قبر میں حیات النبی کا مسئلہ

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


قبر میں حیات النبی کا مسئلہ

امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں


ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات -صحیح بخاری سن لو! جو شخص محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد فوت ہو گئےعائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں مروی ہے کہلقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئےانبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھیان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداءبعض علماء اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں اس کے لئے صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔ اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّةانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.جو اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ کچھ کے مطابق یہ گمراہی ہےالبانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیںکتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور
قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام. الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے سلام کا جواب دینے کے لئے اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پسجب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے
البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیںالمناوي المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیںالمناوی نے امام سیوطی (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے
يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ
اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیںوہابی عالم ابی بطين کتاب رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين کہتے ہیںالحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم
حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاصنہیںوہابی عالم ابی بطين کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس کہتے ہیں
جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے
یعنی ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہےابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں
إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ
بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیںان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي میں کہتے ہیں
يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار
نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا
ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات ہر ایک آن پر سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے
رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیںمفتی بن باز کہتے ہیں
http://www.binbaz.org.sa/node/1671
قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقتاکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہےكتاب الدرر السنية في الأجوبة النجدية از عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں
ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،
اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو، بے شک وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے
خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیںاس کتاب ج ١٢ ص ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں
ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره
کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں
لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیااس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں زندہ ہونے چاہییں کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں
قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره
ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوںیہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیںوَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِمجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پراور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہےیعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیںابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ کتاب قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے
فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبرهپس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ، یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے

- - - Updated - - -


اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں
وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.

اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے
اب صورت حال یہ ہوئی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث ابن حجر

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث السخاوی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں نجدی مفتی ابا بطین
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی
رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں ابا بطین
رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ
یعنی ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ یا دور کی کوڑی کی شکل ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے نکل گئے
واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں
ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم

 
Top