خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپزندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اِس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
اس دشت میں بس آبلہ پائی ہے روئیے
اشکوں کو آرزوئے رہائی ہے روئیے
آنکھوں کی اب اسی میں بھلائی ہے روئیے ۔
خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپزندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اِس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
nice
خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپ
اس دشت میں بس آبلہ پائی ہے روئیے
اشکوں کو آرزوئے رہائی ہے روئیے
آنکھوں کی اب اسی میں بھلائی ہے روئیے ۔
چلو پتھروں سے ہی اب دل لگائیں
وہ پھولوں کے باسی ہیں آئیں نہ آئیں
چلا کارواں تیری یادوں کا ہمدم
امڈتی چلی آ رہی ہیں گھٹائیں
ذرا ہم سے پوچھو کہ گزری ہے کیسے
تجھے یاد ہو گی نہ اپنی جفائیں
نہ تو ہے نہ تیرے سوا اور کوئی
اب اس حال میں کس طرح مسکرائیں
hmmm
قوسِ قزح کے رنگ تھے میرے خلوص میں
احباب سارے رنگوں کے اندھے ملے مجھے
کوئی دن ہم سے گریزاں بھی رہے ساعت ِ غم
کوئی دن ہم بھی جیئیں جیسے کہ حق ہوتا ہے
کوئی کہہ گیا، کوئی سہہ گیا ۔
یہ جو خاموش سے ہو جاتے ہو کچھ کہتے ہوئے
مَیں نے مَن چاہی کوئی بات سمجھ لینی ہے