منسوب چراغوں سے ، طرفدار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو ،، منافق بھی بَلا کے
کیوں ضبط کی بنیاد ہلانے پہ تُلا ہے ؟
میں پھینک نہ دوں ہجر تجھے آگ لگا کے
اک ذود فراموش کی بے فیض محبت
جاوں گی گذرتے ہوئے راوی میں بہا کے
اس وقت مجھے عمررواں درد بہت ہے
تجھ سے میں نمٹتی یوں ذرا دیر میں آ کے
میں اپنے خدو خال ہی پہچان نہ پائی
گذرا ہے یہاں ، وقت بڑی دھول اڑا کے
کرتی ہوں ترو تازہ ہری رت کے مناظر
کاغذ پہ کبھی پیڑ ، کبھی پھول بنا کے