تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
عابدی بھائی سے گزارش ہے کہ بہتر یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام کے ساتھ رضی اللہ لکھا کریں۔
ویسے تو میں اس ٹاپک پہ کچھ نہ لکھتا لیکن حورین سسٹر کی ایک پوسٹ کی تھوڑی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
حورین سسٹر نے ایک حدیث صحیح بخاری سے پیش کی اور نیچے ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں یزید کو سچا اور صحیح ثابت کرنے کے لئے تاریخ سے چند حوالے دئے گئے ہیں۔
آج سے کئی سال پہلے ایک فورم پہ کسی نے یہی مضمون پیش کیا تھا جس کا جواب میں نے وہاں دیا تھا۔
اگر تاریخ کے حوالوں سے دیکھا جائے تو اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا یزید اس پہلے لشکر میں شامل تھا یا نہیں۔
کچھ علماء کے مطابق اس لشکر میں یزید شامل تھا اور کچھ علماء کے نزدیک یزید اس لشکر میں شامل نہیں تھا۔
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا؟
البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 31پرہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43ھ میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 31)
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔
ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی
(بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)
نتیجہ: اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادل نخواستہ شریک ہوا۔
اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے؟
حورین سسٹر نے جس مضمون کا لنک دیا ہے وہاں پہلا حوالہ علامہ ابن حجرؒ کی فتح الباری سے لیا گیا ہے لیکن اسی کتاب فتح الباری سے ایک حوالہ نیچے یزید کی منقبت کے لئے پیش کیا گیا لیکن مضمون نگار نے علامہ ابن حجرؒ کا حوالہ مکمل نہیں دیا بلکہ ادھورا دیا ہے۔
علامہ ابن حجرؒ نے یہ حوالہ مھلب سے نقل کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس مغفرت کو مشروط کر دیا جس کا ذکر اس مضمون میں نہیں کیا گیا۔
اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں۔ اس اصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں۔
یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضورﷺ کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر کوئی فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکر قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں (فتح الباری جلد 11ص 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان)
اور علامہ مناوی نے تو باقاعدہ یزید کا نام لے کر لکھا ہے کہ وہ اس مغفرت میں شامل نہیں کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں تھا۔
(فیض القدیر شرح جامع الصٖغیر۔ج3، ص84)
میرے خیال سے حورین سسٹر شاید اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں تو اہلحدیث مکتبہ فکر کے مشہور عالم زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک بھی یزید بخاری کی اس روایت کا مصداق نہیں اور مغفرت میں شامل نہیں۔
۔(ماہنامہ الحدیث، شمارہ 6)(تحقیقی مقالات، صفحہ 311)۔
علامہ ابن تیمیہؒ جن کے کئی حوالے حورین سسٹر کے دئے گئے مضمون میں دئے گئے ہیں لیکن انہوں نے بھی امام احمد بن حنبلؒ سے روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ یزید نے اہل مدینہ کو قتل کیا اور ان کو لوٹا اور اس سے حدیث روایت نہیں کرنی چائیے۔
۔( فتاوی ابن تیمیہؒ جلد 4 صفحہ 483)۔
اس کے علاوہ حورین سسٹر کے دئے گئے مضمون میں چند اکابرین کے حوالے دئے گئے ہیں لیکن ایسے اکابرین کے کئی حوالے میں بھی یہاں پیش کر سکتا ہوں جو یزید کو فاسق اور فاجر تک کہتے ہیں لیکن میرا مقصد بحث کرنا یا بات کو لمبا کرنا نہیں ہے۔
حورین سسٹر کے دئے گئے مضمون کے آخر میں واضح لکھا گیا ہے کہ یزید حق پہ تھا۔
اب اگر یزید حق پہ تھا تو خود سوچ لیں کہ پھر باطل پہ کون تھا؟؟
کیا کوئی یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ یزید اور امام حسین رضی اللہ عنہ میں سے یزید حق پہ تھا؟؟
اگر یزید کو حق پہ ہی ثابت کرنا ہے اور اگر حق پہ ہی سمجھتے ہیں تو پھر مسئلہ کس بات کا ہے، ان کو چائیے کہ وہ دعا کریں کہ
’’اے اﷲ تعالیٰ! میرا حشر قیامت کے دن یزید کے ساتھ فرما‘‘
ایک جگہ پڑھا تھا اور ایک عالم کی ایک تقریر میں بھی سنا تھا کہ
ابراہیم نخعیؒ کا قول ہے کہ'' بلفرض میں قاتلان حسین رضی اللہ عنہ میں شامل ہوا اور اللہ نے مجھے بخش بھی دیا اور جنت میں بھیج بھی دیا تو پھر بھی میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے نانا نبی کریم ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ میں ان کے نواسے کے قاتلوں میں شامل ہوں''۔
یزید کا دفاع کرنے والوں اور اس کو حق پہ ثابت کرنے والوں کو صرف یہی بات سوچ لینی چائیے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو کیا منہ دکھاییں گے قیامت کے دن؟
میں یہ نہیں کہتا کہ یزید کو برا بھلا کہیں یا اس پہ لعنت کریں کیونکہ دوسرے پہ لعن طعن کرنا مسلمان کا کام نہیں لیکن اس کو حق پہ تو نہ کہیں اور اس کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش تو نہ کریں۔
اللہ سب کو ہدایت دے اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سمیت تمام اہلبیت کرام رضی اللہ عنھم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا احترام اور ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شکریہ