عزیز الدین دیر تک اپنے کمرے میں ٹہلتے رہے۔ صبح سے موسم بھی خراب تھا۔ پرانی کھانسی کی شکایت بھی تھی۔ چلتے چلتے کھانسنے لگتے۔ سانس پھول جاتی تو کرسی پر کچھ دیر کے لئے سستانے بیٹھ جاتے۔ کوئی تو نہ تھا اس بڑے سے گھر میں اُن کے سوا___ اور جب سے اُن کی نظر اس عجیب سے اشتہار پر پڑی تھی، تو بڑھاپے کے کمزور سے دل پر جیسے زلزلہ آگیا تھا۔ دیر تک اشتہار کو عجیب سی نگاہوں سے گھورتے رہے۔ احمد حسین زندہ ہے۔ میرا دوست، میرا یار، ابھی بھی زندہ ہے اور اپنے ہی جیسا اس دنیا میں تنِ تنہا اکیلا.... بے چینی بڑھ جاتی تو کمرے میں ٹہلنے کا عمل ایک بار پھر شروع ہوجاتا۔ دمے کے مریض ٹھہرے۔ سانس پھولنے لگتی۔ جب سے یہ خبر پڑھی تھی ایک سیکنڈ بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے۔ خود ہی اٹھے اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے دوستوں کو خبر کرنے چل دئے۔ کچھ ہی دنوں بعد عید تھی اور اس وقت عزیزالدین بے صبری سے اپنے دوستوں کے آنے کا انتظار کررہے تھے۔
سب سے پہلے حمید بھائی آئے۔ رکشہ سے بڑی مشکل سے اُترے۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے عزیزالدین کو آواز دی۔ پوپلے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ حمید بھائی ایک دو سال بڑے رہے ہوں گے۔ سہارا دیتے ہوئے، خود بھی گرتے پڑتے حمید بھائی کو اندر لے آئے۔ حمید بھائی صوفے پر پھیل گئے۔
اب چلا نہیں جاتا عزیزو___
عزیزالدین نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ بڑھاپے نے کسی لائق نہیں چھوڑا۔ کل تک اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ مگر اب سوچتا ہوں اکیلے آدمی کی موت کیسے ہوتی ہوگی؟
حمید بھائی کے 'رعشہ' بھرے ناتھ صوفے کی دھول صاف کرتے رہے۔آنکھیں یوں ہی بے مطلب سی اِدھر اُدھرگھورتی رہیں۔
موت ہمارے لئے سب سے تکلیف دہ چیز ہے۔ موت جو بغیر خبر کئے آئے گی موت جو اکیلی آئے گی اور رونے والا کوئی نہ ہوگا۔
اور سہارا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ آخری منزل کو پہنچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ عزیزبھائی پھیکی مسکراہٹ اُگلتے ہوئے بولے۔ کوئی پاس پڑوس میں خبر دینے والا نہ ہوگا۔ مزار پر فاتحہ پڑھنے والا نہ ہوگا۔
بس اکیلے پن کو کاٹ رہے۔ کم بخت موت سے ڈرلگتا ہے۔ ہمارے بعد کون ہے، ہمارے پیچھے کون ہے؟
روازے پر ایک ساتھ کئی قدموں کی آہٹ گونجی___ عزیزالدین سنبھل گئے___ لگتا ہے سب آگئے___تیز قدموں سے باہر نکل آئے۔ کھانسی ایک بار پھر تیز ہوگئی تھی۔ باہر قمر بھائی، مشتاق بھائی اور سمیع بھائی تینوں کھڑے تھے.... اپنے اپنے جان لیوا بڑھاپے کے ساتھ.... جھُرّی بھرے پوپلے ہونٹوں پر سنجیدگی طاری تھی۔
آئیے، آئیے.... عزیز الدین کی آنکھوں میں چمک تھی۔
تینوں بوڑھے قدم دابے اندر چلے آئے۔ حمید بھائی سے ہاتھ ملایا۔ پھر اپنے اپنے صوفے پر جم گئے۔ قمر بھائی کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا تھا۔ کمزور آواز میں بولے۔
تم نے آج بلایا تو بے حد مسرت ہوئی کہ اس بڑھاپے میں بچپن کی تاریخ دُہرائی جاسکتی ہے___ اپنا احمد زندہ ہے___ اور اسی شہر میں ہے۔ اس خبر سے بتا نہیں سکتا کیسی خوشی ہورہی ہے۔
عزیزالدین سمیت پانچوں بوڑھے کرسیوں پر سرجھکائے بیٹھ گئے۔ عزیز نے اخبار سے اشتہار والا صفحہ کھول لیا۔ کمرے میں پُراسرار خاموشی پھیل گئی۔
عزیز نے دوبارہ کہا___ بھائی___!، اکیلے پن کا ایک غم یہ بھی ہوتا ہے کہ میں تم لوگوں کو کھلا پلا نہیں سکتا۔ کوئی خاطر نہیںکرسکتا۔ مگر ٹھہرو___ حلیم کو آواز دیتا ہوں.... وہی تو ہے.... فرمانبردار.... خاندانی....
ح....ل....ی....م___ کھانسی سے اُبھری ہوئی آواز کمرے کے اندر ہی دم توڑ گئی___ عزیز الدین کی آنکھیں بھر آئیں___ مگر حلیم آئے گاکہاں سے.... حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ یادداشت کمزور ہوگئی ہے۔ سب کچھ بھول جاتا ہوں۔
کیا ہوا ___ حلیم کہاں ہے___ ؟قمر بھائی نے اکڑتے ہوئے پیر کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔
حلیم نہیں رہا۔ عزیز بھائی کی آواز بیٹھ گئی۔مگر جی نہیں مانتا کہ وہ نہیں ہے۔ ہر بار لگتا ہے وہ یہیں کہیں موجود ہے۔ ابھی نکل کر سامنے کھڑا ہوگا۔ اکیلے بیٹھے بیٹھے میں گھبرا جاتا ہوں تو اُسے آواز دیتا ہوں.... مگر حلیم ہے کہاں جو آئے گا....صدا لوٹ آتی ہے!
حلیم نہیں رہا۔ کمرے میں سناٹا پھیل گیا ہے۔
اس کے کھلائے ہوئے پکوان اب تک یاد ہیں۔ کتنی خاطر کرتا تھا ہماری! کیسی میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ بھی تو ہم میں سے ہی ایک تھا۔ تن تنہا اور اکیلا۔ سمیع بھائی بولے۔
حلیم کے قصّے اب تک یاد ہیں۔ چٹخارے لے لے کر سنانے کا انداز___ کیسی کیسی باتیں کیا کرتا تھا۔ خبطی، کم بخت کبھی اپنے سے الگ نہیں لگا۔ قمر بھائی کی آواز بیٹھ گئی۔
مگر حلیم کو ہوا کیا تھا؟
کچھ نہیں۔ نیک مرد تنہائی سے گھبرا گیا تھا۔ مرنے سے کچھ روز پہلے عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا۔ ایک صبح جب چائے کے لئے اُسے آواز لگائی تو کوئی آواز نہیں آئی۔ دل بیٹھ گیا۔ باورچی خانے کے پاس ہی چارپائی نکال کر وہ سویا کرتا تھا___ وہاں چارپائی پر اس کا بیٹھا ہوا مردہ جسم پڑا تھا۔کتنی مشکل پیش آئی تھی۔ کسی طرح محلے والوں کو تیار کیا۔ پیسے دئے۔ انتظامات کئے۔ مگر خود اس کا کاندھا دینے نہ جاسکا___ عزیز بھائی کی آواز بھاری ہوگئی تھی۔
کم بخت حلیم کو کتنے لوگ مل گئے تھے سہارا دینے کے لئے ___ ہماری خبر محلے والے کو کون دے گا___ ؟
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ جھُرّی بھرے چہرے پریشانی میں ڈوب گئے۔
خود ہی چائے بناتا ہوں___ روٹیاں بناتا ہوں___ ادھ جلی سبزیاں بنالیتا ہوں اور کھا لیتا ہوں۔ گوالا دودھ دے جاتا ہے۔ کبھی کبھی بغل سے فہمیدہ آکر صفائی کر جاتی ہے۔ پڑوس کا نوکر آکر بجلی کا بل بھر جاتا ہے۔ بس ساراکام اسی طرح ہوجاتا ہے۔ ہاں رات بڑی تکلیف میں گذرتی ہے۔
رات ہم سب کے لئے موت سے بدتر ہے۔ چاروں بوڑھے ایک ساتھ بولے۔ پھر چُپ ہوگئے۔
حمید کانپتی آواز میں پھر بولے۔ بس رات نہیں کٹتی یارو! دن تو کتابوں میں کٹ جاتا ہے___ رات نہیں کٹتی۔ آسیبی خیالات دماغ
کو بوجھل بنادیتے ہیں۔