ہاتھ پر اُن کے تتلی بیٹھ گئی
اس لیے سر جھکائے بیٹھے ہیں
دِل میں دِل دار آئے بیٹھے ہیں
ہاتھ پر اُن کے تتلی بیٹھ گئی
گُل سبھی خار کھائے بیٹھے ہیں
رَنگ اُڑا لے گئے وُہ تتلی کا
گُل کی خوشبو چرائے بیٹھے ہیں
شائبہ تک نہیں شرارَت کا
کیسی صورَت بنائے بیٹھے ہیں
اِس لیے پاؤں میں دَباتا ہوں
وُہ مرا دِل دَبائے بیٹھے ہیں
ایک بت کا سوال ہے مولا
من کا مندر سجائے بیٹھے ہیں
دوسرا موقع قیسؔ کیسے ملے ؟
ایک دِل تھا گنوائے بیٹھے ہیں