سدرۃ المنتھی
سدرۃ المنتھی : بیری کا درخت جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے وقت آسمان میں جبریل امین علیہ السلام کواس درخت کے پاس دیکھا ۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اسے توایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سدرۃ المنتھی کے پاس اسی کے پاس جنۃ الماوی ہے جب کہ سدرہ کوچھپاۓ لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی ، نہ تونگاہ بہکی اور نہ ہی حد سے بڑھی ، یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑي نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں } النجم ( 13 - 18 ) ۔
{ جب کہ سدرہ کوچھپاۓ لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی } کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ابوذررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ " تواس پرایسے رنگ چھا گۓ جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کونسے ہیں ۔
اورابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ اسے فرشتوں نے ڈھانپ لیا ، اورمسلم کی روایت میں ہے کہ " جب اسےاللہ تعالی کے حکم سے ڈھانپ لیا جس نے اسے چھپا رکھا تواس میں تغیر آگيا ، تواللہ تعالی کی مخلوق میں کوئ ایسا نہیں جواس کے حسن کی صفت بیان کرے ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث معراج میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب انہیں جبریل علیہ السلام آسمان پر لے گۓ اوراللہ تعالی کے حکم سے ایک کے بعد دوسرا آسمان گزرتے رہے حتی کہ ساتویں آسمان میں داخل ہوگۓ تو کہنے لگے پھرمیرے سامنے سدرۃ المنتھی ظاہر کی گئ تواس کے بیر (پھل) ھجر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے ، تو وہ کہتے ہیں کہ یہی سدرۃ المنتہی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر( 3598 ) ۔
اورسدرۃ المنتھی کے نام کا سبب صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کی حديث میں بیا ن کیا گيا ہے جس میں ہے کہ :
زمین سے جوبھی اوپرچڑھتا ہے وہ اس جگہ جاکر اس کی انتھاء ہوجاتی ہے تووہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ، اور اترنے والےکی انتھاء بھی یہیں ہوتی ہے تو وہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ۔
اورامام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : سدرۃ المنتھی اس لیے کہا جاتا ہےکہ فرشتوں کی پہنچ وہاں تک ہی ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورنے وہاں سے تجاوز نہیں کیا ۔
اوریہی وہ درخت ہے جس تک ہرمرسل نبی اورمقرب فرشتے کا علم ختم ہوجاتا ہے ، اوراس درخت کے بعد ( یعنی اوپر) غیب ہے جسے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اورنہیں جانتا یاپھر اسے علم ہوتا ہے جسے اللہ تعالی بتا دے ۔
اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ شھداء کی ارواح یہاں تک جاتی ہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ( فاذا نبقھا ) نبق معروف ہے جو کہ بیری کا پھل اورجسے ہم بیر کہتے ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( مثل قلال ھجر ) خطابی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ القلال کسرہ کے ساتھ یہ قلہ کی جمع ہے اور مٹکے کو کہا جاتا ہے یعنی کہ اس کے بیر مٹکے جتنے بڑے تھے اورمخاطبوں کے ہاں معروف ہونے کی بنا پراس کی مثال بیا ن کی گئ ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا (ھجر) کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ھجر شہر کے مٹکے بڑے ہوتے ہیں اسی طرح وہ بیر بھی بڑے تھے ، اورنبی صلی اللہ نے یہ فرمایا کہ ( واذا ورقہا مثل آذان الفیلۃ ) یعنی ان کے پتے ہاتھی کے کانوں کے طرح بڑے بڑے تھے ۔