وہ محبت نہیں جو اپنوں سے دور کرے ۔۔
تحریر=حیدر مجید
خاموشی ہمارے درمیان یوں بیٹھی تھی مانو اسی کا راج ہو۔پچھلے ایک گھنٹے سے ہم میں سے کوئی ایک بھی
نہیں بولا تھا۔میں ان دونوں کو کیسے سمجھاؤں کہ خاندان کی مرضی کے خلاف ،والدین سے بغاوت کر کے،کسی ایک کی خاطرسب کچھ چھوڑنے اور سارے رشتے نچھاور کرنے والے اکثر لوگ آخر میں خالی ہاتھ ملتے نظر آتے ہیں۔یہ دونوں کہہ تو رہے ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے مگر یہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور خاندان کے بغیر بھی نہیں۔کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے،اور عین ممکن ہے چند دنوں میں ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو جائے گی۔
گھر لوٹ جاؤ ،میری مانو تو گھر لوٹ جاؤ اسی میں تم دونوں کی بھلائی ہے۔
مگ مگ رررررر مگر سر؟؟؟؟؟؟
اگر مگر کچھ نہیں ، میں جانتا ہوں تم دونوں نے بہت سے وعدے کیے ہوںگے ،ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی کھائی ہو نگی،مگر کچھ اپنے والدین کا بھی سوچو۔تم دونوں کی نادانی میں کیے فیصلے سے تمہارے ماں باپ کا کیا ہو گا؟؟؟ کس حال سے دو چار ہو نگے ،ہفتوں خود کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنی کو تاہی اور غلطی کا الزام اور سزا ایک دوسرے کو دیتے رہیں گے۔ کیا سوچیں گے نادیہ تمہارے والدین کہ وہ تمہیں اپنی اور نہ ہی اپنے خاندان کی عزت اور ناموس کی حفاظت کے بارے میں کچھ بھی نا سکھا سکے اور تم تابش اپنے والدین کا سہارا بننے کی بجائے ان کو بے سہارا کیے جا رہے ہو۔ تم دونوں اپنے والدین کو ایسا شدید درد دے کر جاؤ گے جو انہیں ہر دن رلائے گا، تڑپائے گا۔ کیا تم اپنے ماں باپ کو ناراض کر کے خوش رہ سکوگے؟؟ ایک نہ ایک دن قدرت بھی تمہارے اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار کر دے گی ۔ ابھی وقت ہے سورچ نہیں ڈوبا ، سورچ کے ڈوبنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔
میرے بچو! تم لوگ مجھ سے اصلاح لینے آئے ہو نا تو اپنے سر کی بات مان لو گھر لوٹ جاؤ، جو غلطی ہم کر چکے ہیں ا س غلطی کو تم مت کرو ، تم نہیں جانتے اپنوں سے جدائی کی دوپہر اور شام کیسے گزرتی ہے۔ہم نے بھی تمہاری طرح جلد بازی سے کام لیا تھا ۔ ہماری ضد اور جھگڑے کے سامنے ہمارے گھر والوں نے ہار تو مان لی اس شرط پر کہ ہماری شادی کا دن سماجی اور خاندانی سطح پر آخری رابطے کا دن ہو گا، نہ وہ ہمارے گھر آئیں گئے اور نہ ہی ہم جا سکتے ہیں۔ وہ دن ہی ایسے تھے ہم حوشی میں پاگل ہو رہے تھے ،عجیب سر شاری کے دن تھے ،ہم نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔لیکن اب ہمیں اپنوں کی کمی محسوس ہوتی ہے،معلوم ہونے کے باوجود کہ ہمارے اپنے ہمارے گھر نہیں آئیں گے پھر بھی ہر عید ہر دن ان کے منتظر ہیں، ہر عید اپنے والدین کے دروازے تک جاتے ہیں پر بنا دستک دیے ہی واپس آجاتے ہیں ۔قدرت نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور ہمیں ایسا پھول دیا جو کھلنے کے فورا بعد ہی مرجھا گیا ۔
سر ہم دونوں آپ سے وعدہ کرتے ہیں ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے ہم اپنی خواہش کو اپنے ماں باپ پر قربان کرتے ہیں۔۔۔۔۔
جیتے رہو۔۔۔ جاؤ سورچ ڈوبنے والا ہے اس کے ڈوبنے سے پہلے گھر کو چلے جاؤ۔۔۔۔۔ خدا تمیں خوش رکھے۔۔۔۔۔
تحریر=حیدر مجید
خاموشی ہمارے درمیان یوں بیٹھی تھی مانو اسی کا راج ہو۔پچھلے ایک گھنٹے سے ہم میں سے کوئی ایک بھی
نہیں بولا تھا۔میں ان دونوں کو کیسے سمجھاؤں کہ خاندان کی مرضی کے خلاف ،والدین سے بغاوت کر کے،کسی ایک کی خاطرسب کچھ چھوڑنے اور سارے رشتے نچھاور کرنے والے اکثر لوگ آخر میں خالی ہاتھ ملتے نظر آتے ہیں۔یہ دونوں کہہ تو رہے ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے مگر یہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور خاندان کے بغیر بھی نہیں۔کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے،اور عین ممکن ہے چند دنوں میں ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو جائے گی۔
گھر لوٹ جاؤ ،میری مانو تو گھر لوٹ جاؤ اسی میں تم دونوں کی بھلائی ہے۔
مگ مگ رررررر مگر سر؟؟؟؟؟؟
اگر مگر کچھ نہیں ، میں جانتا ہوں تم دونوں نے بہت سے وعدے کیے ہوںگے ،ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی کھائی ہو نگی،مگر کچھ اپنے والدین کا بھی سوچو۔تم دونوں کی نادانی میں کیے فیصلے سے تمہارے ماں باپ کا کیا ہو گا؟؟؟ کس حال سے دو چار ہو نگے ،ہفتوں خود کو کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنی کو تاہی اور غلطی کا الزام اور سزا ایک دوسرے کو دیتے رہیں گے۔ کیا سوچیں گے نادیہ تمہارے والدین کہ وہ تمہیں اپنی اور نہ ہی اپنے خاندان کی عزت اور ناموس کی حفاظت کے بارے میں کچھ بھی نا سکھا سکے اور تم تابش اپنے والدین کا سہارا بننے کی بجائے ان کو بے سہارا کیے جا رہے ہو۔ تم دونوں اپنے والدین کو ایسا شدید درد دے کر جاؤ گے جو انہیں ہر دن رلائے گا، تڑپائے گا۔ کیا تم اپنے ماں باپ کو ناراض کر کے خوش رہ سکوگے؟؟ ایک نہ ایک دن قدرت بھی تمہارے اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار کر دے گی ۔ ابھی وقت ہے سورچ نہیں ڈوبا ، سورچ کے ڈوبنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔
میرے بچو! تم لوگ مجھ سے اصلاح لینے آئے ہو نا تو اپنے سر کی بات مان لو گھر لوٹ جاؤ، جو غلطی ہم کر چکے ہیں ا س غلطی کو تم مت کرو ، تم نہیں جانتے اپنوں سے جدائی کی دوپہر اور شام کیسے گزرتی ہے۔ہم نے بھی تمہاری طرح جلد بازی سے کام لیا تھا ۔ ہماری ضد اور جھگڑے کے سامنے ہمارے گھر والوں نے ہار تو مان لی اس شرط پر کہ ہماری شادی کا دن سماجی اور خاندانی سطح پر آخری رابطے کا دن ہو گا، نہ وہ ہمارے گھر آئیں گئے اور نہ ہی ہم جا سکتے ہیں۔ وہ دن ہی ایسے تھے ہم حوشی میں پاگل ہو رہے تھے ،عجیب سر شاری کے دن تھے ،ہم نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔لیکن اب ہمیں اپنوں کی کمی محسوس ہوتی ہے،معلوم ہونے کے باوجود کہ ہمارے اپنے ہمارے گھر نہیں آئیں گے پھر بھی ہر عید ہر دن ان کے منتظر ہیں، ہر عید اپنے والدین کے دروازے تک جاتے ہیں پر بنا دستک دیے ہی واپس آجاتے ہیں ۔قدرت نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور ہمیں ایسا پھول دیا جو کھلنے کے فورا بعد ہی مرجھا گیا ۔
سر ہم دونوں آپ سے وعدہ کرتے ہیں ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے ہم اپنی خواہش کو اپنے ماں باپ پر قربان کرتے ہیں۔۔۔۔۔
جیتے رہو۔۔۔ جاؤ سورچ ڈوبنے والا ہے اس کے ڈوبنے سے پہلے گھر کو چلے جاؤ۔۔۔۔۔ خدا تمیں خوش رکھے۔۔۔۔۔