سوال تو ہوگا

  • Work-from-home

Lost Passenger

Senior Member
Aug 10, 2009
889
1,976
1,293
Loh-e-jahan pe herf-e-mukerer nahin hoon main
سوال تو ہوگا۔۔۔۔

آج سے کوئی ربع صدی قبل میں نے مسلمانوں کے حالات پر ایک تحریر لکھی تھی اور وہ تحریر روزنامہ جنگ میں 3 جنوری بروز جمعہ 1992 میں چھپی اور میں آج دنیا میں آباد کلمہ گو لوگوں کے موجودہ حالات کا موازنہ آج سے پچیس برس قبل کے حالات سے کرتا ہوں تو مجھے کچھ فرق محسوس نہیں ہوتا ہم آج بھی اتنے ہی راندہ درگا ہیں جتنے پہلے تھے سوئیڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا جو واقعہ ہوا کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟۔۔۔نہیں۔۔۔ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا کیونکہ اللّٰہ اور رسول کے کے دشمن اس بات سے بہت اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں کہ اب مسلمانوں میں اپنے اللّٰہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت اور عقیدت نہیں جو کہ کبھی ہوتی تھی۔۔۔بقول علامہ اقبال کے کہ۔۔۔
تھے تو وہ آبا ہی تمہارے مگر تم کیا ہو؟۔۔۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔۔۔
سوئیڈن میں قرآن کی بے حرمتی ہوئی اور ہم نکل پڑے پر امن احتجاج اور مذمتی بیانات اور قرار دادیں پاس کرانے کے لئیے۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ تشدد پر اتر آئیں اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یہ تعلیمات رہی ہیں مگر یہ سوال تو بنتا ہے کہ آپ نے عملی طور پر کیا قدم اٹھایا آج یہ سوال دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کو اپنے اربابِ اختیار سے کرنے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں کیا قدم اٹھایا؟ مقصد یہ نہیں کہ سوئیڈن پر حملہ کردو آج ایسا ممکن نہیں کم از کم مسلمانوں کے لئیے تو بالکل بھی ممکن نہیں ہاں اگر امریکہ چاہے تو دنیا کے کسی بھی مسلم ملک کے خلاف لشکر کشی کرسکتا ہے یورپی یونین اور برطانیہ بھی اسکا ساتھ دیں گے نیٹو افواج بھی فوری حملے کے لئیے ریڈی ہوں گی لیکن ہم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے بہت کچھ بنایا لیکن فوجی اعتبار سے دنیا کا کوئی بھی اسلامی ملک اس قابل نہیں مگر آج کا دور معاشی جنگ کا ہے کیا کہ مسلم ممالک سوئیڈن اور اس کو سپورٹ کرنے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرسکتے او آئی سی کہاں سوئی ہوئی ہے؟ اٹھو بھائیو اللّٰہ کے قرآن کے لئیے کیا اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ کب دنیا کو یہ پیغام دوگے کہ بیشک ہم مختلف سرحدوں میں بٹے ہوئے ہیں مگر اللّٰہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوگی یا قرآن کی بے حرمتی کی جائے گی اور مسلمانوں پر ظلم ہوگا تو پھر یہ سرحدیں بے معنی ہوں گی اور ہم ایک ہوں گے عرب ممالک کی منڈیاں غیر مسلم ممالک کی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں کچھ وقت کے لئیے بند کردیں سب نکال لیں اپنا پیسہ ان کے بینکوں میں سے باہر ہونے والے دنیاوی نقصان کا نہ دیکھو صرف یہ ایمان رکھو کہ آج تم اللّٰہ کے قرآن کے لئیے کوئی عملی قدم اٹھاؤ گے تو قرآن کا محافظ جو اس تمام کائنات کا خالق ہے تمہیں تنہا کیسے چھوڑ دے گا جس نے بدر میں نہتے مسلمانوں کو فتح عظیم سے نوازا وہ تمہیں کیونکر بے یارو مدد گار چھوڑ دے گا اب عمل کا وقت ہے زبانی جمع خرچ کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی اللّٰہ کو تمہاری ان زبانی مذمتوں اور قرار دادوں کی محتاجی ہے جو ابابیلوں سے اپنے گھر کی حفاظت کروا سکتا ہے اور چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ہاتھیوں کو بھوسے کی مانند روند سکتا ہے تو قرآن کی حفاظت کا زمہ تو خود اس نے لیا ہے اور وہ خود قرآن میں کہتا ہے کہ۔۔۔
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾...
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔۔۔۔۔
تو پھر آج اگر مسلمانانِ عالم اور تمام اسلامی ممالک کی حکومتیں مل کر اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو یہ ہمارے حق میں ہی آنے والے وقت میں بہتر ہوگا بصورتِ دیگر اللّٰہ کو زبانی مذمتوں اور قرار دادوں کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ اپنی حکومتیں چھوڑ دو آپ ان پر قابض رہو دنیاوی عیش و عشرت میں ڈوبے رہو مست رہو اپنی دنیا میں مگر کچھ ترجیہات تو بنالو کہ جن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اپنے کسی عمل سے تو یہ ثابت کرو کہ نہ تو مسلمانوں پر ظلم برداشت کیا جائے گا اور نہ ہی رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حرمتی اور اگر ایسا ہوگا تو اسکا جواب صرف مذمتی بیانات کی صورت میں نہیں ہوگا کیونکہ سوال تو ہوگا اور جواب بھی دینا ہوگا ہمیں بھی دینا ہوگا اور آپ کو بھی دینا ہوگا ہر اس ہستی کو دینا ہوگا جو اپنے آپ کو مسلمان اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا امتی کہتا ہے چاہے وہ عوام میں سے ہو یا اربابِ اختیار میں سے ہو جواب تو دینا ہوگا کوئی دنیا میں ہمیشہ نہیں رہا اور آنکھ بند ہوتے ہی سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ہم جو روضہ مبارک پر جا کر سلام پیش کرتے ہیں کس منہ سے وہاں جائیں گے؟ کہ اے اللّٰہ کے رسول سلام پیش کرتے ہیں اور ہم وہ بے ہمیت مسلمان ہیں کہ جن کے سامنے اللّٰہ کے کلام کی توہین ہوئی اور ہم کچھ نہ کرسکے اپنے حکمرانوں کو مجبور کرنا تو درکنار نہ تو ہمارے دل درد سے تڑپنے اور نہ ہی اپنی بے بسی پر ہماری آنکھ سے اشک کا ایک قطرہ بھی ٹپکا۔۔۔۔۔۔لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے میں صفحات کے صفحات کالے کر سکتا ہوں مگر کیا ہوگا؟ میں جانتا ہوں کچھ بھی نہیں ہوگا مگر میں بروز قیامت اپنے اللّٰہ کے رو برو یہ کہہ سکوں گا کہہ اے اللّٰہ تو نے مجھے لکھنے کی صلاحیت سے نوازا تھا تو میں نے آواز اٹھائی تھی شاید اس بیکار سی تحریر کے طفیل ہی اللّٰہ مجھے بخش دیں اور شاید مجھے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوجائے اور شاید قرآن میرا سفارشی بن جائے کہ اے ساری کائینات کے مالک جب میری بے حرمتی کی گئی تو میری حمایت میں آواز اٹھانے والوں میں یہ بھی شامل تھا۔۔۔۔

سید سہیل اختر ہاشمی
 
Top