میں ایک بار پریشاں ہوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے کہا خدا حافظ
مرشد ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے
خوشیاں ہمارے واسطے کب مستقل رہیں؟
صبح کبھی ہنسے تو اسی شام رو دیے
یر کچھ چہرے میرے ذہن میں ہیں جن کے سبب
کوئی چہرہ بھی مجھے یاد نہیں رہتا ہے
شائد کہ اب کی بار وضاحت نہ پیش ہو
شائد کہ اب کی بار نہ آوں میں لوٹ کر
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
کوئی وجہ بھی نہیں پھر بھی یوں اداسی ہے
کہ جیسے دور کہیں کوئی مر گیا میرا
ہمارے ساتھ بھی کم سانحے نہیں گزرے
ہمارے بعد ہمارے بھی دن منانا دوست
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیںآئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی
غم زیادہ ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے