رشتے
انسان بھی کتنا عجیب ہے، خود ہی رشتے بناتا ہے، پھر اُن کو توڑ بھی دیتا ہے۔ پھر خود ہی دوبارہ اُن ٹوٹے ہوئے رشتوں کہ جوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔رشتے دھاگہ کی طرح ہوتا ہے، ذرا سی زور آزمائی کی اور یہ کر چی کرچی ہو کر چار سو بکھر جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔وہ اپنے سولہ سالہ بیٹے کو رشتہ کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
لیکن امّی اُن رشتوںمیں تضاد بھی تو ہم خود ہی ڈالتے ہیں۔ کوئی ہمیں یہ مشورہ تو نہیں دیتا کہ ہم بلا وجہ ناراضگی کے راستے کو اپنا لیں اور اِس کوشش میں ہم خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ ٹوٹ کے کبھی بکھرا نہیں کرتے
وہ لوگ ٹوٹ کے کبھی بکھرا نہیں کرتے
اور پھر اشفاق احمد بھی تو کہتے ہیں”محبت کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ضرب دی جاتی ہے“۔ ہمیں سب کچھ پتہ ہوتے ہوئے بھی ہم محبت ، پیار اور جذبوں کی تقسیم کرتے رہتے ہیں۔
تجھے میں بتاتی ہوں احمد بیٹے۔۔۔(دادی امّاںاسے پیار سے کہتے ہوئے بولیں)
بیٹا جب پھول اپنی قبائیں اپنے ہاتھوں سے ہی کترنے لگ جائیں تو کوئی اُن کو روک نہیں سکتا۔ رشتوں میں تضاد ڈالنا پھر ایسے لوگوں کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح لیتے ہیں اور اِس طرح حالات بگڑا ہی کرتے ہیں سنورا نہیں کرتے۔لوگ رشتوں اور کھلونوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔
مگر دادو لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، پھر ہم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔بیٹا اگر انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے لگ جائے تو دنیا جنتِ نظیر بن جائے۔ دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں انسان کو ایسی دلدل سے ہمکنار کر دیتی ہیں، جہاں سے چاہ کر بھی واپس نہیں آیا جا سکتااور انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے احساسات کا خون کرنے لگ جاتا ہے۔
دادی اماں اب میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں کہ اگر لوگ اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات پہ قربان کر نا سیکھ جائیں تو سب کے لئے ہی بہتر ہے۔ میں یہ باتیں اپنے دوستوں کو بھی بتاﺅں گا اور پھر ہم سب مل کر اپنی اِس حسین سی دنیا کو جنتِ نظیر بنانے کی پوری کوشش کریں گے۔(دادی اماں پیار سے احمد کے بالوں کو سہلانے لگ گئیں)
تجھے میں بتاتی ہوں احمد بیٹے۔۔۔(دادی امّاںاسے پیار سے کہتے ہوئے بولیں)
بیٹا جب پھول اپنی قبائیں اپنے ہاتھوں سے ہی کترنے لگ جائیں تو کوئی اُن کو روک نہیں سکتا۔ رشتوں میں تضاد ڈالنا پھر ایسے لوگوں کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح لیتے ہیں اور اِس طرح حالات بگڑا ہی کرتے ہیں سنورا نہیں کرتے۔لوگ رشتوں اور کھلونوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔
مگر دادو لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، پھر ہم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔بیٹا اگر انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے لگ جائے تو دنیا جنتِ نظیر بن جائے۔ دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں انسان کو ایسی دلدل سے ہمکنار کر دیتی ہیں، جہاں سے چاہ کر بھی واپس نہیں آیا جا سکتااور انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے احساسات کا خون کرنے لگ جاتا ہے۔
دادی اماں اب میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں کہ اگر لوگ اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات پہ قربان کر نا سیکھ جائیں تو سب کے لئے ہی بہتر ہے۔ میں یہ باتیں اپنے دوستوں کو بھی بتاﺅں گا اور پھر ہم سب مل کر اپنی اِس حسین سی دنیا کو جنتِ نظیر بنانے کی پوری کوشش کریں گے۔(دادی اماں پیار سے احمد کے بالوں کو سہلانے لگ گئیں)
(محمد بلال اعظم)