اپنی موج میں گم ، شہرت و قدر کی چاہ سے بہت پرے واقعی ان کا یہی حال تھا جھٹ پٹ شعرکہہ دیتے تھےسُنا ہے ساغر بہت افلاس کی زندگی گزار رہے تھے، ایک بار صدر ایوب نے اُنہیں بُلا بھیجا، ایک وفد ساغر کو لینے پہنچا، ساغر اُس وقت ایک پان سگریٹ کی دُکان پر موجود تھے، وفد میں سے کسی نے چلنے کی درخواست کی، ساغر نے صدر ایوب سے ملنے سے معذرت کر لی، وفد میں سے کسی نے کہا آپ یہاں اس فقیرانہ حالت میں موجود ہیں، کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں، یہ فاقوں والی زندگی چھوڑیئے اور صدر سے مل لیجئے، آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ ساغر نے یہ سُن کر پان کے کھوکے والے سے ایک قلم لیا، اور زمین پہ پڑی ایک سگریٹ کے پیکٹ کی پُشت پر یہ شعر تحریر کر کے کہا، یہ صدر صاحب کو دے دینا۔
توہین ہے درویش کا اُس شہر میں جینا
ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا ۔ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔اور آپ نے جو واقعہ سنایا ہے اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہماری نظر سے کچھ ایسے گزرا تھا کہ جب ایوب صاحب صدر بنے تھے تو ساغر صاحب نے نظم لکھی تھی ایک جس کا مصرع تھا ''کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا''
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگے۔ ان کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ انہیں پکڑ لاتے۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے انہیں پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہے تھے کہ پان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا ۔کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا
:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے ۔
ساغر صدیقی نے بہت سنہری دور دیکھا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں ایسے پھنسے کہ پھر باہر نہ نکل سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور رہی بات یہ افلاس کی تو آلموسٹ سارے شاعر ایسے ہی حالات سے گزرے ہیں۔۔اب یہ شاکر شجاع آبادی کو ہی دیکھ لیجیئے ہمیں لگتا ہے کہ جتنی تکلیف اور غربت مین انہوں نے لائف گزای، اور گزار رہے ہیں شائد ہی کسی نے ایسے حالات دیکھے ہوں۔۔اور وہ سرائکی شاعری میں ہماری فیورٹ لسٹ میں ٹاپ پہ ہیں۔۔ان کا لفظ لفظ کمال ہوتا ہے۔۔۔۔سرائیکی شاعری اپنی مٹھاس اور تاثیر میں لاثانی ہے ۔بہت سے شعرا کرام سرائیکی وسیب میں اپنی شاعری کے حوالے سے مشہور اور مقبول ہیں۔ لیکن حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے بعد جو مقبولیت، اور بے انتہا شہرت شاکر شجاع آبادی کے حصے میں آئی۔۔۔اس تک کوئی اور نہیں پہنچ سکا ۔۔۔
نبھا نہ سگیں تاں سہارا نہ ڈیویں
کوئی خواب میکوں اُدھارا نہ ڈیویں
زمانے دے رلے جے ماریں توں پتھر
رقیباں کوں اکھ دا اشارہ نا ڈیویں
میڈا ہتھ پکڑ کے جے ول چھوڑ ڈیویں
بھنور اچ میں ٹھیک آں کنارہ نا ڈیویں ۔
سجن تیڈی نفرت ملاوٹ تو پاک ھئے
محبت دا دھوکہ دوبارہ نا ڈیویں ۔
عمر کھپدیں ساری گزاری اے شاکرؔ
بڈھیپے دے وچ توں کھپارا نا ڈیویں
ان کی شاعری ایسی ہے کہ ہم جب پڑھنے لگتے تھے تو پھر سارے شاعر ذہن سے محو ہو جاتے تھے ۔ اب تو عرصہ ہوا شاعری بھی چھوڑ دی۔۔اب آپ نے ساغر صاحب کا واقعہ سنایا تو شاکر صاحب بھی یا د آ گئے ۔آج سارا دن نہیں ذہن سے نکلے گئ اب ان کی شاعری -_- ۔
جیہڑا کم ہا یار رقیباں دا، اوہ سجن کریندا رہ گیۓ ۔
جیکوں اپنڑاں سمجھ کے حال ڈتِم. میڈی پاڑ پٹیندا رہ گیۓ
لا تیلی میڈی جھونپڑی کوں. ہتھ پیر سِکیندا رہ گیۓ۔
بس شاکر بدلے پانی دے…. پٹرول سٹیندا رہ گیۓ
زندگی کو کسی پہ بھی رحم نہیں آتا ۔بہت ہی بے رحم، بے باک اور تلخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ رُلدے شاکرؔ کنگن ہیں، بھانویں ہتھ وچ پا، بھانویں پیر اچ پا ۔