پھانس جو چبھ گئی ہے
پھانس جو چبھ گئی ہے دل سے نہ نکالی جائیگی
یادِ جاناں سے کوئی شب اب نہ خالی جائیگی
اسکو دیکھا تو پھر دیکھتے ہی رہ گئے ہم صاحب
میری جاں تیری شبیہہ آنکھوں سے نہ نکالی جائیگی
دم نکل جائے گا کوئی دم میری ہے سانس باقی
تیری تصویر مگر اس دل سے نہ نکالی جائیگی
اسکی آمد نے دل میں جو بٹھا کر رکھی ہے فضا
اسکو چھونے کی یہ خواہش اب نہ نکالی جائیگی
کیسی آواز ہے یہ کہ بجتے ہیں کہیں دور گھنگرو
میرے کانوں سے اسکی آواز نہ نکالی جائیگی
روح پر چھائی ہے ازلوں سے اس کی وہ مہک
میری سانسوں سے بھی وہ خوشبو نہ نکالی جائیگی
دیکھ لی ہم نے بھی محبت محسوس کر لیا ہے غم
اب میری جاں ! قربت کی کوئی تدبیر نہ نکالی جائیگی