میرے بھائی
کیا
سارے اماموں کے اقوال پیش کرنا ٹارگٹ ہے
ہماری بات ہمیشہ دلیل سے ہوئی ہے
میرے تھریڈ
کیا چاروں امام حق پر ہیں
آئمہ اربعہ کی تعلیمات
میں اگر کوئی غلط بات ہے تو آپ وہاں جواب دیں
آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ اہلحدیث کے خلاف پوسٹ کر کے
اپنی بات کو ثابت کر سکتے ہیں
میرے بھائی ہمارے لیے
نہ اہلحدیث
نہ دیوبندی
نہ بریلوی
ضروری ہے
ہمارے لیے صرف اللہ کا قرآن اور محمّد صلی اللہ کا فرمان ضروری ہے
جس کی بات بھی قرآن یا صحیح حدیث سے ٹکرا جا ے گی اللہ کی قسم میں رد کر دوں گا
کریں دعوه آپ بھی کہ اگر کسسی بزرگ یا امام کی بات قرآن یا صحیح حدیث سے ٹکرا جا ے گی رد کر دی جا ے گی
سارے امام بھی احادیث کو ماننے والے تھے
کسی نے بھی اپنی تقلید کا نہیں کہا
اگر کہا ہے تو ثبوت پیش کریں صحیح سند کے ساتھ
چیختا صرف ووہی ہے جس کے پاس دلیل نہیں ہوتی
دلیل والا کبھی نہیں چیختا
آپ کا بھائی
لو لی آل ٹائم
:"{}pak
[DOUBLEPOST=1349672433][/DOUBLEPOST]
معزز محترم علماء کرام اور خالص دین اسلام کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں میرے محترم مسلمان بھائیوں اور بہنوں اسلام علیکم
گزارش عرض یہ کہ دین اسلام پر ہر طرف سے جتنے وار آج کے دور میں ہورہے ہیں شاید ہی کسی دور میں ہوئے ہوں۔۔ نعوز باللہ کہیں پر اس دین کی پہچان ایک شدت پسند دین،،کہیں پر اس دین کی پہچان ایک دہشتگرد دین،، تو کہیں پر اس دین کو نعوزباللہ 1500 سو سال پرانی ایک تہذیب قرار دے کر اس سے جان چھوڑانے کی بات کی جاتی ہے دین اسلام کے خلاف شدت سے جو گروہ خلاف ہے وہ یہودی گروہ ہے ۔۔ صلیبی جنگیں اور دوسری جنگیں لڑھ کر یہودی اور عیسائیوں نے دیکھ لیا کہ ہم مسلمانوں کو طاقت کے زور پر ختم نہیں کر سکتے ۔ پھر ان ظالموں نے پے در پےسازشوں کے جال بچھائے ۔ پہلے مسلمانوں کو رفتہ رفتہ انکے دین اسلام سے دور کیا عریانی وفحاشی پھلا کر جدید تہذیب کے نام پر ، ماڈرن ازم کے نام پر-رفتہ رفتہ جب مسلمان دین اسلام سے دور ہوتا گیا اور صرف اسلامی نام ، اسلامی نکاح ، اسلامی جنازہ اورمسجد کو صرف اللہ کا گھر تصور کرنے کی حد تک ہی رہ گیا تو ان ظالموں نے نام نہاد مسلمانوں کی نسل سے ہی ایسے جاہل ملا،مفکر،اسکالر،اور دین سے بے بہرہ مولویوں کی ایک ایسی فصل تیار کی جو لوگوں کو اصل دین اسلام کی بجائے قبر پرستی ، بدعت اور ایسے اعمال کی طرف لے گئے کہ لوگ جسکو نیک اعمال سمجھ کر ادا کررہے ہیں حقیقت میں وہ ہی سب سے بڑا گناہ اور شرک ہے
آج کل نیٹ پر انہی نام نہاد اسلام کے ٹھیکداروں نے ایک اودھم مچا رکھا ہے ۔۔ اور نئی نسل کو ایک ایسے دین اسلام سے روشناس کروایا جارہا ہے جسمیں نعوزبااللہ حد درجہ گستاخیاں کی جارہی ہے اور دین اسلام کا حلیہ ایسا بگاڑ کے پیش کیا جارہا ہے کہ ایک عام مسلمان جو تھوڑی بھت بھی توحید اور حق کی سمجھ رکھتا ہو گا انکے باطل نظریات پڑھ کراسکا دل خون کے آنسو روتا ہے
کتنی ڈھٹائی اور حوصلے سے اسلام کی نفی اسلام کے ٹھیکدار کے روپ میں ہی کر رہے ہیں کس طرح یہ لوگ قرآن کی اپنی ہی خودساختہ تشریح کرکے عام لوگوں کو اصل دین اسلام سے دور اور احادیث مبارکہ کو 200/300 سال بعد لکھی ہوئی ایک عام تاریخ کی کتاب کہہ کر رد کررہے ہیں
اور تواور ان لوگوں نے کلمہ توحید کا بھی انکار کردیا
2:62 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابی جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے
اوپرقرآن کی ایک آیات کا اپنی طرف سے خود ساختہ ترجمہ وتشریح کر کے یہودی، عیسائی ،صابی وغیرہ کو مسلمانوں کی ہی صف میں شامل کردیا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بارے میں بھی انکے اتنے باطل نظریات ہے کہ مجھھ جیسا کم علم اپنی زباں سے انکے نظریات بیان کرنے سے قاصر ہے کہیں کوئی گستاخی سرزد نہ ہو جائے
میری علماء کرام سے اور اہل علم سے ایک گزارش ہے کہ مجھے بھی 100 فیصد یقین ہے یہ حدیث کے منکر لوگ انکوقرآن سے بھی دلیل دے تو شاید پھر بھی یہ حق کو نہ مانے مگر ایک عام سادہ لو مسلمان جب صرف انکی ہی پوسٹیں پڑھے گا اور اسکے رد میں کوئی علماء حق کا تبصرہ یا تحریر نہ ہو گی تو ایسے عام لوگوں کا یہ کتنی آسانی سے برین واش کرنے میں مصروف ہے
ایک مشورہ اور ایک رائے ہے کیوں نہ ہم ان منکروں کا وہاں وہاں تک پیچھا اور رد کریں جہاں جہاں تک ہماری پہنچ اور ہمت ہے اگر یہ کوئی باطل نظریا نیٹ پر پیش کریں تو اسکی رپلائی میں حق اور سچ بھی تو اسی جگہ پر تحریر ہوتاکہ کوئی قاری صرف انہی کے باطل نظریات پڑھ کر برین واش ہونے سے بچ جائے
[DOUBLEPOST=1349673078][/DOUBLEPOST]
ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ :
ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟
سنن نسائی کی ایک روایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
(حدیث "حسن" ہے)
وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے حکم کو نہ ماننا ، توہین کہلائے گا؟
کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس فعل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت
عثمان (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم نہیں کی ؟
ایسی بہت سی مثالیں دورِ صحابہ میں مل جاتی ہیں۔ اور یہ تو صحابہ کا معاملہ تھا ۔۔۔ اب ذرا سوچ لیں کہ دوسرے ائمہ کرام یا بزرگانِ دین کس شمار و قطار میں ہیں؟
ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔
لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔
اسلام = قرآن + صحیح احادیث
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔
(آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔
(تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح)
حدیث
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔
(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
اگر کسی نیک و متقی شخص کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف آجائے تو ؟
تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا حکم دیا ہے اور کسی کی قربانیاں اور عبادات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اس کی بات کو لے لیا جائے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا نسخہ لیکر آئے اور کہا اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا تو حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا گم کریں تجھ کو گم کرنیوالیاں!کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتا !تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے غضب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ‘ میں اللہ کے رب ہونے ‘ اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ و تر کتمونی لضللتم عن سوا ءالسبیل ولو کان موسی حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی ۔
(مشکوة)
”اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے اگر موسیٰ علیہ السلام تمہارے لئے ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو تم سیدھی راہ سے بھٹک جاتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت پاتے تو میری ہی پیر وی کرتے “۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی بات کو لے لیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ دیا جائے تو یہ گمراہی ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ عیسائی تھے وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سورة توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ جب اس آیت پر پہنچے ۔اتخذوااحبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ ۔( سورة التوبہ آیت 31)۔”ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا ہے“ ۔
تو عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہم انکی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !تمہارے علماءاوردرویش جس چیزکو حرام کر دیتے حالانکہ اللہ نے اسے حلال کیا ہوتا تو کیاتم اسے حرام نہیں جانتے تھے اور جس چیز کو اللہ نے حرام کیا ہوتا لیکن وہ حلال کر دیتے تو کیا تم اسے حلال نہیں جانتے تھے ؟
میں (عدی) نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا یہی ان کی عبادت ہے ۔ (ترمذی)۔
[DOUBLEPOST=1349673259][/DOUBLEPOST]
حضور صلی اللہ وسلم کا فرمان
سیدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جوبات سنا کرتا اسے ،یاد کرلینے کے ارادے سے لکھ لیا کرتا تھا۔قریش کے بعض لوگوں نے مجھے اس عمل سے روکا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سےسنی ہوئی ہر بات نہ لکھا کرو جبکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں (بتقاضائے بشریت) آپ کبھی خوشی میں ہوتے ہیں اور کبھی ناراضی یا غصے میں ۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں میں نے لکھنا چھوڑ دیا اوررسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنی بابرکت انگلی سے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اكتب فواللذي نفسي بيده مايخرج منه الا حق‘‘
(سنن ابودادؤ)
لکھو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ہے۔
[DOUBLEPOST=1349673334][/DOUBLEPOST]
جب سے دین کو پڑھا ہے ، اس کے بعد دل کرتا ہے کہ عمل صرف اس پر کیا جائے
جو آپ ﷺ سے ثابت ہے
جس طرح آپ ﷺ اور صحابی رسول زندگی گزارتے تھے۔
اسی طرح زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کروں۔
اس کوشش میں مجھے کافی مسائل کا سامنا رہا اور اب بھی ہے
مرتد، فتنہ، غیر مقلد اور نفرت آمیز لہجے میں ادا کیا گیا لفظ بابی(وہابی)۔
یہ سب سن چکا ہوں۔۔
مختصر بات کرتا ہوں کہ ہدائیت منجاب اللہ تعالی ہے
اور اس کو ملتی ہے جو ہدائیت کا طلب گار ہے
اور ہدائیت کے لئے تو ایک نقطہ ہی کافی ہے
ورنہ تو بے ہدائیتوں کے لئے پورا قرآن مجید ہی ناکافی ہے
اللہ تعالی ہم سب کو ہدائیت دیں
آمین