اللہ سے انسان محبت کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اللہ بھی اس سے محبت کرے مگر محبت کے لیے وہ کچھ دینے کو تیار نہیں۔ اللہ کے نام پر وہی چیز دوسروں کو دیتا ہے جسے وہ اچھی طرح استعمال کر چُکا ہو یا پھر جس سے اس کا دل بھر چُکا ہو چایے وہ لباس ہو یا جُو تا ۔ وہ خیرات کرنے والے کے دل سے اُتری ہوئی چیز ہوتی ہے اور اس چیز کے بدلے وہ اللہ کے دل میں اُترنا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے اس پُرانے لباس ، گھسی ہوئی چپل یا ایک پلیٹ چاول کے بدلے اسے جنت میں گھر مل جائے ،اللہ اس کی دُعائیں قبول کرنا شروع کردے، اس کے بگڑے کام سنورنے لگیں۔ وہ جانتا ہے، اللہ کو دلوں تک سُرنگ بنانا آتا ہے پھر بھی وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔
یہ جو پیسہ ہے نا اس کی گنتی اربوں کھربوں تک جاتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے.. جو چیز اربوں کھربوں تک جائے نا اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی.. ویلیو اس کی ہوتی ہے جو انگلیوں کی پوروں سے شروع ہو کر پوروں پر ہی ختم ہو جاتی ہے.. جیسے خون کے رشتے بہت بھی ہوں تو بس دونوں ہاتھوں کی پوریں ہی بھر پاتی ہیں.. ایک آدمی کے پاس پیسہ کھربوں ہو سکتا ہے رشتے اربوں کھربوں نہیں ہو سکتے.. تو بس یاد رکھنا جو چیز کم تعداد یا مقدار میں ملے اس کی ویلیو زیادہ ہے. جو ڈھیروں کے حساب سے ملے اس کی ویلیو کم ۔۔۔ ۔ من وسلوی عمیرہ احمد
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.