آشوب '' ثمینہ راجہ

  • Work-from-home

zainy

Newbie
Feb 9, 2009
33
22
0

آشوب

کیا آہ بھرے کوئ
جب آہ نہیں جاتی
دل سے بھی ذرا گہری
اور عرش سے کچھ اونچی

کیا نظم لکھے کوئ
جب خواب کی قیمت میں
آدرش کی صورت میں
کشکول گدائ کا
شاعر کو دیا جا‎ ‎ۓ
اور روک لیا جاۓ
جب شعر اترنے سے
بادل سے ذرا اوپر
تاروں سے ذرا نیچے

کیا خاک لکھے کوئ
جب خاک کے میداں پر
انگلی کو ہلانے سے
طوفان نہیں اٹھتا
جب شاخ پہ امکاں کی
اس دشت تمنا میں
اک پھول نہیں کھلتا

رہوار نہیں رکتے
موہوم سی منزل پر
آنکھوں کے اشارے سے
اور نور کی بوندوں کی
بوچھاڑ نہیں ہوتی
اک نیلے ستارے سے

جب دل کے بلاوے پر
اس جھیل کنارے پر
پیغام نہیں آتا
اک دور کا باشندہ
اک خواب کا شہزادہ
گلفام، نہیں آتا

بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
جاگی ہوئ عورت کی
سو‏ئ ہوئ قسمت پر
جب کوئ بھی دیوانہ
بے چین نہیں ہوتا
دہلیز کے پتھر سے
ٹکرا کے جبیں اپنی
اک شخص نہیں روتا

جب نیند کے شیدائ
خوابوں کو ترستے ہیں
اور دیکھنے کے عادی
بینائ سے ڈرتے ہیں
رہ رہ کے اندھیرے سے
آنکھوں میں اترتے ہیں

آنکھوں کے اجالوں سے
ان پھول سے بچوں سے
کہہ دو کہ نہ اب ننگے
پاؤں سے چلیں گھر میں
اس فرش پہ مٹی کے
اب گھاس نہیں اگتی
اب سانپ نکلتے ہیں
دیوار سے اور در سے

اب نور کی بوندوں سے
مہکی ہوئ مٹی میں
انمول اجالے کے
وہ پھول نہیں کھلتے
اب جھیل کنارے پر
بچھڑے بھی نہیں ملتے
بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
اور جاگنے والوں سے
اب نظم نہیں ہوتی

کیا نظم لکھے کوئ
جب جاگنے سونے میں
پا لینے میں،کھونے میں
جب بات کے ہونے میں
اور بات نہ ہونے میں
کچھ فرق نہ رہ جاۓ
کیا بات کرے کوئ

٭٭٭
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top