آپ صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو ، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ ، جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ،
جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتاہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں )سزا اور عذاب میں مبتلا کر دے ۔“ (ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ و موثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ) یا نصف مد (جو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔“ (بخاری ومسلم)
یقینا صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل۔“ (حکایاتِ صحابہ)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے ( منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو ،( ترمذی)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ صحابہٴ کرام کو گالی دینا حرام اور گناہ کبیرہ میں سے ہے ۔اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں ، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیونکہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے اوران کی تنقیص (بے عزتی ) نفاق کی پہچان ہے۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صحابہٴکرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے،
چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ
”بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اوررشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ، عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے صحابہ کو بُرا کہیں گے اور ان کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے، پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا ، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)
جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتاہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں )سزا اور عذاب میں مبتلا کر دے ۔“ (ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ و موثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ) یا نصف مد (جو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔“ (بخاری ومسلم)
یقینا صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل۔“ (حکایاتِ صحابہ)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے ( منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو ،( ترمذی)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ صحابہٴ کرام کو گالی دینا حرام اور گناہ کبیرہ میں سے ہے ۔اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں ، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیونکہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے اوران کی تنقیص (بے عزتی ) نفاق کی پہچان ہے۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صحابہٴکرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے،
چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ
”بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اوررشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ، عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے صحابہ کو بُرا کہیں گے اور ان کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے، پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا ، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)