"میں سود جب بھی چھوڑوں گا، تمہارے لیے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑوں گا۔"امامہ نے اس کے اعلان کو سنا اور پھر بڑی ٹھنڈی آواز میں کہا۔
"تو پھر اُن ہی کے لیے چھوڑ دو۔"
سالار ہل نہیں سکا۔۔۔۔یہ عورت اس کی زندگی میں پتا نہیں کس لیے آئی یا لائی گئی تھی۔اس کو اکنامکس اور حساب کے ہر سوال کا جواب آتا تھا سوائے اس ایک جواب کے۔
"تم تو حافظ قرآن ہو سالار۔۔۔۔پھر بھی اتنی بڑی violation کررہے ہو، قرآن پاک اور اللہ کے احکامات کی۔"امامہ نے اس کے ساتھ حرم سے باہر جاتے ہوئے کہا۔
"تم جانتی ہو میں انویسٹمنٹ بینکنگ کروارہا ہوں لوگوں کو اور۔۔۔۔۔"
امامہ نے سالار کی بات کاٹ دی۔"تم کو یقین ہے کہ تم انویسٹمنٹ بینکنگ میں جو بھی کررہے ہو،اس میں سود کا ذرہ تک شامل نہیں ہے؟"
سالار کچھ دیر تک بول نہیں سکا،پھر اس نے کہا۔
"تم بینکنگ کے بارے میں میرا موقف جانتی ہو۔۔۔چلو میں چھوڑ بھی دیتا ہوں یہ۔۔۔۔۔بالکل ہر مسلم چھوڑ دے بینکوں کو۔۔۔۔اس کے بعد کیا ہوگا۔۔۔۔۔حرام حلال میں تبدیل ہوجائے گا؟" اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔
"ابھی تو ہم حرام کام ہی سہی،مگر اس سسٹم کے اندر رہ کر اس سسٹم کو سمجھ رہے ہیں،ایک وقت آئے گا جب ہم ایک متوازی اسلامک اکنامک سسٹم لے آئیں گے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے نہیں آئے گا۔"
"اور ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔۔"امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔۔"کم سے کم میری اور تمہاری زندگی میں تو نہیں٫"
"تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟"
"سود جن لوگوں کے خون میں رزق بن کر دوڑنے لگ جائے،وہ سود کو مٹانے کا کبھی نہیں سوچیں گے۔۔۔۔"
سالار کو ایک لمحہ کے لیے لگا۔۔امامہ نے اس کے چہرے پر طمانچہ دے مارا تھا۔بات کڑوی تھی۔۔۔۔۔پر بات سچی تھی۔۔۔۔تھوک سکتا تھا۔۔۔۔۔پر کڑواہٹ زائل نہیں کرسکتا تھا۔۔
"میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم اگر چیزوں کو بدل نہیں سکتے تو اپنی قابلیت ایک ایک غلط کام کو عروج پر پہنچانے کے لیے مت استعمال کرو۔"
وہ اسی امامہ کی محبت میں گرفتار ہوا تھا،اور آج وہ بیوی بن کر ویسی ہی باتیں دہرا رہی تھی تو سالار کو خفگی ہورہی تھی یا شاید وہ شرمندگی تھی،جو اسے امامہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہنے دے رہی تھی۔اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔اس عورت کو مطیع اور فرماں بردار کرنے کے لیے۔۔۔۔۔اور ابھی کچھ دیر پہلے حرم میں وہ اس سے اپنی محبت اور اطاعت کا اعلان بھی کررہی تھی۔۔۔۔۔اپنی غیر مشروط اور دائمی محبت اور وابستگی کا۔۔۔۔۔۔اور اس اعلان کے بعد بھی وہ صحیح اور غلط کی واضح تمیز لیے بیٹھی تھی،جو صحیح تھا وہ محبت اور اطاعت بھی غلط نہیں کہلوا سکتی تھی۔امامہ ہاشم کی زبان سے۔
سالار سکندر کو اس سے ایک بار پھر حسد ہوا تھا۔کیا اس کی زندگی میں ایسا کوئی وقت آنا تھا جب وہ امامہ ہاشم کے سامنے دیو بنتا اور بنا ہی رہتا،بونا نہ بنتا۔۔۔۔فرشتہ دکھتا اور دکھتا ہی رہتا،شیطان نہ دکھتا۔
"میں آخری خطبہ پڑھوں گا۔۔۔۔"کہنا وہ کچھ اور چاہتا تھا اور کہہ کچھ اور دیا تھا۔
"مجھ سے سنو گے؟"امامہ نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے حرم سے باہر نکلتے ہوئے بڑے اشتیاق سے کہا تھا۔
"تمہیں زبانی یاد ہے؟"سالار نے بغیر حیران ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"اتنی بار پڑھا ہے کہ لگتا ہے زبانی دہراسکتی ہوں۔"وہ اب جیسے کچھ یاد کررہی تھی۔
"سناؤ۔۔۔۔۔"سالار نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔
"آدم۔۔۔"مکہ کی زمین پر کئی سو سال بعد اس خطبہ کو "حوا" کی زبان سے سننے کی تیاری کررہا تھا،جو کئی سو سال پہلے آخری نبی الزماںؐ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے دیا تھا۔۔۔۔۔صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔
آبِ حیات
"تو پھر اُن ہی کے لیے چھوڑ دو۔"
سالار ہل نہیں سکا۔۔۔۔یہ عورت اس کی زندگی میں پتا نہیں کس لیے آئی یا لائی گئی تھی۔اس کو اکنامکس اور حساب کے ہر سوال کا جواب آتا تھا سوائے اس ایک جواب کے۔
"تم تو حافظ قرآن ہو سالار۔۔۔۔پھر بھی اتنی بڑی violation کررہے ہو، قرآن پاک اور اللہ کے احکامات کی۔"امامہ نے اس کے ساتھ حرم سے باہر جاتے ہوئے کہا۔
"تم جانتی ہو میں انویسٹمنٹ بینکنگ کروارہا ہوں لوگوں کو اور۔۔۔۔۔"
امامہ نے سالار کی بات کاٹ دی۔"تم کو یقین ہے کہ تم انویسٹمنٹ بینکنگ میں جو بھی کررہے ہو،اس میں سود کا ذرہ تک شامل نہیں ہے؟"
سالار کچھ دیر تک بول نہیں سکا،پھر اس نے کہا۔
"تم بینکنگ کے بارے میں میرا موقف جانتی ہو۔۔۔چلو میں چھوڑ بھی دیتا ہوں یہ۔۔۔۔۔بالکل ہر مسلم چھوڑ دے بینکوں کو۔۔۔۔اس کے بعد کیا ہوگا۔۔۔۔۔حرام حلال میں تبدیل ہوجائے گا؟" اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔
"ابھی تو ہم حرام کام ہی سہی،مگر اس سسٹم کے اندر رہ کر اس سسٹم کو سمجھ رہے ہیں،ایک وقت آئے گا جب ہم ایک متوازی اسلامک اکنامک سسٹم لے آئیں گے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے نہیں آئے گا۔"
"اور ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔۔"امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔۔"کم سے کم میری اور تمہاری زندگی میں تو نہیں٫"
"تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟"
"سود جن لوگوں کے خون میں رزق بن کر دوڑنے لگ جائے،وہ سود کو مٹانے کا کبھی نہیں سوچیں گے۔۔۔۔"
سالار کو ایک لمحہ کے لیے لگا۔۔امامہ نے اس کے چہرے پر طمانچہ دے مارا تھا۔بات کڑوی تھی۔۔۔۔۔پر بات سچی تھی۔۔۔۔تھوک سکتا تھا۔۔۔۔۔پر کڑواہٹ زائل نہیں کرسکتا تھا۔۔
"میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم اگر چیزوں کو بدل نہیں سکتے تو اپنی قابلیت ایک ایک غلط کام کو عروج پر پہنچانے کے لیے مت استعمال کرو۔"
وہ اسی امامہ کی محبت میں گرفتار ہوا تھا،اور آج وہ بیوی بن کر ویسی ہی باتیں دہرا رہی تھی تو سالار کو خفگی ہورہی تھی یا شاید وہ شرمندگی تھی،جو اسے امامہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہنے دے رہی تھی۔اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔اس عورت کو مطیع اور فرماں بردار کرنے کے لیے۔۔۔۔۔اور ابھی کچھ دیر پہلے حرم میں وہ اس سے اپنی محبت اور اطاعت کا اعلان بھی کررہی تھی۔۔۔۔۔اپنی غیر مشروط اور دائمی محبت اور وابستگی کا۔۔۔۔۔۔اور اس اعلان کے بعد بھی وہ صحیح اور غلط کی واضح تمیز لیے بیٹھی تھی،جو صحیح تھا وہ محبت اور اطاعت بھی غلط نہیں کہلوا سکتی تھی۔امامہ ہاشم کی زبان سے۔
سالار سکندر کو اس سے ایک بار پھر حسد ہوا تھا۔کیا اس کی زندگی میں ایسا کوئی وقت آنا تھا جب وہ امامہ ہاشم کے سامنے دیو بنتا اور بنا ہی رہتا،بونا نہ بنتا۔۔۔۔فرشتہ دکھتا اور دکھتا ہی رہتا،شیطان نہ دکھتا۔
"میں آخری خطبہ پڑھوں گا۔۔۔۔"کہنا وہ کچھ اور چاہتا تھا اور کہہ کچھ اور دیا تھا۔
"مجھ سے سنو گے؟"امامہ نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے حرم سے باہر نکلتے ہوئے بڑے اشتیاق سے کہا تھا۔
"تمہیں زبانی یاد ہے؟"سالار نے بغیر حیران ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
"اتنی بار پڑھا ہے کہ لگتا ہے زبانی دہراسکتی ہوں۔"وہ اب جیسے کچھ یاد کررہی تھی۔
"سناؤ۔۔۔۔۔"سالار نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔
"آدم۔۔۔"مکہ کی زمین پر کئی سو سال بعد اس خطبہ کو "حوا" کی زبان سے سننے کی تیاری کررہا تھا،جو کئی سو سال پہلے آخری نبی الزماںؐ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے دیا تھا۔۔۔۔۔صرف مسلمانوں کے لیے نہیں۔
آبِ حیات