کعبہ کی چابی؟

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
کعبہ کی چابی؟

بعض تاریخ کی کتب میں ہے کہ عثمان بن طلحہ بن أبي طلحة بن عثمان بن عبد الدار العبدري الحجبي رضی الله عنہ کے پاس کعبہ کی چابی رہتی تھی ان کو حَاجِبَ کعبہ یا چوکیدار کعبہ یا حَاجِبُ البَيْتِ الحَرَامِ کہا گیا ہے کہا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے دن کعبه کی چابی ان کو دی گئی- یہ واقعہ طبقات ابن سعد : 2 / 136، 137 ، معجم الطبراني: (8395) ،المصنف : (9073) ، سيرة ابن هشام 2 / 412، و تفسير الطبري : 8 / 491، و مجمع الزوائد 6 / 177، و ابن كثير 1 / 515، 516، و شرح المواهب 2 / 340، 341، و لباب النقول 71 وغیرہ میں منقول ہے

کتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابو عمر القرطبي (المتوفى: 463هـ) اور کتاب معرفة الصحابة از ابو نعیم کے مطابق عثمان رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں مدینہ میں رہے اس کے مکہ میں سکونت اختیار کی اور معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں موت ہوئی کہا جاتا ہے اجْنَادِينَ شام میں ہوئی

کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار از ابن حبان کے مطابق عثمان بن طلحہ کی وفات مدینہ میں ہی ہوئی

کتاب الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کے مطابق

وقد وقع في تفسير الثعلبي، بغير سند في قوله تعالى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [النساء: 58]- أن عثمان المذكور إنما أسلم يوم الفتح بعد أن دفع له النبيّ صلى اللَّه عليه وسلّم مفتاح البيت، وهذا منكر. والمعروف أنه أسلم وهاجر مع عمرو بن العاص، وخالد بن الوليد وبذلك جزم … ، ثم سكن المدينة إلى أن مات بها سنة اثنتين وأربعين

اور تفسير الثعلبي میں بلا سند بیان ہوا ہے کہ الله کا قول إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [النساء: 58]- عثمان بن طلحہ فتح مکہ کے دن ایمان لائے جب نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو کعبه کی چابی لوٹا دی اور یہ روایت منکر ہے اور معروف ہے کہ یہ اسلام لائے اور ہجرت کی عمرو بن العاص اور خالد بن ولید رضی الله عنہما کے ساتھ اور اس پر جزم ہے پھر مدینہ میں سکونت کی اور وہیں سن ٤٢ ھ میں وفات ہوئی

صحیح مسلم کی روایت ہے

وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ عَلَى نَاقَةٍ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، حَتَّى أَنَاخَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، ثُمَّ دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ، فَقَالَ: «ائْتِنِي بِالْمِفْتَاحِ»، فَذَهَبَ إِلَى أُمِّهِ، فَأَبَتْ أَنْ تُعْطِيَهُ، فَقَالَ: وَاللهِ، لَتُعْطِينِهِ أَوْ لَيَخْرُجَنَّ هَذَا السَّيْفُ مِنْ صُلْبِي، قَالَ: فَأَعْطَتْهُ إِيَّاهُ، فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ الْبَابَ

ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک اونٹنی پر عام الفتح میں تشریف لائے حتی کہ اونٹنی کعبه کے صحن میں بیٹھی پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو پکارا اور کہا چابی لاؤ پس وہ اپنی والدہ کے پاس گئے انہوں نے انکار کیا پس عثمان نے کہا الله کی قسم دے دیں ورنہ یہ تلوار پیٹ میں سے نکال دوں گا پس ان کی والدہ نے چابی دے دی- پس عثمان وہ لے کر واپس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس لوٹے اور کعبہ کا دروازہ کھولا گیا

صحیح بخاری کے مطابق عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ بن أبي طلحة بن عثمان بن عبد الدار العبدري الحجبي مکہ میں داخلے کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے – عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ ، صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے تھے

أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از الأزرقي کے مطابق قرآن سوره النساء: 58 کی آیت

أن الله يأْمُرُكُمْ أن تؤَدُّوا الأمانات إلى أهلها

بے شک الله تم کو حکم کرتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو لوٹاؤ

اس وقت نازل ہوئی جب عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ سے بعض صحابہ نے زبردستی چابی لی اور عباس رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی کہ کعبہ کی چابی ان کو دی جائے

کتاب الخبار مکہ کے مطابق اس کی سند ہے

وَأَخْبَرَنِي جَدِّي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ

اسکی سند میں دو عیب ہیں اول اس میں سَعِيد بْنُ سَالِمٍ الْقَدَّاحُ ہے جو ضعیف ہے دوم اس کی سند میں ابن جریج ہیں جو مجاہد سے سن کر اس روایت کو بیان کر رہے ہیں اور ان کا سماع ان سے صرف قرات کے چند الفاظ تک محدود ہے

الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں راوی سَعِيد بْنُ سَالِمٍ الْقَدَّاحُ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ عُثْمَانُ بنُ سَعِيْدٍ الدَّارِمِيُّ: لَيْسَ بِذَاكَ

عُثْمَانُ بنُ سَعِيْدٍ الدَّارِمِيُّ کہتے ہیں یہ ایسا (قوی) نہیں

اس روایت کی سند میں ابن جریج بھی ہیں جو مجاہد سے اس کو روایت کر رہے ہیں کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

قال بن الجنيد سألت يحيى بن معين سمع بن جريج من مجاهد قال في حرف أو حرفين في القراءة لم يسمع غير ذلك

ابن جنید کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ ابن جریج نے مجاہد سے سنا ہے بولے ایک دو حرف القراءة کے سوا کچھ نہ سنا

خود تفسیر مجاہد میں اس آیت پر کوئی تفسیر منقول نہیں ہے

تفسیر طبری میں سوره النساء کی آیت پر ایک روایت ہے

حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين قال، حدثني حجاج، عن ابن جريج قوله: إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها ، قال: نزلت في عُثمان بن طلحة بن أبي طلحة، قَبض منه النبي صلى الله عليه وسلم مفاتيح الكعبة، ودخل به البيت يوم الفتح، (3) فخرج وهو يتلو هذه الآية، فدعا عثمان فدفع إليه المفتاح. قال: وقال عمر بن الخطاب لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتلو هذه الآية: فداهُ أبي وأمي! ما سمعته يَتلوها قبل ذلك!

ابن جريج کہتے ہیں آیت إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها، عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ کے لئے نازل ہوئی پس نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی اور کعبه کی چابی ان کے پاس رہی اور فتح مکہ کے دن اس میں داخل ہوئے پس وہ اس سے نکلے یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے اور عثمان کو پکارا ان کو چابی لوٹا دی اور عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم باہر آئے تو یہ تلاوت کر رہے تھے پس کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اس سے قبل یہ آیت نہ سنی

یہ روایت ابن جریج کا قول ہے کسی صحابی سے منقول نہیں ہے – ابن جریج مدلس ہیں اور اس لئے لائق التفات نہیں- صحیحین میں اس کے برعکس موجود ہے کہ عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے

طبری اس آیت کے سلسلے میں اور روایات بھی لکھی ہیں جن کے مطابق یہ آیت عورتوں کے حوالے سے نازل ہوئی تھی – عجیب بات ہے کہ مصنف عبد الرزاق ح ٩٠٦٥ میں ایک روایت ابن جریج سے ہے جس کے مطابق

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، … أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ عَلَى بَعِيرٍ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَأُسَامَةُ رَدِيفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ بِلَالٍ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ،

رسول الله صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ کے دن حرم میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ عثمان بن طلحہ تھے

یعنی عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ کے حوالے سے دو قول منقول ہوئے ایک طرف تو ہے عثمان بن طلحہ کافر تھے اور چابی دینے سے انکار کرتے رہے بعض روایات میں ہے کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے اور دوسری طرف صحیحین میں ہے کہ وہ (ایمان لا چکے تھے اور) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے

اخبار مکہ از ازرقی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ چابی والا واقعہ ہے جس کے مطابق عثمان بن طلحہ نے چابی قبضے میں لی وہ مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنہ چابی حاصل کرنا چاھتے تھے سند ہے

وَحَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، عَنِ الْوَاقِدِيِّ، عَنْ أَشْيَاخِهِ،

اس میں واقدی ہیں جو اپنے مشائخ کا نام نہیں لیتے لہذا ضعیف ہے

کتاب المعجم الكبير از طبرانی کے مطابق علی رضی الله عنہ نے عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ سے چابی چھین لی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی اور عثمان کی

وَكَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ مَقَالَتَهُ، ثُمَّ دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ فَدَفَعَ إِلَيْهِ الْمِفْتَاحَ، وَقَالَ: غَيِّبُوهُ

بحث سے کراہت کی اور عثمان کو بلا کر چابی لوٹا دی اور کہا اس کو چھپا دو

اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ،

امام الزہری نے یہ کس سے سنا نہیں بتایا لہذا ضعیف روایت ہے

مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چابی عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ کو دی اور کہا

لَا يَنْتَزِعُهُ مِنْكُمْ إِلَّا ظَالِمٌ

تم سے اس چابی کے لئے سوائے ظالم کوئی تنازع نہ کرے گا

اس کی سند ہے

عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ

یہ بھی کسی صحابی کا قول نہیں ہے سند میں مجہولین ہیں

علل ابن ابی حاتم میں ہے

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ محمد ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جعفر بن الزُّبَير، عن عُبَيدالله بن عبد الله بْنِ أَبِي ثَوْر، عَنْ صفيَّةَ ابْنَتِ شَيْبة؛ قَالَتْ: إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى رسول الله (ص) الغَدَاةَ، وَهُوَ قائمٌ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ، بِيَدِهِ حَمَامةٌ مِنْ عِيدانٍ وجَدَها فِي الْبَيْتِ، فكرِهَها ؟

قَالَ أَبِي: مَا بعدَ هَذَا الْكَلامِ، فَهُوَ مِنْ كَلامِ ابْنِ إِسْحَاقَ؛ قولُهُ: فلمَّا قامَ عَلَى الْبَابِ، رَمَى بِهَا، ثُمَّ جلَسَ رسولُ الله (ص) فِي الْمَسْجِدِ، حَتَّى فرَغَ مِنْ مقالتِه، فَقَامَ إِلَيْهِ عليُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ – ومِفتاحُ الْكَعْبَةِ فِي يَدِهِ – قَالَ: يَا نبيَّ اللَّهِ، اجمَع لنا الحِجابَة (6) مع السِّقاية ، فليَكُنَّ إِلَيْنَا جَمِيعًا، فَقَالَ رسولُ اللَّهِ (ص) : أَيْنَ عُثْمَانُ بْنُ طَلحَةَ؟ ، فدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ: هَاكَ مِفْتَاحَكَ، فلمَّا دخلَ رسولُ الله (ص) مكَّةَ، هَرَبَ عِكْرمَةُ بْنُ أَبِي جَهْل، فلَحِقَ باليَمَن، فَقَدْ زَعَمَ بعضُ العلماء: أنه كان مِنْ أَمْرِ رسولِ الله (ص) بِقَتلِهِ

قَالَ أَبِي: هَذَا كلُّه مِنْ كَلامِ ابْنِ إِسْحَاقَ، إِلا ما وَصَفْنا فِي أوَّل الحديثِ.

میں نے اپنے باپ سے سوال کیا اس حدیث پر جو ابن اسحاق روایت کرتا ہے … صفیہ رضی الله عنہا سے کہ … علی رضی الله عنہ رسول الله کے سامنے ہیں ان کے ہاتھ میں کعبہ کی چابی ہے اور کہتے ہیں یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہم (بنو ہاشم) کو کعبہ کی چوکیداری اور پانے پلانے پر جمع کر دیں کہ یہ دونوں ہمارے لئے ہو جائیں – پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن طلحہ کہاں ہیں ؟ پس ان کو بلایا گیا ان کو رسول الله نے کہا یہ رہی تمہاری چابی- —

میرے باپ ابی حاتم نے کہا یہ سب ابن اسحاق کا قول ہے

کتاب البدء والتاريخ از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ) کے مطابق

ثم أقر رسول الله صلى الله عليه وسلم المفتاح في يدي عثمان بن طلحة والسقاية في يدي العباس فهو في ولدهم إلى اليوم

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چابی عثمان کو دی اور پانی پلانے کا کام عباس کو اور یہ آج تک ان کی اولاد میں ہے

کتاب شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام از محمد بن أحمد بن علي، تقي الدين، أبو الطيب المكي الحسني الفاسي (المتوفى: 832هـ) میں ہے

وذكر الواحدي في تفسيره “الوسيط” وكتابه “أسباب النزول” ما يقتضي أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- إلى عثمان بن طلحة، ليأخذ منه مفتاح الكعبة في يوم فتح مكة، ولكن كلام والواحدي يقتضي أن عثمان -رضي الله عنه- لم يكن حين أخذ ذلك منه مسلما، وهو يخالف ما ذكره العلماء بهذا الشأن، من أنه كان مسلما. وفي طلب بنفسه المفتاح من عثمان -رضي الله عنه-، والله أعلم.

الواحدي نے تفسیر الوسيط اور کتاب أسباب النزول میں ذکر کیا ہے کہ علی رضی الله عنہ کو عثمان کے پاس بھیجنے کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ ان سے چابی حاصل کی جائے فتح مکہ کے روز لیکن الواحدی کے کلام کا مقصد ہے کہ عثمان اس وقت تک مسلمان نہ تھے اور یہ خلاف ہے اس کے جس کا علماء نے ذکر کیا ہے اس بارے میں کہ عثمان تو مسلمان تھے الله کو پتا ہے

تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے

سیر الاعلام از الذھبی میں ہے

أَنّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وآله وَسَلَّمَ أَعْطَى الْمِفْتَاحَ شَيْبَةَ بْنَ عُثْمَانَ عَامَ الْفَتْحِ وَقَالَ: «دُونَكَ هَذَا فَأَنْتَ أَمِينُ اللَّهِ عَلَى بَيْتِهِ

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کعبہ کی چابی شیبه بن عثمان کو فتح مکہ کے دن دی اور کہا اپنے پاس رکھو کیونکہ تم الله کے امین اس گھر پر ہو

الذھبی لکھتے ہیں

قُلْتُ: شَيْبَةُ أَسْلَمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فيحتمل أن النبيّ صلى الله عليه وآله وَسَلَّمَ وَلَّاهُ الْحِجَابَةَ لَمَّا اعْتَمَرَ مِنَ الْجِعِرَّانَةَ مُشَارِكًا لِعُثْمَانَ هَذَا فِي الْحِجَابَةِ، فَإِنَّ شَيْبَةَ كَانَ حَاجِبَ الْكَعْبَةِ يَوْمَ قَالَ لَهُ عُمَرُ: أُرِيدُ أَنْ أُقَسِّمَ مَالَ الْكَعْبَةِ، كَمَا فِي الْبُخَارِيُّ

میں کہتا ہوں شیبہ یوم حُنَيْنٍ کو اسلام لائے پس ممکن ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو چابی دی ہو جب الْجِعِرَّانَةَ سے عمرہ کیا اور ساتھ ہی عثمان کو چابی کی ذمہ داری میں شریک کیا جس روز عمر نے ان سے کہا میں چاہتا ہوں کعبہ کا مال تقسیم کر دوں

کتاب الأعلام از الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) کے مطابق

شيبة بن عثمان بن أبي طلحة القرشي، من بني عبد الدار: صحابي، من أهل مكة

أسلم يوم الفتح. وكان حاجب الكعبة في الجاهلية، ورث حجابتها عن آبائه، وأقره النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك، ولا يزال بنوه حجابها إلى اليوم

شيبة بن عثمان بن أبي طلحة القرشي، بني عبد الدار میں سے ہیں صحابی ہیں اہل مکہ میں سے ہیں فتح مکہ پر ایمان لائے اور ایام جاہلیت سے ان کے پاس کعبہ کی چابی تھی اور اس کی وراثت ان کو اپنے اجداد سے ملی اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اس پر باقی رکھا اور اس کی کلیدبرداری سے آج تک ان کی اولاد معزول نہیں ہوئی

کتاب الإصابة في تمييز الصحابة از أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) کے مطابق

وذكر الواقديّ أنّ النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم أعطاه يوم الفتح لعثمان، وأن عثمان ولي الحجابة إلى أن مات، فوليها شيبة، فاستمرت في ولده.

واقدی نے ذکر کیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے چابی عثمان بن طلحہ کو دی اور عثمان سے اس کی کلید برداری عثمان بن طلحہ کی موت کے بعد شیبه بن عثمان بن أبي طلحة بن عبد اللَّه بن عبد العزّى رضی الله عنہ کو ملی اور شیبه کو اس کی ولایت ملی اور یہ ان کی اولاد میں چلتی رہی

انہی صحابی شیبہ بن عثمان کی بیٹی صفية بنت شيبة بن عثمان بن أبي طلحة بن عبد العزى بن عثمان بن عبد الدار، العبدرية تھیں جن کے لئے ابن اسحاق کا قول تھا کہ وہ خود کہتی تھیں کہ چابی عثمان کو دی گئی لیکن ابن ابی حاتم نے اس کو ابن اسحاق کا قول قرار دے کر رد کر دیا

الغرض آخری خبریں (یعنی الزركلي اور ابن حجر کی بیان کردہ) انے تک چابی شیبہ بن عثمان رضی الله عنہ کو منتقل ہو چکی تھی یا صرف انہی کو دی گئی تھی

الذھبی نے سیر الاعلام میں لکھا ہے کہ

عثمان بن طلحہ بن أبي طلحة بن عثمان بن عبد الدار العبدري الحجبي رضی الله عنہ اور شيبة بن عثمان بن أبى طلحة بن عَبْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ العُزَّى العَبْدَرِيُّ، المَكِّيُّ، الحَجَبِيُّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ کعبه کی کلید برداری میں بقول الذھبی كَانَ مُشَارِكاً لابْنِ عَمِّهِ عُثْمَانَ الحَجَبِيِّ فِي سَدَانَةِ بَيْتِ اللهِ تَعَالَى اپنے چچا زاد عثمان الحَجَبِيِّ کے شراکت دار تھے

الغرض چابی عثمان رضی الله عنہ سے چھینے جانے والا واقعہ صحیح سند سے نہیں- کسی صحابی کا اس سسلے میں کوئی قول بھی نہیں، نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مرفوع حکم- مزید یہ کہ سوره النساء کی آیات کا تعلق عورتوں سے متعلق ہے


 
Top