائے فرینڈ بدلتی ہے وہ… یہ دیکھو… یہ دیکھو… یہ … یہ… یہ میرا ہاتھ سوکھ گیا ہے ان تصویروں کو دیکھتے دکھاتے‘ لچھن دیکھو اس بے حیا لڑکی کے! میں اس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اسے اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی اور تم اسے بیوی بنا کر رکھنا چاہتے ہو؟ اس لڑکی سے شادی کرنے سے تو بہتر ہے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرو‘ جس کی تصویریں اتنی واہیات ہیں وہ خود کتنی گھٹیا ہوگی سوچو؟‘‘ نبیلہ بول رہی تھی اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ حد تو یہ تھی کہ نبیلہ نے یہ تصویریں افتخار کو بھی دکھادی تھیں اور پھر بنا کچھ کہے سنے وہ جانے کیسے راضی ہوگیا تھا۔
’’آپ جس سے کہیں گی میں اس سے شادی کے لیے تیار ہوں۔‘‘ پھر یہ کہنے کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اس کے وہاں سے جاتے ہی نبیلہ نے فاتحانہ انداز سے وہ تصویریں اٹھائیں اور جاکر جلا ڈالیں۔ اب وہ ان کے کسی کام کی نہیں تھیں مگر تصویریں جلانے سے پہلے انہوں نے شکیلہ کو فون کرکے مبارک باد دی تھی کہ ریحان حنا سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے‘ تم کل ہی کینیڈا آجائو تاکہ جلد از جلد ان دونوں کی شادی ہوجائے مگر شکیلہ نے انہیں چند مہینے ٹھہرنے کا کہا تھا۔
’’مگر کچھ دن پہلے تو تمہیں بڑی جلدی تھی اب کیا ہوگیا؟‘‘ نبیلہ کو کچھ دن ٹھہرنے والی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی مگر پھر بھی انہوں نے شکیلہ کی بات مان لی تھی اور اس بات کے ٹھیک سات مہینے بعد اس کی شادی ہورہی تھی۔ حنا اور شکیلہ کینیڈا آچکی تھیں اور ان کا قیام نبیلہ کے گھر پر ہی تھا۔ شادی سے کچھ دن پہلے اس کے والد کی آمد بھی متوقع تھی وہ اپنی شادی پر بہت خوش تھی اور اپنی شادی کی ساری شاپنگ ریحان کے ساتھ مل کر اس کی پسند سے کرنا چاہتی تھی۔ اس دن بھی وہ دونوں ایک ساتھ شاپنگ کرنے گئے تھے جب ریحان کی ملاقات اپنے ایک پاکستانی دوست سے ہوگئی۔ اس کے ساتھ اس کے دونوں جڑواں بچے اور بیگم بھی تھیں۔
’’یار! لگے ہاتھوں اپنی ہونے والی بیگم سے بھی ملوادو‘ شادی پر تو ہم تمہاری ویسے بھی نہیں آسکیں گے کیونکہ آج یہاں ہمارا آخری دن ہے اور کل ہمیں ہر حال میں پاکستان روانہ ہونا ہے۔‘‘ ناصر نے اسے پیشگی مبارک باد دینے کے بعدکہا۔ اس سے قبل کہ ریحان کچھ کہتا ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اٹھائے حنا وہاں چلی آئی جس کی نگاہوں کی زد میں صرف اور صرف ریحان تھا۔ اس نے سامنے کھڑے جوڑے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
’’چلیں ریحان!‘‘ وہ ریحان سے مخاطب ہوئی لیکن ریحان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بیگم ناصر بول اٹھیں۔
’’ارے حنا جی! آپ؟ کیسی ہیں آپ اور یہاں کیسے؟‘ ریحان کی کوئی رشتہ دار ہیں آپ؟‘‘
’’آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟‘‘ ریحان نے حنا کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر ان سے پوچھا۔
’’ارے یہ تو ہماری محسن ہیں‘ ان دونوں جڑواں بچوں کو ان ہی سے تو لیا تھا ہم نے۔‘‘ ریحان نے بے اختیار حنا کے چہرے کی جانب دیکھا لیکن وہ نگاہیں چرا گئی۔ ناصر کی بیگم کہہ رہی تھیں۔ ’’یہ میرے کلینک پر ابارشن کروانے آئی تھیں کیونکہ ان کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور یہ ان دونوں بچوں کو جنم نہیں دینا چاہتی تھیں لیکن تب ابارشن ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابارشن نہ کروائیں اور ان بچوں کوجنم دیں‘ سارا خرچہ ہم اٹھائیں گے۔ بڑا دل ہے ان کا جو انہوں نے دونوں بچے ہمارے حوالے کردیئے۔ بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر بھی ہمارے نام ہیں۔‘‘
’’اور آپ نے ان کی مالی امداد بھی کی ہوگی؟‘‘ ریحان نے دریافت کیا۔
’’جی بالکل! کیوں کہ یہ تو پہلے ہی بُرے حالات کا شکار تھیں۔‘‘ اس مرتبہ ناصر نے جواب دیا۔
’’بات پیسوں کی نہیں بات تو اس خوشی کی ہے جو انہوں نے ہمیں دی۔ یہ بچوں کی کفالت نہیں کرسکتی تھیں اور ہمیں بچوں کی ضرورت تھی بہرحال یہ ہیں عظیم عورت… آپ نے بتایا نہیں کہ آپ دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ بیگم ناصر نے دوبارہ پوچھا۔
’’ہم دونوں ایک دوسرے کے کزن ہیں۔‘‘ اس نے نامکمل تعارف کروایا۔ ’’مگر یہ بُرے حالات سے نکل آئی ہیں۔‘‘
’’ہاں! یہ تو لگ رہا ہے ان کے حلیے سے اور ان کی صحت سے۔‘‘ بیگم ناصر نے جواب دیا۔ ریحان نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا جسے وہ بڑے سلیقے سے ٹال گئے۔ انہوں نے ایک
بار پھر اس سے اس کی ہونے والی بیگم کے بارے میں دریافت کیا تو ریحان نے ٹال دیا۔ اس کے بعد وہ ان سے اجازت لے کر آگے بڑھ گیا۔ حنا نے بھی ایک تیکھی اور زہریلی نگاہ ان دونوں میاں بیوی پر ڈالی اور اس کے پیچھے چل دی۔
’’امی! میں یہ شادی نہیں کرسکتا۔‘‘ رات کو کھانے کی میز پر اس نے گویا دھماکا کیا تھا۔ شاپنگ سے واپسی کے بعد اب تک اسے خاموش دیکھ کر حنا کو حیرت ہورہی تھی مگر اب یہ حیرت دور ہوگئی تھی۔ اس نے آتے ہی شکیلہ کو سب کچھ بتادیا تھا اور شکیلہ کی سٹی گم ہوگئی تھی پھر انہوںنے اسے تسلی دے کر کہا تھا کہ ’’تم پریشان نہ ہو میں خود سب سنبھال لوں گی۔‘‘
’’مگر کیوں بیٹا! اس سے پہلے تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں تھا؟‘‘ نبیلہ نے حیرت بھرے انداز میں کہا۔ ’’میں نے تو شادی کے کارڈ بھی تقسیم کروادیئے۔‘‘
’’کیوںکہ آپ ایک بدکردار لڑکی کو بہو نہیں بناسکتیں۔ مشعل کو تو آپ پہلے ہی رد کرچکی تھیں تو پھر آپ حنا جیسی دو بچوں کی کنواری ماں کو کیسے اپنی بہو بناسکتی ہیں۔‘‘
’’بیٹا! یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ حنا ایسی لڑکی نہیں ہے۔ ‘‘ نبیلہ نے ان دونوں کو کھانا چھوڑ کر اندر جاتے دیکھا تو رو دینے والے لہجے میں ریحان سے کہا۔ افتخار بھی کھانا چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن رہے تھے۔
’’امی! آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ حنا کس قسم کی اور کیسی لڑکی ہے۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے اندازمیں اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔ افتخار اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلے گئے پھر اس نے نبیلہ کو اٹھ کر شکیلہ کے کمرے کی جانب جاتے دیکھا۔ صرف ریحان تھا جو میز پر بیٹھا بڑے سکون سے کھانا کھارہا تھا۔ بہت عرصے بعد اسے بھوک محسوس ہورہی تھی اور وہ ڈٹ کر کھانا چاہتا تھا۔ وہ دونوں اسی رات ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور اس وقت نبیلہ بیگم اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے انہیں گالیاں اور کوسنے دے رہے تھیں جب کہ وہ بیٹھا مسکرارہا تھا پھر اس نے کہا۔
’’امی! میں نے شادی کے لیے ہاں صرف اور صرف اس وجہ سے کی تھی کہ میرے انکار پر آپ نے اس کی تصویریں پندرہ لڑکوں کے ساتھ بنوالی تھیں اور اگر میں اس کے بعد بھی انکار کرتا تو آپ اس کی تصویریں اس سو ایک نئے چہروں کے ساتھ بنوالیتیں کیونکہ آپ کو پیسوں کی کمی تھی نہ ہی کسی کی عزت کی پروا… لیکن مجھے اس کی پروا تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے انکار کی سزا اسے ملے۔ صرف اس کی عزت کی خاطر میںنے حنا سے شادی کے لیے ہاں کی تھی‘ اس لیے نہیں کہ وہ بدکردار تھی‘ وہ میرے لیے کل بھی ایک مقدس دیوی تھی اور آج بھی اتنی ہی پاکیزہ ہے۔‘‘
…٭٭٭…​
ذوالفقار نماز پڑھنے کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے۔ ماہ رخ اورعلی عون ثمینہ کو لے کر اوپر ٹیرس پر عید کا چاند دیکھنے گئے تھے۔ ماہ رخ تو ثمینہ کی طرح مشعل کو بھی زبردستی اوپرلے جانے کے درپے تھی لیکن اس نے منع کردیا تھا اور باہر لان میں آگئی تھی۔ لان میں لگی ساری لائٹس آن تھیں‘ اس نے ایک سرد آہ کے ساتھ قریبی گھر کی طرف دیکھا جہاں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے عمارت پر سے نظریں ہٹالیں اور سر گھٹنوں پر ٹکالیا۔ کاش وہ مجھ سے تعلق ختم نہ کرتا۔ کاش وہ اس سال بھی میری سالگرہ پر سرخ گلاب بھیج دیتا۔ کاش وہ مجھ سے ملنے آجاتا‘ اسے بھی میری اتنی ہی یاد آتی جتنی مجھے۔ کاش وہ اس چاند پر یہاں ہوتا۔ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی زندگی ایک مسلسل اذیت بن کر رہ جائے گی۔ وہ گھٹنوں پر سرگرائے بے آواز رو رہی تھی۔
دل کے تاروں کو ذرا آکے ہلادے سجنا!
پیار کاگیت کوئی آکے سنادے سجنا!
شوق دیدار کا آنکھوں میں اُتر آیاہے
اپنی صورت مری آنکھوں کو دکھادے سجنا!
ایک شعلہ سا لپکتا ہے مرے دل میں مگر
عشق کی آگ کو کچھ اور ہَوا دے سجنا!
زخم رستے ہوئے فریاد یہی کرتے ہیں
درد بڑھ جائے نہ‘ زخموں کی دوا دے سجنا!
واسطہ گزرے ہوئے کل کا تجھے دیتا ہوں
آج کی ر ات مرے گھر کو سجادے سجنا!
تشنگی کہتی ہے اب پیاس بجھادے میری
لذتِ وصل سے دیوانہ بنادے سجنا!
چاند رات مبارک ہو… اس نے مانوس سی آواز پر سرعت سے گردن اٹھا کر دیکھا۔ وہ ہاتھ میں سفید پھول اٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے اس ڈر کی وجہ سے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا کہ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے لیکن وہ خواب نہیں تھا…! وہ اس سے ہم کلام تھا۔
’’تمہیں پورا حق ہے اس پھول کو نہ لینے کا‘ مجھ سے ناراض ہونے کا!‘‘ وہ اٹھ کر اس کے مقابل کھڑی ہوگئی‘ اس کے آنسوئوں میں مزید روانی آگئی تھی۔ ’’مجھے تمہیں بتائے بغیر نہیں جانا چاہیے تھا‘ مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دینے چاہیے تھے۔‘‘ اب وہ دوسرا ہاتھ اٹھا کر اس کے آنسو صاف کررہا تھا۔
’’تم نے اس بار میری سالگرہ پر پھول کیوں نہیں بھیجا؟‘‘ مشعل نے اس کے ہاتھ سے سفید پھول پکڑ لیا۔
’’مجھے پھول لے کر خود جو آنا تھا۔‘‘ اس نے اقرار کیا۔ ’’تمہیں چاند رات مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آج تو باتوں سے پھول جھڑنے کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہورہی ہے۔‘‘ اور وہ دونوں کھلکھلا اٹھے تبھی اوپر گیلری سے ماہ رخ نے نیچے جھانکا تو حیران رہ گئی۔
’’وہ دیکھو مارہ رخ! چاند نظر آگیا۔‘‘ علی عون خوشی سے چلّایا تھا۔
’’آج تو دو دو چاند نظر آرہے ہیں‘ ایک اوپر آسمان پر اور ایک نیچے دھرتی پر…!‘‘ ماہ رخ نے آسمان پر یکم شوال کا چاند دیکھ کر کہا اور دونوں کو ریحان کی آمد کا بتایا پھر وہ تینوں ایک ساتھ ہی نیچے پہنچے تھے۔ ثمینہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں‘ ذوالفقار بھی خوش تھے۔ رات دیر تک سب آپس میں گپ شپ لگاتے رہے‘ گلزار احمد کے ذکر پر سب کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
…٭٭٭…
دستک کی آواز پر اس نے دروازے کی جانب دیکھا‘ جہاں ریحان ہاتھ میں ایک پیکٹ اٹھائے کھڑا تھا۔ ماہ رخ نے آنکھوں کو گول گول گھما کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور ساتھ ہی ریحان کو اندر آنے کی دعوت دی۔
’’دیر سویر‘ تمہیں تمہاری منزل مل ہی گئی۔‘‘ ماہ رخ نے مسکرا کر کہا۔
’’یقین کامل ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔‘‘ وہ منمنائی۔
’’اس منزل کے دو مسافر ابھی بھی گم ہیں۔‘‘ ماہ رخ نے کہا۔
’’ان دونوں مسافروں کو بھی آنا تو اپنی منزل پر ہی ہے‘ ایک نہ ایک دن وہ بھی ضرور آئیں گے۔‘‘ اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے مشعل کی بجائے ریحان نے جواب دیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’عید تو کل ہے‘ ابھی ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟‘‘ ماہ رخ بے ساختہ کھلکھلا اٹھی۔
’’کباب سے ہڈی نکالنے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے آپ نے…!‘‘ اور وہ جھینپ سا گیا۔
’’اگر چائے کے ساتھ پکوڑے بھی مل جائیں تو؟‘‘ ماہ رخ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’پھر تو اوربھی اچھی بات ہے۔‘‘ ریحان نے کہا۔
’’میں ہمیشہ اچھا ہی کہتی ہوں۔ ویسے آپ کو مزے کی بات بتائوں؟ اس مرتبہ پورے رمضان المبارک میں پکوڑے مشعل نے ہی بنائے تھے۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ریحان واقعی حیران ہوا تھا پھر وہ اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی اور کمرے میں وہ دونوں رہ گئے۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میرا عید کا جوڑا ہرے رنگ کا ہے؟‘‘ ریحان نے پیکٹ کھول کر ہرے رنگ کی چوڑیاں اسے پہنانا شروع کیں تو وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔
’’دیکھ لو‘ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے‘ بس پتا چل گیا۔‘‘ وہ اسے ساری چوڑیاں پہنا چکا تھا۔ مشعل کی نگاہیں اپنے سفید بازو پر سجی ہرے رنگ کی چوڑیوں پر جمی ہوئی تھیں اور ریحان کی مشعل کے سراپا پر… آنکھیں چار ہونے پر وہ دونوں آسودگی سے مسکرادیئے تھے۔
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
عید کا جوڑا… نزہت جبین ضیائ
عید الفطر کا چاند نظر آگیا تھا۔ ساتھ ہی بازاروں کی رونقیں بڑھ گئی تھیں۔ ہر طرف روشنیاں‘ بھاگتی دوڑتی‘ گاڑیاں‘ ہجوم اور خوش گوار ماحول تھا۔ لوگ اپنے اپنے طور طریقوں اور حقیقت کے مطابق عید منانے کی تیاریاں کررہے تھے۔
حناطہ کب سے چھت پر لیٹی آسمان کو گھور رہی تھی‘ کتنی اداس اور مضمحل تھی وہ… نیچے اماں اور خولہ عید کی تیاریاں کررہی تھیں اور وہ ان خوشیوں اور گہما گہمی سے قطعی بے نیاز تھی۔ اس کی اداس آنکھوں میں انتظار جیسے آکر ٹھہر گیا تھا۔
’’ابریز…!‘‘ اس کے لبوں سے آہ کی صورت یہ نام نکلا۔ ’’تم ایسے تو نہیں تھے تم نے تو آنے کا وعدہ کیا تھا ناں پھر… کیوں…؟ نہیں آئے۔ نا کوئی بات‘ نا کوئی کال‘ نا مسیج‘ آخر تم کہاں چلے گئے… کیوں ابریز تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
…٭٭٭…
’’آپا! ادھر آئو جلدی سے ایک مزے کی بات بتائوں؟‘‘ حناطہ کالج سے آئی تو خولہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔
’’ارے… ارے کیا ہوگیا ہے؟ پاگل ہوگئی ہو کیا…؟‘‘ حناطہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
’’اتنی اچھی خبر سنارہی ہوں‘ ابا جی کے دوست ہیں نا آفاق چچا! ان کا بیٹا آرہا ہے ابریز! اور پتا ہے وہ آپ کے رشتے کے لیے آرہا ہے۔ آفاق چچا تو آپ کو دیکھ کر گئے تھے ناں اب ابریز بھائی کو بھیج رہے ہیں ویسے ابریز بھائی کی جاب بھی یہیں ہوگئی ہے۔ ہائے سچ کتنا مزا آئے گا ناں…‘‘ خولہ کی خوشی دیدنی تھی۔ حناطہ کے چہرے پر مایوسی ابھر آئی۔
’’ہاں پتا ہے ہر کسی کی طرح وہ بھی…‘‘ حناطہ کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے خولہ نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’نہیں آپا! پلیز ایسا مت سوچو‘ اس بار اللہ بہتر کرے گا۔ میری آپا تو لاکھوں میں ایک ہیں‘ اب لوگوں کی نظریں ہی تمہیں نہیں پہچانتیں تو غلطی ان نظروں کی ہے۔‘‘ خولہ نے کہا تو حناطہ پھیکی ہنسی ہنس دی۔
اماں نے بھی نئے سرے اور نئی امید کے ساتھ ابریز کا انتظار شروع کردیا۔ ابا جی بھی کچھ مطمئن تھے۔ امتیاز صاحب آفس میں جاب کرتے تھے ‘اللہ نے دو بیٹیاں حناطہ اور خولہ دی تھیں۔ بیٹا کوئی نہیں تھا حناطہ اور خولہ میں چھ سال کا فرق تھا۔ خولہ گوری چٹی‘ خوب صورت نقوش کی مالک تھی جب کہ حناطہ کی شکل تو ٹھیک تھی مگر رنگت سانولی تھی۔ امتیاز صاحب نے حناطہ کو اس کی خواہش کے مطابق ایم اے کروایا تھا اور اب وہ مقامی کالج میں لیکچرر تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے ان کے والدین حناطہ کی شادی کے لیے کوشاں تھے مگر جو رشتہ آتا وہ شوخ و چنچل اور گوری چٹی خولہ کو پسند کرلیتا پھر اماں نے خولہ کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ رشتے کے لیے آنے والی خواتین کے سامنے نہ آئے ‘ خولہ بے چاری اتنی دیر کمرے میں بند رہتی تھی‘ جتنی دیر خواتین بیٹھی رہتیں مگر… جوبھی آتا فضول باتیں کرتا‘ کوئی کہتا عمر زیادہ ہے‘ کوئی کہتا بہت سیدھی سادی ہے‘ آج کل ایسی لڑکیاں گھر نہیں چلا سکتیں۔ کوئی کہتا رنگت کم ہے۔ اماں بے چاری ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتیں اور حناطہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہونے لگتی کہ گویا جیسے وہ مجرم ہو‘ اپنی بوڑھی ماں کی‘ کمزور اور بے بس باپ کی اور اسے بے تحاشا رونا آتا وہ راتوں کوبستر پر بے آواز روتی اور اپنے ربّ سے بھلائی کی بھیک مانگتی۔
…٭٭٭…
اس روز وہ کالج سے تھکی ہاری لوٹی تو برآمدے میں ابا جی کے ساتھ بیٹھے نوجوان کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ بلو جینز اور بلیک ٹی شرٹ میں وہ معقول اور جاذب نظر لگ رہا تھا۔
’’آئو… آئو بیٹی!‘‘ امتیاز صاحب نے اسے دیکھ کر آواز دی۔ وہ جھجکتے ہوئے آگے آئی۔
’’حناطہ بیٹی! یہ ابریز ہے۔ آفاق کا بیٹا‘ نوکری کے سلسلے میں آیا ہے‘ کچھ روز یہیں رہے گا اور ابریز یہ میری بیٹی ہے‘ حناطہ! مقامی کالج میں لیکچرر ہے۔‘‘
’’السّلام علیکم!‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا۔ ابریز نے غور سے دیکھا‘ لائٹ پرپل کاٹن کے سوٹ میں سر پر سلیقے سے دوپٹا اوڑھے وہ اچھی لگ رہی تھی۔
’’ایکسکیوز می! میں چینج کرلوں۔‘‘ وہ پلٹی۔
’’آپا! جلدی سے فریش ہوکر آجائو‘ آج تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے اماں نے۔‘‘ خولہ نے کچن سے آواز لگائی۔
…٭٭٭…​
ابریز پڑھا لکھا‘ سوبر اور سنجیدہ نوجوان تھا۔ وہ غیر ضروری گھر میں نہیں رہتا کوشش کرتا کہ اس وقت رہے جب امتیاز صاحب ہوں۔ اس نے آنے کے چند دن بعد ہی آفاق صاحب کو فون کردیا تھا کہ اسے حناطہ پسند ہے۔ حناطہ کم گو‘ سیدھی سادی‘ قابل اور ذہین تھی۔ جو بات کرتی نپی تُلی اور با معنی ہوتی۔ بات کرنے کا انداز دھیما اور نرم ہوتا۔ ابریز بھی ایسا ہی تھا۔
’’آپا…! ابریز بھائی نے تمہیں پسند کرلیا ہے۔‘‘ اس روز جب پتا چلا تو خولہ نے خوشی سے اسے گود میں اٹھالیا۔ وہ بھی حیرت زدہ‘ خاموشی سے خولہ کو دیکھتی رہی۔
’’اماں نے بتایا ہے…‘‘
تب ہی اماں بھی آگئیں۔ حناطہ نے سوالیہ نظریں اماں پر ڈالیں۔
’’میری بچی! تجھے اللہ نے صبر کا انعام دیا ہے۔ سدا سکھی رہے۔‘‘ انہوں نے سینے سے لگا کر دعادی‘ ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
…٭٭٭…​
گھر میں خوش گوار سی تبدیلی آگئی تھی‘ حناطہ کو ابریز سے شرم آنے لگی تھی‘ ابریز بھی گھر میں بہت کم رہتا۔ وہ کالج سے نکلی تو سامنے ہی ابریز کھڑا تھا۔ ابریز کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔ عجیب سی کیفیت ہورہی تھی ابریز قریب آگیا۔
’’السّلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السّلام! آپ یہاں؟‘‘ وہ پزل ہورہی تھی۔
’’ہاں دراصل مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے‘ ہم کہیں بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں؟‘‘ ابریز نے کہا۔
’’جی! مگر…؟‘‘ وہ کچھ ہچکچا رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اس طرح کسی غیر مرد کے ساتھ یوں جانا۔
’’اگر تم نہیں چاہتیں تو کوئی بات نہیں‘ بس مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی تھیں۔‘‘ ابریز کے چہرہ بجھنے لگا تھا۔
’’نہیں… نہیں چلیں پلیز!‘‘ حناطہ جلدی سے بولی کچھ دیر بعد وہ دونوں آئس کریم پارلر میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
’’دراصل حناطہ! تم کو پتا ہوگا میں یہاں کس مقصد سے آیا ہوں اور میں نے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا ہے۔‘‘
’’جی…!‘‘ حناطہ نے نگاہیں جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا۔
’’حناطہ! میں ظاہری خوب صورتی‘ دکھاوا اور نمودو نمائش کا قائل نہیں‘ مجھے سیدھی سادی‘ سمجھ دار اور پڑی لکھی بیوی چاہیے‘ الحمد للہ! میری معقول جاب ہے‘ کچھ عرصے میں مجھے گھر بھی مل جائے گا۔ میری فیملی کے بارے میں امتیاز چچا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ابا جی بھی تم لوگوں سے بہت مطمئن ہیں‘ میں تھوڑا سا کنفیوژ ہوں کیونکہ میں تمہارے منہ سے تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں تاکہ میں مطمئن ہوجائوں‘ کیا تمہیں میرا ساتھ منظور ہے؟‘‘ ابریز نے اپنا مضبوط ہاتھ ٹیبل پر اس کے عین سامنے رکھ کر تھوڑا سا جھک کر پوچھا۔ حناطہ کی حالت عجیب سی ہورہی تھی‘ اچھا بھلا اسمارٹ بندہ اس کے بالکل قریب بیٹھا اس سے سوال کررہا تھا۔ وہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔
’’حناطہ! ریلیکس ہوکر جواب دو پلیز…‘‘ وہ دوبارہ گویا ہوا۔ حناطہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر اپنا فیصلہ بہت خوب صورت انداز میں سنایا تھا اور ابریز نے اس کے نازک سے ہاتھ کو ہاتھوں میں لے کر بہت خوب صورت نظروں سے اسے دیکھا تھا‘ حناطہ خفیف ہوگئی۔
’’اب چلیں! جب کچھ دیر تک ابریز اسے دیکھتا رہا‘ تو حناطہ نے نروس سے انداز میں اس کو مخاطب کیا۔
’اوہ… ہو… ہاں… ضرور شکریہ حناطہ! ‘‘ اس نے جھک کر سرگوشی کی اور دونوں پارلر سے باہر آگئے۔
…٭٭٭…​
زندگی بہت خوب صورت ہوگئی تھی ‘ رمضان المبارک شروع ہوچکے تھے۔ سب لوگ عبادتوں میں مصروف تھے‘ رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں ہی ابریز واپس اسلام آباد جانے والا تھا کہ دوسرے عشرے میں وہ اپنی ماں کو لے کر آئے گا اور پھر عید پر رسم کردی جائے گی۔
سحری کے بعد نماز اور قرآنِ پاک پڑھ کر خولہ‘ امتیاز صاحب اور اماں سوگئے۔ حناطہ چھت پر آگئی‘ اسے صبح صبح یہاں آنا بہت اچھا لگتا تھا‘ وہ وہیں پلنگ پر بیٹھ گئی اور گملے میں لگے موتیے کی مہک کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ تب ہی قدموں کی چاپ پر پلٹی‘ سامنے ابریز کھڑا تھا۔
’’آپ…؟‘‘ اس نے جلدی سے دوپٹا ٹھیک کیا۔
’’ہاں جی! کیوں ‘ میں نہیں آسکتا کیا؟‘‘ وہ مسکراتا ہوا وہیں بیٹھ گیا۔
’’نہیں… یہ بات نہیں…‘‘ وہ گڑبڑائی۔
’’حناطہ میں کل جارہا ہوں‘ جلد ہی اماں کو لے کر آئوں گا اور اگر ہوسکے تو نکاح ہی کروالوں گا۔ ٹھیک ہے ناں؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’جی… اتنی جلدی …؟‘‘ وہ گھبرا گئی۔
’’میرا بس چلے تو آج کروالوں۔‘‘ وہ ستانے کے موڈ میں تھا۔
’’پلیز…‘‘ وہ بلش ہوگئی۔
’’جب میں آئوں نا تو تم یہ کپڑے پہنا پلیز عید پر…‘‘ اس نے ایک پیکٹ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ان شاء اللہ جلد لوٹ آئوں گا میں۔ کل دوپہر کو چلا جائوں گا اس وقت تم کالج میں ہوگی‘ اس لیے آج ہی ملنے آیا ہوں کہ پھر موقع ملے نا ملے۔ میرا انتظار کرنا… اوکے۔‘‘
’’ابریز! بس تم جلد لوٹ آنا… اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔‘‘
’’پلیز… پلیز… ایسا مت کرو یار! میں بہت کمزور دل رکھتا ہوں‘ اب وہ بھی تمہارے پاس ہے تو برداشت کیسے کر پائوں گا۔‘‘ ابریز کی شرارت پر وہ روتے روتے ہنس دی۔
’’دل بہت اداس ہورہا تھا‘ چند دنوں میں ہی ابریز اس وقت قریب آگیا تھاکہ دوری کا احساس گویا جان لیوا لگ رہا تھا۔
…٭٭٭…​
حناطہ جو بہت نا امید ہوچکی تھی پھر سے اس کے اندر نئے جذبے جنم لینے لگے تھے۔ ابریز کی آمد نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی‘ اسے زندگی سے پیار ہونے لگا تھا۔ موسم اچھے لگنے لگے تھے۔ چاہنا اور چاہے جانے کاا حساس کتنا خوب صورت ہوتا ہے‘ یہ احساس اس کی رگ رگ میں اترنے لگتا تھا۔ اپنا آپ معتبر لگنے لگا تھا۔ وہ بھی کسی کی ضرورت ہے‘ یہ احساس کتنا دلفریب اور خوش کن تھا۔
اس احساس نے اسے یکسر بدل کے رکھ دیا تھا۔ اسے بات بے بات ہنسی آنے لگی تھی۔ خود کو سجانے سنوارنے کا خیال رہنے لگا تھا۔
ابریز چلا گیا تو ماحول کچھ بدل سا گیا تھا مگر اس کے لوٹ آنے کے تصور سے وہ آپ ہی آپ مسکرادیتی۔ اماں‘ ابا جی اور خولہ بھی بہت خوش تھے اس دفعہ تو عید کی خوب زوروشور سے تیاریاں ہورہی تھیں‘ سارے کام پندرہویں روزے سے پہلے ختم کرنے تھے کہ پندرہویں روزے کو ابریز نے آنے کا کہا تھا۔ دو تین دن تک تو ابریز کے میسج آتے رہے پھر اچانک آنا بند ہوگئے‘ وہ میسج کرتی تو جواب نہ ملتا۔
اسے پریشانی ہورہی تھی نا جانے کیا مسئلہ ہوگیا تھا۔ بہت سوچ کر اس نے کال کی تو نمبر بند تھا۔
’’یا الٰہی خیریت رہے۔‘‘ اس نے دل سے دعا مانگی۔دل تھا کہ عجیب عجیب سے وسوسوں کا شکار تھا۔ پھر خولہ سے پتا چلا کہ ابا جی کا رابطہ بھی آفاق چچا سے نہیں ہورہا تھا‘ وہ لوگ کب آرہے ہیں؟ کیا پروگرام ہے؟ کچھ پتا نہیں تھا؟ سب ہی پریشان تھے کہ اچانک ابریز کو کیا ہوگیا یا آفاق چچا کیوں خاموش ہیں۔ حناطہ رو رو کر ربّ کے آگے دعائیں مانگتی‘ گڑگڑاتی‘ ابا جی اور اماں بھی دعائیں مانگتے۔ آتے آتے خوشیاں گویا راستہ بدلنے لگی تھیں۔​
حناطہ زیادہ تر کمرے میں رہتی‘ افطار کرتی‘ سحری کرتی اور پھر کمرے میں بند ہوجاتی۔ اماں منہ چھپائے آنسو پونچھتی رہتیں۔ ابا جی سر جھکائے مزید بوڑھے لگنے لگتے۔ خولہ کی شوخی بھی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔​
…٭٭٭…​
دن پہ دن گزرتے رہے‘ رمضان المبارک کا بابرکت اور پاک مہینہ اختتام کو پہنچا اور آج عید الفطر کا چاند بھی نظر آگیا تھا۔ چاند دیکھ کر حناطہ کی آنکھوں سے ڈھیر سارے آنسو بہہ نکلے تھے۔ اس نے وہ جوڑا نکال کر دیکھا تھا جو جاتے وقت ابریز دے کر گیا تھا۔​
’’ابریز… پلیز آجائو…‘‘ اس کے لبوں سے سسکاری نکلی۔​
’’آگیا…!‘‘ کانوں کے قریب آواز آئی تو حناطہ نے چونک کر اپنے بائیں جانب دیکھا۔ سامنے سینے پر ہاتھ باندھے ابریز کھڑا تھا۔​
’’ابریز…!‘‘ آنکھیں پھاڑے وہ غیر یقینی انداز میں دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا۔​
’’تم… تم…؟‘‘ گھبرا کر وہ پلنگ سے اٹھ گئی۔​
’’ہاں محترمہ! آپ کے سامنے آپ کا اپنا ابریز اور آپ کا مجرم کھڑا ہے‘ جس نے آپ کو بہت دکھ دیئے۔ پلیز حناطہ! میں بہت مجبور تھا اور بڑی مشکل میں تھا اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی تمہیں دکھی کیا۔ مجھے معاف کردو۔‘‘ وہ شرمندگی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔​
’’تم… تم … کہاں تھے ابریز…! اندازہ ہے تم کو کتنا روئی ہوں میں؟‘‘وہ پھر سے رونے لگی۔​
’’پلیز… پلیز… حناطہ! یہاں بیٹھو اور سنو مجھ پر کیا گزری۔‘‘ ابریز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبار پلنگ پر بٹھایا اور خود اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔​
’’پتا ہے تم کو جب میں نے اماں سے تمہارے لیے بات کی تو اماں ناراض ہوگئیں اور اپنی بھانجی سے میرا نکاح کروانے کی ضد کرنے لگیں۔ میں اور ابا جی اپنے فیصلے پر قائم رہے اور اماں اپنے فیصلے پر… میں نے بھی کتنی اذیت میں گزارے یہ دن‘ تم نہیں سمجھ سکتیں اگر تم سے رابطہ رکھتا تو کیا کہتا‘ میں تو اماں سے جنگ کرتا رہا۔ آخر کار اماں کا دل پسیجا اور انہیں مجھ پر ترس آہی گیا‘ اب میں ابا اور اماں کو لے کر آیا ہوں۔ اماں کو بہت جلدی ہے اپنی بہو سے ملنے کی۔ تم بتائو کہ میں نے کس طرح گزارے ہوں گے یہ اذیت ناک دن… تو معافی تو ملے گی ناں۔‘‘ اس نے کان پکڑ کر معصومیت سے کہا۔​
’’ہاں!‘‘ کہہ کر وہ نیچے کی طرف جانے لگی۔​
’’کہاں جارہی ہو ؟‘‘​
’’اب تمہارا دیا ہوا سوٹ پہن کر اپنی ساس کو سلام کروں گی۔‘‘ پلٹ کر وہ شرارت سے بولی تو ابریز زور سے ہنس دیا۔ وہ بھی ہنستی ہوئی نیچے کی طرف بھاگی۔ جہاں ابا جی‘ اماں‘ چچا آفاق اور چچی مل کر کل کے نکاح کا پروگرام سیٹ کررہے تھے وہ گنگناتی ہوئی عید کا جوڑا پہننے چل دی۔​
’’آپا! اماں کہہ رہی ہیں‘ چاچا‘ چاچی‘ سے مل لو پھر مہندی لگوانے بھی جانا ہے۔‘‘ خولہ نے اسے دیکھ کر کہا تو خولہ کی آواز کی خوشی اس کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی۔ اپنے ربّ کا ڈھیروں شکر ادا کرتی ہوئی وہ اسٹور کی طرف چل دی ‘ جہاں عید کا خوب صورت جوڑا اس کا منتظر تھا۔​
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
روحانی مسائل اور ان کا حل… حافظ شبیر احمد
صائمہ مریم… لاہور
جواب:۔ ہر نماز کے بعد اول و آخر 3'3 بار درود شریف اور 21 بار سورۃ العصر پڑھ کر اپنے شوہر کے چہرے کا تصور کر کے پھونک ماریں۔ گندی بد عادات کے خاتمے اورباہر جا کر کمانے کی نیت کریں۔
ر ب… خانیوال
جواب:۔ دعا کریں اپنے حق میں اللہ آپ کو جلد اپنے گھر کا کردے۔
والدپر جادو ہے عشاء کی نماز کے بعد 3 مرتبہ سورۃ عبس پڑھ کر اپنے والد پر دم کریں پانی پر دم کر کے بھی پلائیں روزانہ۔
اسماء لقمان… ملتان
جواب:۔ الھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرورھم بہنوئی اور اس کی فیملی کا سوچ کر پڑھیں۔ جب یاد آئے۔
نماز کی پابند کریں۔ فجر کی نماز کے بعد 41 مرتبہ سورۃ الفاتحہ مغرب کی نماز کے بعد 41 مرتبہ آیۃ الکرسی پڑھ کر اپنے سر اور جسم پر دم کیا کریں۔ پانی پر بھی دم کر کے پیا کریں۔ (اول و آخر 11'11 مرتبہ درود شریف)
س ع… نا معلوم
جواب:۔ رشتے کے لیے جو وظیفہ بتایا ہے وہ جاری رکھیں۔ عشاء کی نماز کے بعد 111 مرتبہ سورۃ العصر اول و آخر 11'11 مرتبہ درود شریف۔ پڑھتے وقت تصور ہو کہ فرمانبردار ہوجائیں اور رشتہ کے لیے راضی ہوجائیں۔ تصور میں لا کر دم بھی کریں ان دونوں پر اور ایک گلاس پانی پر دم کر کے صبح نہار منہ پلائیں روزانہ۔
آپ انہیں ہر بات پر ٹوکنا بند کردیں۔
سمعیہ… فیصل آباد
جواب:۔ سب کاموں کے لیے ہر نماز کے بعد 41 بار یا بدیع العجائب باالخیر یا بدیع اگر آسانی ہو تو 101 بار ہر نماز کے بعد۔
بھائی چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے یا رزاق پڑھتے رہیں۔ پیسا آئے گا تو آپس میں ٹھیک ہوجائیں گے۔
رخشندہ پروین… لیاقت آباد، کراچی
جواب:۔ میرے حساب سے بچی کا اس کی شخصیت کے لیے بہتر نہیں (تبدیل کرلیں) پانی اور تیل کے لیے ماہنامہ آنچل سے رجوع کرناہوگا۔
نظر اتارنے کے لیے 7 لال مرچیں لے کر اس ہر سورۃ اخلاص 11 بار پڑھ کر دم کریں اور بچی پر سات بار گھما کر آگ میں ڈا ل دیں۔ دھانس آئے تو نظر نہیں ہے اگر دھانس نہ آئے تو نظر ہے۔ دوبارہ کریں صبح و شام 1'1 بار۔
رینا… ملتان
جواب:۔ ’’یا جبار‘‘ 313 مرتبہ روزانہ بعد نماز عشاء اول و آخر 11'11 مرتبہ درود شریف۔
والدہ خود پڑھیں اور اپنے تمام مسئلوں کے لیے دعا کریں۔
اطہر احمد صدیقی… راولپنڈی
جواب:۔ بعد نماز عشاء سورۃ قریش 111 مرتبہ روزانہ۔ اول و آخر 11'11 مرتبہ درود شریف۔ کاروبار کے لیے دعا کریں۔
ہر ماہ صدقہ دیتے رہیں (بکرا / گائے)
صبا حسن… سیالکوٹ
جواب:۔ مسئلہ نمبر ۱:۔ ’’سورۃ النصر‘‘ 125 مرتبہ اول و آخر 25,25 مرتبہ درود ابراہیمی بعد نماز عشاء روزانہ زمین کے لیے۔ پڑھتے وقت مقصد ذہن میں رکھیں۔
مسئلہ نمبر ۲:۔ تازہ دودھ اور پانی برابر ملا کر پئیں۔ ’’یا شافی یا کافی‘‘ 7 بار پڑھ کر لسی پر پھونک مار کر پئیں۔ انفکشن ختم ہوجائے گا۔
اسمائ… سرگودھا​
جواب:۔ بعد نماز فجر سورۃ الفرقان آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ عشاء کی نماز کے بعد (اسماء خود کرے)۔
ایک تسبیح استغفار‘ ایک تسبیح درود شریف پڑھ کر اپنے مسئلے کے لیے دعا کریں۔
س۔ رانی… گجرات​
جواب:۔ بعد نماز عشاء 111 مرتبہ سورۃ القریش اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔
امتحان میں کامیابی اور معاشی حالات کے لیے دعا کریں روزانہ۔
ناہید اختر… حیدر آباد​
جواب:۔ نماز کی پابندی کریں۔
جب گھر میں چینی آئے اس پر 3 مرتبہ سورۃ مزمل پڑھ کر دم کردیں۔ لڑائی جھگڑے نہیں ہوں گے۔ اول و آخر3,3 مرتبہ درود شریف۔ چینی گھر کے تمام افراد کے استعمال میں آئے۔
رشتوں کے لیے:۔ بعد نماز فجر سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔
معاشی مسائل کے حل کے لیے:۔ بعد نماز عشاء سورۃ قریش 111 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دعا بھی کریں۔
فرخ فاطمہ اشرف… حویلی لکھا
جواب:۔ سرسوں کا (کڑوا تیل) 41 مرتبہ سورۃ فاتحہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ روزانہ رات سر کی مالش کریں صبح غسل کرلیں۔
عظمیٰ بنت نسیم اختر… خانیوال​
جواب:۔ بعد نماز فجر سورۃ فاتحہ 41 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف پڑھ کر پورے جسم پر ہاتھ پھیریں۔
مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد سورۃ فلق‘ سورۃ الناس 19,19 مرتبہ دم بھی کریں۔
ع۔ ع اسلم… سرگودھا​
جواب:۔ بعد نماز فجر سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دعا کریں جلد اور اچھے رشتے کے لیے۔
بعد نماز مغرب اور عشاء سورۃ الفلق‘ سورۃ الناس 19,19 مرتبہ بندش ختم کرنے کے لیے۔
’’یا قوی‘‘ فرض نماز کے بعد 11 مرتبہ سر پر ہاتھ رکھ کر۔ سبق پڑھنے سے پہلے 7 مرتبہ سورۃ قریش۔
ا۔ن… ضلع چکوال​
جواب:۔ رشتے کے لیے بعد نماز فجر سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آکر 11,11 درود شریف۔
بعد نماز مغرب اور عشاء سورۃ الفلق‘ سورۃ الناس 19,19 مربتہ بندش اور رکاوٹ کے لیے۔
جو کام شروع کریں پہلے استخارہ کرلیا کریں۔ بعد نماز عشاء 111 مرتبہ سورۃ القریش اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ روزی کے لیے دعا کریں۔
ثوبیہ… فیصل آباد​
جواب:۔ بعد نماز فجر سورۃ یٰسین3 مرتبہ پڑھ کر اپنے مسئلے کے لیے دعا کریں۔
سیما پروین… کراچی​
جواب:۔ بعد نماز عشاء 111 مرتبہ سورۃ القریش اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔
عائشہ رحمت علی… گوجرانوالہ​

جواب:۔ (۱) جب تک ضرورت محسوس کریں وظیفہ جاری رکھیں۔ خاص دنوں میں نہ پڑھیں۔
سورۃ ’’بینہ‘‘ پارہ ۳۰‘ صبح و شام 3,3 مرتبہ پانی پر دم کرکے پلائیں۔ روزانہ اول و آخر 3,3 مرتبہ درود شریف۔
رقیہ بی بی… جام پور​
جواب:۔ بعد نماز عشاء سورۃ قریش 111 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دونوں پڑھیں۔ اپنے اپنے مسئلوں کے لیے۔
رضیہ بیگم… لاہور​
جواب:۔ وظیفہ جاری رکھیں۔
چاروں قل شریف‘ 3 مرتبہ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم‘ ایک تسبیح۔ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔
آپ کی بیٹی پانی پر پڑھ کر روزانہ آپ پر چھڑکے‘ پورے جسم پر۔
نسرین اختر… میانوالی​
جواب:۔ نماز کی پابندی کریں۔
رشتہ کے لیے سورۃ الفرقان آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ بعد نماز فجر۔
سامان کی واپسی اور زمین کے لیے:۔ سورۃ یٰسین 3 مرتبہ بعد نماز فجر دعا بھی کریں۔
دکان کے لیے:۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس 21,21 مرتبہ پڑھ کر پانی دکان میں چھڑکیں روزانہ۔
111 مرتبہ سورۃ القریش پڑھیں بعد نماز عشاء اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دکان چلے گی انشاء اللہ۔
مسئلہ ۵:۔ اللہ سے توبہ کرو، حلال کھائو۔
یسریٰ…ہری پور​
جواب:۔ بہتر استخارہ آپ خود کریں۔
طریقہ عالم سے پوچھ لیں پھر کوئی فیصلہ کریں۔ اللہ آپ کے حق میں بہتر فیصلہ فرمائے۔ آمین
ثناء عارف… گوجرانوالہ​
جواب:۔ آیات شفاء 21 مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کریں گھر کے تمام افراد پئیں صبح نہار منہ روزانہ۔
کاروبار کے لیے:۔ بعد نماز عشاء 111 مرتبہ سورۃ قریش اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دعا بھی کریں۔
سعدیہ صدیق… شور کوٹ​
جواب:۔ بعد نماز عشاء سورۃ اٰل عمران آیت نمبر 38 روزانہ 101 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دعا کریں پھر۔
ثناء عشرت… سہالہ​
جواب:۔ نیم کے پتوں کا رس نکال کر پورے جسم پر لگائیں۔ 10 منٹ بعد غسل کرلیں۔ ہفتہ میں 3 مرتبہ۔
رشتہ کے لیے:۔ سورۃ الفرقان آیت نمبر 74‘ 70 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ بعد نماز فجر دعا بھی کریں۔ جلد اور اچھے رشتے کے لیے۔
ثناء عشرت… راولپنڈی​
جواب:۔ اللہ سے مانگیں اور خود بھی کوشش کریں۔
ہر نماز کے بعد سورۃ اخلاص 11 مرتبہ۔
ماریہ عظیم… واہ کینٹ​

جواب:۔ بعد نماز عشاء سورۃ قریش 111 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔​
وظیفہ شروع کردیں اور نتیجہ آنے تک جاری رکھیں ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ دعا بھی کریں۔​
شمازیہ​
جواب:۔ مسئلہ ۱:۔ قسم کی اہمیت کے متعلق عالم سے رجوع کریں۔ وظیفہ جاری رکھیں۔​
مسئلہ ۲:۔ سورۃ قریش 111 اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ اچھی اور جلد نوکری کے لیے دعا کریں اور کچھ نہ پڑھیں۔​
تحریم… جھڈو​
جواب:۔ ۱:۔ آیات شفاء صبح و شام 7,7 مرتبہ پڑھ کر دم کریں اور پانی بھی پئیں۔​
۲:۔ بچی جب سوجائے تو ماتھے اور سینے پر انگلی (شہادت) سے (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) لکھ دیا کریں۔ مسئلہ حل ہوجائے گا۔​
بشریٰ ملک… فیصل آباد​
جواب:۔ مسئلہ ۱:۔ کوئی حل نکالیں۔​
۲:۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد 7,7 مرتبہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھا کریں۔​
م ع… مانگٹ​
جواب:۔ فرض نماز کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر ’’یا قوی‘‘ 11 مرتبہ پڑھا کریں۔ قوت حافظہ کے لیے۔​
بعد نماز عشاء سورۃ قریش 111 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔​
معاشی مسائل اور گھر بکنے کے لیے دعا کریں۔​
شمائلہ کرن… چھوٹا گھسیٹ پورہ​
جواب:۔ آپ نے اپنے والد کا نام تو لکھا نہیں خط میں؟ استخارہ کرلیں۔​
معاشی حالات کے لیے سورۃ قریش 111 مرتبہ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود شریف۔ دعا کریں پھر۔​
کومل رباب… لاہور​
جواب:۔ بعد نماز فجر سورۃ شمس 41 مرتبہ پانی پر پڑھ کر دم کریں۔ صبح نہار منہ گھر کے تمام افراد کو پلائیں۔ اول و آخر 11,11 مرتبہ درود پڑھیں۔​
نیت بھی ہو کہ فرمانبردار بن جائیں۔​
کومل… لاہور​
جواب:۔ ’’یامانع‘‘ ہر نماز کے بعد 41 مرتبہ۔ اول و آخر 3,3 مرتبہ درود شریف۔​
معنی ذہن میں ہو اور تصور ہو کہ واپس لوٹ رہا ہے۔​
 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
یادگارلمحے…جویریہ طاہر
حمد باری تعالیٰ
ہر دل کی دھڑکن میں شامل ہے نام تیرا
دیتا ہے جو ہدایات وہ ہے کلام تیرا
تیری ہی روشنی سے روشن ہے تیری ہستی
ذہنوں میں جگمگائے ایسا ہے نام تیرا
سنتی ہے روح جس کو پڑھتی زبان جسے ہے
جو دل میں گونجتا ہے وہ ہے کلام تیرا
کوئی شریک تیرا نہ ثانی ہے اے خدایا
لاریب سب سے ارفع و اعلیٰ مقام تیرا
تُو نے عطا کیا ہے دردِ جنوں شہزادی کو
کرتی ہے ذکر مولا وہ صبح شام تیرا
شہزادی سعادت… ڈئی آئی خان
(پہلا انعام) رزق
ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے ایک چیونٹی سے پوچھا تم سال بھر میں صرف دو دانے کھاتی ہو مگر اتنی زیادہ خوراک کیوں جمع کرتی ہو۔ اس کا جواب جاننے کے لیے آپ نے اسے ایک بوتل میں بند کردیا اور ساتھ ہی دو دانے بھی ڈال دیئے پھر بوتل کا منہ بند کرکے اسے محفوظ جگہ پر رکھ دیا‘ ایک سال بعد آپ نے بوتل کھولی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چیونٹی نے دو کے بجائے ایک دانہ کھایا تھا۔ آپ کے پوچھنے پر چیونٹی بولی۔
’’اے پیغمبر خدا! پہلے میں اللہ پر بھرسہ کرتے ہوئے سال بھر میں دو دانے کھایا کرتی تھی‘ اب چونکہ میں ایک انسان کے قبضے میں ہوں لہٰذا کیا پتا تم مجھے ایک سال کی بجائے دو سال بعد یہاں سے نکالو اس لیے میں نے ایک دانہ اگلے سال کے لیے رکھ لیا ہے۔‘‘
آپ نے چیونٹی کی بات سن کر دعا کی۔ ’’اے میرے ربّ! انسان کو روز قیامت تک تُو ہی رزق دے اگر یہ ذمہ داری کسی انسان کو دی تو لوگ بھوکے مرجائیں گے۔‘‘
مریم کاشف… لطیف نگر‘ حیدرآباد
(دوسراا انعام) عید کی پیشگی مبارک باد
ان تڑختے نحیف کاندھوں پر
اپنے کنبے کابوجھ ڈھوتا ہوں
اور جب دل کا بوجھ بڑھتاہے
بیوی بچوں سے چھپ کے روتا ہوں
ضبطِ غم کی نہیں کوئی میعاد
عید کی پیشگی مبارک باد
بجھتی آنکھیں‘ ستا ہوا چہرہ
یہی انجام سخت کوشی ہے
جوڑتا ہوں رقم کفن کے لیے
یہی اصل سفید پوشی ہے
ہر تگ و دو کی ہے یہی بنیاد
عید کی پیشگی مبارک باد
کرن وفا… کراچی
دعا​
یا اللہ‘ اے عطا کرنے والے!میری طلب کو نہ اپنی عطا کو دیکھ‘ میرا سوال کو نہ اس کے انجام کو دیکھ‘ وہ دعا قبول کر جس کا انجام اچھا ہو کیونکہ میں انجام سے ناواقف ہوکر مانگتی ہوں پر تُو تو انجام سے واقف ہے‘ میرے ربّ مجھے بُرے انجام سے بچا۔
یا اللہ مجھ سے راضی ہوجا
اور جو بھی اس دعا کو پڑھے اس سے‘ اس کے
اہل و عیال سے بھی
راضی ہوجا
بخش دے میرے مالک!
ہم سب مسلمانوں کو
الٰہی میری دعا کو قبولیت بخش دے‘ آمین ثم آمین!
صائمہ طاہر سومرو… حیدرآباد‘ سندھ
حجاب​
حجاب محض عورت کا پردے میں چھپ جانا اور سر کی چوٹی سے لے کر پائوں کی ایڑی تک اپنے آپ کو ڈھانپ لینا ہی نہیں‘ نا یہ ہے حجاب کہ عورت کو گھر کے کسی کونے میں بند کردیا جائے‘ جہاں سے نکلنے کی اسے اجازت ہی نہ ہو بلکہ حجاب یہ ہے کہ عورت با عزت طریقے سے اپنا ستر ڈھانپے۔باوقار اور سنجیدہ لباس پہنے اور اپنی زینت کو غیر محرموں سی چھپائے۔
شمع مسکان… جام پور

سیدنا ابو سعید بن مالک بن مثال الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم سے پہلے زمانے میں ایک آدمی تھا‘ جس نے ننانوے (99) قتل کیے تھے‘ اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک راہب کا پتا چلا‘ وہ راہب کے پاس حاضر ہوا اور کہا: ’’میں نے ننانوے قتل کیے ہیں‘ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟‘‘ راہب نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ اس پر اس نے راہب کو بھی قتل کرکے سو کا عدد پورا کردیا۔ اس نے پھر زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک عالم دین کا پتا بتایا گیا اس نے عالم سے کہا: ’’میں نے سو قتل کیے ہیں کیا میری توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟‘‘ عالم دین نے کہا: ’’ہاں! فلاں علاقے میں چلے جائو وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں‘ تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور اس زمین کی طرف مت آنا۔‘‘ یہ برائی کی زمین ہے وہ آدمی وہاں سے چل پڑا۔جب ٹھیک درمیان راستے میں پہنچا تو اس کی موت کا وقت آگیا‘ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑ پڑے‘ رحمت کے فرشتوں نے کہا :
’’یہ توبہ کرکے چلا تھا اور اپنے دل کو اللہ کی طرف موڑ چکا تھا۔‘‘
عذاب کے فرشتوں نے کہا : ’’اس نے قطعاً کوئی نیک کام نہیں کیا۔‘‘
اب ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں ان کے پاس آیا‘ فرشتوں نے اس آدمی نما فرشتے کو اپنا فیصل بنالیا‘ اس فیصلہ کرنے والے فرشتے نے کہا۔
’’دونوں مقامات کے درمیان کا فاصلہ ناپ لو‘ جس مقام سے وہ قریب ہے اسی میں اس کا شمار کرلو‘ فرشتوں نے پورے فاصلے کو ناپا تو جس علاقے کی طرف اس کا رخ تھا وہ قریب تر نکلا‘ لہٰذا رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح قبض کی۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ آدمی نیک لوگوں کی بستی کے ایک بالشت قریب تھا چنانچہ اسے نیک لوگوں میں شمار کیا گیا۔
ایک اور روایت میں ہے۔
’’اللہ تعالیٰ نے بُرے علاقے کی زمین کو حکم دیا کہ تو دور ہوجا اور نیک علاقے کی زمین کو حکم دیا کہ تُو قریب ہوجا‘ نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان دونوں علاقوں کا رقبہ ناپ لو چنانچہ اسے نیک علاقے کی طرف ایک بالشت قریب پایا گیا نتیجتاً اس کی بخشش ہوگئی۔
٭٭​
٭ ایک آدمی کا اونٹ رات کو بہت روتا تھا۔ وہ آدمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سارا حال بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’یہ رات کو عشاء کی نماز پڑھے بغیر سوتا ہے تو میں اس کے بستر کے نیچے جلنے والی آگ دیکھ کر روتا ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنی نمازوں کی فکر چھوڑی دی تو اللہ نے اس کی فکر چھوڑ دی۔‘‘
ساجدہ زید… ویرووالہ چیمہ
دعا​
دعا مومن کا ہتھیار ہے دعا پر اعتماد ہی نیکی ہے جب ہم اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگتے ہیں تو ہمیںیقین کامل ہوتا ہے کہ اللہ ہماری دعائیں سنتا ہے اور جب ہماری دعا میں خلوص ہو اور یہ دل کی گہرائیوں سے مانگی گئی ہو تو یہ ہماری آنکھوں کو نم کردیتی ہے اور یہی آنسو دعا کی صورت میں منظوری کی دلیل ہیں‘ دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا ناممکنات کو ممکن بنادیتی ہے‘ دعا زمانے بدل دیتی ہے۔ دعا آنے والی بلائوںکو ٹال دیتی ہے دعا میں بڑی قوت ہوتی ہے جب تک سینے میں ایمان ہے دعا پر یقین رہتا ہے‘ جس کا دعا پر ایمان نہیں اس کے سینے میں ایمان

نہیں۔ ہم سب کو اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں دعائوں کی افادیت سے مایوس نہ ہونے دے اور ہمیں دعائوں پرکامل یقین حاصل ہو۔
انیقہ صدف… لطیف آباد‘ حیدرآباد
انسان​
انسان نے ہوائوں میں پرندوں کی طرح اڑنا تو سیکھ لیا‘ پانی میں مچھلی کی طرح تیرنا بھی سیکھ لیا لیکن افسوس دنیا میں انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔
نمرہ افتخار… اوکاڑہ
محبت ایک حقیقت ہے​
محبت کبھی انسان کو توڑتی یا جوڑتی نہیں‘ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ محبت کا کردار یہ ہے کہ محبت انسان کو نرم دل‘ نرم مزاج اور ایک درد مند انسان بنادیتی ہے۔ جو بات دل میں ہوتی ہے‘ وہ زبان پر آنہیں سکتی جو بات زبان پر آجائے وہ دل کے جذبات سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ احساس ایک ایسا لفظ ہے جو سب سے افضل مانا جاتا ہے کیونکہ انسان کے اندر جب تک احساس نہ ہو محبت جنم نہیں لے سکتی‘ یہ بات بھی سچ ہے کہ محبت احساس اور جذبات میں آنکھ کا کردار سب سے اہم ہے جب تک آنکھ اجازت نہ دے یہ سارے لفظ ناکام اور ادھورے رہتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انسان کو کسی سے بن دیکھے بھی محبت ہوجاتی ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے۔
فرزانہ سرور… ستائیس چک
صحت کا فارمولا​
جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی
جو ہو محسوس معدے میں گرانی
توپی لے سونف اور ادرک کا پانی
بنے گرم خون بلغم زیادہ
تو کھا گاجر‘ چنے شلغم زیادہ
جگر کے بل پر ہے انسان جیتا
اگر ضعیف جگر ہے کھا پپیتا
جگر میں ہو اگر گرمی دہی کھا
اگر آنتوںمیں خشکی ہو تو گھی کھا
تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے


[DOUBLEPOST=1348380497][/DOUBLEPOST]
تو فوراً گرما گرم دودھ پی لے
زیادہ گر دماغی ہے ترا کام
تو کھالے شہد کے ہمراہ بادام
اگر ہو قلب پر گرمی کا احساس
مربا آملہ کھا اور انناس
جو دکھتا ہو نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے
اگر ہے درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑھوں پر نمک مل
جو بدہضمی میں چاہے تُو افاقہ
تو دو ایک وقت کا کرلے تُو فاقہ
مدیحہ شبیر… شاہ نکڈر
خلیل جبران کا کہنا ہے
جب میں ایک شفاف آئینہ بن کر تمہارے سامنے کھڑا ہوا تو تم مجھ کو دیر تک غور سے دیکھتے رہے اور تمہیں مجھ میں اپنی صورت نظر آئی پھر تم نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں لیکن در حقیقت تم نے مجھ میں اپنی ذات سے محبت کی ہے۔
نوشین اقبال نوشی… گائوں بدرمرجان
بات جو دل میں اتر جائے
vتنہائی کے مسافر بیمار روحوں کی طرح اذیت کی منزلیں طے کرتے ہیں۔
vہم جتنے بلند ہوتے ہیں اتنے تنہا بھی ۔
vخوش نصیبی ایک ایسا پرندہ ہے جو تکبر کی منڈیر پر زیادہ دیر نہیں بیٹھتا۔
vاگر ایک شخص علم کا سمندر ہے تو وہ کبھی نہ کبھی ڈوب جائے گا۔
vیادیں حنا کی مانند ہیں جو سوکھ جانے کے بعد رنگ لاتی ہے۔
فیاض اسحاق… سلانوالی
فرق
عزت نفس اور انا میں وہی فرق ہے جو فخر اور غرور میں ہوتا ہے۔ عزت نفس اور فخر کہتا ہے کہ ’’میں بھی ہوں‘‘ لیکن غرور اور انا کہتی ہے کہ ’’صرف میں ہی ہوں‘‘ اور محبت اس باریک فرق کو
ناپنے کا پیمانہ ہے۔
صدیقہ خان… باغ‘ آزاد کشمیر
عورت​
عورت جتنی عظیم ہے اتنی ہی یہ بہت سی غلطیوں کی ذمہ داربھی ہے۔ عظیم اس لیے ہے کہ جب حضرت آدم کو جنت میں رہنے کے لیے کہا گیا تب آدم کی خواہش پر ہی تو عورت کی تخلیق ہوئی۔ اماں حوا ہی کو عورت سے ماں‘ بیٹی‘ بہن‘ بہو اور بیوی کے عظیم نام دیئے گئے۔
عورت عظیم ہونے کے ساتھ ہی بہت ساری غلطیوں کی ذمہ دار ہے۔ اس لیے کہ جب حضرت آدم کو جنت سے نکالا گیا تو اماں حوا کی غلطی سے اور جب پہلی دفعہ بابیل قابیل میں لڑائی ہوئی توایک عورت کی وجہ سے عورت کوگھر کی عزت قرار دیا گیا۔ بیٹی جو رحمت تھی اب زحمت لگنے لگی ہے‘ بہن جو اپنے بھائیوں پر جان چھڑکتی تھی اب بھائیوں کی عزت کا تماشا بنانے لگی ہے‘ عورت ہمیشہ اچھی نہیں رہتی۔ وہ سب کے لیے اچھا نہیں سوچتی‘ زینت کو سب کے لیے برابر رکھے تو رحمت ہمیشہ قائم رہے۔ جو اللہ اپنے بندوں پر برساتا ہے۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ اسلام نے جو عزت عورت کو دی ہے‘ وہ ہمیشہ ایسے ہی قائم رہے‘ آمین۔
زرینہ شفیع… کسووال
سلسلہ​
غالب کہتے ہیں:
بکنے والے اور بھی ہیں جاکر خرید لو
ہم لو گ قیمت سے نہیں قسمت سے ملا کرتے ہیں
فراز نے غالب کو جواب دیا:
اگر چاہوں تو اک نگاہ میں خرید لوں
جس کو ناز ہے بہت کہ بکتا نہیں ہوں میں
ساگر نے فراز کو جواب دیا:
بہت ناز ہے تجھ کو تیری اس نگاہِ الفت پر
مگر ہم وہ نہیں پیارے جو نگاہیں چار کرتے ہیں
ساگر کو کسی شاعر نے کیا خوب جواب دیا:۔
کسی کو خریدنا میرے بس میں نہیں
میری سادگی دیکھ کر لوگ خود ہی بک جاتے ہیں
رابعہ مفتی… ہری پور‘ ہزارہ
جدید اصطلاحات​
آئینہ: دودھ کا دودھ پانی کا پانی
دوپٹا: آج کل لاکٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
شوہر: وہ چیز جو بیوی کے اشاروں پر ناچتی ہے۔
موبائل: عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ۔
زبان: جو پیٹرول کے بغیر میلوں چل سکتی ہے۔
بیوٹی پارلر: جہاں مشرقی تہذیب کی میت کو نہلایا جاتاہے۔
سچی محبت: دادی اماں کے زمانے کی رسم۔
رنز: گنتی یاد کرنے کا آسان طریقہ
کلینک: زندہ رہنے کا ٹیکس یہاں جمع کروائیں۔
پولیس: یہ پیٹ مانگے اور۔
عاصمہ مجید… سمندری
بیٹیوں کا نصیب​
ہم بیٹی بن کر آئی ہیں ماں باپ کے جیون میں
بسیرا ہوگا کل ہمارا کسی اور کے آنگن میں
کیا سوچ کر یہ ریت خدا نے بنائی ہوگی
کہتے ہیں آج نہیں تو کل کو بیٹی پرائی ہوگی
دے کے جنم پال کر ہم کو بڑا کیا
وقت آنے پر انہی ہاتھوں سے ہم کو وداع کیا
کیوں رشتہ ہمارا اتناعجیب ہوتا ہے
کیا بس یہی ہم بیٹیوں کا نصیب ہوتاہے
ایس عطاریہ… بارہ قطعہ
غم​
vغم اس لیے نہیں ہوتے کہ ان کو اپنے چہرے پر سجا لو بلکہ یہ تو دل میں بسانے کے لیے ہوتے ہیں۔
vغم تو سب کی زندگی میں آتے ہیں‘فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی تو غم کا اظہار کرتا ہے اور کوئی خود اپنے غم میں چپ چاپ جلتا رہتا ہے۔
vیہ عقل مندی ہے کہ اپنے غم میں کسی کو شامل نہ کرو‘ اگر ایسا کرو گے تو تمہارے دوست تم سے جلد بے زار ہوجائیں گے اور اگر غموں کو چہرے پر سجائو گے تو خود کمزور پڑ جائو گے۔
vیاد رکھو! یہ بھاگتی دوڑتی دنیا ہے۔ یہاں آنسوئوں کا ساتھ کوئی نہیں دیتا۔ خود کو آنسوئو نہ بنائو بلکہ سر تاپا ایک مسکراہٹ بن جائو‘ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوستوں کے لیے‘ غیروں کے لیے‘ دشمنوں کے لیے‘ خلوص و محبت کا یہ نذرانہ پیش کرتے رہو۔
ظرف ہو تو غم بھی اک نعمت ہے اک سوغات ہے
جو سکوں رونے میں ہے وہ مسکرانے میں نہیں
رافیہ بلوچ… گھوٹکی
امریکی شاعر پال پاٹس کی نظموں کا ترجمہ​
vہماری تاریخ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے عیسٰی علیہ السّلام کے جنم سے پہلے‘ عیسیٰ علیہ السّلام کے جنم کے بعد۔ اسی طرح میری زندگی بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے تجھے دیکھنے سے پہلے اور تجھے دیکھنے کے بعد۔
vایک دن میں نے گلی میں عورت کو دیکھا وہ بالکل اس زندگی جیسی تھی جیسی زندگی میں تیرے بغیر جی رہا ہوں۔
vکسی ایسے سے پیار کرنا جو تم سے پیار نہ کرتا ہو کسی ایسے ملک کا نمائندہ بننا ہے جس ملک کا کوئی وجود نہ ہو۔
vتجھے پلٹ کر دیکھنا‘ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا ہونے کے بعد پھر سے آنکھیں پالے۔
شگفتہ خان… بھلوال
آنسو​
آنسو بہائو اور خوب بہائو
یہ سوچ کر نہیں کہ ہماری خواہشات پوری نہیں ہوتیں بلکہ یہ سوچ کر کہ ہم بہت زیادہ گناہ گار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ گناہوں کے ملال سے نکلا کوئی آنسو تیری مغفرت کا سبب بن جائے اور تیری آخرت سنور جائے۔
چندا مثال… قصور
انعام یافتہ گان اپنا مکمل پتا جلد از جلد ادارے کو ارسال کریں۔

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
کام کی باتیں…حنا احمد
جھائیوں کے لیے
سیب پسے ہوئے
ایک چھوٹا چمچہ
لیموں کا رس
چوتھائی چمچہ
گلاب کا عرق
ایک چھوٹا چمچہ
ہلدی
چوتھائی چمچہ
ترکیب:
ان چاروں چیزوں کو آپس میں اچھی طرح ملائیں اور رات کو چہرے پرلگائیں تو بہتر ہے ورنہ دن میں دو مرتبہ لگائیں‘ دس منٹ بعد منہ دھولیں اس سے جھائیوں دور ہوجائیں گی۔
رنگت کو گورا کرنا
اگر آپ کا چہرا سیاہی مائل ہے تو چرونجی کو دودھ میں پیس کر ہلکا گرم کریں اور رات کو سونے سے پہلے اس سے چہرے کی اچھی طرح مالش کرکے سو جائیں‘ صبح سویرے صابن سے چہرہ دھولیں۔
صنم شاہ …گائوں حضرت پیر عبد الرحمن
پیاس بجھانے کا بہترین حل
گرمی میں پیاس‘پسینہ اور گھبراہٹ کے تاثرات عام طور پر زیادہ ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات بے احتیاطی کی وجہ سے پسینے کے اخراج سے کمزوری کا احساس ہوتا ہے اس لیے پیاس کی شدت سے بچنے کے لیے مشروبات اور پانی کا استعمال کریں‘ آلو بخارے کا شربت‘ فالسہ اور شربت بادام وغیرہ کی مخصوص مقدار میں پانی ملا کر دن میں دو سے تین بار استعمال کریں تو نہ صرف پیاس کی شدت میں کمی ہوگی بلکہ کئی ایک دوسرے جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
اسی طرح دودھ کی لسی‘ چاٹی کی لسی‘ لیموں پانی اور شکنجبین بھی پیاس کو بجھانے اور تسکین و فرحت آمیز مشروب میں ایسے افراد جن کو تیزابیت کی زیادتی کی وجہ سے گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہو وہ جو کے ستو میں شکر ملا کر استعمال کریں‘ بازاروں میں بکنے والے مشروبات سے بھی پرہیز کریں۔
مدیحہ نورین… برنالی
گھریلو ٹوٹکے
vجلی ہوئی جگہ پر کپڑوں میں ڈالنے والانیل لگانے سے ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
vاخروٹ کھانے سے پیشاب بار بار نہیں آتا۔
vآم کونہار منہ نہ کھائیں۔
vبرف‘ معد ے کو کمزور کرتی ہے البتہ بھوک نہ لگے تو برف ملا پانی استعمال کریں۔
vوٹامن K کی کمی کی حالت میں جب چوٹ لگے تو خون بند نہیں ہوتا۔
vگوشت کا زیادہ استعمال غصہ پیدا کرتا ہے اور دل و دماغ میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
vجوڑوں کے درد میں لہسن کچی حالت میں کھائیں۔متاثرہ حصے پر لہسن رگڑنا مفید ہے اور لہسن کا تیل جوڑوں پر اتنا رگڑیں کہ وہ جذب ہوجائے۔
سمیرا مشتاق ملک… اسلام آباد
گھریلو ٹوٹکے
vاگر غلطی سے کان میں پانی چلا جائے تو اس کو نکالنے کا آسان ٹوٹکا یہ ہے کہ آپ الٹے قدموں پیچھے کی طرف چلنا شروع کردیں۔
vاگر ہچکی آئے اور پانی سے نہ رکے تو چند لمحوں کے لیے سانس اندر کھینچ کر روک لیں‘ ان شاء اللہ ہچکی رک جائے گی۔
vاگر کسی کو یرقان کی بیماری ہو‘ اسے چاہیے کہ کالے بھنے ہوئے چنے سیر ہوکر کھائے‘ اتنا کہ اس کا پیٹ بھرجائے ‘اس کے اوپر کھٹی لسی پیے‘ اتنی کہ مکمل سیری ہوجائے‘ کھانے سے پرہیز کرے‘ ان شاء اللہ ایک ہفتہ یہ عمل کرنے سے یرقان (پیلیا) سے نجات مل جائے گی۔
vشہد اور پیاز کا پانی ملا کر سر پر لگائیں‘ گرتے بالوں اورگنج پن کا مفید علاج ہے۔
ناز سلوش ذشے… میرپور آزاد کشمیر
مفید مشورے​
vاگر دودھ میں عرق لیموں ملا کر صبح و شام چہرے پر ملا جائے تو چہرہ خوب صورت نکل آئے گا۔
vاگر پھل وغیرہ کھانا کھانے کے بعد کھایا جائے تو دانتوں میں میل نہیں جمتی۔
vاگر منہ میں کوئی زخم نہ ہو اور منہ سے بدبو آئے تو سمجھ لیجیے کہ معدہ میں کچھ خرابی ہے۔
vموٹاپا دور کرنے کے لیے شہد گرم پانی ملا کر پینے سے جسم کی بڑھی ہوئی چربی دور ہوجاتی ہے اور انسان دبلاہوجاتا ہے۔
vنمک اور شہد سے دانت صاف کیجیے‘ دانت چمک اٹھیں گے۔
vاگر ہونٹوں پر سیاہی یا نیلاہٹ آگئی ہے تو لیموں اور گلیسرین استعمال کریں آہستہ آہستہ نیلا ہٹ دورہوجائے گی۔
vاگر کہنی پر میل جم گئی ہو تو لیموں کاٹ کر اس کے آدھے حصے میں کہنی رکھ کر لیموں کو گھمائیں‘ کہنی بالکل صاف ہوجائے گی۔
مسز کامران خان… کوہاٹ (KPK)
ٹوٹی ہڈی جوڑنے کے لیے​
بیر کی گٹھلی باریک پیس لیں اور پرانے سرکہ میں اسے ملا لیں۔ ٹوٹی ہوئی ہڈی کے مقام پر اسے لگا کر مضبوطی سے باندھ دیں۔
خونی دست بند کرنے کے لیے:۔
مصری چاول کے پچھ میں نمک ملا کر پینے سے آرام آجاتا ہے
اندرونی چوٹ کا درد ختم کرنے کے لیے:۔
تھوڑے سے پانی میں نمک ملا کر اسے گرم کرلیں اور چوٹ کی جگہ پر لیپ کردیں درد دور ہوجائے گا۔
گرمی دانوں کو دور کرنے کے لیے:۔
گرمی دانوں (پت) پر ذرا سا نمک پانی میں حل کرکے مل دیں۔
دانت درد اور منہ کی سوزش کے لیے:۔
ایک تولہ دھنیا کو پانی میں جوش دے کر اس سے کلی کرنے سے دانت کا درد اور منہ کی سوزش کو آرام ملتا ہے۔
خون صاف کرنے کے لیے:۔
دو تولہ شیشم کے تازہ پتے چند دن پانی میں جوش دے کر پیتے رہیں‘ آپ کے خون کی ہر خرابی دور ہوجائے گی۔
’’ذیابیطس کا تین روزہ علاج:۔
ایسے لوگ جامن کے پتے چار عدد صبح اور چار عدد شام کو کھائیں۔
رنگ نکھارنے کا آسان طریقہ:۔
دو چھٹانک پالک میں ذرا سا پانی شامل کرکے ابالیے‘ چٹکی بھر نمک اور ایک چمچہ شہد شامل کیجیے اور چھان کر ہر صبح پی لیا کریں۔ ایک دو ماہ بعد چہرے کا نکھار دیکھ کر آپ حیران ہوں گے۔
پیٹ کے کیڑوں کا علاج:۔
پیٹ کے کیڑے شفتالو اور شریفے کھانے سے مرجاتے ہیں۔
طیبہ نذیر… شادیوال گجرات

 

*Sonu*

•°o.O Born to Fly O.o°•
VIP
Mar 5, 2010
46,172
11,604
1,313
انکار بھی‘ اقرار بھی… راحت وفا
طاہرہ بیگم باورچی خانے سے نکل کر سیدھی اس کے کمرے میں آئیں تو حسب معمول سر پیٹ لیا وہ دن کے گیارہ بجے بھی موبائل فون پرباتیں کرنے میں مصروف تھی۔ قہقہہ لگاتے ہوئے ان پر نظر پڑی تو ہونٹ بھینچ لیے‘ فون جلدی سے آف کردیا۔
’’راحمین! کیا کروں؟ کیسے تربیت کروں تمہاری؟‘‘ وہ بولیں تو وہ اچھل کر ان کے گلے کا ہار بن گئی۔
’’امی! وہ زریاب کا فون تھا۔‘‘
’’میں فون کی بات نہیں کررہی‘ دن کے گیارہ بج رہے ہیں‘ کمرے کا حال دیکھو۔ یہ چائے کا بھرا کپ‘ یہ گلاس میں بچا دودھ اور یہ جوس کا خالی گلاس کمرے میں ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک کڑی تنقیدی نگاہ سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’تو ڈانٹیں نا اس کام چور نجمہ کو۔‘‘
’’کیوں؟ اس غریب کو اپنی مرضی کے خلاف کمرے میں گھسنے نہیں دیتیں‘ کتنی بار جھاڑو‘ ڈسٹر لے کر وہ کمرے میں آتی ہے اور پھر ڈانٹ کھا کر چلی جاتی ہے۔‘‘
’’وقت پر صفائی کیا کرے۔‘‘
’’راحمین! مجھے تو فکر ہے کہ تمہار کیا ہوگا ارے بس کل سے ماہ رمضان شروع اور عید کے بعد شادی۔ ابھی تک تمہارا لا ابالی پن ختم نہیں ہورہا۔‘‘
’’شادی کا مطلب کیا ہے؟‘‘ اس نے سوال داغا۔
’’گھر داری۔‘‘
’’تو مجھے نہیں کرنی شادی‘ کہہ دیں آپ پھوپو جانی کو۔‘‘ وہ بڑی بے پروائی سے کہہ کر مسکرانے لگی۔
’’راحمین! یہ کام تو تمہارے پپا اور دادی کریں گے‘ انہوں نے ہی سرچڑھا رکھا ہے تمہیں۔‘‘ طاہرہ بڑے اطمینان سے کہہ کر باہر جانے لگیں تو وہ بولی۔
’’میں زریاب سے ابھی بات کرلیتی ہوں۔‘‘ وہ پلٹیں اور گھور کر رہ گئیں اور پھر اس نے ان کے جاتے ہی زریاب کا نمبر ملایا۔
’’ہائے جان!‘‘ زریاب کی شوخ آواز آئی تو وہ بے زاری سے بولی۔
’’زریاب! میں تم سے شادی نہیں کررہی ‘ بتادو پھوپو جانی کو۔‘‘
’’وہاٹ! کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’مجھے تم سے شادی نہیں کرنی‘ کسی گھر سنبھالنے والی سے کرلو۔‘‘
’’راحمین! کیا احمقانہ بات کررہی ہو؟ میں میٹنگ میں ہوں پھر بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
’’بس میں نے بتادیا‘ بائے…‘‘ اس نے یہ کہہ کر فون بند کردیا اور پُرسکون ہوکر آنکھیں موند لیں۔
اکلوتی اولاد ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ اٹھایا اس نے ‘ وہ طیب اشرف صاحب کی آنکھوں کی روشنی تھی اور دادی کے دل کا قرار۔ طاہرہ کا بھی چین و قرار وہی تھی لیکن ماں ہونے کے ناتے وہ اس کی اچھی تربیت بھی کرنا چاہتی تھیں۔ زندگی بسر کرنے کے طور اطوار بھی سمجھانا چاہتی تھیں مگر ان کی ہلکی سی سرزنش اور نصیحت بھی طیب صاحب اور دادی کو بہت بُری لگتی تھی۔
’’طاہرہ! راحمین بچی ہے اس کو یوں ڈانٹنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’بھئی ہمارے سامنے ہماری بچی کو کچھ نہ کہا کرو۔‘‘
’’ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ اور اس طرح کے جملے انہیں سننے پڑتے تو وہ چپ ہوجاتیں اب جب کہ اس کی شادی ہونے والی تھی تو اب بھی انہیں سنجیدگی سے کچھ سمجھانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ماہِ رمضان میں استعمال ہونے والے سامان کی فہرست بناکر باہر آئیں تو اماں راحمین کے کمرے سے آرہی تھیں‘ ان کے بولنے سے پہلے ہی بولیں۔
’’طاہرہ! بچی چند روز کی مہمان ہے‘ صبح صبح اسے ڈانٹ کر آئی ہو۔‘‘
’’اماں! صبح صبح؟ دن چڑھ چکا ہے اور چند روز کی مہمان کے ساتھ نغمہ آپا کیا کریں گی یہ معلوم ہے آپ کو۔‘‘
’’ہے کیوں بھئی نغمہ کی کیا مجال…؟‘‘ وہ چلائیں۔
’’نغمہ آپا کی بڑی بہو حنا کتنی سلیقہ شعار ہے اور نغمہ آپا کو راحمین کے طوراطوار پر دبی دبی شکایت بھی ہے وہ تو زریاب کی ضد پر انہوں نے ہاں کی ہے۔‘‘
’’تو کون منت کررہا ہے نغمہ کی‘ انکار کردے میری راحمین کے لیے رشتوں کی کمی ہے کیا؟‘‘ وہ بولیں‘ مجبوراً طاہرہ ہی چپ ہوگئیں۔
رات کھانے پر راحمین نے اٹھلاتے ہوئے باپ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پپا! مجھے زریاب سے شادی نہیں کرنی۔‘‘ طاہرہ بیگم کے ہاتھ کا نوالہ ہاتھ میں ہی رہ گیا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اشرف صاحب نے بہت حیرت سے پوچھا تو طاہرہ بیگم نے خاصی سختی سے کہا۔
’’آج چاند رات ہے منہ سے اچھی باتیں نکالو‘ منہ پھٹ اور بدلحاظی کی انتہا کردی ہے تم نے۔‘‘
’’اوہ! طاہرہ! بچی کی بات تو پوری سننے دو۔‘‘ دادی نے انہیں خاموش کرادیا۔
’’ہاں بولو بیٹا!‘‘ اشرف صاحب نے بڑے اطمینان سے سلاد اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا… تو وہ بولی۔
’’پپا! شادی کا مطلب گھر داری ہے تو مجھے شادی نہیں کرنی۔‘‘
’’شادی نہیں کرنی یا زریاب سے نہیں کرنی۔‘‘ اشرف صاحب نے کھانا ختم کرنے کے بعد پانی گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا تو طاہرہ بیگم سے ضبط نہ ہوسکا وہ اٹھ کر چلی گئیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھ کر انہوں نے راحمین کی ہدایت کے لیے خوشی کے لیے رو رو کر دعا مانگی تھی۔
…٭٭٭…​
زریاب نے آسمان پرمسکراتے چاند کو دیکھا اور اس کا فون نمبر ملایا‘ اس کے اٹینڈ کرتے ہی وہ شوخ ہوگیا۔
’’میرے چاند کو چاند مبارک ہو۔‘‘
’’زریاب! اپنا چاند بدل لو۔‘‘ وہ کڑے تیور کے ساتھ بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔
’’میں نے پپا کو کہہ دیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میں تم سے شادی نہیں کررہی۔‘‘ بڑے سپاٹ لہجے میں بولی تو وہ سیخ پا ہوگیا۔
’’راحمین! تم ہوش میں تو ہو‘ کیا بک رہی ہو۔‘‘
’’میں نے فیصلہ سنایا ہے آگے جو تمہاری مرضی۔‘‘
’’راحمین! خدا کے واسطے بے ہودہ مذاق مت کرو۔‘‘
’’زریاب! میں مذاق نہیں کررہی۔‘‘
’’مجھے تمہاری ذہنی حالت پر شک ہورہا ہے۔‘‘
’’مجھے پھوپو کی بُری بہو نہیں بننا۔‘‘
’’یہ کیسی باتیں سوچنے لگی ہو۔ میں حیران ہوں میری محبت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہو۔‘‘
’’تم کسی اور سے محبت کرلو‘ میں اپنا فیصلہ بدلنے والی نہیں۔‘‘
’’جسٹ شٹ اپ! وہ قسمیں وعدے سب کیا تھے؟‘‘ وہ چلایا۔
’’منگنی کے بعد کیے تھے‘ اب منگنی ختم تو…‘‘
’’بکو مت؟‘‘
’’اچھا! پلیز میرا دماغ نہ چاٹو‘ پپا سے بات کرلینا۔‘‘ اس نے فون بند کردیا۔ زریاب کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اسے اس غیر متوقع صورت حال کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔
صبح تو وہ مذاق سمجھ کر ٹال گیا لیکن اب اتنی سرد مہری کا مظاہرہ کرنے پر وہ سخت متحیر تھا۔ الجھن میں ٹہلنے لگا‘ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے با ت کرے؟ پھر جیسے بجلی کی مانند حنا بھابی کا خیال ذہن میں کوندا تو وہ سیدھا کچن میں آگیا۔ حنا کچن میں سحری کے لیے سالن بنارہی تھی۔ اس نے سب کام چھڑواکے اسے ساتھ لیا اور اپنے کمرے میں آگیا۔
’’بات کیا ہے زریاب؟‘‘ اس نے من وعن راحمین کی باتیں بتائیں‘ حنا کو یقین نہیں آیا۔
’’یہ کیسی بات ہے‘ راحمین ایسا کیسے کہہ سکتی ہے۔ وہ بھی شادی سے ایک ماہ پہلے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں وہ ضدی‘ خود سر اور احمق لڑکی ہے مگر اب کرنا کیا ہے؟‘‘ وہ جھنجلا کر بولا۔
’’یہ بات پہلے طاہرہ مامی سے کرلی جائے۔‘‘ حنا نے خیال ظاہر کیا۔
’’تو کریں یہ لیں فون۔‘‘ اس نے جلدی سے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر دیا۔
’’اس وقت مناسب نہیں‘ صبح کرلوں گی۔‘‘
’’آپ وجہ معلوم کیجیے گا‘ راحمین میرے جذبات‘ خاندان کی آبرو کیسے خاک میں ملا سکتی ہے۔‘‘ وہ خاصا ڈپریس تھا۔
’’فکرنہ کرو‘ سحری کے بعد موقع دیکھ کر بات کرلوں گی‘ حیرت کی بات ہے۔ اماں نے تو کل ہی عروسی ڈریس ٹیلر کو دیا ہے۔‘‘ حنا بھی متفکر سی ہوکر بولی۔
’’میری سمجھ میں تو خود کچھ نہیں آرہا۔‘‘
’’کیا پتا راحمین مذاق میں یہ بات کہہ رہی ہو۔‘‘ حنا نے تنکے کا سہارا لیا۔
’’وہ بہت سیریس تھی۔‘‘
’’چلو چھوڑو‘ صبح دیکھیں گے۔ مجھے کچن میں کام نمٹانے ہیں۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ حنا اسے تسلی دے کرچلی گئی۔
…٭٭٭…​
خسانسا ماں نے گرم پراٹھا توے سے اتارا تو طاہرہ نے گرم دودھ کا جگ اور آملیٹ بھی ٹرے میں رکھ کے ڈائننگ ٹیبل پر رکھنے کو کہا۔ خود بھی فریج سے جام اور دہی نکال کر ڈائننگ روم میں پہنچیں تو اشرف صاحب‘ اماں ہی موجود تھے راحمین نہیں تھی۔ وہ بنا کچھ کہے راحمین کے کمرے میں آگئیں۔
’’راحمین! اٹھو سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔‘‘
’’امی! تو میں کیا کروں؟‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’اس بار روزے رکھنے ہیں۔‘‘
’’مجھے نہیں رکھنے‘ سونے دیں۔‘‘
’’راحمین! روزے فرض ہیں‘ ان کی معافی نہیں۔‘‘ انہو ں نے کچھ پیار اور نرمی سے سمجھایا۔
’’امی! پلیز میں نہیں رکھ سکتی۔‘‘
’’ایسے نہیں کہتے‘ اٹھو شاباش!‘‘
’’اوہو! مجھے نہیں رکھنے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر کروٹ بدل کے سوگئی۔ تب تاسف کے ساتھ وہ ناکام سی ہوکر آگئیں۔
مگر اس احساس ندامت سے اشرف صاحب یا اماں کو کوئی مطلب نہیں تھا‘ وہ بجھی بجھی سی خود ہی بولیں۔
’’روزے نہ رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے‘ اپنی لاڈلی کو آپ ہی بتادیں۔‘‘
’’ارے راحمین کی بات کررہی ہو۔‘‘ اماں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’جی اماں!‘ ‘ طاہرہ نے آدھا پراٹھا توڑ کر اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’کمال کررہی ہو‘ دھان پان سی بچی کیسے روزے رکھ سکتی ہے۔‘‘ اماں نے خاصے استہزائیہ انداز میں کہا۔
’’اماں! روزے فرض ہیں‘ جوان بچی ہے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’چلو یہ اس کی مرضی ہے خود ہی رکھ لے گی۔‘‘ اشرف صاحب سحری میں گرم دودھ میں اوولٹین ڈال کر پیتے تھے‘ آرام سے پیتے ہوئے بولے۔
’’یہ فرض ہیں‘ مرضی کہاں سے آگئی۔ کیسا دین ہے آپ کا؟‘‘ طاہرہ بیگم کو غصہ آگیا۔
’’کچھ بھی ہے‘ بچی کو مجبور تو نہیں کرسکتے‘ میں خود سمجھادوں گی۔‘‘ اماں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اشرف صاحب بھی اٹھ گئے۔ طاہرہ بیگم تنہا کڑھتی رہ گئیں‘ وہ کیا کرتیں؟ کوئی ان کا راحمین کی تربیت کے لیے
مددگار ہی نہیں تھا۔
اس وقت تو وہ دل تھام کے رہ گئیں جب حنا نے فون پر راحمین کے ارادے بتائے۔ حنا کو فی الحال انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کو کہا اور خود آفس کے لیے تیار ہوتے اشرف صاحب کو گھیر لیا۔
’’یاخدا! راحمین کی حماقتوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔‘‘
’’اب کیا کردیا راحمین نے؟‘‘ وہ بریف کیس میں فائلیں رکھتے ہوئے بوے۔
’’کیا نہیں کیا؟ زریاب کو فون پر شادی نہ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ حنا بہت پریشان تھی‘ زریاب اپ سیٹ ہے۔‘‘
’’حنا کیوں پریشان ہے؟ اور زریاب کیوں اپ سیٹ ہے؟‘‘ انہوں نے خاصے تحمل سے پوچھا۔
’’شادی کے گھر میں کیسی پریشان ہونی چاہیے اشرف صاحب؟‘‘
’’راحمین کے انکار کی بھی کوئی وجہ تو ہوگی۔‘‘
’’آپ کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے‘ ذرا سا بھی احساس ذمہ داری نہیں ہے اس میں۔ صرف گھر داری سیکھنے کی بات کو جواز بنالیا اس نے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’تو تم بھی بلاوجہ اسے ایسی باتوں سے ڈراتی ہو۔‘‘
’’اشرف صاحب! یہ حقیقتیں آپ کو پسند کیوں نہیں آتیں؟‘‘
’’طاہرہ! جس بات سے وہ چڑتی ہے اس کو کرنا ضروری ہے کیا؟‘‘
’’کب تک چڑتی رہے گی اور اب وہ چھوٹی بچی نہیں ہے‘ شادی کے بعد زندگی اور ہوتی ہے۔ میں ماں ہوں دشمن نہیں ہوں اس کی۔‘‘ وہ بھی غصے میں آگئیں۔
’’گھر داری کے لیے نوکر چاکر مل جاتے ہیں‘ نغمہ آپا جانتی ہیں راحمین میری نازوں سے پلی بیٹی ہے۔‘‘ وہ بولے۔
’’آپ اسے سمجھائیں کہ زبان بند رکھے فضول باتیں نہ کرے۔‘‘
’’اگر راحمین نے فی الحال شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو…‘‘
’’چپ ہوجائیں پلیز کیسے باپ ہیں آپ جس کی بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے اور وہ یہ کہے…‘‘
’’اچھا فی الحال میں لیٹ ہورہا ہوں‘ شام افطار کے بعد تسلی سے راحمین کو سمجھائوں گا۔‘‘ اشرف صاحب یہ کہہ کر چلے گئے۔
…٭٭٭…
شام افطار کے بعد جونہی اشرف صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر آئے طاہرہ نے چائے تیار کراکے ان کو بھجوائی تو عین اسی وقت نغمہ آپا کا فون آگیا۔ طاہرہ نے فون فوراً اشرف صاحب کو جاکر تھمادیا۔
’’جی نغمہ آپا۔‘‘
’’میں چاہ رہی تھی کہ راحمین کو ایک دو روز کے لیے لاہور بھیج دو۔ زیورات اور جوتوں کی خریداری کروادوں۔‘‘ نغمہ آپا نے بنا کچھ سنے ہی ایسی بات کہہ دی کہ اشرف صاحب گڑبڑاگئے۔
’’وہ… دراصل… میں…‘‘
’’کیا وہ میں…؟ ڈرائیور کو بھیج دیتی ہوں۔‘‘ نغمہ آپا نے ٹوکا۔
’’مجھے راحمین سے بات تو کرلینے دیں۔‘‘
’’کیسی بات…؟‘‘
’’راحمین چاہتی کیا ہے؟‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اگر لاہور سے نہیں کرنی تو میں رقم آن لائن کرادیتی ہوں۔‘‘ نغمہ آپا نے بات نہ سمجھتے ہوئے تو اشرف صاحب کی کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔
’’میں بتادوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے اور طاہرہ سے میری بات کرائو۔‘‘ انہوں نے کہا تو اشرف صاحب نے جلدی سے فون طاہرہ بیگم کو تھمادیا۔
’’جی آپا!‘‘
’’طاہرہ! مہندی کا انتظام میری طرف سے کرنا۔‘‘
’’جی آپ کی طرف سے؟‘‘ طاہرہ نے کچھ حیرت سے پوچھا۔
’’بھئی میری بھتیجی ہے مہندی پھوپو کی طرف سے ہوگی۔‘‘
’’اوہ! اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ طاہرہ بجھی بجھی سی بولیں۔ فون بند کرنے کے بعد چند لمحے وہ سکتے کی سی کیفیت میں کھڑی رہیں اشرف صاحب نے پکارا۔
’’ایسا کیا کہہ دیا آپا نے…؟‘‘
’’جو آپ سننا نہیں چاہتے تھے۔‘‘ وہ ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
’’میں نے سن لی ہے ان کی بات مگر میرے لیے میری بیٹی مقدم ہے۔‘‘
’’اشرف آپ غلط کررہے ہیں‘ یہ معمولی بات نہیں آپ کی بہن کے گھر کی بدنامی ہوگی۔ بیٹی کی کھلونا خریدنے کی فرمائش نہیں ہے۔ دو گھروں کی آبرو کی بات ہے‘ راحمین نا سمجھ ہے۔‘‘ طاہرہ بولتی چلی گئیں۔
’’تو پھر کیا کروں؟ بیٹی کو ناراض کردوں۔‘‘
’’اس میں ناراضی کی بات نہیں ہے‘ ناسمجھی کی بات ہے آپ بھول رہے ہیں راحمین نے زریاب کو پسند کیا ہے‘ غیر ضروری بات پر اڑی ہے نا۔‘‘
’’طاہرہ…‘‘ اشرف صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔
’’اشرف فی الحال آرام سے راحمین کی بات ٹالیں مگر شادی کی تیاری کریں۔‘‘ طاہرہ نے اتنے تحمل سے کہا کہ پہلی مرتبہ اشرف صاحب نے توجہ سے ان کی بات سنی۔
…٭٭٭…
جونہی زریاب‘ اوصاف تراویح پڑھ کر آئے۔ نغمہ بیگم نے زریاب کو گاڑی نکالنے کو کہا۔
 
  • Like
Reactions: hoorain
Top