ڈارونیت اور دجال ﴿مسیح مخالف﴾ کے عظیم فریب کو عقلی جنگ سے ہرایا جا چکا ہے۔
ڈارونیت خطرا کیوں ہے؟
Charles Darwin
ڈارونیت ایک خدا کا نہ ماننے والا اور مخالفٕ دین نظریہ ہے جو کہ اتفاق کو ہی سب کچھ مانتا ہے۔
ڈارونیت دنیا میں سب سے بڑا سائنسی فریب ہے۔
ارتقا کے حوالے سے جو بھی دعٰوی ڈارونیت کو ماننے والے کرتے ہیں وہ بلکل ہی جھوٹ ہے۔
نظریہ ارتقا کا سائنس سے قطعی تعلق نہیں ہے۔
نظریہ ارتقا کا سائنس سے قطعی تعلق نہیں ہے۔ ڈارونیت کا نظریہ ایک من گھڑت اور جھوٹا عقیدہ ہے جو کہ لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے سے دور کرنے کہ لئے بنایا گیا ہے ﴿یقینن وہ ایسا کرنے میں ناکام ہی رہیں گے﴾۔ یہ نظریہ دجال ﴿مسیح مخالف﴾ کا آخر زماں میں سب بڑا رجحان ہے۔ اور کیوں کہ سماج اس سے بےخبر رہا ہے، اس نے انہیں لادینیت، جنگ، جبر اور تکالیف طرف دھکیل دیا۔ ڈارونیت سب لادینی رجحانات کا بنیادی ذریعا رہا ہے جیسے الحاد، کمیونزم ، اور مادہ پرستی۔ ڈارونیت بنیاد ہے سب جنگوں، دہشت گردی، خون ریزی ، نسل کشی ، وحشت اور تباہی کے منظرنامے کا جنہوں نے دنیا کو اس المیہ تک پہنچایا ہے۔ ڈارونیت دجال کا سب سے بڑاچالاک اور گمراہ کن طریقہ ہے۔ ڈارونیت کو ماننے والوں کے اندوشواسی خیالات کے مطابق، انسان صرف ایک جانور ہے۔اسی لئے وہ یہ سوچتے ہیں کہ انسان کی قدر اس کے مطابق کرنی چاہئے۔ ڈارون کا بنیادی تاثر ایسے بیان کیا جا سکتا ہے ًانسان ایک لڑنے والا جانور ہےً۔ اس کا نتیجہ ایک ایسا نظریہ بنا جس کی بنیاد انسانوں کے بیچ میں “survival of the fittest” کا اصول ہے۔ وہ جنہوں نے ڈارون کا زیر غورنظریہ اپنا لیا دنیا میں خونی تحریکوں جیسےکمیونزم اور فیزم کے وجود میں آنے کے ذمیدار ہیں۔ دوسری جنگٕ عظیم میں فاشسٹ اور نازی تحریکوں کے ذریعے 250 ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے جو کہ ڈارون کے نظریئے کے زیرٕ اثر شروع ہوئی تھی۔ کمیونزم کے نتیجے میں سیاسی جبر کی وجہ سے ایک ارب سے زیادہ لوگوں نے اپنی جان گنوائی اوردہشت گردی کی وجہ سے بیشمار عداد میں اموات ہوئیں، یہ دونوں ایک بار پھر ڈارونیت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ کسی رعایت کے بغیر، سب سماجی تنازعات، جنگیں، دہشتگردی جو آج دنیا میں موجود ہیں ڈارونیت کی وجہ سے وجود میں آئے۔ اسی لئے نظریہ ارتقا دجال کی آخر زماں میں ، جس میں ہم رہ رہے ہیں، بدترین بد عملی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اللہ میں ایمان کا پوری دنیا میں پھیل جانے کا واحد راستہ، اور اس ظلم اور ناخوشی کا ختم ہونے کا راستہ، کافر مذہب ڈارونیت کاختم ہونا ہے۔ اس لادین مذہب کی جڑیں ایک عظیم فریب میں ہیں۔ اسی لئے اس اندوشواسی ارتقا کے عقیدے کو سائنس کے ذریعے ردکرنا بہت آسان ہے۔ ایکسوی صدی وہ دور ہے جس میں اس گمراہ کن نظرئے کی غیر منطقیت اور جھوٹےپن کو پورے طریقے سے بے نقاب کیا گیا ہے۔ یقیناً، جیسے کہ اس ویب سائٹ پے دی گئی ہوئی معلومات سے دیکھا جا سکتا ہے، جیسے ہی ارتقا کا فریب بے نقاب ہوتا ہے، ڈارون کا یہ اوہام پرستانہ مذہب، جس نے دنیا کو دھوکے میں رکھا ہوئا ہے اور اسے اس بدحالی تک پنہچایا ہے، بلکل ختم ہوجائے گا۔
ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
ڈارونیت پسندوں کے مطابق، زندگی کا زمین پے غیر معمولی طور پے مختلف قسم کا ہونا صرف ایک “اتفاق” کی وجہ سے ہے۔ یہ کہنے سے بچنے کے لئے کہ “اﷲ نے انہیں بنایا” ڈارونیت پسندوں نے اتفاق کو ہی اپنا خدا مان لیا ہے اور یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اندھے اور ناقابلِ یقین واقعات نے اس شاندار اور حیران کن طور پر پیچیدہ زندگی کے نظام کی بنیاد رکھی۔ڈارونیت نے اس مضحکہ خیز اور سطحی نظرئے سے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا ممکن بنا لیا۔ جس طریقے سے پروفیسرز یونیورسٹیز میں لیکچرس دیتے ہیں اور سائنسدان اور اساتذہ جنہوں نے پڑھا ہے اور تحقیق کی ہےوہ ان بے ترتیب واقعات کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کہ ان واقعات کو تخلیقی عقلمندی تھی اور سوچنے کے اور فیصلے لینے کے قابل تھے، اور جیسے وہ ہی تھے جنہوں نے ایسے غیر معمولی نظام پیدا کئے۔﴿معاذ اﷲ﴾
ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
اتفاق ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا ہے، جسے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سب چیزوں کو پیدا کیا اور معجزات کرتا ہے۔ ڈارون کے سرسری نقطہ نظر کے مطابق، وقت اور اتفاق، عجیب طریقے سے ہر چیز میں زندگی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ غیر منطقی نظریہ یہ بتاتا ہے کہ اتفاق وہ کرلیتا ہے جو کہ انسان بھی نہیں کرسکتا اور ایک طرح سے سائنسدانوں اور ان کی لیبارٹریز سے کئی گنا زیادہ علم، صَلاحِیتیں اور وَسائِل رکھتا ہے۔ یقیناً،کسی بھی باخبر اور غور و فکر کرنے والے اور صحیح اور غلط کی پرکھ رکھنے والے شخص کے لئے اس دعوٰے کو صحیح ماننا ناممکن ہے۔ یقیناً، جو بھی تحریریں جناب عدنان اوقتار نے نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرنے کے لئے پچھلے ۳۰ سال سے لکھی ہیں لوگوں کے لئے اس نظرئے کی غیرمنطقیت اور اس کے کھوکھلےپن کو محسوس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جناب اوقتار کے عالمی سطح پر اس نظرئے کی غیرمنطقیت اور بیوقوفی کو دنیا میں اچھالنے کے نتیجے میں ارتقا پسندوں نے “اتفاق” کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ دوسرے اتنے ہی غیر منطقی الفاظ استعمال کر کہ خود کو بیوقوف لگنے سے بچالینگے۔ چاہے وہ حادثہ، یا اتفاق، یا بے ترتیب واقعات کی بات کریں ، تب بھی وہ ایک ایسے منظرنامے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس میں غیر شعوری واقعات ایک متوازن، سڈول اور غیر معمولی طور پر خوبصورت زندگی والی دنیا پیدا کرتے ہیں۔ پر یہ دعٰوے ان کو مزید رحم کے قابل بنا دیتے ہیں۔
ڈارونیت پسند جو کہ زندگی کی ابتدا کو ارتقاء کی اصطلاحات میں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ صرف ایک واحد پروٹین بھی اپنے آپ کیسے وجود میں آیا۔ یہ پہلی اور بہت اہم حقیقت ہےجو کہ ڈارونیت پسندوں کے دھوکے کے بارے میں جاننی چاہئے۔ ایک پروٹین کی بھی تشکیل کے بارے میں بتانے سے قاصر، ڈارونیت پسند واضح طور پردھوکہ دہی کا سہارالے رہے ہیں ۔ جو بھی من گھڑت کہانی وہ زندگی کی ابتدا میں بتاتے ہیں سب مصنوعی ہے۔جس طریقے سے یہ روشنی کی طرف آیا ہے اور جس طرح سے لاکھوں زندہ فوسلس جو کہ کئی سئو لاکھ سال بنا تبدیل ہوئے رہیں ہیں ڈارونیت کے خاتمے کو یقینی بنا دیا ہے۔
دو بنیادی دلائل جوکہ ارتقا کو کچلنے میں کافی رہے ہیں۔
١۔ ایک واحد پروٹین نے ہی ارتقا کو پورے طریقے سے ختم کردیا ہے۔
1-A single protein has totally demolished evolution
ارتقا کو ماننے والے چاہے کتنے بھی جھوٹی اور فارمولوں سے بھری کتبا٫ لکھیں، کتنے بھی جالی فوسلس پیدا کریں، تخلیق پر سائنسی شواہد کو جس طریقے سے بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں اور ارتقاء کی جھوٹی وضاحتیں دینے والے پوسٹرس ہر جگہ لگائیں اور پوری دنیا میں انہیں ارتقاء کی نمائش کے طور پے پیش کریں، پر ان میں سے کچھ بھی ان کی شکست کی حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔ یہ اس لئے کہ وہ ایک بھی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہیں ہیں کہ آخر صرف ایک پروٹین بھی کیسے وجود میں آیا۔پروٹین ،زندگی کا سب سے بنیادی جزو، کا خود بہ خود وجود میں آنے کا امکان صفر ہے؛ اس لئے کہ اس خطے میں جہاں پے ایک اور پروٹین کو بننا ہے پہلے سے ہی ١۰۰ تک پروٹینس کا تسلسل میں موجود ہونا ضروری ہے ۔اس شاندار پیچیدہ ڈھانچے کی شاندار تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ حقیقت کہ ایک پروٹین دوسرے پروٹینس کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا خود ڈارونیت کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔پر جو بھگدڑ ایک پروٹین نے ارتقا پسندوں کے لئے مچادی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
In addition:
- ڈی این اے (DNA) پروٹین کی پیدائش کے لئے ضروری
ہے۔
- ڈی این اے (DNA) پروٹین کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔
- پروٹین ڈی این اے (DNA) کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔
- پروٹین دوسرے پروٹینس کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا ۔
- پروٹین دوسرے پروٹینس میں سے کسی ایک کی بھی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین رائبوسوم ﴿ ribosome﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین آر این اے ﴿RNA﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین اے ٹی پی ﴿ATP﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین ﴿ mitochondria﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین سیل نیوکلیس﴿Cell Nucleus﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین سائٹوپلازم ﴿cytoplasm﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین ایک بھی خلوی عضو ﴿cell organelle﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- اور ہر خلوی عضو کی موجودگی اور کام کرنے کے لئے پروٹینس ضروری ہیں ۔
لحمیہ ﴿protein﴾ کی تخلیق کے لئے مکمل خلیہ ضروری ہے۔ مکمل خَلْیے کی غیر موجودگی میں لحمیہ ﴿protein﴾ کی تخلیق ناممکن ہے۔ جو آج ہم اس کی کامل پیچیدہ ساخت دیکھتے ہیں پر اس میں سے ہم بلکل تھوڑا حصا ہی سمجھتے ہیں۔
ہے۔
- ڈی این اے (DNA) پروٹین کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔
- پروٹین ڈی این اے (DNA) کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔
- پروٹین دوسرے پروٹینس کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا ۔
- پروٹین دوسرے پروٹینس میں سے کسی ایک کی بھی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین رائبوسوم ﴿ ribosome﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین آر این اے ﴿RNA﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین اے ٹی پی ﴿ATP﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین ﴿ mitochondria﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین سیل نیوکلیس﴿Cell Nucleus﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین سائٹوپلازم ﴿cytoplasm﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- پروٹین ایک بھی خلوی عضو ﴿cell organelle﴾کی غیرموجودگی میں بن نہیں سکتا۔
- اور ہر خلوی عضو کی موجودگی اور کام کرنے کے لئے پروٹینس ضروری ہیں ۔
لحمیہ ﴿protein﴾ کی تخلیق کے لئے مکمل خلیہ ضروری ہے۔ مکمل خَلْیے کی غیر موجودگی میں لحمیہ ﴿protein﴾ کی تخلیق ناممکن ہے۔ جو آج ہم اس کی کامل پیچیدہ ساخت دیکھتے ہیں پر اس میں سے ہم بلکل تھوڑا حصا ہی سمجھتے ہیں۔
Simply put ,
THE WHOLE CELL IS NECESSARY FOR A PROTEIN TO FORM. IT IS IMPOSSIBLE FOR A SINGLE PROTEIN TO FORM IN THE ABSENCE OF THE WHOLE CELL, with its perfect complex structure we see today, but of which we understand only a very small part.
ان حقیقتوں کو مدٕنظر رکھتے ہوئے ارتقاء پسندوں کو کسی نئے منظرناموں کے ساتھ آنا پڑا۔ ان میں سے ایک رچرڈ ڈاکنس اور کچھ اور ارتقا پسندوں کا“a spontaneously replicating molecule” ﴿سالمہ کی خود جیسا ایک اور سالمہ بنانے کی قابلیت﴾ دعٰوی ہے، جو کہ پوری طرح طفلانہ ہے اور صرف دھوکا دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔انسانی جسم میں کوئی سالمہ خود جیسا ایک اور سالمہ کسی دوسرے سالمے کی مدد کے بغیر نہیں بنا سکتا۔
جیسے کہ ہم نے دیکھا ہے، نظریہ ارتقاء نے شروع سے ہی خوفناک دھچکوں کا سامنا کیا ہے۔جس طرح سے ارتقاء پسند، ایک پروٹین کی تخلیق بتانے سے بھی قاصر، لوگوں کو زندگی کا زمین پے موجودگی کے بارے میں دھوکا دینا چاہتے ہیں یہ اس بات کا پکا ثبوت ہے کہ ارتقاء صرف اور صرف ایک دھوکا ہے۔
۳۵۰ ملین فوسلس کی صورت میں ارتقاء تباہ ہو چکا ہے۔
جب بات فوسلس کی آتی ہے تب بھی ارتقا پسند فریب اور جعلسازی کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو لگاتارجالی اور عارضی اشکال، جو وہ خود بناتے ہیں، اور جعلی تصویروں، ماڈلس اور تشریحات کی مدد سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔وہ انہیں اپنا نظریہ پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پر حقیقت یہ ہے کہ آج تک ارتقا ٫ کے ماننے والوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی فوسل ہاتھ میں لےکر یہ کہنے کی ہمت نہیں کی “ہم ارتقا٫ کو ثابت کرے کے لئے یہ ثبوت لائے ہیں۔” یہ اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، ایک بھی عبوری شکل ﴿transitional form﴾ کا وجود نہیں ہے۔
یہ کئی سالوں سے ڈارونیت کو ماننے والوں کے لئے ایک چونکانے والی حقیقت ہے کیوں کہ ڈارونیت والوں کی اشاعتیں ہمیشہ عارضی اشکال ﴿ transitional form﴾ جو کہ ارتقا٫ کی توثیق کرتے ہیں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ پر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی درمیانی شکل والا فوسلس کبھی ملا ہی نہیں۔ یہ ڈارونیت کے ماننے والوں کا بنایا ہوا دوسرا جھوٹ ہے۔۳۵۰ ملین سے بھی زیادہ فوسلس دریافت کیے گئے ہیں۔ان میں سے ایک بھی درمیانی شکل میں نہیں ہے۔ جو بھی جواشیم ڈارونیت پسندوں نے درمیانی شکل کا بتا کے پیش کیا ہےوہ جھوٹ نکلا ہے۔ ان ۳۵۰ ملین سے بھی زیادہ فوسلس میں سے کئی تو لاکھوں سال پہلے کے ہیں جو کہ آج بھی موجود ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، یہ زندہ فوسلس ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زندہ چیزوں میں لاکھوں سالوں سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ باقی فوسلس یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ جاندار پہلے زمین پے موجود تھے پر آج وہ نہیں رہے۔ فوسلس یہ ثابت کرتے میں کہ لاکھوں سال پہلے بھی ان کی بناوت میں وسیع اور شاندار پیچیدگی تھی۔ یہ ارتقا٫ کی تباہی کا جامع اور سائنسی ثبوت ہے۔
سائنس کی ہر شاخ ارتقا٫ کو رد کرتی ہے۔ہر سائنسی دریافت زیادہ ٹھوس گواہی سے ڈارونیت کا انکار کرتی ہے۔ پر جیسا کہ ہم یہاں جن دو ثبوتوں - پروٹین اور جواشیم کی صورت میں ارتقا٫ کا رد- کے بارے میں بات کر رہے ہیں ، اپنے طور پر ارتقا کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کسی اور گواہی کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی ارتقا٫ کے پیروکاروں کے دعوے کے جواب میں نیچے پیجز میں بنیادی مسائل اٹھائے گئے ہیں۔
Speculation Regarding the Fictitious Evolution of Man Is a Major Component of Darwinist Fraud