شوق اس عمر میں بھی ہیں مرے بچّوں والے
ڈھونڈتا رہتا ہوں گلیوں میں کِھلونوں والے
یہ جو جُگنو ہے جسارت ہے اندھیرے کےخلاف
اپنا دم سادھ کے بیٹھے ہیں چراغوں والے
تکتا رہتا ہوں میں تصویر بنا کر اُس کی
دیر تک ہاتھ نہیں دھوتا میں رنگوں والے
میں نے یہ دِل تُمہیں خیرات میں دے دینا تھا
اِس کی قیمت نہ لگا اے مرے پیسوں والے
اُس نے مُجھ کو کسی دیوار میں چُن دینا تھا
گر محل میں نہ گِرا دیتا یہ خوابوں والے
بیٹھ کر سُونی مُنڈیروں پہ فلک دیکھتا ہوں
حوصلے پست ہوۓ مُجھ میں پرندوں والے
نِیم مُردہ ہے مرے جسم کے اندر کوئ چیز
قہقہے یوں تو لگاتا ہوں میں زندوں والے