واقعی یہی بات ہوتی ہے۔
وہ شخص جو گِنواتا ہے پیڑوں کے فوائد
لگتا ہے کسی سائے سے محروم ہوا ہے
ایک اسی بات پہ جھگڑا ہے میرا دنیا سے
وہ شخص جو گِنواتا ہے پیڑوں کے فوائد
لگتا ہے کسی سائے سے محروم ہوا ہے
واہ ۔۔دیکھنا یہ ہے کہ کون آتا ہے سایہ بن کر
دھوپ میں بیٹھ کے لوگوں کو بلایا جائے
یا مری زیست کے آثار نمایاں کر دے
یا بتا دے کہ تجھے کیسے بھلایا جائے
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
اب تو لگتا ہے کہ ہر ایک ہی ہرجائی ہے
جس پہ تکیہ تھا وہی شخص تماشائی ہے
Kavi
صبح کے تخت نشیں رات کو مجرم ٹھہرےدور صحرا کی کڑی دھوپ میں چھاؤں جیسا
وہ تو لگتا تھا مجھے میری دعاؤں جیسا
اک ریاست تھی مرے پاس نوابوں جیسی
اب ترے شہر میں پھرتا ہوں گداؤں جیسا
خوبصورتہر لغزش پر چھوٹی سی مجرم ٹھہرایا لوگوں نے
جینے کی ہر اک خواہش میں بھر آیا ہرجانے میں
Kavi