کسک دل میں،جلن آنکھوں میں
الہی کیا محبت میں یہ شکلِ امتحان رکھ دی
کسک دل میں،جلن آنکھوں میں،ہُونٹوں پر فغاں رکھ دی
بہار آئی تو کچھ اہلِ قفس نے فرطِ حسرت سے
فضاے آتشِ گل پر بناۓ آشیاں رکھ دی
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہ کیسا خواب ھے یارب
مری دنیا زمین و آسماں کے درمیاں رکھ دی
خدا جانے اُن کو مرے بارے میں کیا خیال آیا
اُٹھے اُٹھ کر اٹھائی،اور اُٹھا کر داستاں رکھ دی
نہیں معلوم کیا منظور ھے خلاقِ ہستی کو
مری فطرت کے شانوں پر آساسِ دو جہاں رکھ دی
مرے ذوقِ جراحت پر قیامت سی اک آ ٹوٹی،
جب اُس نے تیر پھینکے،اور جُنھجلا کر کماں رکھ دی
خدا کا نام لے کر منہ اندھیرے اور پی واعظ
صراحی کیوں اُٹھا کر طاق پر وقتِ آذاں رکھ دی،
مذاقِ گفتگُو بخشا تو پھر یہ کیسی بندش ھے
خدا نے کس لئے بتیس دانتوں میں زباں رکھ دی
مری بربادیوں کا کچھ دنوں تو تذکرہ رہتا
چمن والو،،ابھی سے کیوں بھلا کر داستاں رکھ دی
فلک سے رحمتیں نازل ہُوں افشاں چننے والوں پر
کسی کی مانگ میں جیسے کہ لا کر کہکہشاں رکھ دی
نصیر،،اُن کے اِس اندازِ کرم نے مار ہی ڈالا
سُنے اوروں کے آفسانے ہماری داستاں رکھ دی