یہ ناممکن تھا کہ ایسا شخص کسی کی دعاؤں کا حصہ نہ بنے۔اسے کبھی نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے سالار کو یاد نہیں کرنا پڑتا تھا،وہ اسے ہمیشہ خود بخود یاد آجاتا تھا۔اس سے نکاح ہوجانے کے بعد پہلی بار نماز پڑھنے پر بھی،جب وہ ناخوش تھی،اور اس سے رشتہ ختم کرنا چاہتی تھی اور ڈاکٹر سبط علی کے گھر پر اسے دیکھنے اور سننے کے بعد بھی،جب اس نے پہلی بار "اپنے شوہر" کے لیے اجر کی دعا کی تھی اور رخصتی کے بعد اس گھر میں پہلی نماز کے دوران بھی،جب اس نے سالار کے لیے اپنے دل میں محبت پیدا ہونے کی دعا کی تھی،وہ اسے یاد آتا تھا یا یاد رہتا تھا۔
دن کی کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی تھی جب وہ سالار کے لیے اللہ سے نعمتوں اور اجر کی طالب نہیں ہوتی تھی، تب بھی جب وہ اس سے شاکی یا خفا ہوتی تھی۔وہ اللہ کے بعد اس دنیا میں واقعی اس کا "آخری سہارا" تھا اور "سہارے" کا "مطلب" اور "اہمیت" کوئی امامہ سے پوچھتا۔
آبِ حیات