یہ نظری پہلو کی مثال تھی اب عملی پہلو سے متعلق ایک مثال لیجئے – اسلام نے معاشرتی زندگی کا جو قانون بنایا ہے اس میں ایک مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ چار عورتوں تک شادی کرسکتا ہے – اسلام کے بعد جب مغربی تہذیب اٹھی تو اس نے اس قانون کا بہت مذاق اڑایا اور اس کو جاہلیت کے زمانہ کا وحشی قانون قرار دیا – اس کے نزیک یہ قانون عورتوں کے ساتھ سراسر نا انصافی تھی اور اس بنیا پر کبھی بھی کوئی ترقی یافتہ تمدن تعمیر نہیں کیا جاسکتا تھا – چنانچہ مسیحیت میں اس کی گنجائش موجود تھی مگر مغربی تہذیب نے اس کو ایک قلم اپنے ہاں سے خارج کردیا اور اس کو ایک نہایت ذلیل فعل قرار دیا کہ کوئی شخص ایک عورت رکھتے ہوئے دوسری عورت سے شای کرے – اس کی تبلیغ اس زور شور سے کی گئی کہ اب یہ حال ہے کہ نہ کوئی مرد اس کی جرات کرسکتا ہے اور نہ کوئی عورت اپنے بارے میں ایسا سوچ سکتی ہے کہ وہ کسی شخص کی وسری یا تیسری بیوی بنے –
مگر حالات نے اور خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے حالات نے اب یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دراصل زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے – کبھی بعض افراد کی زندگی میں تو کبھی پوری جماعت کے لئے ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ و و میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب ناگزیر ہوجاتا ہے – یا تو فواحش یا بدکاری کو قبول کیا جائے جس کا مطلب پورے تمدن کو ہولناک خطرہ میں مبتلا کردینا ہے یا تعدد ازدواج کی شکل کو اختیار کیا جائے جس سے مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوتی – چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان تمام ملکوں میں جو جنگ میں شریک تھے ، عورتوں کی تعداد بہت بڑھ گئی – مرد لڑائیوں میں مارے گئے تھے جس کی وجہ سے مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی جس کا اثر آج تک باقی ہے – 1955 کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں ہر ایک مرد کے مقابلے میں آٹھ عورتیں تھیں – اس جنگ کا سب سے زیادہ اثر جرمنی پر پڑا جہاں بے شمار عورتیں بیوہ اور کتنے بچے یتیم ہوگئے اور لڑکیوں کے لئے شوہر ملنا مشکل ہوگیا – اس کی وجہ سے ان ملکوں میں لاوارث اور ناجائز بچوں کی تعداد بہت بڑھ گئی – جو یتیم ہوگئے تھے ان کا کوئی وارث نہیں رہا اور جو عورتیں شوہر سے محروم ہوگئیں تھیں انھوں نے فطری تقاضہ سے مجبور ہوکر اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے شروع کردئے – نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جرمنی میں بعض عورتوں کہ گھروں پر اس قسم کا بورڈ نظر آنے لگا کہ :
Wanted an evening guest
( رات گزارنے کے لئے ایک مہمان چاہئے )
اگر چہ مغربی ذہن نے ابھی تک اس معاملہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ہے مگر واقعات نے صریح طور پر اس کا غلط ہونا ثابت کردیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب زبان سے بھی اس کو تسلیم کرلیا جائے گا – اس وقت معلوم ہوگا کہ نکاح کے معاملہ میں جس اصول کو مغرب نے اختیار کیا تھااس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کو فحاشی میں مبتلا کرکے بے شمار جرائم کا دروازہ کھول دیا جائے جبکہ اسلام کا اصول اصل مسئلہ کو بہترین طریقے پر حل کرتا ہے اور سماج کو بہت سے شدید نقصانات سے بچالیتا ہے –
قرآن کے نظریات اور اس کے قوانین کی یہ دو مثالیں تھیں جن سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انسانی ساخت کے نظریے اور قوانین بن بن کر بگڑتے رہے مگر قرآن نے پہلے دن جو کچھ کہا تھا آخری دن تک اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں آیا – وہ پہلے جس طرح حق تھا آج بھی اسی طرح حق ہے – قرآن کی یہ خصوصیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے ذہن سے نکلا ہے جس کا علم ماضی اور مستقبل پر محیط ہے – قرآن کی ابدیت قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا کھلا ثبوت ہے –
حضرات ! ہمارے مطالعہ نے اب ہمارے لئے حقیقت کے دروازے کھول دئے ہیں – ہم نے اپنے سفر کا آغاز اس سوال سے کیا تھا کہ " ہم کیا ہیں اور یہ کائنات کیا ہے " اس کا جواب بہت سے لوگوں نے اپنے ذہن سے دینے کی کوشش کی ہے ، مگر ہم نے دیکھا کہ یہ جوابات حقیقت کی صحیح تشریح نہیں کرتے پھر ہمارے کانوںمیں عرب سے بکلی ہوئی ایک آواز آئی – ہم نے اس پر غور کیا ، اس کو کائنات کے فریم میں رکھ کر دیکھا ، انسانی تاریخ میں اسے آزمایا اور فطرت کی گہرائیوں میں اتر کر اس کو پہچاننے کی کوشش کی – ہم نے دیکھا کہ کائنات ، تاریخ اور انسانی نفسیات متفقہ طور پر اس کی تصدیق کر رہے ہیں- ہمارا تمام علم اور ہمارے بہترین احساسات بالکل اس کی تائید میں ہیں جس حقیقت کی ہمیں تلاش تھی اس کو ہم نے پالیا – اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں-