فر بھائی ۔۔۔۔کوئی بھی مسلمان اس چیز کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر وہ کسی بھی امام کے قول کو ترجیح دے ۔۔۔۔ یہ تو بس کچھ لوگوں کی عقل و فہم کا قصور ہے کہ جو وہ امام کے قول کی تہہ تک پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔۔۔ اور الزام یہ دیتے ہیں کہ امام کا فلاں قول حدیث کے خلاف ہے ۔۔۔اور فلاں حدیث پر امام کے قول کو ترجیح دے رہا ہے ۔
یہ ایک لمبی تفصیل ہے ۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کبھی اس پر روشنی ڈالیں گے ۔۔۔ سردست تو یہ سمجھ لیں کہ جہاں تک تو چاروں ائمہ کرام کے اس قول کا تعلق ہے کہ قرآن و حدیث کے مخالف امام کا قول چھوڑ کر قرآن و سنت کی اتباع کی جائے " تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور اس چیز سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا ...نزاع اس چیز پر ہرگز ہرگز نہیں
بلکہ اصل سوال تو یہ ہے کہ اس چیز کا فیصلہ کون کرے گا کہ ائمہ کرام کا کون سا قول قرآن و سنت کے مخالف ہے ؟؟؟
بالفرض ہمارے جیسے ہر عام مسلمان اگر یہی اپنا اصول بنا لے کہ اُس نے صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی امام یا مفتی کا قول نہیں سننا ہے
تو ایک مثال پیش خدمت ہے ...امید ہے کہ آپ اس پر غور فرماکر جواب عنایت فرمائیں گے :
جامع ترمذی کی حدیث میں ہے کہ :
عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال لاوضوء الا من صوت اوریح"
یعنی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وضو اسی وقت واجب ہے جب کہ یا آواز ہو یا بدبو ہو
اسی کے ساتھ جامع ترمذی کی حدیث ہے :
اذا کان احد کم فی المسجد فوجدریحابین الیتیہ فلا یخرج حتی یسمع صوتا اویجد ریحا"
(جامع ترمذی ج 1 ص 31 باب ماجاء فی الوضوء من الریح)
یعنی اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں ہو اور اسے اپنے سرینوں کے درمیان ہوا محسوس ہو تو وہ اس وقت تک مسجد سے (بہ ارادہ وضو)نہ نکلے جب تک اُس نے (خروج ریحکی) آواز نہ سنی ہو یا اس کی بدبو محسوص نہ کی ہو
تو جب ایک عام مسلمان کو اپنے امام کا فتوی معلوم ہے کہ محض ریح خارج ہوجانے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے (چاہے آواز محسوس ہو یا نہ ہو اور چاہے بدبو آئے یا نہ آئے).... لیکن جب ایک عام مسلمان کو اپنے امام کا قول چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے کی تعلیم دی گئی اور جب اس عام مسلمان کے پاس اوپر پیش کردہ احادیث علم میں آئیں ۔۔۔۔ تو وہ عام مسلمان تو بے چارہ ان لوگوں کی دی ہوئی تعلیم (یعنی حدیث کی مخالفت میں کسی امام کا قول نہیں سننا) کی وجہ سے وہ یہ اپنا اصول بنا لے کہ جب تک ریح کی آواز نہیں سنے گا یا بدبو نہیں محسوس کرے گا تب اس کا وضو ساقط نہیں ہوگا....
اب دیکھا جائے تو اس عام مسلمان نے بڑا اچھا کام کیا کہ اپنے امام کا قول چھوڑ کر حدیث کی پیروی کی ۔۔۔۔ لیکن یہ تو سوچیں کہ دوسری طرف شرعی نکتہ نگاہ سے اس شخص کا یہ عمل واضح طور پر گمراہی نہیں ????(کہ ریح خارج ہونے پر اس کا وضو ٹوٹ گیا تھا چاہے آواز آئی یا نہ آئی یا چاہے بدبو محسوس ہوئی یا نہ ہوئی ) کیوں کہ اوپر پیش کردہ احادیث اُس شخص کے متعلق تھیں جو کہ وہمی تھا ۔۔۔ یعنی اُس کو وہم رہتا تھا کہ اُس کا وضو ٹوٹ گیا ہے لہذا جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایسے وہمی شخص کو یہ حکم دیا کہ جب تک تمہیں ریح خارج کی آواز یا بدبو محسوس نہ ہو اُس وقت تک تمہیں وضو کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔لیکن یہ حکم ہر مسلمان کے لئے نہیں تھا
لیکن ایک عام مسلمان کو جب یہ تعلیم دی جائے گی کہ حب حدیث مل جائے تو اپنے امام کا قول چھوڑ دو تو پھر لوگوں میں گمراہی پھیلنا یقینی بات ہے کیوں کہ عام مسلمانوں کو نہ تو احادیث کی صحت و ضعف کا پتہ،نہ ناسخ و منسوخ کی خبر نہ ہی کسی مسئلہ پر اور دیگر احادیث پاک کا علم ۔۔۔۔ (یہ یاد رہے کہ صحیح احادیث صرف بخاری و مسلم تک محدود نہیں بلکہ صحاح ستہ کے علاوہ اور بھی دیگر محدثین نے بے شمار صحیح احادیث پاک جمع کیں ہیں) اُس عام مسلمان کے سامنے تو بس کوئی حدیث آئے گی اور وہ ائمہ کرام رحمھم اللہ کی حکمتیں اور اجتہاد کو سمجھے بغیر اپنے امام کا فتوی رد کرتا پھرے گا ۔۔۔ اور جس کا جو دل چاہے گا وہ اپنے اپنے مسائل کے جوابات خود سے حل کرتا پھرے گا ۔۔۔۔ پھر کوئی لاکھ سمجھائے گا کہ بھائی تم غلطی کررہے ہو ۔۔۔ لیکن اُس کا تو ایک ہی کہنا ہوگا کہ ّّمجھے حدیث مل گئی ہے اور میں قول رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر تمہاری یا امام کی بات نہیں مان سکتا "
اب آپ ایمانداری سے فیصلہ کریں کہ گمراہ ہونے کا چانس کس کا زیادہ ہے ؟؟؟
وہ مسلمان جو اُن ائمہ کرام رحمھم اللہ کے قرآن وسنت سے اخذ کئے ہوئے فتاوی پر عمل پیرا ہے ۔۔۔ جنہوں نے نہ صرف حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قریب کے زمانہ کا وقت پایا جبکہ اُس وقت جھوٹ اور ملاوٹ بہت ہی کم تھی اخلاص ہی اخلاص تھا اور اُن ائمہ کرام نے دن رات ایک کرکے نہ صرف قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا بلکہ اور وہ بھی علوم حاصل کئے جو قرآن و حدیث سیکھنے و سمجھنے میں مدد گار تھے اور تب کہیں جاکر اپنے حاصل کئے ہوئے علم کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے روزمرہ کے دینی اور دنیاوی پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کے آسان جوابات دئیے
جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جو قرآن و حدیث کی ابجد سے بھی واقف نہیں ۔۔۔۔ لیکن وہ ائمہ کرام رحمھم اللہ کے بتائے ہوئے پر صرف اس لئے چھوڑنا چاہتا ہے کہ اُس کو کوئی حدیث نظر آگئی ہے ۔۔۔۔
????تو آپ کے خیال میں عام مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا درست ہوگا کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اپنے امام کا قول چھوڑ دو
اور آخر میں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ائمہ کرام رحمھم اللہ کا یہ قول کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو ہمارا قول چھوڑ دو" اُن مجتھدین حضرات کے لئے ہے جو نہ صرف قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہوں بلکہ قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے جن علوم کی ضروت پڑتی ہے اُن علوم پر مہارت رکھتے ہوں ،ناسخ منسوخ کا علم ہو ،اجماع کا علم ہو، اور کسی مسئلہ پر دیگر احادیث کا علم رکھتے ہوں ۔۔۔ پھر یقینا جب ایسے مجتھد حضرات کو کوئی ایسی حدیث نظر آئے گی جس سے واقعتا اُن کے امام کا قول متصادم ہوتا نظر آرہا ہو گا ۔۔۔۔ تو یقینا ایسے مجتھد کے پاس اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کی مضبوط وجہ ہوگی ۔۔۔۔لیکن ایک عام مسلمان کے لئے ائمہ کرام کا یہ قول کیوں کہ درست ہوسکتا ہے ۔۔۔۔اگر تو کسی میں تھوڑی بھی عقل ہو تو وہ ائمہ کرام کے اس قول کو سمجھ جائے گا ۔
اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین