عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد از وفات ایک حساس موضوع ہے- میں نے اس سے متعلق دلائل کو پڑھا اور ان کو تحریر کر دیا ہے- اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو، اللہ سے دعا ہے وہ مجھ ناچیز کو گمراہی سے بچا لے، اور صحیح عقیدہ کی طرف رہنمائی فرمائے-
احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی ﷺ کے بارے میں جو عقیدہ ,وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔ جو کہ علماء دیوبندمحمد قاسم نانو توی سے مختلف ہے۔
" اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم ﷺ جنت میں زندہ ہیں"۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے
نبی کریم ﷺ سے فرمایا:‘‘إنہ بقی لک عمر لم تستکملہ، فلو استکملت أتیت منزلک’’بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔ (صحیح البخاری۱؍۱۸۵ح۱۳۸۶)
معلوم ہوا کہ آپ ﷺ دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ:‘‘أرواحھم فی جوف طیر خضر، لھا قنادیل معلقہ بالعرش، تسرح من الجنۃ حیث شاءت، ثم تأوی إلی تلک القنادیل’’ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ (صحیح مسلم : ۱۲۱؍۱۸۸۷ودار السلام:۴۸۸۵)
جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں -شہداء کی یہ حیات جنتی، اُخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اُخروی و برزخی ہے۔
حافظ ذہبی(متوفی ۷۴۸ھ) لکھتے ہیں کہ:‘‘ وھو حی فی لحدہ حیاۃ مثلہ فی البرزخ’’ اور آپ (ﷺ) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء۹/۱۶۱
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:‘‘لأنہ بعد موتہ و إن کان حیا فھی حیاۃ اخرویۃ لا تشبہ الحیاۃ الدنیا، واللہ اعلم’’بے شک آپ ﷺ اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم(فتح الباری ج۷ص۳۴۹تحت ح۴۰۴۲)
معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔
اس کے برعکس علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے کہ:‘‘وحیوتہ ﷺ دنیویۃ من غیر تکلیف وھی مختصۃ بہ ﷺ وبجمیع الأنبیاء صلو ات اللہ علیھم والشھداء لابرزخیۃ۔۔۔’’‘‘ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام ا نبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو ۔۔۔’’ (المہند علی المفند فی عقائد دیوبند ص ۲۲۱پانچواں سوال: جواب)
حیات الانبیاء احادیث کی روشنی میں
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " . [مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ, رقم الحديث: 3371(3425)]
ترجمہ: حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جناب_رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاء (علیھم السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں.
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ:
‘‘رسول اللہ ﷺ کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا’’ (آب حیات ص ۶۷، اور یہی مضمون)
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ " .[ صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)]
ترجمہ: حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے اللھ علیہ وسلم نے فرمایا :"معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.
قبرِ اطہر پر پڑھا جانے والا درود آپؐ خود سنتے ہیں:
وقال أبو الشيخ في الكتاب ((الصلاة على النبي)) : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " .[جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19 ؛ مشكوة: جلد # ١ حديث # ٨٩٩ برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔]
ترجمہ: حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19)
دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ: اِنَّکَ مَیِّت‘’ وَ اِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔(الزمر:۳۰)
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:‘‘ ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا ﷺ قدمات’’ الخ سن لو! جو شخص (سیدنا) محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ (صحیح البخاری: ۳۶۶۸)
اس موقع پر سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ‘‘وما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل’’ الخ[آل عمران: ۱۴۴] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ (البخاری: ۱۲۴۱ ، ۱۲۴۲)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ دیکھئے صحیح البخاری (۴۴۵۴)
معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔
احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی ﷺ کے بارے میں جو عقیدہ ,وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔ جو کہ علماء دیوبندمحمد قاسم نانو توی سے مختلف ہے۔
" اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم ﷺ جنت میں زندہ ہیں"۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے
نبی کریم ﷺ سے فرمایا:‘‘إنہ بقی لک عمر لم تستکملہ، فلو استکملت أتیت منزلک’’بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔ (صحیح البخاری۱؍۱۸۵ح۱۳۸۶)
معلوم ہوا کہ آپ ﷺ دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ:‘‘أرواحھم فی جوف طیر خضر، لھا قنادیل معلقہ بالعرش، تسرح من الجنۃ حیث شاءت، ثم تأوی إلی تلک القنادیل’’ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ (صحیح مسلم : ۱۲۱؍۱۸۸۷ودار السلام:۴۸۸۵)
جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں -شہداء کی یہ حیات جنتی، اُخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اُخروی و برزخی ہے۔
حافظ ذہبی(متوفی ۷۴۸ھ) لکھتے ہیں کہ:‘‘ وھو حی فی لحدہ حیاۃ مثلہ فی البرزخ’’ اور آپ (ﷺ) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء۹/۱۶۱
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:‘‘لأنہ بعد موتہ و إن کان حیا فھی حیاۃ اخرویۃ لا تشبہ الحیاۃ الدنیا، واللہ اعلم’’بے شک آپ ﷺ اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم(فتح الباری ج۷ص۳۴۹تحت ح۴۰۴۲)
معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔
اس کے برعکس علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے کہ:‘‘وحیوتہ ﷺ دنیویۃ من غیر تکلیف وھی مختصۃ بہ ﷺ وبجمیع الأنبیاء صلو ات اللہ علیھم والشھداء لابرزخیۃ۔۔۔’’‘‘ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام ا نبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو ۔۔۔’’ (المہند علی المفند فی عقائد دیوبند ص ۲۲۱پانچواں سوال: جواب)
حیات الانبیاء احادیث کی روشنی میں
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " . [مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ, رقم الحديث: 3371(3425)]
ترجمہ: حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جناب_رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاء (علیھم السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں.
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ:
‘‘رسول اللہ ﷺ کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا’’ (آب حیات ص ۶۷، اور یہی مضمون)
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ " .[ صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)]
ترجمہ: حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے اللھ علیہ وسلم نے فرمایا :"معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.
قبرِ اطہر پر پڑھا جانے والا درود آپؐ خود سنتے ہیں:
وقال أبو الشيخ في الكتاب ((الصلاة على النبي)) : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " .[جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19 ؛ مشكوة: جلد # ١ حديث # ٨٩٩ برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔]
ترجمہ: حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19)
دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ: اِنَّکَ مَیِّت‘’ وَ اِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔(الزمر:۳۰)
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:‘‘ ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا ﷺ قدمات’’ الخ سن لو! جو شخص (سیدنا) محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ (صحیح البخاری: ۳۶۶۸)
اس موقع پر سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ‘‘وما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ الرسل’’ الخ[آل عمران: ۱۴۴] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ (البخاری: ۱۲۴۱ ، ۱۲۴۲)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ دیکھئے صحیح البخاری (۴۴۵۴)
معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔