ہم جو اپنے آبا و اجداد سے ، بزرگوں سے ، اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں، کتابوں میں بھی کبھی کبھی پڑھنے کو مل جاتا ہے - ہم اپنی اس ثقافت کو کہیں رکھ کے بھول گئے ہیں، یا ہم نے دانستہ ان سے نظر بچا لی ہے ، ہٹا لی ہے، کسی نئی ترقی کی جانب-
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہم رکھ کے بھولے نہیں ہیں، اور نہ ہی دانستہ نظر بچا ئی ہے ، ہماری مصروفیت کا عا لم کچھ اس طرح سے ہو گیا ہے کہ آپ اپنے آپ کو گروی رکھ چکے ہیں- ہر طرح کی مصروفیات کے ہاتھوں ضروری بھی غیر ضروری بھی- آپ جانچنے اور آنکنے بیٹھے ہوں گے تو آپ دیکھیں گے کہ غیر ضروری مصروفیات ضروری مصروفیات سے کہیں زیادہ ہیں-
از اشفاق احمد زاویہ ١" دیے سے دیا " پیج ٥٢