عجیب لوگ ہیں کیا خُوب مُنصفی کی ہے !
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
بُرا نہ مان اگر یار کچُھ بُرا کہہ دے !
دِلوں کے کھیل میں خود داریاں نہیں چلتیں
عجیب لوگ ہیں کیا خُوب مُنصفی کی ہے !
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
نے نامہ، نے پیام، نہ قاصد، ہے آفریں
تم نے تو یک قلم ہمیں جی سے بُھلا دیا
اب دِل سے بے عصا نہیں اُٹھتی ہے آہ بھی
یاں تک تو ضعفِ قلب نے ہم کو بِٹھا دیا
ایک دن ہو تو گزر بھی جائے
روز مر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﺠﮫ کو تیرﮮ ﺟﺒﺮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﯽ ﻗﺴﻢاے موت تو ہی آ کے قصہ تمام کر دے
ہم زندگی کے ہاتھوں قسطوں میں مر رہے ہیں