محدثین نے اپنی کتابوں میں بعض راویوں کو ابدال کہا ہے اس کا کیا مطلب ہے

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


جواب بعض محدثین زہد کی طرف مائل تھے اور ان کا عقیدہ ابدال پر تھا مثلا

ابن ماجہ، يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ کہتے ہیں وَكَانَ يُعَدُّ مِنَ الْأَبْدَالِ ان کو ابدال میں گنا جاتا ہے،

سنن ابی داود کی ایک روایت میں راوی کہتا ہے أَبُو جَعْفَرٍ ابْنَ عِيسَى، كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الْأَبْدَالَ مِنَ المَوَالِي

امام دارمی المتوفی ٢٥٥ ھ ایک راوی کے لئے کہتے ہیں أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ اس کا دعوی تھا کہ ابدال میں سے ہے

ایک راوی وزير بن صبيح کے لئے أبو نعيم الأصبهاني المتوفی ٤٣٠ ھ کہتے ہیں كان يعد من الأبدال، اسی طرح کتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء

میں ان راویوں کو بھی ابدال کہا گیا ہے

مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّيصِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ

سَعِيدُ بْنُ صَدَقَةَ الْكَيْسَانِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ أَنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ

سَعِيدُ بْنُ صَدَقَةَ أَبُو مُهَلْهِلٍ وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ

يَحْيَى الْجَلَّاءُ، وَكَانَ يُقَالُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ

عَبْدِ الْحَمِيدِ الْعَطَائِرِيُّ، وَكَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ


أبو نعيم الأصبهاني جو خود صوفی قسم کے انسان تھے انہوں نے روایات کی اسناد میں ان ابدال کا ذکر کیا ہے

البیہقی المتوفی ٤٥٨ ھ یہی کام شعب الإيمان میں کرتے ہیں کہتے ہیں

جَابِرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، وَكَانَ، يُعَدُّ مِنَ الْأَبْدَالِ، ان کو ابدال میں شمار کیا جاتا ہے

الْحَارِثُ بْنُ مُسْلِمٍ الرَّازِيُّ، وَكَانُوا يَرَوْنَهُ مِنَ الْأَبْدَالِ، ان کو ابدال میں سے دیکھا جاتا ہے

ابن حبان صحیح میں باب قائم کرتے ہیں ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْءِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا لِمَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ الْإِبْدَالَ لَهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ،

أبو بكر بن أبي عاصم کتاب السنہ میں زِيَادُ أَبُو عُمَرَ کے لئے کہتے ہیں – وَكَانَ يُقَالُ لَهُ إِنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ.

ابدال کے لئے بعض ضعیف روایات بیان کی جاتیں ہیں کہ ابدال سے مراد لوگ ہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں مثلا مسند احمد یہ احادیث جن کو محقق ضعیف کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ” (مسند احمد) 896 , قال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده ضعيف.

- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «الْأَبْدَالُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا» فِيهِ: يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِ الْوَهَّابِ كَلَامٌ غَيْرُ هَذَا، وَهُوَ مُنْكَرٌ يَعْنِى حَدِيثَ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَان. (مسند احمد) 22751 , قال الشيخ شعيب الأرنؤوط: منكر وإسناده ضعيف من أجل الحسن بن ذكوان


بعض محدثین نے راویوں کو ابدال کہا ہے جو زہد کی طرف مائل تھے لیکن در حقیقت یہ ایک اصطلاح ہی ہے جس کی دلیل قرآن و احادیث صحیحہ میں نہیں ہے- البانی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة میں لکھتے ہیں

واعلم أن أحاديث الأبدال لا يصح منها شيء، وكلها معلولة، وبعضها أشد ضعفا من بعض


اور جان لو کہ ابدال سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں اور سب معلول ہیں اور بعض میں کمزوری دوسروں سے زیادہ ہے


السیوطی نے اس کے حق میں باقاعدہ رسالہ الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال لکھا تھا-

ابن تیمیہ ( مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤٤١) نے بھی سلسے میں گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ابدال کے لئے لکھتے ہیں

فسروه بمعان: منها: أنهم أبدال الأنبياء. ومنها أنه كلما مات منهم رجل أبدل الله مكانه رجلا. ومنها: أنهم أبدلوا السيئات من أخلاقهم وأعمالهم وعقائدهم بحسنات. وهذه الصفات لا تختص بأربعين، ولا بأقل، ولا بأكثر، ولا تحصر بأهل بقية من الأرض


اس کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک یہ کہ ابدال انبیاء کے لئے ہیں (یعنی ان کا بدل ہیں ) اور اس کے مفھوم میں سے ہے کہ جب وہ وفات پا جاتے ہیں تو الله ان کے بدلے میں دوسرا شخص ان کی جگہ بدلتا ہے اور اس کے مفھوم میں سے ہے کہ وہ گناہوں کو اخلاق و اعمال سے اور نیکیوں سے بدلتے ہیں اور یہ صفات صرف ٤٠ میں مختص نہیں، نہ زیادہ نہ کم …


سنن ابن ماجہ کی روایت ہے جس کو البانی کتاب تخريج أحاديث فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن علي بن محمد الربعي میں حسن قرار دیتے ہیں

أبو هريرة -رضي الله عنه, أنه سمع رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم- يقول: “إذا وقعت الملاحِمُ بعث الله من دمشقَ بعثًا من الموالي, أكرمَ العرب فرسًا، وأجودهم سلاحًا، يؤيدُ الله بهم الدين”


أبو هريرة -رضي الله عنه سے مروی ہے کہ انہوں نے رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا جب جنگیں ہوں گی تو الله الموالی کو دمشق بھیجے گا … اللہ ان سے اس دین میں مدد لے گا-


الموالی سے مراد آزاد کردہ غلام ہیں جو مولی کا جمع ہے – سنن ابی داود کی ایک روایت میں أَبُو جَعْفَرٍ ابْنَ عِيسَى کہتا ہے

كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الْأَبْدَالَ مِنَ المَوَالِي


ہم ان (ایک راوی) کو ابدال کہا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے سنا کہ ابدال ، الموالی (آزاد کردہ غلام )میں سے ہیں-


اگرچہ یہ راوی مظبوط نہیں لیکن یہ اپنے دور کی ایک بات نقل کر رہا ہے جس کی تائید اوپر والی فضائل دمشق والی روایت سے بھی ہوتی ہے – لہذا ابدال ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب آزاد کردہ غلام ہے
 
Top