جانے والے ہماری محفل سے چاند تاروں کو ساتھ لیتا جاہم نے شاموں کی سیاہی پہ قناعت کر لی
جا تجھے دان کیے دھوپ پہ وارے ہوئے دن
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر ۔وہ جو آ جاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارےلے کر
چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گرتا ہے تو آ جاتے ہیں آرے لے کر
وہ جو آسودہ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لےکر
ایسا لگتا ہے کے ہر موسم ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمہارے لے کر
شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر
نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں فراز'
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر
hmmmmmmmmmیاد آؤں تو بس اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت کرنا
تم تو چاہت کا شاہکا ر ہوا کرتے تھے
کس سے سیکھا ہے الفت میں ملاوٹ کرنا
ھممممڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم