آج سائنسی علوم بہت تفصیل سے سامنے آچکے ہیں۔ ان کی روشنی میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے وہ تو چمکتے ہوئے ستاروں اور نگینوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ ایک آدمی جب صبح کو سوکر اُٹھتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ پہلے وہ وضو کرے گا۔ وضو میں ہم کیا کرتے ہیں، Naturally (قدرتی طور پر) جسم کے جو Exposed پارٹس (کھلے حصے) ہیں، ان کو دھویا جاتا ہے، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جاتا ہے، پاؤں کو دھویا جاتا ہے۔ نارمل جسم کے یہ وہ حصے ہیں جو کام کرتے وقت Exposed (کھلے) رہ جاتے ہیں۔ ان کو دن میں پانچ مرتبہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ بقیہ جسم تو عام طور پر کپڑوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے، جسم کے وہ حصے جوکہ کام کاج کے وقت Uncovered ہوتے ہیں، تو ان کو گویا پانچ مرتبہ دھویا جانا چاہئے۔ تو دیکھئے، ایک آدمی جب اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے اُوپر جتنے بھی Dust Particles (مٹی کے ذرّات) ہوتے ہیں، وہ سارے کے سارے صاف ہوجاتے ہیں۔ چہرے کو دھونے کا عمل دن میں پانچ مرتبہ کیا جاتا ہے۔ دُنیا کا کوئی بھی صاف ترین آدمی لے لیجئے، جوکہ مسلمان نہ ہو۔ وہ اپنے چہرے کو دن میں کتنی مرتبہ دھوئے گا؟ صبح کو ٹب لے گا اور شام کو شاور لے گا۔ زیادہ تیر مارے گا تو دوپہر کو منہ دھولے گا۔ پابندی کے ساتھ دن میں پانچ مرتبہ چہرہ، ہاتھ، پاؤں دھونا یہ سعادت صرف ایک مسلمان کو حاصل ہوتی ہے۔