ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعاء بدعت ہے یا نہیں
ہاتھ اٹھا کر استسقا کی نماز میں اجتماعی دعا کی جاتی ہے جو حدیث میں ہے
کسی اور دعا میں بھی ہاتھ اٹھا سکتے ہیں صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ خالد بن ولید رضی الله عنہ نے ایک غلط کام کیا کہ ایک قیدی کو قتل کر دیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی
حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ – صلى الله عليه وسلم -، فَذَكَرْنَاهُ لهُ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ – صلى الله عليه وسلم – يَدَهُ، فَقَالَ:
“اللَّهُمَّ إِنِّى أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ
” (مرتين).
انس رضی الله عنہ کہتے تھے کہ سوائے استسقا کے کسی میں ہاتھ نہ اٹھائے
لہذا خالد بن ولید کا واقعہ مخصوص ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی اس کو دلیل بنا کر ہاتھ اٹھا کر دعا کر لے تو اس کو منع نہیں کر سکتے
اس پر بعض کی رائے ہے کہ انس رضی الله عنہ کی مراد تھی کہ کسی دعا میں اتنے اونچے ہاتھ نہ اٹھائے
جتنے استسقا میں بحر الحال یہ ایک رائے ہے
ان کے علاوہ اجتماعی دعائیں کرنے کی دلیل کا علم نہیں
اس کے علاوہ دعا میں ہاتھ اٹھانے کی جو روایات آئی ہیں وہ ضعیف ہیں
قنوت نازلہ میں بھی نماز ہی میں اجتماعی دعا ہوتی ہے لیکن اس میں ہاتھ اٹھانے کی کوئی حدیث نہیں ہے
نماز کے بعد اجتماعی دعائیں کرنا بدعت ہیں