بہت تھا شوق مرنے کا
سو وہ اب مر گیا ہے
وہ اس ظالم گلی سے کل گیا ہے
عجب انداز تھا اسکا
کہ روٹھا سا کوئی شاعر سرِ محفل نکل آئے
جسے دنیا سے نفرت ہو
سرِ بازار آ جائے
کبھی وہ گیت لکھتا تھا کبھی نغمہ
کبھی نظمیں سناتا تھا
کہ جیسے خوب میں وہ بولتا ہو
ہمارے ذہن کے پر تولتا ہو
پری کے دیس میں ہو سوچتا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا تھا
ضروری بات کہنی ہو
کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی کو یاد کرنا ہو
کسی کو
سو وہ اب مر گیا ہے
وہ اس ظالم گلی سے کل گیا ہے
عجب انداز تھا اسکا
کہ روٹھا سا کوئی شاعر سرِ محفل نکل آئے
جسے دنیا سے نفرت ہو
سرِ بازار آ جائے
کبھی وہ گیت لکھتا تھا کبھی نغمہ
کبھی نظمیں سناتا تھا
کہ جیسے خوب میں وہ بولتا ہو
ہمارے ذہن کے پر تولتا ہو
پری کے دیس میں ہو سوچتا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا تھا
ضروری بات کہنی ہو
کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی کو یاد کرنا ہو
کسی کو
جاوید زیدی ۔ ہیوسٹین